اسلام آباد (ٹی این ایس) بین الپارلیمانی اسپیکرز کانفرنس کے سائے میں 27ویں ترمیم کی گونج

 
0
15

اسلام آباد (ٹی این ایس) بین الپارلیمانی اسپیکرز کانفرنس کے سائے میں 27ویں ترمیم کی گونج پارلیمانی سفارت کاری میں پاکستانی قائدانہ حیثیت کا ثبوت ہے چیئرمین سینیٹ پاکستان اور بین الپارلیمانی اسپیکرز کانفرنس کے بانی چیئرمین سید یوسف رضا گیلانی کا کہناہے کہ بین الپارلیمانی اسپیکرز کانفرنس برائے امن، سلامتی اور ترقی پاکستان کی پارلیمانی تاریخ کا ایک عظیم اور تاریخی موقع ہے جو 11 اور 12 نومبر 2025ء کو اسلام آباد میں منعقد ہو رہی ہے۔ سینیٹ اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے چیئرمین سینیٹ پاکستان نے کہا کہ یہ غیر معمولی کانفرنس دنیا بھر کے دس پارلیمانوں کے اسپیکرز، پندرہ ڈپٹی اسپیکرز، سینتیس اراکین پارلیمنٹ اور مختلف بین الاقوامی و علاقائی تنظیموں کے نمائندگان سمیت کل 174 مندوبین کو پاکستان میں اکٹھا کرے گی۔ چیئرمین سینیٹ نے بتایا کہ دو سابق صدور بھی اپنے ممالک کی نمائندگی کے لیے شرکت کریں گے، جو پاکستان کے بڑھتے ہوئے بین الاقوامی کردار اور پارلیمانی سفارت کاری میں قائدانہ حیثیت کا ثبوت ہے۔ چیئرمین سینیٹ سید یوسف رضا گیلانی نے کہا کہ معزز مہمانوں کی میزبانی صرف سینیٹ کی کامیابی نہیں بلکہ ایک قومی اعزاز ہے جو پاکستان کے وقار کو عالمی سطح پر بلند کرتا ہے، یہ کانفرنس پاکستان کے لیے اپنی پارلیمانی سفارت کاری، امن، سلامتی اور ترقی کے وژن کو دنیا کے سامنے پیش کرنے کا نادر موقع فراہم کرتی ہے۔
چیئرمین سینیٹ کا کہناتھا کہ جب ہم جنوبی اور شمالی دنیا سے آنے والے اپنے مہمانوں کا خیرمقدم کریں گے تو ہم صرف ایک کانفرنس کے شرکاء نہیں ہوں گے، بلکہ اپنی قوم کے امن، رواداری اور تعاون کے جذبے کے سفیر ہوں گے۔ چیئرمین سینیٹ نے صدر مملکت آصف علی زرداری، وزیر اعظم محمد شہباز شریف، قومی اسمبلی کے اسپیکر سردار ایاز صادق اور ڈپٹی وزیراعظم و وزیر خارجہ سینیٹر اسحاق ڈار کا خصوصی شکریہ ادا کیا اور ان کے تعاون کو سراہا۔ انہوں نے سینیٹر اسحاق ڈار کی کانفرنس کے کرٹن ریزر سیشن کی صدارت اور ان کی جاری معاونت پر خراجِ تحسین پیش کیا۔انہوں نے قومی اسمبلی کے اسپیکر کے کردار کو بھی سراہتے ہوئے کہا کہ ملک کی اعلیٰ قیادت کا باہمی تعاون قومی اتحاد اور یکجہتی کی بہترین مثال ہے۔ چیئرمین سینیٹ نے مزید کہا کہ اس تاریخی تقریب کی تیاریوں میں وزارت داخلہ، وزارتِ خارجہ، وزارت اطلاعات و نشریات اور کیپیٹل ڈویلپمنٹ اتھارٹی (سی ڈی اے) کا کردار قابلِ تحسین ہے، جنہوں نے اپنی شب و روز کی محنت سے اس قومی مقصد کو عملی شکل دینے میں بھرپور کردار ادا کیا۔ یہ سب محکمے جس جذبے سے کام کر رہے ہیں وہ قومی یکجہتی اور تعاون کی روشن علامت ہے،انہوں نے سینیٹرز پر زور دیا کہ وہ اس کانفرنس کو اپنی اجتماعی ذمہ داری سمجھیں اور بھرپور انداز میں میزبانی کا کردار ادا کریں تاکہ پاکستان کی مثبت شبیہ عالمی برادری کے سامنے اجاگر ہو۔ یہ منصوبہ صرف سینیٹ سیکرٹریٹ کا نہیں بلکہ ہم سب کا ہے۔ ہر رکن پارلیمنٹ اس کا حصہ بنے تاکہ ہم اسے ایک کامیاب اور تاریخی ایونٹ بنا سکیں۔ چیئرمین سینیٹ سید یوسف رضا گیلانی نے امید ظاہر کی کہ یہ بین الپارلیمانی اسپیکرز کانفرنس پاکستان کے لیے امید، امن اور تعاون کا پیغام بنے گی اور ملک کے پارلیمانی کردار کو عالمی سطح پر مزید مضبوط کرے گی۔ہم سب کو مل کر اسے ایسا یادگار ایونٹ بنانا ہے جو پاکستان کو پارلیمانی سفارت کاری کا قائد ثابت کرے۔ امن، سلامتی اور ترقی کی جدوجہد صرف انفرادی ہدف نہیں بلکہ ریاستوں کا مشترکہ مشن ہے “امن، سلامتی اور ترقی” کے لیےاسلام آباد بین الپارلیمانی اسپیکرز کانفرنس ایک تاریخی سنگ میل ہےاس خیال کو تقویت دیتے ہوئے کہ سلامتی، ترقی اور سماجی چیلنجوں کے لیے تعاون پر مبنی حل بین پارلیمانی مکالمے کے ذریعے تیار کیے جانے چاہئیں، کانفرنس کا مقصد عالمی پارلیمانی قیادت کو امن، سلامتی اور ترقی کے سہ فریقی عزم کی تصدیق کے لیے اعلیٰ سطحی پلیٹ فارم فراہم کرنا ہے۔ اس مقصد کو حاصل کرنے کے لیے، اسلام آباد میں آئی ایس سی کا آئندہ اجلاس قانون سازی کی کارروائی اور تنازعات کے حل کے فریم ورک کے ذریعے فوری عالمی چیلنجوں سے نمٹنے کے لیے جاری اور مستقبل کے تعاون کے لیے گہرا ہم آہنگی، شراکت داری کی تعمیر، اور زیر زمین کام کی تلاش کرتا ہے۔
سیکیورٹی چیلنجز اور پائیدار ترقی کے ماڈلز کے پس منظر میں 10سے 12 نومبر 2025 کو اسلام آباد میں ہونے والی بین الپارلیمانی اسپیکرز کانفرنس امن اور خوشحالی کے سیول اعلامیہ کے اصولوں کا ترجمہ کرنے کے لیے ایک تاریخی سنگ میل کی نشاندہی کرتی ہے۔

بین الپارلیمانی اسپیکرز کانفرنس ,آئی ایس سی اپریل 2025 میں جنوبی کوریا کے شہر سیئول میں قائم کی گئی تھی، بانی چیئرمین آئی ایس سی اور چیئرمین سینیٹ آف پاکستان سید یوسف رضا گیلانی کی وژنری قیادت میں پارلیمانی عمل اور اجتماعی بات چیت کو فروغ دینے کے لیے وقف ہے۔
پارلیمانیں جمہوری طرز حکمرانی کی بنیاد کے طور پر کام کرتی ہیں، پالیسی کی تشکیل اور احتساب کو یقینی بنانے میں اہم کردار ادا کرتی ہیں سرحدوں سے ماورا اور وجودی خطرات سے نمٹنے کے لیے پالیسیوں کی تشکیل کے لیے منفرد حیثیت کے باوجود، قومی پارلیمانوں کے پاس اکثر بین الاقوامی سطح پر ہم آہنگی کے محدود مواقع ہوتے ہیں۔ بحرانوں کے لیے بکھرے ہوئے نقطہ نظر غیر نتیجہ خیز ثابت ہوتے ہیں، جو قومی پارلیمانوں سے متحد قانون ساز قیادت کا مطالبہ کرتے ہیں۔ مسلح تصادم اور دہشت گردی سے لے کر غیر منصفانہ ترقی تک کے بہت سے عالمی چیلنجز کے لیے پارلیمنٹ کو معلومات کا تبادلہ، قانون سازی اور ایک دوسرے سے سیکھنے کی ضرورت ہوتی ہے۔
بین الپارلیمانی اسپیکرز کانفرنس ,آئی ایس سی نقطہ نظر کا اشتراک کرنے، اتفاق رائے پیدا کرنے اور حل کو متحرک کرنے کے لیے مقررین کے لیے ایک وقف شدہ فورم بنا کر اس اہم خلا کو پر کرتا ہے بنیادی مقصد باہمی انحصار، باہمی خوشحالی اور عالمی سطح پر مشترکہ اقدار کو آگے بڑھانا ہے۔ دنیا اس وقت بڑھتے ہوئے عالمی تنازعات، علاقائی تناؤ اور بڑھتے ہوئے ترقیاتی تفاوت کے شکنجے میں ہے۔ لہٰذا، یہ پارلیمانوں اور ان کے قائدین پر تیزی سے فرض بنتا جا رہا ہے کہ وہ تنازعات کی روک تھام اور حل، اچھی حکمرانی اور جامع ترقی کے لیے زیادہ فعال کردار ادا کریں۔ یہ اس ناقابل تردید حقیقت کو مدنظر رکھتے ہوئے ناگزیر ہے کہ امن اور ترقی ہم آہنگی اور ایک دوسرے پر منحصر ہے۔ اس سلسلے میں، آئی ایس سی، اس کے بانی چیئرمین سید یوسف رضا گیلانی، پارلیمنٹ کے فعال سفارتی تعلقات کے ذریعے فعال بین الاقوامی تعاون کے بارے میں تصور کرنے، دوبارہ تشکیل دینے اور دوبارہ ترتیب دینے کے لیے مضبوط عزم کی نمائندگی کرتے ہیں۔
یہ نگرانی، نمائندگی، اور اخلاقی حکمرانی میں پارلیمانی صلاحیتوں کو مزید مضبوط کرنے کے طریقوں اور ذرائع پر تبادلہ خیال کرنے کا موقع فراہم کرے گا تاکہ عدم مساوات کے خلا اور ابھرتے ہوئے سلامتی کے خطرات کو ختم کیا جاسکے۔ جوابات مقررین ایسے قوانین اور پالیسیوں کا مسودہ تیار کرنے کے لیے بہترین طریقوں کا تبادلہ کر سکتے ہیں جو سلامتی کے خطرات کو دور کرتے ہیں اور عدم مساوات کو کم کرتے ہیں۔
درج ذیل سوالات آج ہمارے معاشروں کے سامنے سب سے زیادہ مضبوط امن، سلامتی اور ترقی کے چیلنجز کیا ہیں؟ سیکیورٹی کے خطرات اور ترقیاتی چیلنجوں کو کم کرنے کے لیے پارلیمنٹ قانون سازی کے آلات اور بین الاقوامی تعاون سے کیسے فائدہ اٹھا سکتی ہے؟ جغرافیائی سیاسی اختلافات کو دور کرنے اور انسانی حقوق کو برقرار رکھنے میں پارلیمانی سفارت کاری کیا کردار ادا کر سکتی ہے؟ کانفرنس کے دوران غور و فکر کی رہنمائی کر سکتے ہیں
یہ عکاسی ٹوٹی پھوٹی دنیا میں پارلیمنٹ کے قانون سازی، نگرانی اور نمائندہ کردار کو بڑھانے کے لیے حکمت عملی بنانے میں مدد کرے گی۔ شرکاء آئی ایس سی کے رول اور سیٹ فارورڈ ایجنڈے کو مستحکم کرنے والے ٹھوس نتائج کی طرف کام کریں گے۔ یہ کانفرنس اسلام آباد اعلامیہ کو اپنائے گی، جو کہ سیول کے بنیادی اعلامیے کی بنیاد پر تعمیر کرے گی، امن کی تعمیر، اچھی حکمرانی اور قانون سازی کے ذریعے جامع ترقی کو مضبوط بنانے کے لیے مشترکہ وعدوں اور سفارشات کو بیان کرے گی۔ الپارلیمانی اسپیکرز کانفرنس اسلام آباد 2025،مستقبل میں تعاون، اقوام متحدہ اور ترقیاتی ایجنسیوں کے ساتھ رابطہ، اور مشترکہ قانون سازی کے اقدامات کے لیے رہنما خطوط کا پروگرام اور روڈ میپ اس کے واضح بیان کے ساتھ ہو گی سینیٹ وقومی اسمبلی کی قانون و انصاف کی مشترکہ پارلیمانی کمیٹیوں کے اجلاس میں 27ویں آئینی ترمیم کے مجوزہ بل پر مزید غور کیا گیا۔ گزشتہ روز27ویں ترمیم ایکٹ 2025 کا بل وفاقی کابینہ سے منظوری کے چند گھنٹے بعد سینیٹ میں پیش کیا گیا، جس پر اپوزیشن نے مجوزہ تبدیلیوں کی رفتار اور دائرہ کار پر شور شرابہ کیا اس بل میں وفاقی آئینی عدالت کے قیام، ہائی کورٹ کے ججوں کی تقرری کے عمل میں تبدیلی، صوبائی کابینہ کے حجم میں اضافہ، اور فوجی قیادت کے ڈھانچے میں اصلاحات کی تجاویز شامل ہیں۔ سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے قانون و انصاف کے چیئرمین سینیٹر فاروق ایچ نائیک اور قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی کے سربراہ چوہدری محمود بشیر ورک جلاس کی مشترکہ صدارت کر رہے ہیں قائمہ کمیٹیوں کے اجلاس میں ہائی کورٹ کے ججوں کی منتقلی کے طریقہ کار کو بھی حتمی شکل دیے جانے کا امکان ہے جو جوڈیشل کمیشن آف پاکستان (جے سی پی) کے ذریعے انجام پائے گا اور ممکنہ طور پر اس میں منتقل ہونے والے ججوں کی رضامندی درکار نہیں ہوگی۔ گزشتہ روز سینیٹ اجلاس کے دوران ہی کمیٹیوں نے بل پر غور کے لیے ایک ان کیمرہ مشترکہ اجلاس بھی منعقد کیا، تاہم پاکستان تحریکِ انصاف کے ارکان، جمعیت علمائے اسلام (ف) کی ایم این اے عالیہ کامران اور سینیٹر کامران مرتضیٰ نے اجلاس کا بائیکاٹ کیا۔ قائمہ کمیٹیوں نے مجوزہ بل کا تقریباً 80 فیصد حصہ منظور کر لیا، جس میں عدالتی اصلاحات پیکیج کی زیادہ تر شقیں شامل تھیں۔ تاہم، آئین کے آرٹیکل 243 (مسلح افواج کی کمان) کے تحت فیلڈ مارشل کے عہدے کی حیثیت پر غور و خوض آج کے اجلاس تک ملتوی کر دیا گیا تھا۔ اجلاس سے قبل، سینیٹر فاروق ایچ نائیک نے صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ بل کی تمام شقوں پر آج تفصیلی غور کیا جائے گا اور ہمیں پوری امید ہے کہ ہم آج ہی یہ عمل مکمل کر لیں گے۔ جب ان سے مختلف حکومتی اتحادی جماعتوں کی تجاویز اور اس بارے میں پوچھا گیا کہ آیا ’صدر اور وزیرِ اعظم کو استثنیٰ دینے کے معاملے پر دو جماعتیں آمنے سامنے آ گئی ہیں‘ تو پیپلز پارٹی کے سینیٹر نے کہا کہ تمام جماعتوں کو اپنی رائے دینے کا حق حاصل ہے۔ مسلم لیگ (ن) اور متحدہ قومی موومنٹ (پاکستان) کی تجاویز پر آج کے اجلاس میں غور کیا جائے گا جب کہ فیصلے اس بنیاد پر کیے جائیں گے کہ اکثریت کی رائے کیا ہے۔ کمیٹی کے چیئرمین نے امید ظاہر کی کہ بل کا مسودہ آج شام 5 بجے تک حتمی شکل دے دیا جائے گا۔ اجلاس میں وفاقی وزیرِ قانون اعظم نذیر تارڑ اور وزیرِ مملکت برائے قانون و انصاف بریسٹر عقیل ملک سمیت دیگر اراکین شریک ہیں۔ اس کے علاوہ مسلم لیگ (ن) کے سینیٹر خلیل طاہر سندھو، عوامی نیشنل پارٹی کے ہدایت اللہ خان، اور پیپلز پارٹی کے ارکانِ قومی اسمبلی قاسم گیلانی اور سید ابرار علی شاہ بھی مشترکہ اجلاس کا حصہ تھے، جب کہ مسلم لیگ (ن) کی ایم این اے شمیلہ رانا نے ویڈیو لنک کے ذریعے شرکت کی۔ قاسم گیلانی نے ایکس پر لکھا ’پارلیمانی کمیٹی برائے قانون و انصاف کا دوسرا دن‘۔ ایک اور پوسٹ میں انہوں نے خلاصہ پیش کرتے ہوئے کہا کہ 27ویں آئینی ترمیم بنیادی طور پر 5 اہم نکات پر مرکوز ہے:
وفاقی آئینی عدالت کا قیام
ججوں کی منتقلی (آرٹیکل 200)
خیبرپختونخوا میں سینیٹ انتخاب سے متعلق بے ضابطگی کا خاتمہ
چھوٹے صوبوں کے مطالبے پر کابینہ کے حجم میں 2 فیصد اضافہ
آرٹیکل 243 میں دفاعی خدمات اور صدر کو استثنیٰ سے متعلق ترامیم

پیپلز پارٹی کے رکنِ اسمبلی نے مزید کہا کہ دیگر تمام تبدیلیاں صرف نتیجتاً کی جانے والی ترامیم ہیں۔ گزشتہ روز کے اجلاس کے بعد وزیرِ قانون اعظم نذیر تارڑ نے بتایا کہ تمام پارلیمانی جماعتیں اس عمل میں شریک ہیں اور حکومت نے حزبِ اختلاف سے بھی تعمیری انداز میں حصہ لینے کی درخواست کی ہے۔ جب تک دونوں ایوانوں کے تمام ارکان کے درمیان اتفاقِ رائے نہیں ہو جاتا، بات چیت کا سلسلہ جاری رہے گا۔ سینیٹ کا اجلاس آج دوپہر 3 بجے طلب کیا گیا ہے، جس کا ایک نکاتی ایجنڈا ہے، 27ویں ترمیم بل پر غور کرنا ہے، جو اس بات کی علامت ہے کہ حکومت آئینی ترامیم کو منظور کرانے کے لیے غیر معمولی تیزی دکھا رہی ہے۔ تحریکِ انصاف کے پارلیمانی رہنما بیرسٹر علی ظفر نے مؤقف اختیار کیا ہے کہ اپوزیشن لیڈر کی عدم موجودگی میں اس بل پر بحث کرنا نامناسب ہے عدلیہ کی آزادی کو کمزور کرتی ہیں، اور 1973 کے آئین کے ذریعے بڑی احتیاط سے قائم کیے گئے اختیارات کے نازک توازن کو مجروح کرتی ہیں۔ تاہم، مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی نے اس تاثر کو مسترد کیا ہے کہ 27ویں آئینی ترمیم کا بل بغیر مناسب بحث کے جلدی میں آگے بڑھایا گیا، ان جماعتوں کا کہنا ہے کہ مسودے پر تفصیلی جانچ پڑتال کی جا چکی ہےقومی اسمبلی و سینیٹ میں نامزد اپوزیشن لیڈر و تحریک تحفظ آئین پاکستان کے سربراہ محمود خان اچکزئی اور وائس چیئرمین علامہ ناصر عباس نے ملک گیر احتجاجی تحریک کا اعلان کیاہے قبل ازیں وزیرِاعظم شہباز شریف نے 27ویں آئینی ترمیم میں وزیراعظم کو استثنیٰ دینے سے متعلق مسلم لیگ (ن) کی مجوزہ شق واپس لینے کا حکم دیتے ہوئے کہا تھا کہ وزیراعظم کو مکمل طور پر جوابدہ رہنا چاہیے۔ سماجی رابطے کی ویب سائٹ ایکس پر جاری بیان میں وزیراعظم نے کہا تھا کہ آذربائیجان سے واپسی پر مجھے معلوم ہوا کہ ہماری جماعت کے چند سینیٹرز نے وزیراعظم کو استثنیٰ دینے سے متعلق ایک ترمیم جمع کرائی ہے۔ انہوں نے مزید لکھا کہ ’میں ان کے نیک ارادے کا احترام کرتا ہوں، مگر یہ تجویز کابینہ سے منظور شدہ مسودے کا حصہ نہیں تھی، میں نے اسے فوراً واپس لینے کی ہدایت کر دی ہے‘۔ ’اصولی طور پر ایک منتخب وزیراعظم کو عدالتِ قانون اور عوام دونوں کے سامنے مکمل طور پر جوابدہ رہنا چاہیے‘۔ یہ بیان ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب سینیٹ اور قومی اسمبلی کی کمیٹیاں 27ویں آئینی ترمیم کے مجوزہ بل پر غور و خوض جاری رکھے ہوئے ہیں۔ دوسری طرف وزیراعظم شہباز شریف کی ہدایت پر وزارت عظمیٰ کے عہدہ کیلئے مجوزہ استثنی کی ترمیم واپس لے لی گئی، پارلیمانی کمیٹی کے اجلاس میں سینیٹر انوشہ رحمٰن اور طاہر خلیل سندھو نے وزیراعظم کو استثنیٰ دینے کی تجویز جمع کرائی تھی۔ ذرائع کے مطابق سینیٹر انوشہ رحمٰن نے وزیر اعظم کی ہدایت پر مجوزہ استثنیٰ کی تجویز واپس لی، جبکہ چیئرمین کمیٹی فاروق ایچ نائیک نے ترمیم واپس لینے کو سراہا۔ کمیٹی کے اجلاس میں وزیراعظم کو استثنیٰ کی ترمیم سینیٹر انوشہ رحمٰن اور طاہر خلیل سندھو نے جمع کروائی تھی وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہاکہ وزیر اعظم نے استثنی کی ترمیم واپس لینے کی ہدایت کی، دیگر عہدوں کو جو استثنی دیا جارہا ہے ان میں انتظامی نوعیت نہیں ہے، ابھی 80 سے 85 فیصد ترامیم پر مشاورت ہوچکی ہے، ایم کیو ایم،اے این پی اور بلوچستان عوامی پارٹی کے تجاویز پر غور ہونا باقی ہے۔ بلوچستان اسمبلی کی نشستیں بڑھانے سے متعلق تجویز پر ابھی غور ہوگا، جے یو آئی نے 3 دن کا وقت مانگا جو دینا ممکن نہیں تھا، مخالفت کرنی بھی ہے تو ووٹ سے کریں سیاست سے نہیں، نجی ترمیم پیش کرنا پارلیمنٹ کا اختیار ہے۔ 27ویں آئینی ترمیم کے مجوزہ بل میں وفاقی آئینی عدالت (ایف سی سی) کے قیام، ہائی کورٹ کے ججوں کی تقرری کے طریقہ کار میں تبدیلی، صوبائی کابینہ کے ارکان کی حد میں اضافہ اور عسکری قیادت کے ڈھانچے میں ترمیم کی تجاویز شامل ہیں۔ بل کی چند شقوں میں ان افسران کو تاحیات آئینی تحفظ دینے کی تجویز بھی دی گئی ہے جنہیں 5 اسٹار رینک یعنی فیلڈ مارشل، مارشل آف دی ایئر فورس یا ایڈمرل آف دی فلیٹ کے عہدوں پر ترقی دی جائے۔ ان افسران کو ’ان کے رینک، مراعات اور وردی برقرار رکھنے کا حق تاحیات حاصل رہے گا‘، اور انہیں صرف آئین کے آرٹیکل 47 کے تحت مواخذے جیسی کارروائی کے ذریعے ہی برطرف کیا جا سکے گا۔ ایسے افسران کو وہی استثنیٰ حاصل ہوگا جو صدرِ مملکت کو آئین کے آرٹیکل 248 کے تحت دیا گیا ہے۔ ہفتے کی دوپہر وفاقی کابینہ نے 27ویں آئینی ترمیم کے بل کی منظوری دی اور اسے مکمل طور پر خوش آئند قرار دیا۔ بعد ازاں یہ بل سینیٹ میں پیش کیا گیا، جہاں اپوزیشن کی جانب سے مجوزہ ترامیم کی وسعت اور تیزی پر شدید احتجاج کیا گیا۔ سینیٹ میں پیش ہونے والے 27ویں آئینی ترمیم کے مجوزہ مسودے کی تفصیلات سامنے آگئیں، جس میں آئین پاکستان کے 48 آرٹیکلز میں ترامیم تجویز کی گئی ہیں۔ آئین کے آرٹیکل243 میں سے چیئرمین جوائنٹ چیفس آف اسٹاف کا عہدہ تحلیل کرکے چیف آف ڈیفنس فورسز کا عہدہ تخلیق کیا گیا ہے، ایک تجویز کے مطابق فیلڈ مارشل کا عہدہ تاحیات رہے گا۔ ججز کے تبادلے جوڈیشل کمیشن آف پاکستان کے سپرد کیے جانے کی تجویز بھی دی گئی ہے، جج نے جس ہائیکورٹ سے ٹرانسفر پر جانا ہے اور جس ہائیکورٹ میں جانا ہے، ان کے چیف جسٹس بھی تبادلے کے عمل کا حصہ ہوں گے۔ 27ویں آئینی ترمیم میں بلوچستان میں صوبائی اسمبلی کی نشستوں میں اضافے کی تجویز بھی دی گئی ہے، صوبائی کابینہ کے حجم میں اضافے کی تجویز بھی زیرِ غور ہے، صوبائی کابینہ کے مشیران کی تعداد میں اضافہ کیا جائے گا۔ ایک وقت میں پورے سینیٹ کے انتخابات کرانے کے حوالے سے ترامیم بھی تجویز کی گئی ہیں، ایک تجویز کے مطابق فیلڈ مارشل کا عہدہ ’تاحیات‘ رکھنے کی تجویز بھی دی گئی ہے۔ قبل ازیں، باکو میں موجود وزیراعظم شہباز شریف نے ویڈیو لنک پر وفاقی کابینہ کے اجلاس کی صدارت کی تھی، وفاقی کابینہ کے اجلاس میں 27ویں آئینی ترمیم کی منظوری دے دی گئی تھی، وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے بتایا تھا کہ میثاق جمہوریت کے مطابق آئین کے آرٹیکل 243 میں ترمیم کی منظوری دے دی گئی ہے، جس کے مطابق آئینی عدالت تشکیل دی جائے گی، اب پارلیمنٹ آئین میں ترمیم پر بحث کے بعد ان کی منظوری کا حتمی فیصلہ کرے گی، علاوہ ازیں وزیراعظم محمد شہباز شریف نے کہا ہےکہ 27 ویں آئینی ترمیم پر قائد میاں نواز شریف کو اعتماد میں لیا، ملک کی ترقی و خوشحالی کے لیے سب نے مل کر کام کرنا ہے۔وزیراعظم نے کابینہ ارکان کا خیرمقدم کیا اور اتحادی جماعتوں کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ وفاق کے صوبوں کے ساتھ رشتے کی مضبوطی اور ملک کے وسیع مفاد میں 27ویں آئینی ترمیم کیلئے سب نے مل کر کوشش کی، جس کیلئے وزارت قانون و انصاف، اٹارنی جنرل اور انکی ٹیم لائق تحسین ہے۔ 27 ویں آئینی ترمیم پر اپنے قائد میاں محمد نواز شریف کو اعتماد میں لیا اور ان سے اس پر رہنمائی حاصل کی جس پر ان کا تہہ دل سے مشکور ہوں، صدر مملکت آصف علی زرداری کو بھی ترمیم کے حوالے سے اعتماد میں لیا اور ان کی رضامندی پر تہہ دل سے شکر گزار ہیں۔ وزیرِاعظم نے کہا کہ تمام اتحادی جماعتوں کے سربراہان بالخصوص، بلاول بھٹو زرداری، ڈاکٹر خالد مقبول صدیقی، عبدالعلیم خان، خالد حسین مگسی اور چوہدری سالک حسین کا شکر گزار ہوں جن سے ان کی جماعتوں کے وفود کے ہمراہ بذات خود مشاورت کی اور انہوں نے اس مسودے کی بھرپور تائید کی۔ انہوں نے بتایا کہ ایمل ولی خان، اعجاز الحق اور دیگر سیاسی رہنماؤں سے بھی مشاورت کی اور انہیں آئینی ترمیم کے حوالے سے اعتماد میں لیا، اللہ کے فضل و کرم سے ملک میں سیاسی و معاشی استحکام کی بدولت ملک کی سمت درست ہوئی، ملک کی ترقی و خوشحالی کیلئے سب کو مل کر کام کرنا ہے۔