اسلام آباد (ٹی این ایس) پاکستان اور سعودی عرب کے تعلقات گہرے، تاریخی اور مضبوط ہیں، جو دفاع، معیشت اور عوام کی سطح پر استوار ہیں۔ سعودی عرب اور پاکستان کے تعلقات سات دہائیوں پر محیط ایک روشن تاریخ رکھتے ہیں۔ آزادی کے فوراً بعد 1947ء میں سعودی عرب نے پاکستان کو تسلیم کیا اور اسی سے دونوں ملکوں کے درمیان ایسے گہرے تعلقات کی بنیاد رکھی گئی جو آج تک مضبوطی سے قائم ہیں۔ سعودی عرب کی حیثیت مسلمانوں کے قبلہ کی وجہ سے پاکستان کے عوام کے لیے روحانی مرکز کی ہے، جبکہ پاکستان کی اکثریتی مسلم آبادی اس رشتے کو اور زیادہ مستحکم کرتی ہےریاض اور اسلام آباد اسلامی تعاون تنظیم سمیت کئی اہم پلیٹ فارمز پر ساتھ کھڑے ہیں۔ سعودی عرب نے ہمیشہ مسئلہ کشمیر پر پاکستان کا ساتھ دیا، جبکہ پاکستان نے دہشت گردی کے خلاف سعودی عرب کی حمایت کی۔ 1998ء میں جب پاکستان نے ایٹمی تجربات کیے اور مغربی دنیا نے پابندیاں عائد کیں، تب سعودی عرب نے اسلام آباد کو تیل رعایتی نرخوں پر فراہم کر کے بھرپور تعاون کیا۔ آج بھی سعودی عرب پاکستان کے لیے ایک اہم معاشی شراکت دار ہے، جو سرمایہ کاری اور توانائی کے شعبے میں کلیدی کردار ادا کرتا ہے۔ دونوں ملکوں کے درمیان مشترکہ فوجی تربیت اور دفاعی تعاون کی ایک طویل تاریخ ہے۔ پاکستانی ماہرین نے سعودی افواج کی ترقی میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ حالیہ عرصے میں ایک نیا دفاعی معاہدہ ہوا ہے جس کے تحت دونوں ممالک ایک دوسرے کے اتحادی تصور ہوں گے۔سعودی عرب اور پاکستان کے تعلقات نہ صرف سیاسی و اقتصادی بلکہ مذہبی اور سکیورٹی پہلوؤں سے بھی اسٹریٹجک ہیں۔ دونوں ملکوں کی قیادت نے ایک ایسی معاہدہ پر دستخط کیے ہیں جس کے تحت کسی ایک پر حملہ دوسرے پر حملہ تصور کیا جائے گا۔ یہ معاہدہ اس امر کا مظہر ہے کہ ریاض اور اسلام آباد کا رشتہ محض سفارتی نہیں بلکہ مشترکہ تقدیر کا عکاس ہے۔پاکستان اور سعودی عرب کے درمیان ایک نیا دفاعی معاہدہ طے پایا ہے جس کے تحت دونوں ممالک ایک دوسرے پر ہونے والے حملے کو اپنے اوپر حملہ تصور کریں گے سعودی عرب کی مسلح افواج کی تربیت اور تکنیکی معاونت فراہم کرنے کا کام پاکستان کو سونپا گیا ہے۔حالیہ دوروں میں اقتصادی اور تجارتی تعلقات کو مزید مضبوط بنانے پر زور دیا گیا ہے۔سعودی عرب میں پاکستانی محنت کشوں کے لیے مزید سہولیات اور سعودی سرمایہ کاری کے ذریعے پاکستان میں اقتصادی ترقی کے نئے دروازے کھولنے کی امید ہے۔دونوں ممالک کے درمیان سرمایہ کاری اور تجارتی تعلقات کو مزید مضبوط بنانے کے لیے بھی کوششیں کی جا رہی ہیں۔ یہ تعلقات دونوں ملکوں کے عوام کے لیے کئی فوائد لانے کی صلاحیت رکھتے ہیں، جن میں پاکستانی محنت کشوں کے لیے مزید سہولیات اور سعودی سرمایہ کاری کے ذریعے اقتصادی ترقی شامل ہے۔پاکستان اور سعودی عرب کے درمیان تعلقات صرف حکومتی سطح تک محدود نہیں ہیں، بلکہ عوامی اور ثقافتی سطح پر بھی مضبوط ہیں۔دونوں ممالک کے درمیان تعلیمی اور ثقافتی تعلقات میں اضافہ متوقع ہے۔سعودی عرب نے 1947ء میں پاکستان کو تسلیم کرنے والے پہلے ممالک میں سے ایک تھا، اور اس کے بعد سے دونوں ممالک کے درمیان مضبوط تعلقات قائم ہیں۔شاہ فیصل نے پاکستان کے ساتھ قریبی تعلقات استوار کیے، جس کے نتیجے میں اسلام آباد میں شاہ فیصل مسجد تعمیر ہوئی اور لائل پور (اب فیصل آباد) کا نام ان کے اعزاز میں رکھا گیا۔ پاکستان اور سعودی عرب کی عسکری قیادت نے پیر کو دو طرفہ دفاعی و سکیورٹی تعلقات کو مزید مضبوط بنانے، انسدادِ دہشت گردی تعاون کو وسعت دینے اور سٹریٹجک شراکت داری کو گہرا کرنے پر اتفاق کیا ہے۔یہ بات پاکستان فوج کے شعبۂ تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر) نے ایک بیان میں بتائی۔بیان کے مطابق سعودی مسلح افواج کے چیف آف جنرل سٹاف جنرل فياض بن حامد الرويلي نے جی ایچ کیو راولپنڈی میں فیلڈ مارشل عاصم منیر سے ملاقات کی، جس میں دونوں رہنماؤں نے باہمی دلچسپی کے امور، علاقائی سکیورٹی ماحول اور دو طرفہ دفاعی تعاون کے فروغ پر تفصیلی گفتگو کی۔ دونوں فریقین نے اس دیرپا اور تزویراتی عسکری اشتراک کو مزید وسعت دینے پر زور دیا جو دفاع، سکیورٹی اور انسدادِ دہشت گردی اقدامات جیسے اہم شعبوں پر مشتمل ہے۔ فیلڈ مارشل اور سعودی جنرل نے اتفاق کیا کہ بدلتے ہوئے علاقائی چیلنجز کے تناظر میں دونوں ممالک کے درمیان دفاعی تعاون کو مزید مضبوط بنانا ناگزیر ہے۔ملاقات کے دوران جنرل فياض بن حامد الرويلي نے سعودی مسلح افواج کے ساتھ پاکستان کے تعاون کو سراہتے ہوئے اسے انتہائی قابلِ قدر قرار دیا اور اس اعتماد کا اعادہ کیا کہ ریاض دونوں ممالک کے درمیان مضبوط تعلقات کو مزید آگے بڑھانے کے لیے پُرعزم ہے۔سعودی جنرل کی جی ایچ کیو آمد پر انہیں یادگارِ شہدا پر پھولوں کی چادر چڑھانے اور پاک فوج کے چاق و چوبند دستے کی جانب سے گارڈ آف آنر پیش کرنے کا اعزاز بھی دیا گیا۔ وزیر اعظم شہباز شریف نے سعودی چیف آف جنرل سٹاف سے ملاقات میں دونوں ملکوں کے درمیان اقتصادی، دفاعی اور سکیورٹی سمیت تمام شعبوں میں تاریخی برادرانہ تعلقات کو مزید مضبوط بنانے کے پختہ عزم کا اعادہ کیا۔وزیر اعظم آفس کے میڈیا ونگ سے جاری بیان کے مطابق ملاقات میں نائب وزیراعظم و وزیر خارجہ سینیٹر اسحاق ڈار، فیلڈ مارشل عاصم منیر، وزیر دفاع خواجہ محمد آصف، وزیر اعظم کے معاون خصوصی طارق فاطمی اور دیگر اعلیٰ حکام بھی موجود تھے۔ مزید کہا گیا کہ خادم الحرمین شریفین شاہ سلمان بن عبدالعزیز اور ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان بن عبدالعزیز السعود کے لیے اپنی نیک تمنائوں کا اظہار کرتے ہوئے وزیر اعظم نے پاکستان اور سعودی عرب کے درمیان اقتصادی، دفاعی اور سکیورٹی سمیت دیگر تمام شعبوں میں تاریخی برادرانہ تعلقات کو مزید مضبوط بنانے کے اپنے پختہ عزم کا اعادہ کیا۔انہوں نے زور دیا کہ دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات مشترکہ مذہب، یکساں اقدار اور باہمی اعتماد پر مبنی ہیں۔وزیر اعظم نے گذشتہ دو ماہ کے دوران ریاض کے اپنے دوروں کا ذکر کیا، جن کے دوران دونوں فریقوں کے درمیان تاریخی سٹریٹجک باہمی دفاعی معاہدے پر دستخط ہوئے۔وزیر اعظم نے مشترکہ تربیت، مشقوں اور مہارت کے تبادلے سمیت دوطرفہ دفاعی تعاون کو مزید گہرا کرنے کے لیے پاکستان کے غیر متزلزل عزم کا اعادہ کیا۔
وزیراعظم نے ہر قسم کی دہشت گردی اور انتہا پسندی کا مقابلہ کرنے اور خطے میں امن و استحکام کو فروغ دینے کے لیے دونوں ممالک کے مشترکہ عزم کو بھی اجاگر کیا۔جنرل فياض بن حامد الرويلي نے سعودی قیادت کی جانب سے وزیر اعظم اور پاکستانی عوام کو تہنیتی پیغام پہنچایا۔ انہوں نے پاکستان کے ساتھ موجودہ بہترین دفاعی اور تذویراتی شراکت داری کو نئی بلندیوں تک پہنچانے کے لیے مملکت کی مضبوط خواہش کا اعادہ کیا۔مزید برآں پاکستان اور سعودی عرب نے وزیراعظم شہباز شریف کے دورۂ سعودیہ کے دوران ایک تاریخی دفاعی معاہدے پر دستخط کیےتھےاس معاہدے کو کئی دہائیوں میں پاک-سعودی دفاعی تعلقات میں سب سے بڑی پیش رفت قرار دیا جا رہا ہے یہ معاہدہ دونوں ممالک کے مشترکہ عزم کا مظہر ہے تاکہ اپنی سیکیورٹی کو بڑھا سکیں اور خطے اور دنیا میں امن قائم کر سکیں (یہ معاہدہ) دونوں ملکوں کے درمیان دفاعی تعاون کے پہلوؤں کو فروغ دینے اور کسی بھی جارحیت کے خلاف مشترکہ دفاع کو مضبوط کرنے پر مرکوز ہے۔ معاہدے کا سب سے اہم نکتہ یہ ہے کہ ’ کسی ایک ملک پر حملہ دونوں پر حملہ تصور کیا جائے گا دونوں ممالک طویل عرصے سے ایک کثیر الجہتی تعلق رکھتے ہیں، جس کی بنیاد اسٹریٹجک فوجی تعاون، باہمی اقتصادی مفادات اور مشترکہ اسلامی ورثے پر ہے۔یہ نوٹ کرنا بھی اہم ہے کہ یہ معاہدہ ایسے وقت میں سامنے آیا جب اسرائیل نے مشرق وسطیٰ کی مجموعی سیکیورٹی کے بارے میں خدشات کو بڑھا دیا ہے۔ پاکستان اور سعودی عرب طویل عرصے سے دفاعی تعاون میں مصروف ہیں اور ان کے سفارتی تعلقات ہمیشہ مضبوط رہے ہیں، لیکن اس معاہدے کے ساتھ یہ تعلق ایک بالکل نئی جہت میں داخل ہوگیا ہے رابطہ عالم اسلامی (مسلم ورلڈ لیگ) کے سیکرٹری جنرل ڈاکٹر عبدالکریم بن عیسیٰ نے کہا ہے کہ پاکستان اور سعودی عرب کے درمیان دفاعی معاہدہ نہ صرف دونوں ممالک بلکہ امت کو قریب لانے میں معاون ثابت ہو گا۔ دونوں ممالک کی قیادت نے حال ہی میں ایک تاریخی دفاعی معاہدہ کیا ہے جو امتِ مسلمہ کے اتحاد اور یکجہتی کی علامت ہے۔ یہ دفاعی معاہدہ نہ صرف دونوں ممالک کے تعلقات کو مزید مضبوط کرے گا بلکہ دیگر مسلم ممالک کو بھی قریب لانے میں مددگار ثابت ہوگا یہ واضح رہے کہ پاکستان نے صرف سعودی عرب ہی نہیں بلکہ پورے مشرق وسطیٰ کے لیے سیکیورٹی فراہم کرنے کا کردار سنبھال لیا ہے اس معاہدے کے وقت اور سیاق و سباق کو مدنظر رکھنا ضروری ہے، کیونکہ اسرائیلی جارحیت کے بعد عرب ممالک کہیں اور سے سیکیورٹی ضمانتیں تلاش کر رہے ہیں امریکا کا بطور سیکیورٹی گارنٹر کردار حالیہ دنوں میں سوالیہ نشان بن گیا ہے اور اس کی ساکھ کو شدید نقصان پہنچا ہے’، ’یہ معاہدہ شاید کچھ عرصے سے زیر غور تھا لیکن اس کے پس منظر کو دیکھنا ضروری ہے اس معاہدے کو ’ لاہور اسلامی سربراہی کانفرنس کے بعد گزشتہ 50 برسوں میں سب سے اہم فوجی اور سفارتی اقدام قرار دیا۔سعودی عرب کوئی عام مسلمان ملک نہیں بلکہ دنیا کے امیر ترین ممالک میں سے ایک ہے جس کا مضبوط سفارتی اثر و رسوخ ہےیہ معاہدہ اسرائیل کے لیے ایک رکاوٹ کا کردار ادا کرے گا؛ ’پاکستان کی فوجی صلاحیت اور عرب اقتصادی طاقت کے امتزاج سے اسرائیل کچھ نہیں کر سکے گا بھارت اور پاکستان کے حالیہ چار روزہ فوجی تنازع نے ’ہماری مہارت، قابلیت اور عزم کو دکھایا کہ ہم اپنے عرب دوستوں کا بھی بھرپور دفاع کر سکتے ہیں،‘ جس سے پاکستان کو ایک علاقائی سیکیورٹی گارنٹر کے طور پر پیش کیا گیا، انہوں نے یہ بھی کہا کہ اس معاہدے کے ملک کے اندر دہشت گرد عناصر، خاص طور پر کالعدم ٹی ٹی پی پر بھی اثرات پڑ سکتے ہیں۔اسٹریٹجک مشترکہ دفاعی معاہدہ اس بات کا عندیہ دیتا ہے کہ یہ ایٹمی اور میزائل دفاعی نظام کو بھی شامل کر سکتا ہے، پاکستان ہمیشہ اپنی ایٹمی اور میزائل پروگرام کو ’اسٹریٹجک اثاثے‘ کہتا رہا ہےسعودی عرب کے لیے یہ غیر یقینی صورتحال کے خلاف ایک انشورنس ہے اور آزادی کا ایک اشارہ ہے۔ اگرچہ اس معاہدے میں باضابطہ طور پر ایٹمی ضمانت شامل [کم از کم دستیاب معلومات کے مطابق)، پاکستان کا ایٹمی ہتھیار ایک ڈیٹرنس شیڈو ڈال دیتا ہےریکوڈک کے لیے طویل عرصے سے متوقع مالیاتی معاہدہ اب قریب ہے۔انہوں نے وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ انٹرنیشنل فنانس کارپوریشن (آئی ایف سی) قرض کنسورشیم کی قیادت کر رہی ہے، یہ ایک ایسا کردار ہے جو عالمی قرض دہندگان کے لیے مضبوط مستعدی اور اطمینان کا باعث ہے کیونکہ آئی ایف سی عام طور پر بڑے اور پیچیدہ وسائل کے شعبوں کی مالی اعانت میں کام کرتا ہے۔وفاقی وزیر کا کہنا تھا کہ حتمی عناصر میں سے ایک یو ایس ایکسپورٹ امپورٹ بینک (یو ایس ایگزم) کی شرکت ہے، جس نے امریکی حکومت کے حالیہ شٹ ڈاؤن کے باعث نئی منظوریوں کو عارضی طور پر روکا ہوا ہے۔ شٹ ڈاؤن کے مکمل خاتمے کے بعد اب ایگزم کی شمولیت ’نسبتاً جلد‘ دوبارہ شروع ہونا چاہیےمالیاتی ڈھانچہ اب بنیادی طور پر اپنی جگہ پر ہے کیونکہ آئی ایف سی کی زیرقیادت کنسورشیم نے تقریباً 3.5 ارب ڈالر کے اس پروجیکٹ کے مالیاتی انتظام مکمل کر لیا ہے اور صرف حتمی قرض دہندہ کی منظوری باقی ہے۔انہوں نے واشنگٹن کے حالیہ دورے کے دوران آئی ایف سی کے منیجنگ ڈائریکٹر اور کنسورشیم کے تمام شراکت داروں سے ملاقات کی، جس سے ان کے اعتماد کو تقویت ملی کہ کام شروع ہونے والا ہے۔ وزیر خزانہ نے پاکستان کے برآمدی بنیاد کے لیے ریکوڈک کی تبدیلی کی صلاحیت پر زور دیا۔ سالانہ برآمدات تقریباً 30 ارب ڈالر پر رکی ہوئی ہیں لیکن ریکوڈک کان کے آپریشن کے پہلے سال ہی وہاں سے 2.8 ارب ڈالر برآمدات ممکن ہیں، جو آج پاکستان کی کل برآمدات کا تقریباً 10 فیصد ہے۔انہوں نے کہا کہ یہ گیم چینجر ہے۔ریکوڈک کے علاوہ، پاکستان امریکہ اور دیگر شراکت داروں کے ساتھ اہم معدنیات پر بات چیت کر رہا ہے، یہ ایک ایسا شعبہ ہے جو عالمی سپلائی چین کی حکمت عملیوں کا مرکز بن گیا ہے کیونکہ دنیا تانبے، لیتھیم، کوبالٹ اور نایاب زمین کے متبادل ذرائع تلاش کر رہی ہے۔ایک امریکی اہلکار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ امریکی سرمایہ کاروں کے ساتھ ایک ارب ڈالر سے زیادہ کا اہم معدنیات کا معاہدہ طے پا گیا ہے،’واضح وجوہات کی بنا پر، معدنیات اور کان کنی اور اہم معدنیات دلچسپی کا ایک اہم شعبہ ہے۔ اور یہ کہ ہم آگے بڑھ رہے ہیں انہوں نے مزید کہا کہ ’یہاں زبردست دلچسپی ہے اور ہمارے پاس زبردست صلاحیت موجود ہے۔اورنگزیب نے کہا کہ پاکستان کا مقصد واضح ہے یعنی معاشی بنیادوں کو بہتر بنانا اور سازگار جغرافیائی سیاست کو طویل مدتی، نجی شعبے کی قیادت میں سرمایہ کاری کے بہاؤ میں شامل کرنا، جس میں سعودی عرب اس تبدیلی میں سب سے زیادہ نتیجہ خیز شراکت دار کے طور پر ابھرتا ہےاور یہ سب کچھ تجارت اور سرمایہ کاری میں بدلنے کے بارے میں ہے۔ اور یہ سب کچھ نجی شعبے کی قیادت میں بورڈ میں ہو گا۔اس کے علاوہپاکستان نے سعودی عرب کو اہم پاکستانی انفراسٹرکچر منصوبوں میں سعودی سرمایہ کاری کی دعوت دی ہے اعلامیے کے مطابق ان انفراسٹرکچر منصوبوں میں ایم-6 موٹر وے سکھر- حیدرآباد ، ایم-10 موٹر وے حیدرآباد – کراچی پورٹ ، ایم-13 موٹر وے کھاریاں – راولپنڈی اور مانسہرہ – ناران – جل کھڈ- چلاس روڈ شامل ہیں۔
پاکستان کے وفاقی وزیر مواصلات عبدالعلیم خان نے پاکستان انٹرنیشنل میری ٹائم ایکسپو اینڈ کانفرنس کے دوران سعودی عرب کے وزیر ٹرانسپورٹ و لاجسٹک سروسز، انجینیئر صالح بن ناصر الجاسر کو اہم پاکستانی انفراسٹرکچر منصوبوں میں سعودی سرمایہ کاری کی دعوت دی انہوں نے سعودی وزیر کو پاکستان کے بڑھتے ہوئے روڈ نیٹ ورک اور اہم قومی منصوبوں میں سرمایہ کاری کے مواقع کے بارے میں آگاہ کیاپاکستان سعودی عرب کے ساتھ ٹرانسپورٹ، لاجسٹکس، اور انفراسٹرکچر کی ترقی کے شعبوں میں تعاون مزید بڑھانا چاہتا ہے یہ منصوبہ اپنے سیاحتی امکانات کی وجہ سے تجارتی طور پر فائدہ مند ہے اور سرمایہ کاروں کے لیے پرکشش ہے پاکستان کا روڈ انفراسٹرکچر متحرک اور خود کفیل ہے، جسے مؤثر ٹول سسٹم کی مدد حاصل ہے جو سڑکوں کی دیکھ بھال اور ترقی میں نمایاں کردار ادا کرتا ہے نیز وزارت مواصلات اور نیشنل ہائی وے اتھارٹی شمالی علاقوں کو اہم شہری اور اقتصادی مراکز سے ملانے والے نئے موٹر وے منصوبوں پر کام کر رہے ہیں، جو علاقائی تجارت اور روابط کو مزید مضبوط کریں گے۔انہوں نے اعادہ کیا کہ پاکستان اور سعودی عرب کے درمیان بھائی چارہ اور طویل المدتی تعلقات قائم ہیں اور انفراسٹرکچر کے شعبے میں تعاون کے لیے بہت زیادہ صلاحیت موجود ہے۔خیال رہے پاکستان کے وزیراعظم شہباز شریف نے 28 اکتوبر 2025 کو ریاض میں سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان سے ملاقات کی تھی اور دوطرفہ تعلقات کے فروغ کے لیے سعودی ولی عہد کی مسلسل حمایت پر شکریہ ادا کیا تھا۔ ملاقات میں سعودی عرب کے ولی عہد و وزیراعظم شہزادہ محمد بن سلمان اور پاکستان کے وزیراعظم محمد شہباز شریف نے دونوں ممالک کے درمیان ’اقتصادی تعاون کے فریم ورک‘ کے آغاز پر اتفاق کیاتھا۔ وزارت خارجہ کی طرف سے جاری مشترکہ اعلامیے کے مطابق یہ معاہدہ دونوں ممالک کے درمیان قائم تقریباً آٹھ دہائیوں پر محیط تاریخی شراکت داری، اخوت اور اسلامی یکجہتی کے مضبوط رشتوں کی بنیاد پر کیا گیا ہے یہ فریم ورک سعودی عرب اور پاکستان کے مشترکہ اقتصادی مفادات پر مبنی ہے اور باہمی تجارت و سرمایہ کاری کے فروغ کے عزم کی تجدید کرتا ہے تاکہ دونوں ملکوں کے عوام کے مشترکہ مفادات کو آگے بڑھایا جا سکے۔ اس فریم ورک کے تحت معیشت، تجارت، سرمایہ کاری اور ترقی کے مختلف شعبوں میں کئی اسٹریٹجک اور کلیدی منصوبوں پر غور کیا جائے گا جو دونوں حکومتوں کے درمیان تعاون کو مزید مستحکم کریں گے۔ اس سے نجی شعبے کے کردار میں اضافہ ہو گا اور باہمی تجارتی تبادلے کو فروغ ملے گا ترجیحی شعبوں میں توانائی، صنعت، معدنیات، اطلاعاتی ٹیکنالوجی، سیاحت، زراعت اور غذائی تحفظ شامل ہیں۔ دونوں فریق اس وقت متعدد مشترکہ اقتصادی منصوبوں پر کام کر رہے ہیں، جن میں سعودی عرب اور پاکستان کے درمیان بجلی کے تبادلے کے منصوبے کے لیے مفاہمتی یادداشت (ایم او یو) پر دستخط، اور توانائی کے شعبے میں تعاون کے لیے ایک اور ایم او یو شامل ہے۔ اعلامیے میں مزید کہا گیا تھا کہ یہ فریم ورک دونوں ممالک کے درمیان برادرانہ تعلقات کے فروغ کی کوششوں کا تسلسل ہے اور یہ اس مشترکہ وژن کی عکاسی کرتا ہے جو پائیدار شراکت داری کے قیام کے لیے مختلف اقتصادی، تجارتی اور سرمایہ کاری کے شعبوں میں عملی اقدامات کی راہ ہموار کرے گا۔ رہنماؤں نے اس عزم کا بھی اظہار کیا تھاکہ جلد سعودی۔پاکستان سپریم کوآرڈینیشن کونسل کا اجلاس منعقد کیا جائے گا تاکہ دوطرفہ تعاون کے اس نئے باب کو عملی شکل دی جا سکے۔سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس پر ایک پوسٹ میں شہباز شریف نے کہا تھاکہ ملاقات میں تجارتی، سرمایہ کاری اور اقتصادی تعاون کو مزید وسعت دینے کے اقدامات پر تبادلہ خیال کیا گیا۔ وزیراعظم کے اس پیغام میں مزید کہا گیا تھاکہ دونوں ممالک نے برادرانہ تعلقات کی دیرپا مضبوطی کے عزم کا اعادہ کیا۔ وزیراعظم نے سعودی ولی عہد کی غیر متزلزل حمایت پر شکریہ بھی ادا کیاتھا۔ شہباز شریف نے کہا تھاکہ وہ سعودی ولی عہد کے لیے شکر گزار ہیں جنہوں نے دونوں ممالک اور عوام کے درمیان گہری شراکت داری اور خوشحالی کے مشترکہ وژن کو آگے بڑھانے میں بھرپور کردار ادا کیاتھا۔
بلاشبہ پاکستان اور سعودی عرب کے درمیان تاریخی اسٹرٹیجک باہمی دفاعی معاہدہ پاک سعودی اسٹرٹیجک شراکت داری کی گہرائی اور دفاعی تعاون کی مضبوطی کو ثابت کرتا ہے۔ آرمی چیف فیلڈ مارشل سید عاصم منیر نے معاہدے کی کامیابی میں کلیدی کردار ادا کیا ہے، معاہدے سے پاکستان اب حرمین شریفین کے تحفظ میں سعودی عرب کا پارٹنر بن گیا ہے۔
سعودی عرب اور پاکستان فوجی تعاون کی بھی ایک طویل تاریخ رکھتے ہیں، جس کا آغاز 1967 میں ایک دفاعی پروٹوکول کے معاہدے پر دستخط سے ہوا تھا۔ اس کا دائرہ کار سعودی عرب میں پاکستانی فوجی مشیروں اور ٹرینرز کی تعیناتی اور سعودی عرب کے فوجی افسران کو پاکستان کی فوجی اکیڈمیوں میں تربیت کے مواقعے فراہم کیے جانے پر مشتمل تھا۔ اسی طرح 1982 میں ہونے والے ایک دفاعی معاہدے نے باہمی تعاون کے اس سلسلے کو مزید وسعت دی جس میں دفاعی مقاصد اور ٹریننگ کے لیے مملکت میں پاکستانی فوجیوں کی تعیناتی اور دفاعی پیداوار کے علاوہ مشترکہ مشقوں کے نکات بھی شامل تھے۔
اس کے بعد دونوں ممالک کے رہنما اور دفاعی حکام دفاع کے حوالے سے تزویراتی پالیسیوں کو باہمی طور پر مربوط بنانے کے لیے باقاعدگی سے ملاقاتیں کرتے رہے ہیں۔ یہ سلسلہ ماضی قریب میں مزید اہمیت اختیار کر گیا کیونکہ دفاعی پیداوار میں خود انحصاری سعودی عرب کے ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کے سعودی وژن 2030 کا اہم ستون ہے۔ 1989 میں جب عراق نے کویت پر حملہ کیا اور سعودی عرب کو اپنے بارڈرز پر دفاعی خطرات کا سامنا کرنا پڑا تو اس وقت پاکستان نے فوراً اپنی افواج سعودی عرب بھجوائیں۔
1998 میں ایٹمی دھماکوں کے بعد جب پاکستان بہت سخت معاشی مشکلات کا شکار ہوا تو ان حالات میں سعودی عرب نے پاکستان کی خام تیل اور دیگر ذرائع سے بھرپور مدد کی۔ ولی عہد محمد بن سلمان کے وژن 2030 کے تحت پاکستان کو سعودی عرب کے ساتھ تجارت اور سرمایہ کاری کے بے شمار مواقع فراہم کیے گئے ہیں جن میں پاکستانی کارکنان کی سعودی عرب میں جاری بڑے منصوبوں پر ملازمت بھی شامل ہے۔
اس وقت بھی کثیر تعداد میں پاکستانی سعودی عرب میں مختلف شعبوں میں خدمات سرانجام دینے کے ساتھ ساتھ کاروبار بھی کر رہے ہیں جو معاشی طور پر پاکستان اور ان کے گھرانوں کے لیے انتہائی اہم اور مددگار ہے۔سعودی عرب اور پاکستان کے درمیان دوطرفہ گہرے تعلقات مشترکہ تاریخ اور باہمی مفادات میں جڑے ہوئے ہیں۔ دونوں ہی اسلام کے لیے گہری عقیدت رکھتے ہیں۔
سعودی عرب مسلمانوں کے عقیدے کا مرکز ہے تو پاکستان ایک اسلامی جمہوریہ کے طور پر دنیا کے نقشے پر ابھرا۔ دونوں ممالک کے رہنماؤں کے درمیان ذاتی تعلقات نے یکجہتی کو آگے بڑھانے میں بہت اہم کردار ادا کیا اور حالیہ برسوں کے دوران مشکل حالات میں ایک دوسرے کے شانہ بشانہ کھڑے ہوتے رہے ہیں۔ پاکستان کے سیاسی رہنما اور فوجی قیادت موجودہ معاشی بحران پر قابو پانے کے لیے پرعزم دکھائی دیتی ہے اور ماضی کی طرح مملکت کی قیادت خوشحال مستقبل کے لیے کی جانے والی پاکستان کی جدوجہد کی حمایت کرتی ہے۔
سعودی عرب کے وزیرِاعظم اور ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان، جدید سعودی عرب کے معمار، ایک عہد ساز شخصیت اور عالمِ اسلام کے لیے نویدِ سحر ہیں۔ ان کی قیادت میں سعودی عرب میں ایک نئی صبح کا آغاز ہو چکا ہے، جہاں ترقی کے افق روشن ہیں، جہاں جدیدیت اور روایات ہم آہنگ ہو کر ایک نیا سماں باندھ رہی ہیں۔
ان کی اصلاحات، ترقیاتی منصوبے اور عوامی فلاح و بہبود کے اقدامات سعودی عرب کو عالمی سطح پر ایک مثالی ملک بنا رہے ہیں، وہ نہ صرف عرب دنیا بلکہ بین الاقوامی سیاست میں بھی ایک اہم شخصیت بن چکے ہیں۔ وہ ایک مردِ حوصلہ ہیں، جن کے فیصلے جرات کی علامت ہیں، جن کی سوچ وسعتوں کی امین ہے اور جن کی نگاہیں مستقبل کے دریچوں میں امید کے چراغ روشن کر رہی ہیں۔
پاکستان اور سعودی عرب کے تعلقات تاریخی طور پر بھائی چارے، مذہبی ہم آہنگی اور اقتصادی تعاون کی بنیاد پر استوار رہے ہیں۔ پاکستان نے ہر مشکل وقت میں سعودی عرب کی مدد کی اور سعودی عرب نے بھی مالی امداد، تیل کی فراہمی، سرمایہ کاری اور ہزاروں پاکستانیوں کو روزگار فراہم کر کے پاکستان کی معیشت کو سہارا دیا۔ تاہم، یہ ایک تاریخی موقع ہے کہ دونوں ممالک نے ایک باقاعدہ دفاعی معاہدے پر دستخط کیے ہیں جو کہ نہ صرف عسکری شعبے میں تعاون کو مضبوط کرے گا، بلکہ دونوں ممالک کو عالمی سیاست میں ایک نئی پوزیشن پر لاکھڑا کرے گا۔
اس معاہدے سے پاکستان کو جہاں جدید عسکری ٹیکنالوجی، انٹیلیجنس تعاون اور مشترکہ تربیت کے مواقع حاصل ہوں گے، وہیں سعودی عرب کو پاکستان کی جنگی مہارت، تجربہ کار افرادی قوت اور نیوکلیائی طاقت کی حامل سیکیورٹی پالیسیوں سے فائدہ حاصل ہوگا۔ دونوں ممالک مشترکہ فوجی مشقیں کر سکتے ہیں، سرحدی دفاع کو مربوط بنا سکتے ہیں اورکسی بھی بیرونی خطرے کی صورت میں متفقہ لائحہ عمل اختیار کر سکتے ہیں۔ سعودی عرب کے ساتھ اس دفاعی معاہدے کی کامیابی کا انحصار اس بات پر بھی ہے کہ دونوں ممالک اپنی ترجیحات کو کتنی دور اندیشی، سنجیدگی اور تسلسل سے آگے بڑھاتے ہیں۔
ہمیں یہ بات نہیں بھولنی چاہیے کہ کسی بھی معاہدے کی کامیابی صرف اس کے کاغذی الفاظ پر نہیں بلکہ اس کے عملی نفاذ، شفافیت اور عوامی مفاد سے ہم آہنگی پر منحصر ہوتی ہے۔ خلاصہ کلام یہ ہے کہ پاکستان اور سعودی عرب کے مابین اسٹرٹیجک باہمی دفاعی معاہدہ یقیناً ایک بڑی سفارتی اور دفاعی پیش رفت ہے، جو دونوں ممالک کے تعلقات کو ایک نئی سمت دے سکتا ہے، مگر اس معاہدے کی کامیابی کے لیے متوازن حکمتِ عملی، سفارتی تدبر، اقتصادی بصیرت اور قومی مفاد کو اولین ترجیح دینا لازم ہے۔ پاکستان کو اس موقع کو دفاع سے آگے بڑھ کر ترقی، امن اور علاقائی استحکام کے ایک جامع وژن میں ڈھالنا ہوگا، تاکہ یہ معاہدہ صرف تاریخ کا حصہ نہ بنے، بلکہ ایک مؤثر اورکامیاب اشتراکِ عمل کی روشن مثال بن سکے۔
پاکستان اور سعودی عرب کا دفاعی طور پر ایک دوسرے کے قریب آنا نہایت اہمیت کا حامل ہے۔ یہ نہ صرف ایک دوسرے کی سیکیورٹی کو مضبوط بناتا ہے بلکہ خطے میں عسکری توازن، سفارتی رابطہ کاری اور استحکام کے امکانات کو بڑھاتا ہے۔ یہ دفاعی اتحاد دراصل غیر یقینی عالمی حالات کے مقابل ایک حفاظتی ڈھال بھی ہے اور اسلامی دنیا میں باہمی تعاون کے فروغ کی ایک امید بھی۔خیال رہےپاکستان کے دورے پر آئے سعودی مسلح افواج کے چیف آف جنرل اسٹاف جنرل فیاض بن حمید الرویلی نے وزیراعظم شہباز شریف اور فیلڈ مارشل جنرل عاصم منیر سے ملاقات کی، جس میں دونوں ممالک کے درمیان تاریخی برادرانہ تعلقات کو مزید مضبوط بنانے کے عزم کا اعادہ کیا گیا۔ وزیراعظم شہبازشریف نے سے سعودی عرب کی مسلح افواج کے چیف آف جنرل اسٹاف جنرل فیاض بن حمید الرویلی نے اسلام آباد میں ملاقات کی، ملاقات میں چیف آف آرمی سٹاف فیلڈ مارشل سید عاصم منیر ، نائب وزیراعظم اسحاق ڈار ، خواجہ آصف، طارق فاطمی اور دونوں ممالک کے علیٰ حکام نے شرکت کی۔
شہباز شریف نے خادم حرمین شریفین شاہ سلمان اور ولی عہد محمد بن سلمان کے لیے اپنی نیک تمناؤں کا اظہار کرتے ہوئے سعودی عرب کے ساتھ اقتصادی، دفاعی اور سیکیورٹی سمیت دیگر تمام شعبوں میں تاریخی برادرانہ تعلقات کو مزید مضبوط بنانے کے اپنے پختہ عزم کا اعادہ کیا۔وزیراعظم نے فیاض بن حمید الرویلی کا خیرمقدم کیا اورپاکستان کو ہر وقت فراہم کی جانے والی غیر متزلزل حمایت اور یکجہتی پر سعودی عرب کو سراہا۔وزیراعظم نے گزشتہ دو ماہ کے دوران ریاض کے اپنے انتہائی کامیاب دوروں کا ذکر کیا ، جن کے دوران دونوں فریقوں کے درمیان تاریخی اسٹریٹجک باہمی دفاعی معاہدوں پر دستخط ہوئے۔شہباز شریف نے ہر قسم کی دہشت گردی اور انتہاپسندی کا مقابلہ کرنے اور خطے میں امن و استحکام کو فروغ دینے کے لیے دونوں ممالک کے مشترکہ عزم کو بھی اجاگر کیا۔انہوں نے پاکستان کے ساتھ موجودہ بہترین دفاعی اور تزویراتی شراکت داری کو نئی بلندیوں تک پہنچانے کے لیے سعودی عرب کی مضبوط خواہش کا اعادہ کیا۔













