اسلام آباد (ٹی این ایس) بین الپارلیمانی اسپیکرزکانفرنس کاانعقاد پاکستان کیلئے باعث فخرقرار

 
0
16

اسلام آباد (ٹی این ایس) اسلام آباد میں دو روزہ بین الپارلیمانی اسپیکرز کانفرنس امن، سلامتی اور پائیدار ترقی کے فروغ کے لیے پاکستان کے بڑھتے ہوئے کردار کی علامت ہے
بین الپارلیمانی اسپیکرز کانفرنس اسلام آباد میں دنیا کے 40 سے زائد ممالک کے سپیکرز، ڈپٹی سپیکرز اور پارلیمانی وفود شرکت کر رہے ہیں یہ اہم سفارتی اجتماع عالمی امن، سلامتی اور پائیدار ترقی کے فروغ کے لیے پاکستان کے بڑھتے ہوئے کردار کی علامت قرار دیا جا رہا ہےافتتاحی اجلاس کا آغاز تلاوتِ قرآنِ مجید سے ہوا، جس کے بعد قومی ترانہ پیش کیا گیا

وزیراعظم محمد شہباز شریف، چیئرمین سینیٹ سید یوسف رضا گیلانی اور مختلف بین الاقوامی تنظیموں کے نمائندے اس موقع پر موجود تھے۔اس سال کی کانفرنس کا موضوع “امن، سلامتی اور ترقی” ہے، جو اس بڑھتی ہوئے عالمی اتفاقِ رائے کی عکاسی کرتا ہے کہ پائیدار ترقی اور عالمی استحکام ایک دوسرے سے جڑے ہوئے ہیں۔اسلام آباد میں ’بین الپارلیمانی کانفرنس 2025‘ سے خطاب کرتے ہوئے وزیراعظم شہباز شریف کا کہنا تھا کہ امن، سلامتی اور ترقی کے موضوع پر پارلیمانی اسپیکرز کو ایک پلیٹ فارم پر لانا پاکستان کے لیے باعث فخر ہے، وزیر اعظم محمد شہباز شریف نے امن و استحکام کو پائیدار ترقی کی بنیاد قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ دنیا بھرمیں جاری تنازعات نے امن کی اہمیت کو مزید اجاگر کیا ہے، پاکستان نے ثابت کردیا کہ وہ اپنی خودمختاری اورعلاقائی سالمیت کے تحفظ کےلئے ہر قیمت ادا کرنے کو تیار ہے، پرامن اورمستحکم افغانستان ہی علاقائی روابط، ترقی اور خوشحالی کی کنجی ہے، افغان عبوری حکومت ٹی ٹی پی ودیگر گروپوں کے خلاف موثر کارروائی کرے، کوئی ملک تنہا ترقی نہیں کرسکتا، پاکستان جامع معاشی اصلاحات کر رہا ہے۔ وزیر اعظم نے کہا کہ وہ دنیا بھر سے کانفرنس میں شرکت کیلئے آنے والے سپیکرز، پارلیمنٹیرینز اور مندوبین کو خوش آمدید کہتے ہیں۔ پاکستان کے لیے اس اہم کانفرنس کا انعقاد باعث اعزاز ہے جس کے ذریعے پارلیمانی قیادت امن، سلامتی اور ترقی کے مشترکہ وژن پر تبادلہ خیال کیلئے یہاں جمع ہے۔ انہوں نے چیئرمین سینیٹ اور آئی ایس سی کے بانی چیئرمین سید یوسف رضا گیلانی کو خاص طور پر سراہا جن کی کاوشوں اور عزم نے اس فورم کو حقیقت میں ڈھالا۔ وزیر اعظم نے کہا کہ اس کانفرنس کا موضوع ’’امن، سلامتی اور ترقی‘‘ نہایت بروقت اور انتہائی اہم ہے۔ اگرچہ یہ موضوع یہاں موجود تمام ممالک کے لیے اہمیت رکھتا ہےلیکن پاکستان کے لیے یہ خاص اہمیت کا حامل ہے۔ 1947 میں آزادی کے بعد سے پاکستان ہمیشہ سے ہی مذاکرات اور سفارتکاری کے ذریعے امن کا حامی رہا ہے۔ ہم پختہ یقین رکھتے ہیں کہ امن اور سلامتی ہی دیرپا قومی و علاقائی ترقی کی بنیاد ہے۔ امن کی حقیقی قدر اس وقت سب سے زیادہ محسوس ہوتی ہے جب ہم ان تنازعات کا سامنا کرتے ہیں جن کی وجہ سے آج بھی دنیا سلگ رہی ہے۔ وزیر اعظم نے یاد دلایا کہ پاکستان نے بھی اس بحرانی کیفیت کا سامنا بلا واسطہ اور بالواسطہ دونوں انداز سے کیا ہےمگر ہم نے ہمیشہ امن اور استحکام کے حصول کے لیے اپنی جدوجہد جاری رکھی۔انہوں نے شرکا کو آگاہ کیا کہ اس سال مئی میں پاکستان کو مشرقی سرحد سے بلا اشتعال جارحیت کا سامنا کرنا پڑا جس میں ہماری پیشہ ورانہ اور بہادر مسلح افواج نے شاندار تیاری اور بہترین کارکردگی کا مظاہرہ کیا اور ہماری زمینی اور ہوائی دفاع کیلئے بروقت اور فیصلہ کن کارروائی نے نہ صرف دشمن کے عزائم کو ناکام بنایا بلکہ پوری دنیا کے سامنے یہ حقیقت آشکار کردی کہ پاکستان اپنے دفاع، خودمختاری اور علاقائی سالمیت کے دفاع سے کسی بھی قیمت پر پیچھے نہیں ہٹے گا۔وزیر اعظم نے کہا کہ ایک پُرامن افغانستان علاقائی روابط، ترقی اور خوشحالی کی کنجی ہے۔ بدقسمتی سے وہاں امن کا حصول کئی دہائیوں سے ناکام رہا ہے لیکن پاکستان نے کبھی امید ترک نہیں کی ۔ ہم پُرامن ہمسائیگی پر یقین رکھتے ہیں اور اس مقصد کے لیے مسلسل کوشش کر رہے ہیں۔یہ انتہائی بدقسمتی ہے کہ عسکریت پسند گروہ نہ صرف افغانستان کے اندر بلکہ سرحد پار بھی امن کو خطرے میں ڈالے ہوئے ہیں ۔ گزشتہ ماہ جب ہماری سرحدی چوکیوں پر افغانستان کی جانب سے حملہ کیا گیا تو ہمارا جواب دو ٹوک اور فیصلہ کن تھا۔ ہم نے ان عناصر کو ناقابلِ فراموش سبق سکھایا جنہوں نے پاکستان پر حملہ کرنے کی جسارت کی۔وزیر اعظم نے اس ضمن میں برادر ممالک خصوصاً ترکیہ اور قطر کی کوششوں کو سراہا جنہوں نے پاکستان اور افغان طالبان کے درمیان مذاکرات میں سہولت کاری کی۔ انہوں نے کہا کہ افغانستان کو سمجھنا ہو گا کہ دیرپا امن اسی وقت ممکن ہے جب ٹی ٹی پی اور دیگر گروپوں کو کنٹرول کیا جائے جو افغان سرزمین سے کارروائیاں کر رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان اس ضمن میں عملی اقدامات کرنے کے لیے تیار ہے بشرطیکہ افغان عبوری حکومت بھی ہمارے جائز تحفظات کے حل کے لیے ٹھوس اور بامعنی اقدامات کرے پاکستان نے ہمیشہ مظلوموں کے حق میں آواز بلند کی ہے خواہ وہ غزہ کا معاملہ ہو یا بھارتی غیر قانونی قبضے کے شکار جموں و کشمیر کے مظلوم عوام یا وہ تمام اقوام جنہیں آج بھی بنیادی حقوق اور آزادیوں سے محروم رکھا گیا ہے۔انہوں نے کہا کہ ہماری مستقل وابستگی امن اور سلامتی کے فروغ سے ہے، چاہے وہ اقوام متحدہ ہو، او آئی سی، ای سی او، ایس سی او یا دیگر اہم عالمی پلیٹ فارمز۔ دنیا میں تنازعات کی آگ غربت، عدم مساوات اور ناانصافی سے بھڑکتی ہے، محرومی عدم استحکام کو جنم دیتی ہے۔انہوں نے عدم استحکام اور تنازعات سے نمٹنے کیلئے ترقی کے اقدامات کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے کہا کہ پاکستان میں ہماری حکومت نے جامع اصلاحات کا آغاز کیا ہے جن کا مقصد سب کی شمولیت سے ترقی کی راہ پر گامزن ہونا ، ادارہ جاتی مضبوطی اور نوجوانوں و خواتین کو بااختیار بنانا ہے۔ چھوٹے اور درمیانے درجے کے کاروبار معیشت کی ریڑھ کی ہڈی ہیں، اسی لیے ہم ایس ایم ای فنانسنگ بڑھا رہے ہیں تاکہ روزگار پیدا ہو، جدت آئے اور معاشی وسیع البنیاد شمولیت ممکن ہو۔ انہوں نے شرکا کو بتایا کہ حکومت خواتین کو ڈیجیٹل مہارتیں فراہم کرنے پر توجہ مرکوز کر رہی ہے، مالی وسائل تک ان کی رسائی آسان بنائی جا رہی ہے، اور قیادت کے مواقع دیئے جا رہے ہیں تاکہ وہ اپنی مکمل صلاحیت کے ساتھ پاکستان کی معاشی و سماجی تبدیلی میں حصہ ڈال سکی۔ وزیر اعظم نے کہا کہ بین الاقوامی محاذ پر پاکستان عالمی مالیاتی اداروں اور ترقیاتی شراکت داروں کے ساتھ مل کر مالیاتی اصلاحات، کلائمیٹ ریزیلئنس اور سرمایہ کاری کے فروغ کے لیے سرگرم ہے جو ایک مضبوط اور خوشحال مستقبل کے لیے ناگزیر ہیں۔ ہمارا ایمان ہے کہ کوئی قوم تنہا ترقی نہیں کر سکتی۔ ہماری تقدیریں ایک دوسرے سے جڑی ہوئی ہیں۔وزیر اعظم نے پارلیمان کو عوام کی خواہشات کا امین قرار دیتے ہوئے کہا کہ عوام کے منتخب نمائندے اس قومی اور عالمی سفر میں انتہائی اہم کردار کے حامل ہیں۔ ہم اپنے عوام کی مقدس امانت کے نگہبان ہیں اور اور ہمیں ان کی امیدوں پر پورا اترنا ہے۔ اپنی پوری اہلیت اور نیک نیتی کے ساتھ اپنی قوم کی اجتماعی بہتری کے لیے کام کرنا ہوگا۔انہوں نے اس توقع کا اظہار کیا کہ کانفرنس کے دوران ہونے والی بامقصد گفتگو نئے راستے دکھائے گی اور مشترکہ کوششوں کو آگے بڑھانے میں مدد دے گی۔انہوں نےاس بات پر زور دیا کہ تمام اقوام کے عوام امن کے فروغ، پائیدار ترقی کے حصول اور اجتماعی سلامتی کے استحکام کے لیے متحد ہوں تاکہ ہم دائمی امن اور مشترکہ خوشحال مستقبل کی تعمیر کرسکیں ۔ افتتاحی اجلاس کے اختتام پر وزیراعظم محمد شہباز شریف نے آئی ایس سی کے سیکرٹری جنرل ای۔ کے۔ ناتھ دھاکل اور آئی ایس سی کی سفیر مصباح کھر کو یادگاری شیلڈز پیش کیں۔

بین الپارلیمانی یونین (آئی پی یو) کے سیکرٹری جنرل مارٹن چونگونگ نے جنیوا سے اپنے وڈیو پیغام میں کانفرنس کے لیے نیک تمناؤں کا اظہار کیا انہوں نے کہا کہ امن، سلامتی اور ترقی آپس میں مربوط ہیں، اور ہمیں عالمی خوشحالی اور انصاف کے لیے مشترکہ کوششیں جاری رکھنی ہوں گی۔آئی ایس سی کی سفیر مصباح کھر نے مہمانوں کا خیرمقدم کرتے ہوئے کہا کہ دنیا بھر سے پارلیمانی رہنماؤں کی شرکت اس بات کی علامت ہے کہ اختلاف کے بجائے مکالمے کو ترجیح دی جا رہی ہے۔ یہ کانفرنس اتحاد و ہم آہنگی کی علامت ہے اور چیئرمین سینیٹ کے اس وژن کا مظہر ہے جنہوں نے 40 سے زائد پارلیمانی رہنماؤں کو ایک پلیٹ فارم پر اکٹھا کیا۔ جب امن نہیں ہوتا تو ترقی بھی رک جاتی ہے۔آئی ایس سی کے سیکرٹری جنرل ای۔ کے۔ ناتھ دھاکل نے اپنے خطاب میں کہا کہ اسلام آباد میں معزز مہمانوں کی میزبانی ہمارے لیے اعزاز ہےآئی ایس سی ایک کثیرالجہتی بین الحکومتی ادارے کے طور پر عالمی مسائل مثلاً ماحولیاتی چیلنجز اور امن کے لیے تعاون کو فروغ دیتا ہے۔انہوں نے شرکا پر زور دیا کہ وہ امن، سلامتی اور ترقی کے ایجنڈے کو آگے بڑھانے کے لیے مشترکہ کوششیں کریں۔چیئرمین سینیٹ و بانی چیئرمین انٹرپارلیمانی اسپیکرز کانفرنس سید یوسف رضا گیلانی نے کہا کہ پارلیمان دنیا میں امن و ترقی کے محض ناظر نہیں بلکہ اعتماد کے معمار، اتفاقِ رائے کے فروغ دہندہ اور عوام کی آواز ہیں، پاکستان عالمی سطح پر امن، سلامتی اور ترقی کے فروغ کے لیے پرعزم ہے۔پاکستان کا یہ عزم محض بیانات تک محدود نہیں بلکہ اس کا عملی ثبوت پاکستان کا دہشت گردی کے خلاف عالمی جنگ میں صفِ اول کا کردار اور اقوامِ متحدہ کے امن مشنوں میں اہم شرکت ہے۔ وزیراعظم پاکستان کی بطور مہمانِ خصوصی شرکت نہ صرف پارلیمان کے ادارے کے احترام کی علامت ہے بلکہ یہ پاکستان کے اس عزم کی بھی واضح عکاسی ہے جو مکالمے، تعاون اور کثیرالجہتی روابط کے فروغ سے متعلق ہے۔
چیئرمین سینیٹ نے کہا کہ آج دنیا کے شمالی اور جنوبی حصوں سے تعلق رکھنے والے پارلیمانی رہنما ایک چھت تلے جمع ہیں، جو ایک نئے عہد کی پارلیمانی یکجہتی کی بنیاد ہے،یہ تاریخی اجتماع دنیا بھر کے پارلیمانی رہنماؤں کی یکجہتی، عزم اور تعاون کی علامت ہے۔ انہوں نے کہا کہ کانفرنس کا عنوان امن، سلامتی اور ترقی سرحدوں اور نظریات سے بالاتر ایک ایسا پیغام ہے جو پوری انسانیت کے لیے رہنمائی فراہم کرتا ہے۔ موجودہ دور غیر یقینی، تنازعات، ماحولیاتی تبدیلیوں، معاشی جھٹکوں اور تیز رفتار تکنیکی تغیرات سے عبارت ہے۔
چیئرمین سینیٹ نے کہا کہ امن ہمارے سامنے بکھرتا جا رہا ہے جیسا کہ ہم نے غزہ، سوڈان اور مقبوضہ کشمیر میں ظلم و بربریت کی شکل میں دیکھا۔ انہوں نے زور دیا کہ ایسے وقت میں پارلیمان کو رہنمائی کا کردار ادا کرنا ہوگا۔ پارلیمان کو دنیا کے ٹکڑوں میں بٹے ہوئے نظام کو جوڑنے والی روشنی بننا چاہیے۔ہمیں سوچنا، عہد کرنا اور اکٹھے عمل کرنا ہوگا۔ مکالمہ ہمارا پل اور تعاون ہمارا راستہ ہونا چاہیے۔
چیئرمین سینیٹ نے کہا کہ امن، سلامتی اور ترقی ایک دوسرے کے بغیر نامکمل ہیں۔امن اور سلامتی کے بغیر ترقی ممکن نہیں اور ترقی کے بغیر امن پائیدار نہیں رہ سکتا۔ آج سلامتی کا مفہوم صرف سرحدوں کے دفاع تک محدود نہیں رہا بلکہ ماحولیاتی استحکام، خوراک و پانی کی سلامتی، ڈیجیٹل تحفظ اور معاشی خودکفالت جیسے عناصر کو بھی شامل کرتا ہے۔
سید یوسف رضا گیلانی نے کہا کہ پاکستان، جو عالمی کاربن اخراج میں ایک فیصد سے بھی کم حصہ ڈالتا ہے، ماحولیاتی تبدیلیوں کے بدترین اثرات سے دوچار ہے۔ یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ ماحولیاتی تبدیلی اب کوئی دور کا خطرہ نہیں بلکہ ایک موجودہ، غیر منصفانہ حقیقت بن چکی ہے۔

چیئرمین سینیٹ نے کہا کہ صدرِ پاکستان آصف علی زرداری اور وزیراعظم محمد شہباز شریف کی قیادت میں پاکستان عالمی سطح پر امن، سلامتی اور ترقی کے فروغ کے لیے پرعزم ہے۔ پاکستان کا یہ عزم محض بیانات تک محدود نہیں بلکہ اس کا عملی ثبوت پاکستان کا دہشت گردی کے خلاف عالمی جنگ میں صفِ اول کا کردار اور اقوامِ متحدہ کے امن مشنوں میں اہم شرکت ہے۔ مشرقی اور شمال مغربی سرحدوں پر حالیہ جارحانہ کارروائیوں کے باوجود پاکستان نے بردباری، ذمہ داری اور تحمل کا مظاہرہ کیا۔ ہم نے کشیدگی کم کرنے کے لیے ہر ممکن کوشش کی اور جامع مکالمے کی پیشکش بھی کی لیکن امن ہمیشہ دوطرفہ سڑک ہے جس کے لیے تمام فریقوں کو متقابل رویہ اپنانا ہوگا۔
سید یوسف رضا گیلانی نے کہا کہ دہائیوں پر محیط پارلیمانی تجربے نے انہیں یہ یقین دلایا ہے کہ پائیدار ترقی تنہائی میں حاصل نہیں کی جا سکتی۔ترقی ایک باہمی و مربوط عمل ہے۔ یہی احساس اس عالمی کانفرنس کے انعقاد کی اصل تحریک بنا۔ شمالی و جنوبی دنیا کے درمیان بین البرِاعظم پارلیمانی اشتراک وقت کی اہم ضرورت ہے تاکہ مشترکہ مفادات اور ترقی کے اہداف کو آگے بڑھایا جا سکے۔ چیئرمین سینیٹ نے کہا کہ آیئے ہم وعدوں سے آگے بڑھیں، حل تلاش کریں جو جرات مندانہ، عملی اور اجتماعی دانشمندی پر مبنی ہو۔ چیئرمین سینیٹ نے کہا کہ پارلیمان دنیا میں امن و ترقی کے محض ناظر نہیں بلکہ اعتماد کے معمار، اتفاقِ رائے کے فروغ دہندہ اور عوام کی آواز ہیں۔ انہوں نے شہید محترمہ بینظیر بھٹو کے الفاظ دہراتے ہوئے کہا کہ قیادت دراصل اپنے یقین کی طاقت، مشکلات کے مقابلے میں استقامت اور ایک نظریے کو فروغ دینے کی توانائی کا نام ہے۔ جو لوگ امن حاصل کرتے ہیں، وہ تعصب، عدم برداشت اور جمود کے سامنے کبھی ہار نہیں مانتے۔
چیئرمین سینیٹ نے کہا کہ آیئے اس اجتماع کو یادگار بنائیں، ایک ایسے عزم کے طور پر جو دنیا میں امید، اتحاد اور قیادت کا نیا باب رقم کرے۔چیئرمین سینیٹ نے تمام مندوبین کے لیے اسلام آباد میں خوشگوار قیام اور کانفرنس کے کامیاب انعقاد کی نیک خواہشات کا اظہار کریں ۔
بین الپارلیمانی اسپیکرز کانفرنس (آئی ایس سی) کی سفیر مصباح کھر نے کہا ہے کہ اسلام آباد میں دنیا بھر کے قانون سازوں کے اس معزز اجتماع کی میزبانی میرے لیے باعثِ فخر اور اعزاز ہے۔ اسلام آباد میں سینیٹ آف پاکستان کی میزبانی میں منعقدہ افتتاحی بین الپارلیمانی اسپیکرز کانفرنس میں شریک ممتاز پارلیمانی وفود کا پُرتپاک خیرمقدم کیا۔انہوں نے کہا کہ یہ اجتماع اس یقین کی عکاسی کرتا ہے کہ تنازع نہیں بلکہ تعمیری مکالمہ ہی امن کی راہ متعین کرتا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ مختلف براعظموں سے آئے اسپیکرز اور وفود کی موجودگی اس امر کی علامت ہے کہ دنیا مشترکہ طور پر مکالمے، تعاون اور شراکت داری کے ذریعے عالمی چیلنجز کا سامنا کرنے کے عزم پر متحد ہے۔

آئی ایس سی کی سفیرمصباح کھر نے بتایا کہ بین الپارلیمانی اسپیکرز کانفرنس کا تصور رواں سال چیئرمین سینیٹ معزز سینیٹر سید یوسف رضا گیلانی کی قیادت میں اُس وقت پیش کیا گیا جب دنیا بھر کے 45 سے زائد پارلیمانوں کے اسپیکرز نے مل کر اس کے قیام کی بنیاد رکھی۔ انہوں نے کہاکہ یہ یقین تھا کہ پارلیمان، جو عوام کی اصل آواز ہیں، ایک محفوظ اور خوشحال دنیا کی تشکیل میں رہنمائی کا کردار ادا کریں۔انہوں نے چیئرمین سینیٹ سید یوسف رضا گیلانی کی قیادت اور سفارتی بصیرت کو خراجِ تحسین پیش کرتے ہوئے کہا کہ بطور سابق وزیرِ اعظم اور سپیکر، اُن کا تجربہ انہیں اس حقیقت کا گہرا ادراک دیتا ہے کہ جمہوریت اور سفارت کاری ایک دوسرے کو مضبوط کرتی ہیں۔ ان کے وژن کی بدولت آئی ایس سی ایک خیال سے حقیقت میں ڈھل چکا ہے، اقوام اور عوام کو مکالمے اور اعتماد کے ذریعے جوڑنے والا پل کا کردار ادا کر رہا ہے ۔
مصباح کھر نے کانفرنس کے موضوع ’’امن، سلامتی اور ترقی‘‘ کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ یہ تینوں الگ الگ نہیں بلکہ باہمی انحصار رکھنے والے ستون ہیں جو عالمی استحکام کی بنیاد ہیں۔ انہوں نے کہا کہ آئی ایس سی کے رہنما اصول ، باہمی انحصار، مشترکہ خوشحالی، اور مشترکہ اقدارقابلِ عمل عہد ہیں جو ظاہر کرتے ہیں کہ پارلیمان ایک منصفانہ عالمی نظام کی تشکیل میں کیا کردار ادا کر سکتی ہیں۔آئی ایس سی کی سفیر نے کہا کہ پاکستان ایک امن پسند، باہمی مکالمے پر یقین رکھنے والا اور آگے بڑھنے والا ملک ہے جو شمولیت، تعاون اور تہذیبوں کے درمیان پل تعمیر کرنے کے عزم پر کاربند ہے۔مصباح کھر نے کہا کہ ’’اسلام آباد اعلامیہ‘‘ ایک ایسا عملی لائحۂ عمل فراہم کرے گا جو انصاف، شفاف حکمرانی اور مشترکہ ترقی کے فروغ کے لیے پارلیمانی تعاون کو تقویت دے گا۔
انہوں نے کہا کہ ’عالمی چیلنجز خواہ وہ تنازعات ہوں، معاشی عدم استحکام، ماحولیاتی تبدیلی یا عدم مساوات یقینا بڑے ہیں، لیکن یہ شراکت داری اور اجتماعی استقامت کے مواقع بھی فراہم کرتے ہیں۔انہوں نے کہا کہ ’پاکستان کا اپنا تجربہ دہشت گردی کے خلاف قربانیاں، قدرتی آفات کے مقابلے میں حوصلہ، اور جامع ترقی کے حصول کی جدوجہد ہمیں یہ یاد دلاتا ہے کہ قومیں اس وقت مضبوط ہوتی ہیں جب وہ ایک دوسرے کے تجربات سے سیکھتی اور ایک دوسرے کا ساتھ دیتی ہیں۔
آئی ایس سی کی سفیرمصباح کھر نے کہا کہ یہ کانفرنس صرف ایک تقریب نہیں بلکہ ایک مشترکہ سفر کا آغاز ہے ، ایک زیادہ منصفانہ، محفوظ اور پائیدار دنیا کی جانب گامزن ہے ۔انہوں نے امید ظاہر کی کہ اسلام آباد میں ہونے والی یہ مشاورت ’عالمی پارلیمانی سفارت کاری کو مضبوط بنانے میں ایک سنگِ میل ثابت ہوگی‘ اور شرکاء سے اپیل کی کہ وہ آئی ایس سی کو ’’براعظموں کے درمیان ایک ایسا دیرپا پل بنائیں جو مکالمے، انصاف اور باہمی ترقی پر استوار ہو۔ آئی ایس سی کی سفیر نے کہاکہ آئیں ہم سب مل کر یہ عزم کریں کہ یہاں سے شروع ہونے والا کام ایک ایسی دنیا کی سمت روشنی بنے، جو خوف یا تقسیم سے نہیں بلکہ امید، یکجہتی اور اجتماعی ذمہ داری سے متعین ہو۔