اسلام آباد (ٹی این ایس) خطے کے مستقل امن کیلئے آزاد ,خود مختار فلسطینی ریاست ناگزیر

 
0
18

اسلام آباد (ٹی این ایس) .پاکستان فلسطینی عوام کے لیے امن، انصاف اور وقار کی بحالی اور ان کے حقِ خودارادیت کے حصول کے لیے اپنے عزم پر قائم ہے اور ہمیشہ رہے گا۔پاکستان کا مطالبہ ہے کہ فلسطینی عوام کو بلا روک ٹوک انسانی امداد فراہم کی جائے اور غزہ کی تعمیرِ نو کے لیے اقدامات کیے جائیں، ترکیہ کے شہر استنبول میں غزہ سے متعلق عرب و اسلامی ممالک کے وزرائےخارجہ کا اہم اجلاس ہوا جس میں پاکستان کی نمائندگی نائب وزیر اعظم و وزیرخارجہ اسحاق ڈار نے کی اور ایک مرتبہ پھر اپنے اصولی مؤقف کا اعادہ کیا ، انہوں نے کہا خطے کے مستقل امن کیلئے آزاد اور خود مختار فلسطینی ریاست ناگزیر ہے ، 1967سے قبل کی سرحدوں کےمطابق آزاد،خود مختارفلسطینی ریاست قائم ہو، آزاد فلسطینی ریاست کادارالحکومت القدس الشریف ہوناچاہیے۔استنبول کے اجلاس میں ترکیہ، متحدہ عرب امارات، انڈونیشیا، قطر، پاکستان، سعودی عرب اور اردن کے وزرائے خارجہ شریک ہوں گے، یہ وہی ممالک ہیں جن کے نمائندے 23 ستمبر کو اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی کے موقع پر امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ سے ملاقات کر چکے ہیں۔غزہ کی جنگ کے دوران ترکی اور اسرائیل کے تعلقات مزید کشیدہ ہو گئے ہیں، کیونکہ صدر طیب اردوان نے اسرائیلی حملوں پر سخت تنقید کی ہے، ترکیہ نے حماس کو ڈونلڈ ٹرمپ کے امن منصوبے کو قبول کرنے پر راضی کرنے میں اہم کردار ادا کیا تھا اور انقرہ نے غزہ میں جنگ بندی کی نگرانی کے لیے مجوزہ انٹرنیشنل اسٹیبلائزیشن فورس (آئی ایس ایف) میں شامل ہونے کی خواہش بھی ظاہر کی ہے۔تاہم، اسرائیل نے واضح کر دیا ہے کہ وہ غزہ میں ترک افواج کی موجودگی کو قبول نہیں کرے گا، دیگر ممالک جو اس فورس میں شامل ہونے پر غور کر رہے ہیں، ان میں اردن، مصر، انڈونیشیا اور پاکستان شامل ہیں۔استنبول اجلاس میں عرب و اسلامی ممالک نے غزہ کی تعمیر نو کی فوری ضرورت پر اتفاق کیا ۔ پاکستان نے اپنا اصولی مؤقف دہراتے ہوئے زور دیا کہ فلسطین مسئلہ اقوام متحدہ اور او آئی سی کی قراردادوں کے مطابق حل ہونا چاہیے ۔ شرکا نے غزہ میں پائیدار جنگ بندی اور دیرپا امن کیلئےلائحہ عمل پر تفصیلی مشاورت کی ۔

اسرائیل کی جانب سےجنگ بندی کی مسسلسل خلاف ورزیوں کی مذمت اور فلسطینی عوام کیلئے بلا تعطل فوری انسانی امداد کی فراہمی کا مطالبہ کیا گیا ۔وزرائےخارجہ اجلاس نے مقبوضہ فلسطینی علاقوں سےاسرائیلی افواج کے انخلا پر زور دیا ۔ اجلاس سے قبل اسحاق ڈار نے ترک وزیرخارجہ ہاکان فیدان سےملاقات بھی کی ۔ دونوں رہنماؤں نے سیاسی،معاشی اور دفاعی شعبوں میں تعاون مزید بڑھانے کے عزم کا اعادہ کیا ۔ مسئلہ فلسطین خصوصاً غزہ میں پائیدار امن کے قیام کیلئے مشترکہ کوششیں جاری رکھنے کا عزم دہرایا ۔ دونوں رہنماؤں نے فلسطینی عوام کی اخلاقی،سفارتی اور انسانی حمایت جاری رکھنے سمیت علاقائی و عالمی امور پر قریبی رابطہ برقرار رکھنے پر اتفاق بھی کیا ۔ ڈی جی ,آئی ایس پی آر لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف چوہدری نے کہا ہے کہ فوج سیاست میں نہیں الجھنا چاہتی، اسے سیاست سے دور رکھا جائے اور غزہ میں امن فوج بھیجنے کا فیصلہ پارلیمنٹ کرے گی۔ امریکا کی ثالثی میں حماس اور اسرائیل کے درمیان جنگ بندی معاہدے کے تحت زیادہ تر عرب اور مسلمان ممالک پر مشتمل ایک اتحاد فلسطینی علاقے میں فورس تعینات کرنے کی توقع ہے۔ بین الاقوامی استحکام فورس غزہ میں منتخب فلسطینی پولیس کو تربیت دینے اور ان کی معاونت کرنے کی ذمہ دار ہوگی، جسے مصر اور اردن کی حمایت حاصل ہوگی جبکہ اس فورس کا مقصد سرحدی علاقوں کو محفوظ بنانا اور حماس کو ہتھیاروں کی اسمگلنگ سے روکنا بھی ہوگا۔ اردن کے وزیرِ خارجہ ایمن الصفدی نے کہا کہ ہم سب اس بات پر متفق ہیں کہ اگر اس استحکام فورس کو مؤثر طریقے سے اپنا کام کرنا ہے تو اسے سلامتی کونسل کا مینڈیٹ حاصل ہونا ضروری ہے۔ اردن نے واضح کیا کہ وہ اپنے فوجی غزہ نہیں بھیجے گا، الصفدی کا کہنا تھا کہ ہم اس معاملے سے بہت قریب ہیں، اس لیے ہم غزہ میں فوج تعینات نہیں کر سکتے، تاہم انہوں نے کہا کہ ان کا ملک اس بین الاقوامی فورس کے ساتھ تعاون کرنے کے لیے تیار ہے۔ دوسری جانب، جرمنی کے ویزر خارجہ یوان واڈےفول نے بھی فورس کے لیے اقوامِ متحدہ کے مینڈیٹ کی حمایت کی اور کہا کہ اسے بین الاقوامی قانون کی واضح بنیاد پر قائم ہونا چاہیے۔ ان کا کہنا تھا کہ ہم سمجھتے ہیں کہ یہ ان ممالک کے لیے انتہائی اہمیت رکھتا ہے جو نا صرف غزہ میں فوج بھیجنے کے لیے تیار ہیں بلکہ خود فلسطینیوں کے لیے بھی اہم ہے، جبکہ جرمنی بھی چاہے گا کہ اس مشن کے لیے واضح مینڈیٹ موجود ہو۔ خیال رہے کہ گزشتہ ماہ اقوامِ متحدہ کے ماہرین نے خبردار کیا تھا کہ یہ منصوبہ ’اسرائیلی قبضے کی جگہ امریکی قیادت میں ایک نیا قبضہ قائم کرے گا، جو فلسطینی حقِ خودارادیت کے منافی ہے‘ اقوامِ متحدہ نے اس خطے میں بین الاقوامی امن فورسز کئی دہائیوں سے تعینات کر رکھی ہیں، جن میں جنوبی لبنان میں فورس بھی شامل ہے، جو اس وقت لبنانی فوج کے ساتھ مل کر حزب اللہ اور اسرائیل کے درمیان نومبر 2024 کی جنگ بندی پر عملدرآمد کو یقینی بنا رہی ہے۔ترجمان دفتر خارجہ طاہر اندرانی نے بتایا کہ ان رہنماؤں نے مشترکہ طور پر فلسطینیوں کے لیے فوری انسانی امداد کی فراہمی پر زور دیا اور اسرائیل کی جانب سے جنگ بندی کی خلاف ورزیوں کی مذمت کی۔ ترجمان دفتر خارجہ کے مطابق انہوں نے مقبوضہ فلسطینی علاقوں سے اسرائیل کے انخلا کا مطالبہ کیا، اور غزہ کی تعمیرِ نو پر زور دیا۔ پاکستان نے اپنے اصولی مؤقف کا اعادہ کیا کہ فلسطین کا ایک آزاد، قابلِ عمل اور متصل ریاست کے طور پر قیام عمل میں لایا جائے، 1967ء سے پیشگی سرحدوں پر مبنی ایسی فلسطینی ریاست جس کا دارالحکومت القدس الشریف ہو۔ اقوامِ متحدہ اور او آئی سی کی قراردادوں میں یہی موقف اپنایا گیا ہے۔ قبل ازیں اسحٰق ڈار نے استنبول میں غزہ سے متعلق وزارتی اجلاس کے موقع پر ترک ہم منصب حکان فیدان سے ملاقات کی، اس ملاقات کے دوران فلسطین کے مسئلے پر مشترکہ طور پر کام جاری رکھنے پر بھی اتفاق کیا۔ نائب وزیراعظم نے ترک ہم منصب سے ملاقات میں پاکستان کے اس عزم کا اعادہ کیا کہ وہ ترکیہ کے ساتھ سیاسی، اقتصادی اور دفاعی شعبوں میں تعاون کو مزید مضبوط کرے گا۔ترجمان دفتر خارجہ کے مطابق دونوں فریقین نے فلسطین کے مسئلے پر، خصوصاً غزہ میں پائیدار امن کے قیام کے لیے مشترکہ طور پر کام جاری رکھنے پر اتفاق کیا۔ رہنماؤں نے بھائی چارے اور باہمی تعاون کے مضبوط رشتوں کو ایک بار پھر دہرایا، جو ہمیشہ سے پاکستان-ترکیہ تعلقات کی بنیاد رہے ہیں، اور علاقائی و بین الاقوامی امور پر قریبی رابطے برقرار رکھنے پر اتفاق کیا۔حماس اور اسرائیل نے 9 اکتوبر کو ایک فائر بندی معاہدے پر دستخط کیے تھے، جس کے تحت اسرائیلی قیدیوں کی رہائی کے بدلے فلسطینی قیدیوں کو آزاد کیا جانا تھا۔ یہ معاہدہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے اس منصوبے کا پہلا مرحلہ تھا جس کا مقصد غزہ پر اسرائیلی جارحیت کا خاتمہ تھا جبکہ پاکستان ان 8 عرب و مسلم ممالک میں شامل تھا جنہوں نے اس منصوبے پر ٹرمپ کے ساتھ کام کیا۔ تاہم، معاہدے پر دستخط کے باوجود اسرائیل نے غزہ پر دوبارہ حملے شروع کر دیے ہیں۔ اجلاس میں ان ممالک کے وزرائے خارجہ ایک جگہ اکھٹا ہوں گے، جو 23 ستمبر کو اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس کے موقع پر ٹرمپ سے ملے تھے، ان میں ترکیہ، متحدہ عرب امارات، انڈونیشیا، قطر، پاکستان، سعودی عرب، اور اردن شامل ہیں۔ ترک صدر رجب طیب اردوان نے کہا ہے کہ فلسطینی مزاحمتی تنظیم حماس جنگ بندی پر قائم رہنے کے لیے پُرعزم نظر آتی ہے جبکہ غزہ کی تعمیرِ نو میں مسلمان ممالک کا قائدانہ کردار ادا کرنا نہایت ضروری ہے۔ استنبول میں منعقدہ اسلامی تعاون تنظیم (او آئی سی) کے سالانہ اقتصادی اجلاس کے شرکا سے خطاب کے دوران رجب طیب اردوان کا کہنا تھا کہ ایسا لگتا ہے کہ حماس اس معاہدے پر قائم رہنے کے لیے کافی پُرعزم ہے۔ انہوں نے اپنے خطاب کے دوران اس بات پر زور دیا کہ یہ انتہائی ضروری ہے کہ اسلامی تعاون تنظیم غزہ کی تعمیرِ نو میں قائدانہ کردار ادا کرے۔ ان کا کہنا تھا کہ اس موقع پر ہمیں غزہ کے عوام تک مزید انسانی امداد پہنچانے کی ضرورت ہے اور پھر تعمیرِ نو کا عمل شروع کرنا ہوگا کیونکہ اسرائیلی حکومت اس سب کو روکنے کے لیے اپنی پوری کوشش کر رہی ہے۔ اجلاس سے ایک روز قبل ترک وزیرِ خارجہ حکان فیدان نے حماس کے وفد سے ملاقات کی تھی، جس کی قیادت سینئر مذاکرات کار خلیل الحیہ کر رہے تھے۔ ترک وزیر خارجہ کا کہنا تھا کہ غزہ میں قتلِ عام کو ختم کرنا ضروری ہے، صرف جنگ بندی کافی نہیں ہے، انہوں نے زور دیا کہ اسرائیل-فلسطین تنازع کے حل کے لیے دو ریاستی حل ضروری ہے مزید کہا کہ ہمیں تسلیم کرنا چاہیے کہ غزہ پر حکمرانی فلسطینیوں کے ہاتھ میں ہونی چاہیے اور ہمیں اس حوالے سے احتیاط کے ساتھ عمل کرنا ہوگا۔ اس سے قبل نائب وزیراعظم اور وزیرِ خارجہ اسحٰق ڈار نے استنبول میں غزہ سے متعلق وزارتی اجلاس کے موقع پر ترک ہم منصب حکان فیدان سے ملاقات کے دوران فلسطین کے مسئلے پر مشترکہ طور پر کام جاری رکھنے پر بھی اتفاق کیا۔ یاد رہے کہ استنبول میں آج مسلم ممالک کے وزرائے خارجہ کا اہم اجلاس منعقد ہو رہا ہے، جس میں غزہ کی خودمختاری، اسرائیلی افواج کے مکمل انخلا اور جنگ بندی معاہدے پر عملدرآمد سمیت خطے میں پائیدار امن کے قیام کے لیے اقدامات پر غور متوقع ہے۔اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوتریس نے کہا ہے کہ غزہ صحافیوں کے لیے کسی بھی تنازعے میں سب سے خطرناک جگہ رہی ہے۔ صحافیوں کے خلاف جرائم پر استثنیٰ کے خاتمے کے عالمی دن کے موقع پر اقوام متحدہ کی ویب سائٹ پر جاری کردہ اپنے بیان میں انتونیو گوتریس نےکہا کہ دنیا بھر میں صحافی سچائی کی تلاش میں بڑھتے ہوئے خطرات کا سامنا کر رہے ہیں — جن میں زبانی بدسلوکی، قانونی دھمکیاں، جسمانی حملے، قید، اور تشدد شامل ہیں— اور کچھ صحافی تو اپنی جان تک گنوا بیٹھتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ صحافیوں کے خلاف جرائم پر استثنیٰ کے خاتمے کے عالمی دن کے موقع پر ہم انصاف کا مطالبہ کرتے ہیں۔ غزہ صحافیوں کے لیے کسی بھی تنازعے میں سب سے خطرناک جگہ رہی ہے۔ میں ایک بار پھر آزاد اور غیرجانبدار تحقیقات کا مطالبہ کرتا ہوں دنیا بھر میں تقریباً دس میں سے نو صحافیوں کے قتل کے واقعات تاحال حل طلب ہیں۔ کہیں بھی استثنیٰ صرف متاثرین اور ان کے اہلِ خانہ کے ساتھ ناانصافی نہیں بلکہ یہ اظہارِ رائے کی آزادی پر حملہ، مزید تشدد کی دعوت، اور جمہوریت کے لیے خطرہ ہے۔ انتونیو گوتریس کا مزید کہنا تھا کہ تمام حکومتوں کو ہر کیس کی تحقیقات کرنی چاہئیں، ہر مجرم کو عدالت کے کٹہرے میں لانا چاہیے، اور اس بات کو یقینی بنانا چاہیے کہ صحافی ہر جگہ آزادی کے ساتھ اپنا کام کر سکیں۔ بیان میں مزید کہا کہ ہمیں خواتین صحافیوں کے خلاف آن لائن بدسلوکی میں تشویشناک اضافے کا بھی سامنا ہے، جو اکثر بلا سزا رہتی ہے اور کئی بار حقیقی دنیا میں نقصان کا سبب بنتی ہے۔اقوام متحدہ کے فلسطین کے لیے خصوصی نمائندے کی جاری ہونے والی ایک رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ امریکا، برطانیہ اور جرمنی سمیت 63 ممالک غزہ کی پٹی میں اسرائیل کی 2 سالہ نسل کشی میں شریک یا معاون رہے ہیں۔فرانسسکا البانیز کی تیار کردہ اس رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ اسرائیل نے یہ اقدامات اکیلے نہیں بلکہ ’تیسرے فریق ممالک‘ کی مدد سے انجام پائے۔ غزہ میں نسل کشی صرف اسرائیل کارروائیوں ہی نہیں بلکہ ایک عالمی شراکتِ جرم کے نظام کا حصہ تھی۔ مزید کہا گیا کہ طاقتور ممالک، جو نوآبادیاتی اور نسلی سرمایہ دارانہ نظام کو فروغ دیتے رہے، انہوں نے اس بات کو یقینی بنانے کے بجائے کہ اسرائیل فلسطینیوں کے بنیادی انسانی حقوق اور حقِ خودارادیت کا احترام کرے، ایسے پُرتشدد حملوں کو جاری رکھنے کی اجازت دی۔ کئی ممالک نے اسرائیل کو مدد اور جواب دہی سے تحفظ فراہم کر کے اسے موقع دیا کہ وہ فلسطین کے مقبوضہ علاقوں میں اپنے آبادکار نسل پرستانہ نظام کو مزید مضبوط کرے۔ غزہ میں نسل کشی کو بین الاقوامی طور پر ممکن بنائے گئے جرم کے طور پر سمجھنا چاہیے، بیشتر مغربی ممالک نے اسرائیل کی نسل کشی کی مہم کو نہ صرف ممکن بنایا بلکہ اسے جائز اور معمول کی کارروائی بنا دیا۔ رپورٹ میں لکھا گیا کہ فلسطینی شہریوں کو ’انسانی ڈھال‘ قرار دے کر اور غزہ پر حملوں کو ’تہذیب و سفاکیت کی جنگ‘ کے طور پر پیش کر کے ان ممالک نے اسرائیلی بیانیے کو تقویت دی اور بین الاقوامی قانون کی خلاف ورزیوں کو جواز بخشا۔ رپورٹ میں کہا گیا کہ جنوبی افریقہ میں نسل پرستی کے خلاف، رودیشیا اور دیگر نوآبادیاتی حکومتوں کے خلاف کیے گئے کامیاب اقدامات سے ظاہر ہوتا ہے کہ بین الاقوامی قانون کے ذریعے انصاف اور حقِ خودارادیت حاصل کی جا سکتی ہے۔ بین الاقوامی عدالتوں کے واضح احکامات کے باوجود اسرائیل کو اس کے دیرینہ جرائم پر جواب دہ نہ ٹھہرانا عالمی برادری کے دوہرے معیار کو ظاہر کرتا ہے۔ مزید کہا گیا کہ ممالک کے پاس بین الاقوامی قانون کی خلاف ورزی روکنے کے لیے کئی اختیارات ہیں، جیسے طاقت کا استعمال، ہتھیاروں اور تجارت پر پابندیاں، محفوظ گزرگاہ سے انکار، اور قانونی کارروائیاں شامل ہیں۔ اقوام متحدہ کی رپورٹ کے مطابق، اثرورسوخ رکھنے والے‘ دیگر ممالک کی حمایت نے اسرائیل کو اپنے حملے جاری رکھنے کا موقع دیا، یہ حمایت اسرائیلی بیانیے کو اپنانے اور امریکا کی جانب سے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں اسرائیل کے خلاف قراردادوں پر ویٹو کے ذریعے ظاہر ہوئی۔ رپورٹ میں کہا گیا کہ اسرائیل کو کھیل، ثقافت اور دیگر بین الاقوامی فورمز سے بھی باہر نہیں نکالا گیا۔

 

اِن ممالک نے صورتِ حال کو ایک انسانی بحران کے طور پر لیا، جسے بس سنبھالنا تھا، نہ کہ حل کرنا اور اسرائیل سے غیر قانونی قبضہ ختم کرنے کا مطالبہ نہ کر کے غزہ پر حملے کے لیے مزید گنجائش پیدا کی۔ فروری 2024 میں آسٹریلیا، نیوزی لینڈ، کینیڈا، برطانیہ، جرمنی اور نیدرلینڈز نے ایک طرف اسرائیل کے رفح پر حملے کی مذمت کی، لیکن ساتھ ہی یو این آر ڈبلیو اے کی فنڈنگ بھی روک دی۔ رپورٹ کے مطابق عرب اور مسلم ممالک نے اگرچہ فلسطینیوں کی حمایت کی، لیکن ان کی کوششیں فیصلہ کن ثابت نہیں ہوئیں۔ قانونی کارروائیوں کے حوالے سے بھی پیش رفت نہیں ہوئی، کیونکہ صرف 13 ممالک نے جنوبی افریقہ کے کیس (انٹرنیشنل کورٹ آف جسٹس میں) کی حمایت کی، جب کہ کئی مغربی ممالک نے مسلسل یہ ماننے سے انکار کیا کہ غزہ میں نسل کشی ہو رہی ہے۔ رپورٹ کے مطابق نسل کشی کے واضح شواہد کے باوجود کئی ممالک اب بھی اسرائیل کے ساتھ ہتھیاروں کی تجارت کر رہے ہیں، اسرائیل اپنی معیشت کا ایک بڑا حصہ ہتھیاروں کی درآمد پر منحصر کرتا ہے، اہم سپلائرز میں امریکا، جرمنی اور اٹلی شامل ہیں۔ رپورٹ کے مطابق امریکا اور اسرائیل کے درمیان تیسری مفاہمتی یادداشت (ایم او یو) کے تحت 2028 تک ہر سال 3.3 ارب ڈالر کی فوجی امداد اور 50 کروڑ ڈالر کے میزائل دفاع کے لیے فراہم کیے جاتے ہیں۔
اکتوبر 2023 سے امریکا نے 742 کھیپوں پر مشتمل ہتھیار اور گولہ بارود اسرائیل بھیجے اور اربوں ڈالر کی نئی اسلحہ فروخت کی منظوری دی، اکتوبر 2023 سے اکتوبر 2025 تک 26 ممالک نے اسرائیل کو ہتھیاروں کی کم از کم 10 کھیپیں بھیجیں، جن میں چین، تائیوان، بھارت، اٹلی، آسٹریا، اسپین، جمہوریہ چیک، رومانیہ اور فرانس شامل ہیں۔ برطانیہ نے اگرچہ براہِ راست ہتھیار فراہم نہیں کیے، مگر اس نے قبرص میں موجود اپنے اڈوں کے ذریعے امریکی سپلائی لائن کو اسرائیل تک پہنچنے دیا اور گزشتہ 2 برسوں میں غزہ پر 600 جاسوسی پروازیں کیں۔
رپورٹ میں کہا گیا کہ یہ ممالک نہ صرف اسرائیل کو سہولت فراہم کر رہے ہیں بلکہ غزہ کے عوام تک مناسب امداد نہ پہنچا کر بھی نسل کشی میں شریک ہیں۔ اکتوبر 2023 سے اسرائیل نے مکمل ناکہ بندی نافذ کی، اکتوبر 2023 سے جنوری 2025 کے دوران امدادی ٹرکوں کی روزانہ اوسط تعداد 107 رہی، جو 2023 سے پہلے کی سطح کے ایک تہائی سے بھی کم تھی۔ اگست 2025 تک غزہ میں قحط کی باضابطہ تصدیق ہو چکی تھی۔ اسرائیل کی نسل کشی کی مہم نے جان بوجھ کر انسانی امدادی نظام کو تباہ کیا، جس میں یو این آر ڈبلیو اے کے گوداموں، اسکولوں، کلینکس اور خوراک کے مراکز پر حملے کیے گئے۔ کینیڈا، برطانیہ، بیلجیم، ڈنمارک اور اردن جیسے ممالک نے اسرائیلی ناکہ بندی کے خلاف کھڑے ہونے کے بجائے فضا سے امداد گرانے (ایئرفورڈ) کی مہنگی، غیر مؤثر اور خطرناک کوششیں کیں۔ مزید کہا گیا کہ بحری امدادی مشن اور شہری تنظیموں کے قافلے جو اسرائیلی محاصرے کو توڑنے کی کوشش کر رہے تھے، انہیں اسرائیل نے بین الاقوامی پانیوں میں غیر قانونی طور پر روکا اور دیگر ممالک خاموش رہے۔ رپورٹ کے مطابق اسرائیل کی معیشت غیر ملکی تجارت پر بہت زیادہ انحصار کرتی ہے، مگر کسی مغربی ملک نے اسرائیل کے ساتھ تجارت بند نہیں کی بلکہ کئی کے ساتھ تجارت میں اضافہ ہوا۔ جرمنی کے ساتھ 836 ملین ڈالر سے زائد، پولینڈ 237 ملین ڈالر، یونان 186 ملین ڈالر، اٹلی 117 ملین ڈالر، ڈنمارک 99 ملین ڈالر، فرانس 75 ملین ڈالر، سربیا 56 ملین ڈالر، متحدہ عرب امارات 237 ملین ڈالر، مصر 199 ملین ڈالر، اردن 41 ملین ڈالر، مراکش6 ملین ڈالر سے زائد ریکارڈ کی گئی۔ صرف کولمبیا نے 2024 میں اسرائیل کو کوئلے کی برآمد پر پابندی لگا کر عملی قدم اٹھایا تھا۔ جب نسل کشی واضح ہو چکی تھی، تب بھی بیشتر مغربی ممالک اسرائیل کو فوجی، سفارتی، معاشی اور نظریاتی مدد فراہم کرتے رہے، حتیٰ کہ جب اسرائیل نے قحط اور انسانی امداد کو بطور ہتھیار استعمال کیا۔ گزشتہ دو سالوں کے یہ مظالم کوئی اتفاق نہیں بلکہ ایک طویل عرصے سے جاری عالمی شراکتِ جرم کا نتیجہ ہیں، رپورٹ کے مطابق، اسرائیل کی حمایت میں خاموشی اور غیر جانبدار رویہ رکھنے والے ممالک کو بھی نسل کشی میں شریک یا معاون سمجھا جا سکتا ہے۔ اقوام متحدہ کے نمائندے نے درج ذیل اقدامات کرنے کی سفارش کی۔ جن میں مکمل اور مستقل جنگ بندی کے لیے دباؤ ڈالنا اور اسرائیلی فوج کا مکمل انخلا یقینی بنانا، غزہ کے محاصرے کا فوری خاتمہ اور زمینی و بحری قافلوں کے ذریعے انسانی امداد اور رہائش کی فراہمی، ساتجھ ہی غزہ کا ہوائی اڈہ اور بندرگاہ دوبارہ کھولنا تاکہ امداد مؤثر طریقے سے وہاں پہنچ سکے۔ فلسطینی حقِ خودارادیت کو تسلیم کرنا اور اسے پائیدار امن کی بنیاد قرار دینا، اسرائیل کے ساتھ تمام فوجی، تجارتی اور سفارتی تعلقات معطل کرنا، ان تمام افراد، اداروں اور کمپنیوں کی تحقیقات و سزا جو نسل کشی، اشتعال انگیزی یا جنگی جرائم میں ملوث ہوں اور غزہ کی تعمیرِ نو اور متاثرین کے معاوضے کے لیے اقدامات اُٹھائے جائیں۔ انٹرنیشنل کریمنل کورٹ، انٹرنیشنل کورٹ آف جسٹس، یو این آر ڈبلیو اے اور اقوام متحدہ کے اداروں کے ساتھ بھرپور تعاون کرنا اور اقوام متحدہ کے چارٹر کے آرٹیکل 6 کے تحت اسرائیل کی رکنیت معطل کرنا شامل ہے۔ یونائٹنگ فار پیس، جنرل اسمبلی ریزولوشن 377 (5) کے تحت کارروائی کر کے اسرائیل کے قبضے کے خاتمے کو یقینی بنانے کی بھی سفارش کی گئی