اسلام آباد (ٹی این ایس) وزیراعظم پاکستان کا موسمیاتی تبدیلی کانفرنس کوپ30کے لیے جامع منصوبہ

 
0
18

اسلام آباد (ٹی این ایس) پاکستان اس سال موسمیاتی تبدیلی کے اثرات سے شدید متاثر ہوا اور اسے معمول سے 15 فیصد زیادہ بارشوں کا سامنا کرنا پڑا، یہ دنیا کے اُن ممالک میں شامل ہے جو موسمیاتی تبدیلی کے اثرات سے نمٹنے کے لیے سب سے کم تیار ہیں۔ پاکستان جو دنیا کی تاریخی کاربن کے اخراج کا صرف 0.5 فیصد ذمہ دار ہے موسمیاتی اثرات سے نمٹنے کی تیاری کے لحاظ سے دنیا میں 152ویں نمبر پر ہے وزیراعظم شہباز شریف کا کہنا ہے کہ پاکستان ان دس ممالک میں شامل ہے، جہاں پر یہ آفات آئندہ بھی آتی رہیں گی، چنانچہ اس کے لیے ہمیں تیاری کرنی ہے، وفاقی حکومت اور گلگت بلتستان کی حکومت نے اس پر شبانہ روز کام کرنا ہے آفات سے نمٹنے کے لیے یہاں ایڈوانس وارننگ سسٹم موجود ہونا چاہیے، ملک نے 2022 کے دوران بھی سیلاب کی صورت میں قدرتی آفات کا سامنا کیا، موسمیاتی مسائل سے نمٹنے کیلئے متعلقہ اداروں کو مربوط اقدامات کرنا ہوں گے پاکستان میں موسمیاتی تبدیلی کو اب سنجیدگی سے لیا جا رہا ہے، لیکن بین الاقوامی مالی امداد اور طویل المدتی منصوبہ بندی کی کمی ہے، شمالی پاکستان میں ریکارڈ توڑ 48.5 ڈگری سینٹی گریڈ درجہ حرارت اور اس کے بعد جولائی میں مہلک بارشیں، اس بات کی ایک اور واضح یاد دہانی ہیں کہ صرف 1.3 سینٹی گریڈ کی عالمی گرمی میں ہی پاکستان کن خطرات سے گزر رہا ہے وزیر اعظم شہباز شریف کی ہدایت پر پاکستان نے موسمیاتی تبدیلی کانفرنس کوپ30 کے لیے جامع منصوبہ بنا لیا ہے جس کے تحت پاکستان ہر سال 50 سے 60 ارب ڈالر کی کلائمیٹ فنانسنگ کا مطالبہ پیش کرے گا پاکستان نے اقوام متحدہ میں اپنے نئے قومی ماحولیاتی اہداف (این ڈی سی 3.0) جمع کرا دیے، جس میں 2035 تک ماحولیاتی اہداف کے لیے 565.7 ارب ڈالر کلائمیٹ فنانسنگ کا مطالبہ بھی شامل ہے۔

ماحولیاتی تبدیلیوں کے باعث رواں سال پاکستان کو ’لا نینا‘ کے باعث گزشتہ کئی دہائیوں کی سخت ترین سردی کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے، جو خاص طور پر شمالی علاقوں میں رہنے والے سیلاب متاثرہ خاندانوں کے لیے مزید مشکلات پیدا کر سکتی ہے۔ انٹر سیکٹر کوآرڈینیشن گروپ اور اس کے شراکت داروں کی تیار کردہ تازہ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ رواں سال پاکستان میں ’لا نینا‘ موسمی تبدیلی کے باعث معمول سے زیادہ سردی پڑنے کا امکان ہے، یہ شدید سردی خاص طور پر خیبر پختونخوا اور گلگت بلتستان کے پہاڑی علاقوں میں رہنے والے سیلاب متاثرہ خاندانوں کے لیے مزید مشکلات کا باعث بن سکتی ہے۔ماہرینِ موسمیات نے خبردار کیا ہے کہ لا نینا اس وقت بنتا ہے جب بحرالکاہل میں سطح سمندر کا درجہ حرارت غیر معمولی طور پر کم ہو جاتا ہے، جس سے دنیا بھر میں موسم میں شدید تبدیلیاں رونما ہوتی ہیں۔ اقوام متحدہ کے انسانی امور کے ادارے (اوچا) کی جانب سے اکتوبر کے لیے جاری کردہ موسمی پیشگوئی میں کہا گیا ہے کہ ایل نینو اور انڈین اوشین ڈائپول کے قدرے منفی مراحل پاکستان میں بارشوں کو متاثر کریں گے۔ رپورٹ کے مطابق شمالی پنجاب، خیبر پختونخوا، آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان میں معمول سے کم بارشیں متوقع ہیں، جب کہ جنوبی علاقوں جیسے سندھ، بلوچستان اور جنوبی پنجاب میں بارشیں معمول کے مطابق رہنے کا امکان ہے۔ اس موسمی رجحان کے ممکنہ اثرات میں خریف فصلوں کی کٹائی کے دوران طوفانی بارشوں سے رکاوٹ، جمودی پانی میں ڈینگی کے پھیلاؤ کا خطرہ، بالائی علاقوں میں گلیشیئر جھیل پھٹنے کے امکانات میں اضافہ، دریاؤں میں پانی کی کمی سے آبپاشی کے نظام پر اثر، میدانوں میں اسموگ اور فضائی آلودگی میں اضافہ، اور جانوروں کی صحت و چارے کی دستیابی پر منفی اثرات شامل ہیں۔ رپورٹ میں یہ بھی نشاندہی کی گئی ہے کہ سیلاب کے بعد کی صورتحال خراب ہوتی جا رہی ہے، جب کہ حکومت اور امدادی اداروں کی صلاحیت بھی کمزور پڑتی جا رہی ہے۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ بحران کے آغاز پر مقامی اور بین الاقوامی سطح پر بھرپور ردعمل کے باوجود، تین ماہ گزرنے کے بعد زمینی سطح پر انسانی ہمدردی کے اداروں کی موجودگی اور امدادی صلاحیت میں کمی آئی ہے، ابتدائی ہنگامی امداد اور ذخائر ختم ہو چکے ہیں اور اب ادارے طویل المدتی امدادی اقدامات کے لیے مزید فنڈنگ کے خواہاں ہیں تاکہ انسانی ہمدردی کے مرحلے سے ابتدائی بحالی کے مرحلے تک بنیادی سہولیات کی فراہمی یقینی بنائی جا سکے۔ رپورٹ میں سب سے زیادہ تشویش معاش کے طویل المدتی نقصان پر ظاہر کی گئی ہے، جو بحالی اور خود کفالت کے عمل کے لیے خطرہ بن چکا ہے، کھیت سیلاب میں ڈوب گئے، فصلیں تباہ ہوئیں، مویشی اور چارہ بہہ گئے، جب کہ زرعی مشینری اور آلات کو نقصان پہنچا یا وہ تباہ ہو گئے، جس سے کسانوں کی روزی دوبارہ بحال کرنے کی کوششیں مشکل ہو گئیں۔ اقوام متحدہ کے ادارے ’ایف اے او‘ کے حالیہ جیو اسپیشل تجزیے کے مطابق، پنجاب جو ملک کی غذائی ضروریات پوری کرنے والا اہم صوبہ ہے، اس میں تقریباً 12 لاکھ ہیکٹر زمین زیر آب آگئی جس سے چاول، کپاس اور گنے کی اہم فصلیں تباہ ہوئیں، یہ آفت ربیع فصلوں کی کاشت کے اہم وقت پر نازل ہوئی، جس سے غذائی تحفظ، روزگار اور بحالی کی صلاحیت کو شدید خطرہ لاحق ہے۔ کئی سیلاب زدہ علاقوں میں اب بھی پانی کے ٹھہرے رہنے سے سنگین صحت کے مسائل پیدا ہو رہے ہیں جن میں ہیضہ، اسہال، ٹائیفائیڈ جیسی پانی سے پیدا ہونے والی بیماریاں اور ملیریا و ڈینگی جیسی مچھر سے پھیلنے والی بیماریاں شامل ہیں، جو ان حالات میں تیزی سے پھیلتی ہیں۔ 2 لاکھ 29 ہزار 760 سے زائد گھروں کے تباہ یا شدید متاثر ہونے کے باعث، کئی خاندان اب بھی کھلے آسمان تلے زندگی گزارنے پر مجبور ہیں، جہاں انہیں موسم کی شدت اور مچھروں سے پھیلنے والی بیماریوں سے بچاؤ کے لیے ناکافی سہولتیں میسر ہیں۔ اسکول اور صحت کے مراکز ضروری سامان سے محروم ہیں اور کئی جگہوں پر عمارتیں موٹی مٹی کی تہہ میں ڈھکی ہوئی ہیں جس کے باعث تعلیمی سرگرمیاں اور طبی خدمات بحال نہیں ہو پا رہیں، کھانے پینے کی اشیا اور چارے کے ذخائر یا تو بہہ گئے ہیں یا پانی میں سڑ چکے ہیں، جس سے غذائی قلت بڑھ رہی ہے اور متاثرہ آبادی امدادی راشن پر انحصار کرنے پر مجبور ہے۔
اقوام متحدہ کے فریم ورک کنونشن برائے موسمیاتی تبدیلی کے تحت ہر ملک اپنے ماحولیاتی اہداف ہر پانچ سال بعد جمع کراتا ہے، پاکستان نے 23 ستمبر 2025 کو یو این ایف سی سی میں این ڈی سی 3.0 جمع کروائے، پاکستان نے 2021 سے 2025 کے دوران این ڈی سی 2.0 کے تحت 37 فیصد گرین ہاؤس گیسز میں کمی کا ہدف حاصل کیا اور یہ ہدف پاکستان نے کسی بین الاقوامی مالی امداد کے بغیر حاصل کیا۔ نئے اہداف کے تحت پاکستان نے 2035 تک 2 ارب 55 کروڑ 90 لاکھ ٹن کے بجائے ایک ارب 28 کروڑ ٹن گرین ہاؤس گیسز کے اخراج کا ہدف مقرر کیا ہے، اس دوران پاکستان اپنے وسائل سے 17 فیصد کمی کرے گا، جب کہ باقی 33 فیصد کمی کے لیے 5 کھرب 65 ارب 70 کروڑ ڈالر کی بین الاقوامی فنانسنگ اور ٹیکنالوجی کی فراہمی لازمی قرار دی گئی ہے، پاکستان نے عالمی برادری سے 5 کھرب 65 ارب 70 کروڑ ڈالر کلائمیٹ فنانسنگ کا مطالبہ کیا ہے۔ دستاویز کے مطابق 2035 تک پاکستان میں 38 ہزار میگاواٹ سے زائد قابلِ تجدید اور کلین انرجی متوقع ہے، اسی طرح 2030 تک ملک میں 30 فیصد نئی گاڑیاں الیکٹرک ہوں گی اور 3 ہزار الیکٹرک چارجنگ اسٹیشنز قائم کیے جائیں گے۔ انرجی ایفیشنسی پالیسی کے تحت پاکستان نے 2030 تک 3 کروڑ 50 لاکھ ٹن اخراج میں کمی کا ہدف بھی مقرر کیا ہے، جب کہ سستی ماحول دوست ٹیکنالوجی اور استعداد کار بڑھانے کے لیے عالمی تعاون کا مطالبہ کیا گیا ہے۔
پاکستان کا فوکس کوپ30 میں کلائمیٹ فنانسنگ پر مرکوز ہوگا، پاکستان ہر سال کے لیے 50 سے 60 ارب ڈالر کی کلائمیٹ فنانسنگ کا مطالبہ پیش کرے گا۔
کوپ30 میں چاروں صوبے، گلگت بلتستان اور آزاد کشمیر کے پروجیکٹس پیش کیے جائیں گے جب کہ کلائمیٹ سمارٹ ایگریکلچر، گلیشئر پروٹیکشن اور واٹر ریچارج جیسے منصوبے پیش کیے جائیں گے وزارتِ موسمیاتی تبدیلی صوبوں کو ان منصوبوں میں انتظامی اور تکنیکی سپورٹ فراہم کرے گی، وزارت موسمیاتی تبدیلی نے کلائمیٹ فنانسنگ کانفرنس کا مرکزی ایجنڈا قرار دیا ہے۔ حکام وزارت موسمیاتی تبدیلی کے مطابق پاکستان کو 50 کروڑ ڈالر کلائمیٹ فنانس کے تحت مختلف پروجیکٹس کی نوعیت میں موصول ہوچکے ہیں۔ ورلڈ بینک کی رپورٹ کے مطابق پاکستان کو 2030 تک 348 ارب ڈالر کی کلائمیٹ فنانسنگ درکار ہے، ماحولیاتی خطرات سے نمٹنے کے لیے پاکستان کو بڑے پیمانے پر مالی معاونت درکار ہے پاکستان موسمیاتی فنانسنگ کے لیے عالمی برادری سے ٹھوس حمایت مانگے گا۔یاد رہے کہ 25 ستمبر کو عالمی مالیاتی فنڈآئی ایم ایف کے نمائندے ماہیر بینسی نے بتایا تھا کہ پاکستان کےساتھ کلائمٹ فنانسنگ کے پہلے جائزے پر بھی مذاکرات ہوں گے، جب کہ وزارت خزانہ کے ذرائع کا کہنا تھا کہ پہلے مرحلے میں پاکستان تکنیکی مذاکرات میں آئی ایم ایف کے ساتھ معاشی ڈیٹا شیئر کرے گا، تکنیکی مذاکرات میں جنوری سے جون 2025 کا ڈیٹا شیئر کیا جائے گا۔
موسمیاتی تبدیلیوں کے حوالے سے 30 سال تک کی پیشگوئیاں درست ثابت ہوئی ہیں 1996 میں آئی پی سی سی نے تقریباً 8 سینٹی میٹر (تقریباً 3 انچ) سمندر کی سطح کے اضافے کی پیشگوئی کی انکشاف کیا گیا ہے کہ موسمیاتی تبدیلی کے حوالے سے 30 سال پہلے کو پیشگوئیاں حیرت انگیز حد تک صحیح ثابت ہوئی ہیں۔ ایم آئی ٹی اور یونیورسٹ آف کیلیفورنیا اور ناسا کے محققین نے پایا کہ 1970 سے 2007 کے درمیان جو 17 کلاؤڈ ماڈلز بنائے گئے ان میں سے 14 نے بعد میں ہونے والے عالمی درجہ حرارت کو بڑے حد تک درست اندازے سے پیشگوئی کی تھی، یعنی تقریباً 82% ماڈلز نے ٹھیک نتائج دیے۔ یہ تحقیق اس نتیجے پر پہنچتی ہے کہ جو گرمائش ہم نے دیکھی وہ تقریباً وہی ہے جو کلائمیٹ ماڈلز نے 30 سال پہلے پیشگوئی کی تھی۔ ٹولین یونیورسٹی کے محققین نے تحقیق کی کہ 1996 میں آئی پی سی سی نے تقریباً 8 سینٹی میٹر (تقریباً 3 انچ) سمندر کی سطح کے اضافے کی پیشگوئی کی جو کہ اگلے 30 سال میں حقیقی طور پر 9 سینٹی میٹر ہوئی، حیرت انگیز حد تک 8 کے قریب نکلی۔ کاربن بریف اور ییل کلائمیٹ کنیکشنز جیسی تحقیقاتی رپورٹس بھی یہ ثابت کرتی ہیں کہ 1973 سے جاری ماڈلز نے گرین ہاؤس گیسوں کی تبدیلیوں کے اثرات کا کافی حد تک درست اندازہ لگایا، اگرچہ کچھ ماڈلز میں کم یا زیادہ پیشگوئی ہوئی تاہم مجموعی رجحان درست تھا۔ ناسا کی بھی تحقیق بتاتی ہے کہ 1970 کے بعد جاری ماڈلز نے مستقبل کے درجہ حرارت کے اندازوں میں کافی مہارت دکھائی، اور جب ماڈلز میں فرض کردہ ماحولیاتی عوامل کی غلطیوں کو درست کیا گیا، تو درست پیشگوئی کرنے والے ماڈلز کی تعداد 14 تک پہنچ گئی۔جرمن واچ این جی او کی جانب سے جاری کردہ کلائمیٹ رسک انڈیکس کے مطابق ڈومینیکا، چین اور ہنڈوراس وہ ممالک ہیں، جو شدید موسمی حالات سے سب سے زیادہ متاثر ہوئے۔ان کی جانب سے جاری کردہ انڈیکس میں یہ بات بھی سامنے آئی کہ گزشتہ 30 سالوں میں طوفانوں، سیلاب، خشک سالی، ہیٹ ویوز اور جنگلاتی آگ کے سبب تقریباً 800,000 افراد اپنی جان سے گئے۔ ان قدرتی آفات کے باعث اقتصادی نقصان کا تخمینہ تقریباً 4.2 ٹریلین ڈالر (4.07 ٹریلین یورو لگایا گیا ہےجرمن واچ رپورٹ ہے ’’کلائمیٹ رسک انڈیکس کا مقصد بین الاقوامی موسمیاتی پالیسی کو ان حقیقی خطرات کے تناظر میں ترتیب دینا ہے جن کا سامنا ممالک کر رہے ہیں۔‘‘ وہ ممالک جو مختلف اقسام کے خطرات کا سامنا کرتے ہیں، وہ اس رینکنگ میں اوپر آسکتے ہیں۔ ایک طرف انسانی اثرات ہیں جیسے کہ ہلاکتیں، زخمی، بے گھر ہونا اور بے دخلی اور دوسری طرف شدید معاشی نقصان ہے۔ اس رپورٹ میں دونوں اقسام کو یکساں طور پر جانچا گیا ہے۔ ڈومینیکا، جو کیریبین کا وہ ملک ہے جو طوفانوں کے شکار ہے اور جو رینکنگ میں سب سے اوپر ہے، جرمن واچ کے گئے 30 سالہ مطالعہ میں طوفانوں سے بڑے اقتصادی نقصان اٹھائے ہیں 2018 میں طوفان “ماریہ” کا ذکر کیا گیا، جس نے 1.8 ارب ڈالر تک کا نقصان پہنچایا جو ڈومینیکا کے جی ڈی پی کا 270% تھا۔ یہ جزیرہ نما ملک نسبتاً زیادہ ہلاکتوں کا شکار بھی رہا ہے، جو اس کی کم آبادی کے پیش نظر زیادہ اہمیت رکھتا ہے۔ چین اس فہرست میں دوسرے نمبر پر ہے کیونکہ اس کی وسیع آبادی کے بڑے حصے کو بار بار آنے والی ہیٹ ویوز، طوفانوں اور سیلابوں نے متاثر کیا ہے۔ 2016 میں آنے والے سیلابوں نے 100 سے زیادہ افراد کی جان لی اور لاکھوں افراد کو بے گھر کر دیا۔
ہونڈوراس، جو اس فہرست میں تیسرے نمبر پر ہے، اپنے غریب ترین ممالک میں شامل ہونے کے باعث شدید موسمیاتی تبدیلیوں کے اثرات کا خاص طور پر شکار ہوتا ہے۔ 1998 میں آئے سمندری طوفان ’مچ‘ نے 14,000 سے زائد افراد کی جانیں لی اور ملک کی 70% فصلیں اور انفراسٹرکچر کو تباہ کر دیا۔
ہونڈوراس کی زامورا یونیورسٹی میں موسمیاتی امور کے ماہر، ڈیگو اوبانڈو بونیلہ کا کہنا ہے، ’’یہ واقعہ دو دہائیوں سے زیادہ پرانا ہے، لیکن اس کے اثرات اتنے گہرے تھے کہ ہم آج بھی اس کا ذکر کرتے ہیں۔‘‘ اس سے

7 ارب ڈالر کا نقصان ہوا، جس نے ملک کی ترقی کے عمل کو روک دیا۔ ایک شعبہ جو ہونڈوراس میں آنے والے طوفانوں اور خشک سالی کا خاص طور پر شکار ہوا، وہ زراعت ہے۔
اس انڈیکس کی فہرست میں اٹلی، یونان اور اسپین جیسے ترقی یافتہ ممالک بھی شامل ہیں چین میں 2016 میں آنے والے سیلابوں نے 100 سے زیادہ افراد کی جان لی اور لاکھوں افراد کو بے گھر کر دیا اگرچہ عالمی جنوب کے ممالک کو سب سے زیادہ خطرات درپیش ہیں، لیکن اس انڈیکس کی فہرست میں اٹلی، یونان اور اسپین جیسے ترقی یافتہ ممالک بھی شامل ہیں۔ خاص طور پر 2022 میں، یہ ممالک شدید گرمی کی لہروں کی وجہ سے اس درجہ بندی میں مزید اوپر آئے۔
اس رپورٹ میں درج کیے گئے نتائج ظاہر کرتے ہیں کہ دنیا بھر کے تمام ممالک موسمیاتی تبدیلیوں سے متاثر ہو رہے ہیں، چاہے وہ عالمی شمال ہو یا جنوب، عدیل نے کہا، ’’اس کا مطلب یہ ہے کہ عالمی شمال اب تک آفات کے خطرات سے نمٹنے اور ان کے مطابق خود کو ڈھالنے کے لیے مکمل طور پر تیار نہیں ہے۔‘‘ رپورٹ میں جرمنی کے آحرتال 2021 اور اسپین کے ویلنسیا 2024 میں ہونے والی شدید سیلابوں کا ذکر کیا گیا ہے، جو اس بات کی مثال ہیں کہ یورپی حکام ایمرجنسی کی حالت کا اعلان کرنے میں بہت دیر کر دیتے ہیں۔ جس کے تباہ کن نتائج برآمد ہوتے ہیں۔ دونوں کیسز میں 100 سے زائد افراد ہلاک ہوئے۔ عالمی شمال پر یہ دوہری ‌ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ نہ صرف اپنے خطرات کو مؤثر طریقے سے منظم کرے بلکہ عالمی جنوب کی بھی مدد کرے، کیونکہ یہ ممالک دنیا میں سب سے کم کاربن اخراج کے ذمہ دار ہیں۔ یہ بات ان کی اخراجات کو کم کرنے کی کوششوں پر بھی لاگو ہوتی ہے۔ کیونکہ جب تک آلودگی پھیلانے والے ممالک فوسل ایندھن کا استعمال جاری رکھیں گے، موسمیاتی تبدیلیوں کا جو شدید اثر عالمی موسمیاتی خطرہ انڈیکس پر نظر آ رہا ہے، وہ زیادہ شدت کے ساتھ بار بار وقوع پذیر ہوگا۔ کوپ30 کے تحت ماحولیاتی تبدیلی سے ہم آہنگی کے حل پر معاشرے اور مقامی حکام کے ساتھ مشاورت کے لیے ایک باقاعدہ کونسل قائم کی گئی اقوام متحدہ کی 30ویں عالمی کانفرنس برائے موسمیاتی تبدیلیکوپ30 کے صدر سفیر آندرے کوریا دو لاگو نے اعلان کیا ہے کہ ماحولیاتی تبدیلی سے ہم آہنگی کے حل پر معاشرے اور مقامی حکام کے ساتھ مشاورت کے لیے ایک باقاعدہ کونسل قائم کر دی گئی ہے۔ کوریا دو لاگو کے مطابق موسمیاتی تبدیلی سے مطابقت کوپ30 کی مرکزی ترجیحات میں شامل ہیں۔ یہ عالمی کانفرنس نومبر 2025 میں برازیل کے ایمیزون خطے کے شہر بیلیم (ریاست پارا) میں منعقد ہو گی نئی “ایڈاپٹیشن کونسل” میں متعدد ممتاز برازیلی شخصیات شامل ہوں گی، جو سول سوسائٹی اور مقامی حکام کے ساتھ مؤثر مکالمے میں معاونت فراہم کریں گی
وزیر اعلی پنجاب مریم نواز،سینئر وزیر پنجاب مریم اورنگزیب بھی شرکت کریں گی وزیراعظم شہباز شریف کی جانب سے مصروفیات کے باعث برازیل میں ہونے والی کوپ تھرٹی کانفرنس میں شرکت نہ کرنے کا امکان ہے ، وزیراعظم نے وفاقی وزیر موسمیاتی تبدیلی مصدق ملک کو اپنی جگہ نامزد کر دیا وفاقی وزارتِ موسمیاتی تبدیلی نے کانفرنس میں شرکت کیلئے تیاریاں مکمل کر لیں کانفرنس کے دوران پاکستان ہر سال پچاس سے ساٹھ بلین ڈالر کی کلائمیٹ فنانسنگ کا مطالبہ کرے گا۔ چاروں صوبوں، جی بی اور آزاد کشمیر کے پروجیکٹس بھی پیش کیے جائیں گے۔ حکام وزارت موسمیاتی تبدیلی کے مطابق پاکستان کو دوہزار تیس تک تین سو اڑتالیس بلین ڈالر کی کلائمیٹ فنانسنگ درکار ہے۔
وزیراعظم شہباز شریف نے کانفرنس میں پاکستان کی نمائندگی کیلئے وفاقی وزیر موسمیاتی تبدیلی مصدق ملک کو اپنی جگہ نامزد کر دیا ڈاکٹر مصدق ملک برازیل روانہ ہوگئے۔برطانیہ کے امپیریل کالج کے گرانتھم انسٹی ٹیوٹ میں قائم ورلڈ ویدر ایٹریبیوشن گروپ سے وابستہ 18 سائنس دانوں نے قرار دیا ہے کہ یہ غیر معمولی صورتحال انسانی سرگرمیوں کا نتیجہ تھی، جنہوں نے موسمیاتی تبدیلی کے بحران کو مزید بڑھا دیا۔ اس گروپ میں پاکستان، برطانیہ، فرانس اور نیدرلینڈز کی یونیورسٹیوں اور محکمہ موسمیات سے تعلق رکھنے والے ماہرین شامل تھے، انہوں نے کہا کہ حالیہ سیلاب معمول سے زیادہ شدید بارشوں کی وجہ سے آئے، اور اس غیر معمولی موسم کی ذمہ داری انسانی سرگرمیوں پر عائد کی۔ پاکستان میں مون سون کا موسم جون کے آخر میں شروع ہوتا ہے اور ستمبر میں ختم ہوتا ہے، یہ موسم ملک کی سالانہ بارش کا 70 سے 80 فیصد حصہ لاتا ہے، لیکن اکثر اوقات سیلاب کا باعث بنتا ہے۔ اگرچہ مون سون کی بارشیں آبی ذخائر کو بھرنے کے لیے بہت اہم ہیں، لیکن حالیہ برسوں میں یہ مزید شدید ہو گئی ہیں۔ امپیریل کالج لندن کے سینٹر فار انوائرمینٹل پالیسی سے وابستہ ڈاکٹر مریم زکریا نے کہا کہ پاکستان کا مون سون اس قدر شدید ہو چکا ہے کہ اب معمولی حد تک تیز بارش والے مہینے بھی زیادہ ہلاکتوں کا سبب بن رہے ہیں۔ رپورٹ میں تجزیہ کی گئی بارشیں ’ریکارڈ توڑ‘ نہیں تھیں، لیکن یہ ایک وسیع تر رجحان کی نشاندہی کرتی ہیں، موسمیاتی تبدیلی سیلاب کو تیزی سے خطرناک بنا رہی ہے۔ شدید مون سون بارشوں کے بعد آنے والے ان سیلابوں نے پاکستان کے شمالی علاقوں کو بری طرح متاثر کیا۔ ملک کے کئی اضلاع میں ایمرجنسی نافذ کی گئی، سیلابی پانی نے سڑکیں ڈبو دیں، مکانات تباہ کر دیے اور فصلیں برباد کر دیں تجزیہ کیا گیا کہ 26 جون سے 3 اگست کے دوران، ملک بھر میں 300 افراد جاں بحق ہوئے، جن میں سے 242 اموات شمالی پاکستان کے علاقے میں ہوئیں۔ تاریخی بارشوں کے ڈیٹا سے معلوم ہوا کہ حالیہ شمالی پاکستان میں ہونے والی بارشیں دیگر برسوں کے مقابلے میں خاص طور پر غیر معمولی نہیں تھیں۔ آج کی ماحولیات، جس میں عالمی درجہ حرارت 1.3 ڈگری سینٹی گریڈ بڑھ چکا ہے، اسی طرح کے 30 دن کے شدید مون سون کے واقعات ہر 5 سال بعد متوقع ہیں۔ رپورٹ میں کہا گیا کہ اگر انسانوں نے فوسل فیول جلا کر ماحول کو گرم نہ کیا ہوتا تو بارش کی شدت کہیں کم ہوتی، محققین نے پایا کہ موسم کے ڈیٹا کو آب و ہوا کے ماڈلز کے ساتھ ملا کر موسمیاتی تبدیلی نے مون سون کی شدید بارشوں کو تقریباً 15 فیصد زیادہ شدید بنا دیا ہے۔
پاکستان جو دنیا کی تاریخی کاربن کے اخراج کا صرف 0.5 فیصد ذمہ دار ہے موسمیاتی اثرات سے نمٹنے کی تیاری کے لحاظ سے دنیا میں 152ویں نمبر پر ہے یہ نمبر ہیٹ ویوز، خشک سالی اور سیلاب کے اثرات کو مزید شدید بنا دیتا ہے۔ موسمیاتی آفات سے بچاؤ کے لیے فوری اقدامات کی ضرورت ہے تاکہ کمیونٹیز کو ان خطرات سے بچایا جا سکے پاکستان میں مون سون کی بارشیں اس وقت تک مزید شدید ہوتی رہیں گی، جب تک دنیا فوسل فیول سے قابلِ تجدید توانائی کی طرف منتقل نہیں ہو جاتی درجہ حرارت میں ہر ایک دسویں حصے کے اضافے سے مون سون کی بارشیں زیادہ شدید ہوں گی، جس سے یہ واضح ہوتا ہے کہ فوسل فیول سے قابل تجدید توانائی کی طرف تیز تر منتقلی کتنی ضروری ہے۔ پاکستان کو بین الاقوامی سطح پر موسمیاتی موافقت کے لیے فوری مالی امداد کی ضرورت ہے، اور ملک کو موسمیاتی اثرات سے نمٹنے کے لیے سالانہ 40 سے 50 ارب ڈالر درکار ہیں۔ اگر بڑے پیمانے پر تبدیلی پر مبنی اقدامات نہ کیے گئے، تو اقوام متحدہ کی ایک سابقہ رپورٹ کے مطابق 2050 تک شدید موسمی حالات پاکستان کو تقریباً ایک ہزار 200 ارب ڈالر کا نقصان پہنچا سکتے ہیں۔
کوپ 29 اجلاس میں امیر ممالک جو سب سے زیادہ کاربن کے اخراج کے ذمہ دار ہیں نے ترقی پذیر ممالک کے لیے 2035 تک 300 ارب ڈالر کی موسمیاتی مالی امداد بڑھانے پر اتفاق کیا تھا۔ ترقی یافتہ ممالک کی جانب سے فراہم کردہ موجودہ امداد اور درکار رقم کے درمیان اب بھی بڑا خلا موجود ہے۔ رپورٹ نے اقوام متحدہ کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ترقی یافتہ ممالک فی الحال سالانہ صرف 28 ارب ڈالر فراہم کر رہے ہیں، جو درکار رقم سے 187 سے 359 ارب ڈالر کم ہے۔ 2022 کے سیلابوں میں ایک ہزار 700 سے زائد افراد ہلاک ہوئے، جو اس بات کا ثبوت ہے کہ پاکستان موسمیاتی تبدیلیوں کے لیے کتنا غیر محفوظ ہے، لیکن 3 سال بعد بھی مون سون کے سیلاب ہلاکتوں کا سبب بن رہے ہیں۔ یاد رہے کہ محکمہ موسمیات نے رواں ہفتے کے دوران ملک کے بالائی علاقوں میں تیز ہواؤں، برفباری اور بارشوں کی پیشگوئی کی ہے ملک کے بالائی علاقوں میں 4 نومبر سے بارشوں کا نیا سلسلہ شروع ہونے کا امکان ہے، جو 5 نومبر تک جاری رہنے کا امکان ہے محکمہ موسمیات کے مطابق آج رات سے مغربی ہواؤں کا ایک سلسلہ ملک کے بالائی علاقوں میں داخل ہوگا، جو بارشوں، تیز ہواؤں اور بعض مقامات پر گرج چمک کے ساتھ برفباری کا سبب بنے گا 4 سے 5 نومبر کے دوران چترال، دیر، سوات، کوہستان، ایبٹ آباد اور ہری پور میں بارش متوقع ہے، جب کہ صوابی، پشاور، مردان، کوہاٹ، کشمیر اور مظفرآباد میں بارش اور پہاڑی علاقوں میں برفباری کا امکان ہے اسی طرح اسلام آباد، راولپنڈی، مری، اٹک، چکوال، تلہ گنگ، جہلم اور سرگودھا میں بھی بادل برسنے کی توقع ہے خوشاب، گوجرانوالہ، سیالکوٹ، ناروال اور لاہور میں بھی گرج چمک کے ساتھ بارش کا امکان ظاہر کیا گیا ہے بارشوں کے دوران درجہ حرارت میں نمایاں کمی متوقع ہے اور اسموگ و دھند میں بھی کمی آنے کا امکان ہے۔