اسلام آباد (ٹی این ایس) 27 ویں آئینی ترمیم سینیٹ میں دو تہائی اکثریت سے منظور

 
0
14

اسلام آباد (ٹی این ایس) .ایوان بالا سینیٹ سے 27 ویں آئینی ترمیم منظور ہوگئی،سینیٹ میں منظور ہونے کے بعد 27ویں آئینی ترمیم کا بل جلد ہی قومی اسمبلی میں پیش کیا جائے گا،وزیر اعظم شہباز شریف کی کابینہ سے منظوری اور حکومتی اتحاد نے کئی روز کی مشاورت کے بعد اسے سینیٹ میں پیش کیا جہاں اپوزیشن جماعتوں کے احتجاج کے باوجود اس پر ووٹنگ ہوئی۔27ویں آئینی ترمیم کے مسودے میں مسلح افواج سے متعلق آئین کے آرٹیکل 243 میں ردوبدل، آئینی عدالت کے قیام اور ہائی کورٹ کے ججز کے تبادلوں سے متعلق تجاویز تھیں۔ ترمیم کی حمایت میں 64 ووٹ آئے، مخالفت میں کوئی ووٹ نہیں ڈالا گیا، اپوزیشن نے سینیٹ اجلاس سے واک آؤٹ کیا۔ وفاقی وزیر قانون سینیٹر اعظم نذیر تارڑ نے 27 ویں آئینی ترمیم پیش کی جسے دو تہائی اکثریت سے منظور کرلیا گیا، آئینی ترمیم کے حق میں 64 ووٹ آئے ، ترمیم کی مخالفت میں کوئی ووٹ نہیں ڈالا گیا جبکہ اپوزیشن اراکین نے اجلاس سے واک آؤٹ کیا۔ چیئرمین سینیٹ سید یوسف رضا گیلانی نے ووٹنگ کا عمل مکمل ہونے کے بعد آئینی ترمیم کی منظوری کا اعلان کیا۔ چیئرمین سینیٹ نے کہا کہ ستائیسویں ترمیم کے حق میں 64 ووٹ کاسٹ ہوئے، ن لیگ کے پارلیمانی لیڈر عرفان صدیقی شدید بیمار اور وینٹی لیٹر پر ہیں، ان کا ووٹ نہیں پڑ سکا انہوں نے کہا کہ میں نے اپوزیشن اور حکومت کے ساتھ بات چیت سے معاملہ آگے بڑھایا، اور تمام اراکین کو آئینی ترمیم میں بحث کا حصہ بنایا گیا۔ میثاق جمہوریت کے تحت تمام سیاسی جماعتوں نے بات چیت کی، کوشش کی گئی اور متفقہ طور پر آئینی ترمیم لائی گئی۔قبل ازیں سینیٹ اجلاس کے دوران آئین میں 27 ویں ترمیم کی شق وار منظوری کا سلسلہ جاری رہا، اور تمام 59 شقیں منظور کرلی گئیں۔ سینیٹ کے 64 اراکین نے ترامیم کے حق میں ووٹ دیے، پاکستان تحریک انصاف ( پی ٹی آئی ) کے سینیٹر سیف اللہ اور جمعیت علمائے اسلام کے سینیٹر احمد خان نے ترمیم کے حق میں ووٹ دیے۔ اپوزیشن ارکان نے آئینی ترمیم کی شق وار منظوری کے دوران سینیٹ اجلاس سے واک آؤٹ کیا۔ قبل ازیں 27 ویں آئینی ترمیمی بل 2025 پر قائمہ کمیٹی کی رپورٹ پیش کردی گئی، قائمہ کمیٹی برائے قانون و انصاف کے سربراہ سینیٹر فاروق حامد نائیک نے رپورٹ پیش کی۔ سینیٹ میں 27 ویں آئینی ترمیم بل 2025 پر قائمہ کمیٹی کی رپورٹ پیش کرتے ہوئے سینیٹر فاروق ایچ نائیک نے کہا کہ آئینی ترمیمی بل میں کافی تبدیلیاں ہوئی ہیں، کمیٹی نے وفاقی آئینی عدالت بنانے کے لیے منظور کیا ہے۔سینیٹر فاروق ایچ نائیک نے مزید کہا کہ جو آئینی عدالت بنے گی اس میں تمام صوبوں کی برابر نمائندگی ہوگی، کمیٹی نے غور و خوض کے بعد بہت ساری تبدیلیاں کی ہیں۔ کمیٹی نے تجویز دی کہ ہائی کورٹ میں 7 سے 5 سال کی مدت ملازمت رکھنے والے جج کو آئینی عدالت کا جج لگایا جائے گا، کمیٹی نے ایک ٹیکنوکریٹ کو شامل کیا ہے, کمیٹی نے سو موٹو پاور کو رکھا ہے لیکن اس عمل کو درخواست سے مشروط کیا گیا ہے، جب کوئی درخواست دے گا اور آئینی عدالت سمجھے گی کہ یہ ضرورت ہے تو سماعت ہو گی۔ قائمہ کمیٹی کے سربراہ نے مزید کہا کہ ججز کے تبادلے سے متعلق ترمیم بھی تجویز کی گئی ہے، تبادلے کا طریقہ تبدیل کر کے اسے جوڈیشل کمیشن کے ذریعے کیا جائے گا، جوڈیشل کمیشن کے شرائط کے تحت تبادلہ ہوگا۔ سینیٹر فاروق ایچ نائک نے کہا کہ اگر کوئی جج انکار کرتا ہے تو اس کے خلاف ریفرنس فائل ہوگا تاکہ وہ انکار کی وجوہات بتا سکے، اگر وہ جائز وجوہات نہ بتا سکا تو ریٹائر تصور ہوگا۔ سربراہ قائمہ کمیٹی نے مزید بتایا کہ صدر کو تاحیات استثنیٰ دینے کی شق میں ترمیم کی گئی ہے، اگر وہ پبلک آفس ہولڈر بنتے ہیں تو استثنیٰ ختم ہوجائے گا، پبلک آفس ختم ہونے کے بعد استثنیٰ دوبارہ حاصل ہوگا۔ کمیٹی نے سفارش کی کہ اسپیکر جوڈیشل کمیشن کے لیے ممبر منتخب کریں گے، وہ عورت یا غیر مسلم یا ٹیکنوکریٹ کو کرسکتے ہیں کمیٹی نے یہ شق ڈالی کہ ایک سال میں کیس کا فیصلہ نہ ہوا تو اسٹے ختم ہو جائے گا۔ آئینی ترمین کے حق میں ووٹ دینے والے پاکستان تحریک انصاف کے سینیٹر سیف اللہ ابڑو نے اپنی نشست سے مستعفیٰ ہونے کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ میں آج یہاں سے اپنی نشست سے استعفیٰ دیتا ہوں مجھے آپ ڈی نوٹی فائی کردیں۔

 

قومی اسمبلی اجلاس کے دوران پاکستان پیپلز پارٹی ( پی پی پی ) کے رکن قومی اسمبلی راجہ پرویز اشرف جب بولنا شروع ہوئے تو اپوزیشن بنچوں کی طرف سے شور شرابے اور نعرے بازی سے ان کی تقریر میں خلل ڈالا گیا۔ صدر کے لیے استثنیٰ کے موضوع پر بات کرتے ہوئے، انہوں نے کہا کہ یہ سربراہ مملکت کے لیے کئی ممالک میں ایک معمول کی روایت ہے۔ انہوں نے اپوزیشن پر شدید تنقید کرتے ہوئے کہا کہ وہ حکومتی بنچوں پر تنقید کرنے والے کون ہوتے ہیں جب کہ ان کی صفیں ان لوگوں سے بھری پڑی ہیں جنہوں نے آئین کی خلاف ورزی کی ہے۔ پی ٹی آئی کے اراکین نے ”گو زرداری گو“ اور ”زندہ باد عمران خان“ کے نعرے لگائے جبکہ سابق وزیر اعظم کو ”راجہ رینٹل“ قرار دیا۔ سینیٹ میں بل کی منظوری سے قبل، اپوزیشن بنچوں نے احتجاج کرتے ہوئے حکومت اور اس کے اتحادی شراکت داروں کے خلاف نعرے بازی کی۔ وفاقی وزیر قانون نے ترمیم پیش کرنے شروع کی تو اسی دوران قانون سازوں نے بل کی نقول کو پھاڑ دیا اور اعظم نذیر تارڑ کی میز کی طرف اچھال دیا۔ زیادہ تر اپوزیشن ارکان نے اس کے بعد واک آؤٹ کیا، جس سے بل کی آسانی سے منظوری کی راہ ہموار ہوئی۔ سینیٹ اور قومی اسمبلی کی قانون و انصاف کی قائمہ کمیٹیوں کے ایک مشترکہ اجلاس نے معمولی تبدیلیوں کے ساتھ 27ویں آئینی ترمیم کا بل منظور کیا۔ سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے قانون و انصاف کے چیئرمین فاروق ایچ نائیک نے ان تبدیلیوں کے بارے میں ایوان بالا کو ایک رپورٹ پیش کی۔ یہ بل، جسے اعظم نذیر تارڑ نے ہفتے کے روز اپوزیشن کے احتجاج کے باوجود اور وفاقی کابینہ کی منظوری کے چند گھنٹوں بعد سینیٹ میں پیش کیا تھا، کا مقصد ایک وفاقی آئینی عدالت کا قیام اور فیلڈ مارشل کے عہدے کو تاحیات حیثیت دینا ہے۔ نائب وزیراعظم اسحٰق ڈار، جنہوں نے کہا کہ تمام اہم ترامیم، بشمول آرٹیکل 243 میں تبدیلیاں، جو وفاقی حکومت کو ”مسلح افواج پر کنٹرول اور کمانڈ حاصل ہو گی“ اور فوجی کمانڈ کے ڈھانچے سے متعلق ہیں، کو دونوں کمیٹیوں نے خوش اسلوبی سے منظور کر لیا۔ سینیٹر فاروق ایچ نائیک نے کہا کہ بل کو معمولی تبدیلیوں کے ساتھ اپنایا گیا۔ انہوں نے کہا کہ کمیٹیوں نے انہیں اور وزیر قانون کو چند ترامیم کرنے کا اختیار دیا۔تاہم، کمیٹیوں نے متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) کی آرٹیکل 140 میں ترمیم کی تجویز کو مؤخر کر دیا، جو بلدیاتی حکومتوں سے متعلق ہے، نیز عوامی نیشنل پارٹی (اے این پی ) کی خیبر پختونخوا کا نام تبدیل کرنے کی سفارش کو بھی مؤخر کر دیا گیا۔اے این پی نے صوبے کا نام ’خیبر‘ کو ہٹا کر تبدیل کرنے کی تجویز پیش کی تھی، یہ دلیل دیتے ہوئے کہ خیبر ایک ضلع ہے اور دیگر صوبوں کے ناموں میں ضلع کے نام شامل نہیں ہیں۔ اسی طرح، بلوچستان نیشنل پارٹی کی پارلیمنٹ میں صوبے کی نشستوں میں اضافہ کی مجوزہ ترمیم کو بھی مؤخر کر دیا گیا۔اس سے قبل دن میں، اے این پی کے ہدایت اللہ خان نے بتایا کہ کمیٹی نے ان کی پارٹی کی خیبر پختونخوا کا نام تبدیل کرنے کی تجویز پر فیصلہ کرنے کے لیے پیر تک کا وقت مانگا ہے۔ دریں اثنا، وزیر قانون نے بتایا کہ یہ فیصلہ کیا گیا ہے کہ خیبر پختونخوا کا نام تبدیل کرنے کے بارے میں صوبوں کو اعتماد میں لیا جائے گا۔ وفاقی وزیر برائے اطلاعات و نشریات عطا اللہ تارڑ نے کہا ہے کہ 27 ویں آئینی ترمیم کے حوالے سے کسی قسم کا کوئی ڈیڈ لاک نہیں، ہمارے ووٹ پورے ہیں، کسی قسم کا کوئی ابہام نہیں۔ وزیر اطلاعات نے کہا کہ وزیراعظم شہباز شریف نے استثنیٰ نہ لینے کا فیصلہ کیا تھا اور کل آذربائیجان سے واپس آتے ہی انہوں نے ہدایت کی اور آج کمیٹی سے بھی وہ شق واپس ہوگئی، یہ ایک احسن اقدام ہے، وزیراعظم محمد شہباز شریف نے سمجھا کہ وہ عوام اور قانون کی عدالت میں جوابدہ ہیں۔ وفاقی وزیر اطلاعات نے کہا کہ تمام ترامیم گڈ گورننس، وفاق کے صوبوں کے ساتھ مضبوط رشتے، پاکستان کو دفاعی طور پر مزید مضبوط کرنے اور دفاعی قوت میں اضافے کے لیے بڑی سیر حاصل گفتگو کے بعد لائی گئیں۔ پوری دنیا میں سربراہ ریاست کو استثنیٰ حاصل ہوتا ہے، یہ چوائس ہوتی ہے، دنیا بھر میں یہ نظام رائج ہے۔ پوری دنیا میں آئینی عدالتوں کا تصور موجود ہے، چارٹر آف ڈیموکریسی کے وقت سے یہ بحث چل رہی تھی کہ آئینی عدالتیں ہونی چاہئیں، مسلم لیگ (ن)، پیپلز پارٹی اور اے این پی کا یہ مشترکہ مطالبہ تھا، کئی دہائیوں سے چلتی ہوئی بحث اب منطقی انجام تک پہنچی ہے 26 ویں آئینی ترمیم میں آئینی بنچ بنایا گیا، جس کے ثمرات سامنے آئے ہیں، عدالتوں میں مقدمات کا ورک لوڈ کم ہوا، جبکہ عدلیہ کی کارکردگی میں بھی اضافہ ہوا, آئینی معاملات کم ہوتے ہیں، مگر ان پر وقت بہت زیادہ صرف ہوتا ہے، انہوں نے کہا کہ جوڈیشل ریفارمز میں اصلاحات انصاف کی جلد اور فوری فراہمی کے لیے احسن قدم ہے۔ ہمارے ووٹ پورے ہیں، کسی قسم کا کوئی ابہام نہیں ، یہ مثبت آئینی ترامیم ہیں اور بہترین عالمی طریقوں کو دیکھتے ہوئے تیار کی گئی ہیں وفاقی وزیر نے کہا کہ آئین ایک زندہ دستاویز ہے جس میں ارتقا کا عمل مرحلہ وار چلتا رہتا ہے اور اس کے تحت آج تک 27 ترامیم ہوئی ہیں جو خوش آئند ہے۔آئینی ترمیم کے لیے پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں میں دو تہائی اکثریت درکار ہوتی ہے، لہٰذا جب سینیٹ میں بل پر ووٹ ہوگا، جس میں 96 اراکین ہیں، تو کم از کم 64 سینیٹرز کی حمایت درکار ہوگی۔ تاہم، حکمران اتحاد کو ایوان بالا میں دو تہائی اکثریت حاصل نہیں ہے، 61 سینیٹرز کے ساتھ اتحاد کو بل کی منظوری کے لیے حزب اختلاف کے کم از کم 3 ووٹ درکار ہوں گے۔ سینیٹ کی منظوری کے بعد، بل پر قومی اسمبلی (این اے) میں بھی ووٹ ہونا ہے، جس کا اجلاس آج شام 4:30 بجے مقرر ہے۔ 336 رکنی قومی اسمبلی میں حکمران اتحاد کو دو تہائی اکثریت حاصل ہے، اس کے پاس 233 اراکین ہیں جبکہ حزب اختلاف کے پاس 103 ہیں۔ حکومتی اتحاد کے اندر پی ایم ایل این کے 125، پی پی پی کے 74، ایم کیو ایم-پی کے 22، پی ایم ایل-کیو کے 5، استحکامِ پاکستان پارٹی کے 4، اور پی ایم ایل-زیڈ، بلوچستان عوامی پارٹی اور نیشنل پیپلز پارٹی کی ایک ایک نشست ہے۔ یہ بل وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے حزب اختلاف کی شدید مخالفت کے درمیان اور وفاقی کابینہ کی منظوری کے چند گھنٹے بعد سینیٹ میں ہفتے کے روز پیش کیا تھا، اسے وفاقی آئینی عدالت کے قیام اور فیلڈ مارشل کے عہدے کو عمر بھر کے لیے برقرار رکھنے کے لیے بنایا گیا ہے۔ اتوار کے روز، سینیٹ اور قومی اسمبلی کی قانون و انصاف اسٹینڈنگ کمیٹیوں کے مشترکہ اجلاس نے حزب اختلاف کے بائیکاٹ کے باوجود آئین کی 27ویں ترمیم کے بل کو معمولی ترامیم کے ساتھ منظور کر لیا تھا۔ سینیٹر فاروق ایچ نائیک نے اجلاس کی صدارت کرتے ہوئے کہا تھا کہ بل معمولی ترامیم کے ساتھ منظور کر لیا گیا ہے تاہم، متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) کی تجویز میں مقامی حکومتوں سے متعلق آرٹیکل 140 میں ترمیم کی سفارش، اور عوامی نیشنل پارٹی (اے این پی) کی خیبر پختونخوا کے نام کی تبدیلی کی تجویز کو مؤخر کر دیا گیا تھا۔ پارلیمنٹ کے ایوان بالا (سینیٹ) کے قائد ایوان اور نائب وزیراعظم سینیٹر اسحاق ڈار نے کہا ہے کہ وعدے کے مطابق بل پہلے سینیٹ میں لے کر آئے، تاریخی بل سینیٹ سے منظور ہونے پر مبارک باد پیش کرتا ہوں۔سینیٹ اجلاس سے خطاب میں نائب وزیراعظم نے کہا کہ سابق وزرائے اعظم نواز شریف، بینظیر بھٹو سمیت تمام جماعتوں نے میثاق جمہوریت پر دستخط کیے۔ میثاق جمہوریت میں بھی آئینی عدالت پر اتفاق کیا گیا تھا، آئینی ترامیم عدالتی نظام میں بہتری کے لیے کی گئی ہیں، موجودہ چیف جسٹس سمیت تمام ججز کی سینیارٹی برقرار رہے گی۔ دوسری اہم ترمیم آرٹیکل 243 میں ترمیم ہے، بھارت سے حالیہ جنگ میں پاکستان نے تاریخی فتح حاصل کی۔ اُن کا کہنا تھا کہ قوم نے بھارت کے ساتھ جنگ میں آرمی چیف عاصم منیر کو ہیرو قرار دیا، فیلد مارشل کا عہدہ آئین میں نہیں تھا۔ اسحاق ڈار نے یہ بھی کہا کہ وعدے کے مطابق بل پہلے سینیٹ میں لے کر آئے، تاریخی بل کے منظور ہونے پر ایوان کو مبارک باد پیش کرتا ہوں۔ 18ویں ترمیم کے وقت 2 تجاویز تھی کہ ہزارہ پختونخوا یا خیبر پختونخوا نام دیا جائے، دونوں تجاویز اے این پی کو دی گئیں، پھر صوبے کا نام خیبر پختونخوا تجویز ہوا۔مسلم لیگ ن کے سینیٹر رانا ثنا اللّٰہ کا کہنا ہے کہ فیلڈ مارشل کو استثنیٰ دینے سے آرٹیکل 6 ختم نہیں ہوتا۔ حکومت کے پاس ترمیم لانے کے لیے نمبر گیم پورے ہیں، حکومت کو ترامیم لانے کے لیے 65 اراکین کی حمایت حاصل ہے۔علاوہ ازیں پارلیمنٹ ہاؤس میں گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ آرٹیکل 248 میں ترمیم قومی ہیروز اور آئینی عہدہ رکھنے والوں کی تعظیم ہے، ایک شخص کو قومی ہیرو کا درجہ دے کر واپس لینے والا مذاق نہیں ہونا چاہیے۔نیشنل ہیروز کے اعزاز کی واپسی کو آرٹیکل 47 کے تحت اس عمل سے گزارا گیا ہے، صدر پاکستان اور نیشنل ہیروز پر آرٹیکل 6 کیسے لگ سکتا ہے، یہ معاملے کو مزید الجھانے والی بات ہے۔پارلیمنٹ میں اظہار خیال کرتے ہوئےوزیر قانون اعظم نذیر تارڑ کا کہنا ہے کہ تجویز ہے حالیہ دفاعی تقاضوں کے تحت چیئرمین جوائنٹ چیف آف اسٹاف کا عہدہ ختم کیا جائے گا، 27 نومبر تک چیئرمین جوائنٹ چیفس آف اسٹاف کمیٹی کا یہ عہدہ بحال رہے گا۔ 1973 سے پہلے کمانڈر انچیف ہی دفاعی فورسز کا سربراہ ہوتا تھا، جس دن پارلیمان نے آرمی چیف اور نیول چیف کی مدت ملازمت پانچ سال کی اسی دن دو سال بڑھ گئی تھی۔ آرمی چیف کی مدت ملازمت کے حوالے سے کسی بحث اور نوٹیفکیشن کی ضرورت نہیں، آرمی چیف کی مدت کا تعین قانون کے مطابق ہوچکا ہے اس کے نوٹیفکیشن کی ضرورت نہیں، یہ غیر ضروری بحث ہے کہ 29 یا 27 نومبر کو آرمی چیف کی مدت ملازمت ختم ہونی ہے۔

فیلڈ مارشل اور آرمی چیف میں فرق کیا ہے، اس کی وضاحت آئین میں موجود ہے، آرمی چیف نے جنگ میں دونوں ساتھیوں کو ساتھ ملا کر لیڈ کیا، چیف آف ڈیفنس فورسز کے عہدے کی مدت کا تعین آئین کے مطابق کیا جائے گا، وزارت دفاع آرمی ایکٹ میں معمولی ترمیم پر کام کر رہی ہے۔ کون سے مقدمات آئینی عدالت یا سپریم کورٹ سنے گی، اس کی بھی پوری وضاحت کر دی ہے، سو موٹو کو ختم کیا گیا، کورٹ پہلے مطمئن کرے گی۔دوسری طرف سینیٹ میں اظہار خیال کرتے ہوئے پی ٹی آئی کے سینیٹر سیف اللّٰہ ابڑو نے کہا کہ میں آج سینیٹ کی رکینت سے استعفی دیتا ہوں، جس کے جواب میں چیئرمین سینیٹ یوسف رضا گیلانی نے کہا کہ ہم آپ کو پھر سینیٹر بنا دیں گے۔ پی ٹی آئی کے سینیٹرنے کہا کہ پاک بھارت جنگ میں پاکستان کی فتح ہم سب کے لیے فخر ہے، امریکی صدر ٹرمپ نے جتنی عزت ہمارے فیلڈ مارشل کو دی کسی صدر وزیراعظم کو نہیں دی۔ خیال رہے کہ سینیٹ میں 27ویں آئینی ترمیم منظور کرلی گئی، 64 اراکین نے ووٹ دیا۔ اس سے قبل ترمیم کی 59 شقوں کی سلسلہ وار منظوری دی گئی۔ حکومت کو سینیٹ میں مطلوبہ 64 ووٹ مل گئے، 27ویں آئینی ترمیم کی شق وار منظوری کا عمل مکمل ہونے کے بعد تمام شقیں منظور کرلی گئیں۔ مجوزہ 27ویں آئینی ترمیم کے مسودے کی منظوری کے لیے سینیٹ اجلاس میں پی ٹی آئی سینیٹر سیف اللّٰہ ابڑو اور جمعیت علماء اسلام ف کے سینیٹر احمد خان نے ترمیم کے حق میں ووٹ دیا۔ پی ٹی آئی ارکان نے چیئرمین سینیٹ کے ڈائس کے سامنے احتجاج کیا، سینیٹر سیف اللّٰہ ابڑو نشست پر بیٹھے رہے، احتجاج میں شریک نہیں ہوئے۔سینیٹ اجلاس میں اظہار خیال کرتے ہوئے مسلم لیگ ن کے سینیٹر آغا شاہزیب درانی نے کہا ہے کہ اپوزیشن والے اپنی ترامیم لاتے، کمیٹی میں جاتے، یہ ہمیں بتاتے کہ اس آئینی ترمیم میں مسئلہ کیا ہے۔انہوں نے کہا کہ جرمنی، اٹلی، اسپین میں بھی آئینی عدالت ہیں، آئینی عدالت سے کیا مسئلہ ہے وہ تو بیان کریں، اپوزیشن نے یہ ترامیم پڑھی ہی نہیں ہیں۔ سپریم کورٹ میں 50 ہزار کیسز زیر التوا ہیں وہ کیسے ختم کیے جائیں گے۔ سینیٹر آغا شاہزیب درانی کا کہنا ہے کہ 2022 میں انہوں نے خود قانون میں ترمیم کی اور خود اس کا نشانہ بنے، 52 منٹ میں 52 بل اسی ایوان سے پاس ہوئے، اس وقت جمہوریت کہاں تھی؟ قانون و انصاف کی مشترکہ پارلیمانی کمیٹی نے گزشتہ روز بنیادی مسودے کی منظوری دی تھی۔ ہفتے کی دوپہر وفاقی کابینہ نے 27ویں آئینی ترمیم کے بل کی منظوری دی اور اسے مکمل طور پر خوش آئند قرار دیا۔ بعد ازاں یہ بل سینیٹ میں پیش کیا گیا، جہاں اپوزیشن کی جانب سے مجوزہ ترامیم کی وسعت اور تیزی پر شدید احتجاج کیا گیا۔ سینیٹ میں پیش ہونے والے 27ویں آئینی ترمیم کے مجوزہ مسودے کی تفصیلات سامنے آگئیں، جس میں آئین پاکستان کے 48 آرٹیکلز میں ترامیم تجویز کی گئی ہیں۔ آئین کے آرٹیکل243 میں سے چیئرمین جوائنٹ چیفس آف اسٹاف کا عہدہ تحلیل کرکے چیف آف ڈیفنس فورسز کا عہدہ تخلیق کیا گیا ہے، ایک تجویز کے مطابق فیلڈ مارشل کا عہدہ تاحیات رہے گا۔ ججز کے تبادلے جوڈیشل کمیشن آف پاکستان کے سپرد کیے جانے کی تجویز بھی دی گئی ہے، جج نے جس ہائیکورٹ سے ٹرانسفر پر جانا ہے اور جس ہائیکورٹ میں جانا ہے، ان کے چیف جسٹس بھی تبادلے کے عمل کا حصہ ہوں گے۔ 27ویں آئینی ترمیم میں بلوچستان میں صوبائی اسمبلی کی نشستوں میں اضافے کی تجویز بھی دی گئی ہے، صوبائی کابینہ کے حجم میں اضافے کی تجویز بھی زیرِ غور ہے، صوبائی کابینہ کے مشیران کی تعداد میں اضافہ کیا جائے گا۔ ایک وقت میں پورے سینیٹ کے انتخابات کرانے کے حوالے سے ترامیم بھی تجویز کی گئی ہیں، ایک تجویز کے مطابق فیلڈ مارشل کا عہدہ ’تاحیات‘ رکھنے کی تجویز بھی دی گئی ہے۔ قبل ازیں، باکو میں موجود وزیراعظم شہباز شریف نے ویڈیو لنک پر وفاقی کابینہ کے اجلاس کی صدارت کی تھی، وفاقی کابینہ کے اجلاس میں 27ویں آئینی ترمیم کی منظوری دے دی گئی تھی، وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے بتایا تھا کہ میثاق جمہوریت کے مطابق آئین کے آرٹیکل 243 میں ترمیم کی منظوری دے دی گئی ہے، جس کے مطابق آئینی عدالت تشکیل دی جائے گی، اب پارلیمنٹ آئین میں ترمیم پر بحث کے بعد ان کی منظوری کا حتمی فیصلہ کرے گی، علاوہ ازیں وزیراعظم محمد شہباز شریف نے کہا ہےکہ 27 ویں آئینی ترمیم پر قائد میاں نواز شریف کو اعتماد میں لیا، ملک کی ترقی و خوشحالی کے لیے سب نے مل کر کام کرنا ہے۔وزیراعظم نے کابینہ ارکان کا خیرمقدم کیا اور اتحادی جماعتوں کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ وفاق کے صوبوں کے ساتھ رشتے کی مضبوطی اور ملک کے وسیع مفاد میں 27ویں آئینی ترمیم کیلئے سب نے مل کر کوشش کی، جس کیلئے وزارت قانون و انصاف، اٹارنی جنرل اور انکی ٹیم لائق تحسین ہے۔ 27 ویں آئینی ترمیم پر اپنے قائد میاں محمد نواز شریف کو اعتماد میں لیا اور ان سے اس پر رہنمائی حاصل کی جس پر ان کا تہہ دل سے مشکور ہوں، صدر مملکت آصف علی زرداری کو بھی ترمیم کے حوالے سے اعتماد میں لیا اور ان کی رضامندی پر تہہ دل سے شکر گزار ہیں۔ وزیرِاعظم نے کہا کہ تمام اتحادی جماعتوں کے سربراہان بالخصوص، بلاول بھٹو زرداری، ڈاکٹر خالد مقبول صدیقی، عبدالعلیم خان، خالد حسین مگسی اور چوہدری سالک حسین کا شکر گزار ہوں جن سے ان کی جماعتوں کے وفود کے ہمراہ بذات خود مشاورت کی اور انہوں نے اس مسودے کی بھرپور تائید کی۔ انہوں نے بتایا کہ ایمل ولی خان، اعجاز الحق اور دیگر سیاسی رہنماؤں سے بھی مشاورت کی اور انہیں آئینی ترمیم کے حوالے سے اعتماد میں لیا، اللہ کے فضل و کرم سے ملک میں سیاسی و معاشی استحکام کی بدولت ملک کی سمت درست ہوئی، ملک کی ترقی و خوشحالی کیلئے سب کو مل کر کام کرنا ہے۔27ویں آئینی ترمیم کے مسودے میں مسلح افواج کے سربراہان سے متعلق آئین کے آرٹیکل 243 میں ترمیم کی تجویز کی گئی تھی۔ ترمیمی مسودے کے تحت وزیراعظم کی ایڈوائس پر صدر آرمی چیف اور چیف آف ڈیفینس فورس کو مقرر کریں گے۔ آئین کے آرٹیکل 243 میں ترمیمی مسودے کے تحت چیئرمین جوائنٹ چیف آف سٹاف کمیٹی کا عہدہ 27 نومبر 2025 کو ختم ہو جائے گا چیف آف آرمی سٹاف جو چیف آف ڈیفینس فورسز بھی ہوں گے، وزیر اعظم کی مشاورت سے نیشنل سٹریٹیجک کمانڈ کے سربراہ مقرر کریں گے اور نیشنل سٹریٹیجک کمانڈ کے سربراہ کا تعلق پاکستانی فوج سے ہو گا۔ حکومت مسلح افواج سے تعلق رکھنے والے افراد کو فیلڈ مارشل، مارشل آف ایئر فورس اور ایڈمرل آف فلیٹ کے عہدے پر ترقی دے سکے گی۔ فیلڈ مارشل کا رینک اور مراعات تاحیات ہوں گی یعنی فیلڈ مارشل تاحیات فیلڈ مارشل رہیں گے۔ دو روز قبل سینیٹ میں تقریر کے دوران وزیر قانون نے کہا تھا کہ آرمی چیف کی خدمات اور حالیہ جنگ میں کامیابی تسلیم کرتے ہوئے انھیں فیلڈ مارشل کے عہدے سے نوازا گیا۔ ان کا کہنا تھا کہ ’فیلڈ مارشل کا خطاب اور رینک ہے، کوئی تعیناتی نہیں۔ آرمی چیف ایک تعیناتی ہے جس کی مدت پانچ سال ہے۔ مدت ختم ہونے پر وہ عہدہ چھوڑ دیتے ہیں، اگر انھیں توسیع نہ دی جائے۔ وزیر قانون نے کہا کہ آئینی ترمیم میں فیلڈ مارشل، مارشل آف دی ایئر فورس یا فلیٹ ایڈمرل کا ذکر کیا گیا۔ ’یہ قومی ہیروز ہوں گے، ساری دنیا میں یہ خطاب تاحیات ہے۔‘ ان کا کہنا تھا کہ اس عہدے اور خطاب کو آئینی تحفظ دیا گیا۔ ’اس (عہدے) کا مواخذہ یا واپسی وزیر اعظم کا اختیار نہیں ہوگا بلکہ پارلیمان کا اختیار ہو گا کیونکہ وہ ساری قوم کا ہیرو ہے، کسی ایک وزیر اعظم یا ایگزیکٹو کا ہیرو نہیں آرمی چیف چیف آف ڈیفینس فورسز ہوں گے، چیف آف نیول سٹاف اور ایئر سٹاف کی تعیناتی بھی اسی طرح وزیر اعظم کی ایڈوائس پر ہوا کرے گی۔ موجودہ چیئرمین جوائنٹ چیف آف سٹاف بھی ہمارے قومی ہیرو ہیں، جب ان کی مدت ملازمت ختم ہوگی تبھی یہ عہد ختم ہو گا۔ اس کے بعد نئی تقرری نہیں ہو گی کیونکہ ہم نے چیف آف آرمی سٹاف کو ہی چیف آف ڈیفینس فورسز کی ذمہ داری سونپی ہے چیئرمین جوائنٹ چیف آف سٹاف کی ذمہ داریوں میں سے ایک نیشنل سٹریجیٹک کمانڈ ہے۔ یہ دفاعی صلاحتیوں اور میزائل نظام سے متعلق حساس ذمہ داری ہے جس کے لیے وزیر اعظم تعیناتی کریں گے جب فیلڈ مارشل کمانڈ چھوڑیں گے تو وفاقی حکومت کا اختیار ہو گا کہ وہ انھیں اعزازی یا مشاورتی رول میں کام کرنے دیں۔27ویں آئینی ترمیم میں آئینی عدالت کا قیام اور اس کا طریقہ کار بھی وضع کیا گیا ہے۔ bخیال رہے کہ گذشتہ برس 26ویں آئینی ترمیم کے تحت آئینی بینچ قائم کیا گیا تھا جسے اب آئینی عدالت کا درجہ دیا جا رہا ہے۔سنہ 2006 میں مسلم لیگ اور پیپلز پارٹی کی قیادت کے درمیان طے پانے والی ’میثاق جمہوریت‘ میں بھی وفاقی آئینی عدالت کے قیام کا ذکر تھا لہذا اس پر اب عملدرآمد کیا جائے گا۔ آئینی عدالت کا سربراہ اس کا چیف جسٹس ہو گا جبکہ اس میں تمام صوبوں سے برابر تعداد میں ججز تعینات کیے جائیں گے۔ بطور آئینی عدالت جج تعیناتی یہ شرائط رکھی گئی ہیں: وہ سپریم کورٹ میں بطور جج کام کر چکے ہوں، ہائیکورٹ میں کم از کم سات سال جج رہے ہوں، 20 سال تک ہائیکورٹ اور سپریم کورٹ میں بطور ایڈووکیٹ کام کیا ہو اور سینیارٹی حاصل ہو۔مسودے کے مطابق آئینی عدالت کو دو یا اس سے زیادہ حکومتوں کے درمیان اختلافات میں اصل جیورسڈکشن حاصل ہو گی جبکہ وفاقی آئینی عدالت کے جج کی ریٹائرمنٹ کی عمر 68 برس ہو گی۔ سینیٹ تقریر میں وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے کہا کہ مشاورت کے بعد یہ طے کیا گیا کہ وفاقی آئینی عدالت کے قیام کی تجویز پارلیمان میں لائی جائے۔ وہ کہتے ہیں کہ حکومت اس کے لیے آئین کی 40 شقوں میں تبدیلی کرنے جا رہی ہے تاکہ وہاں وفاقی آئینی عدالت، اس کے چیف جسٹس اور ججز کا ذکر ہو گا۔ ان شقوں میں تبدیلی سے آئین کا مفہوم تبدیل نہیں کیا جا رہا۔آئینی ترمیم میں سپریم کورٹ کی اصل جیورسڈکشن اور ازخود نوٹس اختیارات سے متعلق آرٹیکل 184 ختم کیا جا رہا ہے۔ خیال رہے کہ آرٹیکل 184 (3) کے تحت سپریم کورٹ کے پاس عوامی اہمیت کے حامل مسائل پر ازخود نوٹس لینے کا اختیار تھا جبکہ آرٹیکل 186 کے ذریعے وفاقی آئینی عدالت یا سپریم کورٹ کو انصاف کے تقاضوں کے مطابق کسی بھی کیس کو اپنے پاس ٹرانسفر کرنے کا اختیار دیا گیا ہے۔27ویں آئینی ترمیم کے مسودے کے مطابق صدر کو یہ اختیار دیا گیا ہے کہ وہ کسی ہائیکورٹ کے جج کو جوڈیشل کمیشن آف پاکستان کی تجویز پر کسی اور ہائیکورٹ میں ٹرانسفر کر سکتے ہیں۔ اس مجوزہ ترمیم میں اہم بات یہ ہے کہ اگر ہائیکورٹ کا کوئی جج تبادلے کو قبول نہیں کرتا تو اسے اپنے عہدے سے ریٹائرڈ تصور کیا جائے گا۔ جبکہ یہ بھی تجویز کیا گیا ہے کہ اگر ہائیکورٹ کا جج وفاقی آئینی عدالت کا سپریم کورٹ میں تعیناتی قبول نہیں کرتا تو اسے بھی ریٹائرڈ تصور کیا جائے گا۔ وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ کا کہنا ہے کہ 1973 کے آئین میں ججز کے ٹرانفسر کے لیے آرٹیکل 200 موجود ہے جس کے مطابق کسی بھی ہائیکورٹ جج کو صدر مملکت وزیر اعظم کی ایڈوائس پر دوسری ہائیکورٹ میں ٹرانسفر کر سکتے ہیں۔27ویں آئینی ترمیم کے مسودے میں مسلح افواج کے سربراہان سے متعلق آئین کے آرٹیکل 243 میں ترمیم کی تجویز کی گئی تھی۔ ترمیمی مسودے کے تحت وزیراعظم کی ایڈوائس پر صدر آرمی چیف اور چیف آف ڈیفینس فورس کو مقرر کریں گے۔ آئین کے آرٹیکل 243 میں ترمیمی مسودے کے تحت چیئرمین جوائنٹ چیف آف سٹاف کمیٹی کا عہدہ 27 نومبر 2025 کو ختم ہو جائے گا چیف آف آرمی سٹاف جو چیف آف ڈیفینس فورسز بھی ہوں گے، وزیر اعظم کی مشاورت سے نیشنل سٹریٹیجک کمانڈ کے سربراہ مقرر کریں گے اور نیشنل سٹریٹیجک کمانڈ کے سربراہ کا تعلق پاکستانی فوج سے ہو گا۔ حکومت مسلح افواج سے تعلق رکھنے والے افراد کو فیلڈ مارشل، مارشل آف ایئر فورس اور ایڈمرل آف فلیٹ کے عہدے پر ترقی دے سکے گی۔ فیلڈ مارشل کا رینک اور مراعات تاحیات ہوں گی یعنی فیلڈ مارشل تاحیات فیلڈ مارشل رہیں گے۔ دو روز قبل سینیٹ میں تقریر کے دوران وزیر قانون نے کہا تھا کہ آرمی چیف کی خدمات اور حالیہ جنگ میں کامیابی تسلیم کرتے ہوئے انھیں فیلڈ مارشل کے عہدے سے نوازا گیا۔ ان کا کہنا تھا کہ ’فیلڈ مارشل کا خطاب اور رینک ہے، کوئی تعیناتی نہیں۔ آرمی چیف ایک تعیناتی ہے جس کی مدت پانچ سال ہے۔ مدت ختم ہونے پر وہ عہدہ چھوڑ دیتے ہیں، اگر انھیں توسیع نہ دی جائے۔ وزیر قانون نے کہا کہ آئینی ترمیم میں فیلڈ مارشل، مارشل آف دی ایئر فورس یا فلیٹ ایڈمرل کا ذکر کیا گیا۔ ’یہ قومی ہیروز ہوں گے، ساری دنیا میں یہ خطاب تاحیات ہے۔‘ ان کا کہنا تھا کہ اس عہدے اور خطاب کو آئینی تحفظ دیا گیا۔ ’اس (عہدے) کا مواخذہ یا واپسی وزیر اعظم کا اختیار نہیں ہوگا بلکہ پارلیمان کا اختیار ہو گا کیونکہ وہ ساری قوم کا ہیرو ہے، کسی ایک وزیر اعظم یا ایگزیکٹو کا ہیرو نہیں آرمی چیف چیف آف ڈیفینس فورسز ہوں گے، چیف آف نیول سٹاف اور ایئر سٹاف کی تعیناتی بھی اسی طرح وزیر اعظم کی ایڈوائس پر ہوا کرے گی۔ موجودہ چیئرمین جوائنٹ چیف آف سٹاف بھی ہمارے قومی ہیرو ہیں، جب ان کی مدت ملازمت ختم ہوگی تبھی یہ عہد ختم ہو گا۔ اس کے بعد نئی تقرری نہیں ہو گی کیونکہ ہم نے چیف آف آرمی سٹاف کو ہی چیف آف ڈیفینس فورسز کی ذمہ داری سونپی ہے چیئرمین جوائنٹ چیف آف سٹاف کی ذمہ داریوں میں سے ایک نیشنل سٹریجیٹک کمانڈ ہے۔ یہ دفاعی صلاحتیوں اور میزائل نظام سے متعلق حساس ذمہ داری ہے جس کے لیے وزیر اعظم تعیناتی کریں گے جب فیلڈ مارشل کمانڈ چھوڑیں گے تو وفاقی حکومت کا اختیار ہو گا کہ وہ انھیں اعزازی یا مشاورتی رول میں کام کرنے دیں۔27ویں آئینی ترمیم میں آئینی عدالت کا قیام اور اس کا طریقہ کار بھی وضع کیا گیا ہے۔ bخیال رہے کہ گذشتہ برس 26ویں آئینی ترمیم کے تحت آئینی بینچ قائم کیا گیا تھا جسے اب آئینی عدالت کا درجہ دیا جا رہا ہے۔سنہ 2006 میں مسلم لیگ اور پیپلز پارٹی کی قیادت کے درمیان طے پانے والی ’میثاق جمہوریت‘ میں بھی وفاقی آئینی عدالت کے قیام کا ذکر تھا لہذا اس پر اب عملدرآمد کیا جائے گا۔ آئینی عدالت کا سربراہ اس کا چیف جسٹس ہو گا جبکہ اس میں تمام صوبوں سے برابر تعداد میں ججز تعینات کیے جائیں گے۔ بطور آئینی عدالت جج تعیناتی یہ شرائط رکھی گئی ہیں: وہ سپریم کورٹ میں بطور جج کام کر چکے ہوں، ہائیکورٹ میں کم از کم سات سال جج رہے ہوں، 20 سال تک ہائیکورٹ اور سپریم کورٹ میں بطور ایڈووکیٹ کام کیا ہو اور سینیارٹی حاصل ہو۔مسودے کے مطابق آئینی عدالت کو دو یا اس سے زیادہ حکومتوں کے درمیان اختلافات میں اصل جیورسڈکشن حاصل ہو گی جبکہ وفاقی آئینی عدالت کے جج کی ریٹائرمنٹ کی عمر 68 برس ہو گی۔ سینیٹ تقریر میں وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے کہا کہ مشاورت کے بعد یہ طے کیا گیا کہ وفاقی آئینی عدالت کے قیام کی تجویز پارلیمان میں لائی جائے۔ وہ کہتے ہیں کہ حکومت اس کے لیے آئین کی 40 شقوں میں تبدیلی کرنے جا رہی ہے تاکہ وہاں وفاقی آئینی عدالت، اس کے چیف جسٹس اور ججز کا ذکر ہو گا۔ ان شقوں میں تبدیلی سے آئین کا مفہوم تبدیل نہیں کیا جا رہا۔آئینی ترمیم میں سپریم کورٹ کی اصل جیورسڈکشن اور ازخود نوٹس اختیارات سے متعلق آرٹیکل 184 ختم کیا جا رہا ہے۔ خیال رہے کہ آرٹیکل 184 (3) کے تحت سپریم کورٹ کے پاس عوامی اہمیت کے حامل مسائل پر ازخود نوٹس لینے کا اختیار تھا جبکہ آرٹیکل 186 کے ذریعے وفاقی آئینی عدالت یا سپریم کورٹ کو انصاف کے تقاضوں کے مطابق کسی بھی کیس کو اپنے پاس ٹرانسفر کرنے کا اختیار دیا گیا ہے۔ خیال رہے کہ 20 اکتوبر 2024 کو رات گئے قومی اسمبلی اور سینیٹ میں 26 ویں آئینی ترمیم کا بل دو تہائی اکثریت سے منظور ہوا تو پاکستان کے سیاسی منظر نامے پر ہفتوں سے جاری اگر، مگر، کیونکہ اور چنانچہ کی گردان اور وسوسوں کی گرد بیٹھتی دکھائی دی۔26ویں آئینی ترمیم کے نکات پر سیاسی جماعتوں کے اتفاق سے لے کر منظوری تک تقریباً دو ماہ کے عرصے میں سیاستدانوں کی ملاقاتیں، تجاویز، اختلافات، پارلیمانی کمیٹی کی تشکیل، مسودے، روٹھنا منانا یہ سب کچھ شہہ سرخیوں میں زیر بحث رہا۔ تاہم اب ترمیم کی منظوری کے بعد یہ بحث جاری ہے کہ اس تمام تر عمل سے حکومت اور اپوزیشن جماعتیں سیاسی طور پر کیا حاصل کر پائی۔ مولانا فضل الرحمان اور بلاول بھٹو کے درمیان دن میں کئی بار ملاقات کے مناظر ہوں، حکومتی وزرا کے ’نمبر گیم‘ پوری ہونے کے دعوے اور ’اتفاق رائے‘ پر بیان بازی ہو یا پی ٹی آئی کا پارلیمانی کمیٹی میں شرکت کے باوجود سفارشات پیش نہ کرنے کی بحث ۔اس آئینی ترمیم کے لیے ہونے والی بیٹھکوں میں پارلیمان کی سب ہی جماعتیں پیش پیش دکھائی دیں۔ 26ویں آئینی ترمیم کے مسودے کی تیاری سے منظوری تک کے تمام عرصے میں جو شخصیت سیاسی طور پر سب سے نمایاں اور اہم دکھائی دی وہ بلاشبہ جمیعت علما اسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمان کی تھی۔یاد رہے کہ جے یو آئی کی فروری 2024 کے عام انتخابات کے بعد قومی اسمبلی میں صرف آٹھ اور سینیٹ میں پانچ نشتیں ہیں۔ مگر اس آئینی ترمیم کے مسودے کی تیاری کے دوران فضل الرحمان نہ صرف سیاستدانوں میں ’ہاٹ فیورٹ‘ دکھائی دیے