اسلام آباد (ٹی این ایس) پاکستان کی فوجی تاریخ میں چند نام ایسے ہیں جو صرف عسکری قیادت تک محدود نہیں رہتے بلکہ ایک قوم کے اجتماعی شعور کا حصہ بن جاتے ہیں۔ جنرل راحیل شریف، جنرل قمر جاوید باجوہ اور اب جنرل سید عاصم منیر احمد شاہ۔ مگر جنرل عاصم منیر کی کہانی کچھ مختلف ہے۔ وہ پہلے افسر ہیں جنہیں چیف آف آرمی اسٹاف کے عہدے پر فائز رہتے ہوئے فیلڈ مارشل کے اعزازی رتبے سے نوازا گیا۔ پاکستان کی تاریخ میں یہ اعزاز صرف دو افراد کو ملا تھا: جنرل ایوب خان اور جنرل یحییٰ خان۔ تیسرے افسر کا نام جنرل عاصم منیر ہے۔ یہ اعزاز محض پروٹوکولری نہیں، یہ ایک قوم کا اپنے فوجی سربراہ پر مکمل اعتماد کا اعلان ہے۔
آج جب دنیا ایک نئے سرد جنگ کے دہانے پر کھڑی ہے، جب ایشیا میں طاقت کا توازن تیزی سے تبدیل ہو رہا ہے، جب افغانستان سے لے کر بحیرہ عرب تک، کشمیر سے لے کر خلیجِ فارس تک پاکستان کی جغرافیائی اہمیت پہلے سے کہیں زیادہ بڑھ گئی ہے، اس نازک موڑ پر جنرل عاصم منیر کی قیادت نہ صرف پاکستان کے لیے بلکہ پورے خطے اور عالمی امن کے لیے ایک استحکام کا عنصر بن چکی ہے۔
جنرل عاصم منیر 1968ء میں راولپنڈی میں ایک معزز سید خاندان میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد سید احمد منیر تعلیم یافتہ اور مذہبی گھرانے سے تعلق رکھتے تھے۔ فوج میں جانے کا فیصلہ کوئی اتفاقی نہیں تھا۔ مانگلا اور فیصل آباد میں بچپن گزرا، فوج کے ماحول میں پرورش ہوئی۔ 1986ء میں اوفیسرز ٹریننگ اسکول سے کمیشن حاصل کیا اور فرنٹیئر فورس رجمنٹ میں شمولیت اختیار کی، وہی رجمنٹ جس نے کارگل کی چوٹیوں پر پاکستانی پرچم لہرایا تھا۔ ان کی ابتدائی تربیت کا ایک حصہ سعودی عرب میں ہوا جہاں انہوں نے سعودی رائل گارڈز کو تربیت دی۔ یہ تجربہ ان کے کیریئر کا اہم موڑ ثابت ہوا۔ سعودی عرب، متحدہ عرب امارات اور پاکستان کے درمیان جو خفیہ اور اعلانیہ عسکری تعلقات آج نظر آتے ہیں، ان کی بنیاد میں جنرل عاصم منیر جیسے افسروں کا کردار ہے۔
جنرل عاصم منیر کی شہرت ایک بہترین انٹیلی جنس افسر کی ہے۔ 2017ء میں بریگیڈیئر کے عہدے پر فورس کمانڈ ناردرن ایریاز کے کمانڈر تھے جب انہوں نے ایک بہت بڑا فیصلہ کیا۔ نواز شریف کے قریبی دوست کے بیٹے کو، جو فوجی علاقے میں غیر قانونی طور پر داخل ہوا تھا، گرفتار کرنے کا حکم دیا۔ یہ واقعہ ان کی پروفیشنلزم اور قانون کی حکمرانی پر غیر متزلزل یقین کی عکاسی کرتا ہے۔ 2018ء میں میجر جنرل عاصم منیر کو ڈی جی آئی ایس آئی بنایا گیا۔ یہ وہ دور تھا جب عمران خان کی حکومت اقتدار میں آئی۔ چند ماہ بعد ہی اختلافات سامنے آئے۔ کہا جاتا ہے کہ انہوں نے بشریٰ بی بی کے سابق شوہر کے الزامات کو سنجیدگی سے لیا اور تحقیق کی، نتیجے میں انہیں ڈی جی آئی ایس آئی کے عہدے سے ہٹا دیا گیا۔ مگر فوج نے انہیں ضائع نہیں ہونے دیا۔ کور کمانڈر گوجرانوالہ اور پھر کوارٹر ماسٹر جنرل بنایا گیا۔
نومبر 2022ء میں جب جنرل قمر جاوید باجوہ نے ریٹائرمنٹ کا اعلان کیا تو پاکستان کی سیاسی تاریخ کے نازک ترین موڑ پر جنرل عاصم منیر کو آرمی چیف مقرر کیا گیا۔ اس تقرری کے پیچھے شہباز شریف اور جنرل باجوہ دونوں کا اتفاقِ رائے تھا، لیکن عمران خان کی جماعت نے اسے مسترد کر دیا اور “سیلیکٹڈ” کا لیبل لگایا۔ وقت نے ثابت کیا کہ یہ تقرری پاکستان کے لیے نعمت ثابت ہوئی۔
9 مئی 2023ء پاکستان کی تاریخ کا سیاہ دن ہے جب عمران خان کی گرفتاری کے بعد ان کے حامیوں نے فوجی تنصیبات پر حملے کیے، شہیدوں کی یادگاریں نذرِ آتش کیں، کور کمانڈر ہاؤس لاہور جلایا گیا۔ جنرل عاصم منیر کے سامنے دو راستے تھے: یا فوج کو براہِ راست سیاسی میدان میں اتاریں یا ادارے کو سیاست سے الگ رکھتے ہوئے قانون کے دائرے میں رہ کر جواب دیں۔ انہوں نے دوسرا راستہ چنا۔ فوج نے سول قیادت کو آگے رکھا، ملٹری کورٹس کا فیصلہ ہوا، مگر ساتھ ہی واضح پیغام دیا کہ “فوج سیاست میں نہیں آئے گی، مگر جو فوج پر ہاتھ اٹھائے گا، اسے معاف نہیں کیا جائے گا”۔ یہ پیغام پوری دنیا نے سنا۔
جنرل عاصم منیر نے آرمی چیف بنتے ہی دہشت گردی کے خلاف جنگ کو نیا روپ دیا۔ ٹی ٹی پی دوبارہ سر اٹھا رہی تھی۔ افغان طالبان کی حکومت کے بعد امید تھی کہ دہشت گردی ختم ہو جائے گی، مگر ایسا نہ ہوا۔ انہوں نے واضح الفاظ میں کہا کہ ہم نہ اپنی سرزمین کسی کو استعمال ہونے دیں گے اور نہ کسی کو اجازت دیں گے کہ وہ ہماری سرزمین استعمال کر کے افغانستان کو غیر مستحکم کرے۔ افغان طالبان سے براہِ راست بات کی، جب بات نہ بنی تو خیبرپختونخوا اور بلوچستان میں انٹیلی جنس بیسڈ آپریشنز کیے گئے۔ 2024ء اور 2025ء میں دہشت گردی کے واقعات میں واضح کمی آئی۔
انہوں نے سب سے بڑا خطرہ دہشت گردی کو نہیں، معاشی بدحالی کو قرار دیا۔ ان کے تاریخی الفاظ ہیں کہ پاکستان کا سب سے بڑا خطرہ معاشی بدحالی ہے۔ اسی سوچ پر Special Investment Facilitation Council (SIFC) قائم ہوا جس میں فوج، سول حکومت اور نجی شعبہ ایک پلیٹ فارم پر آئے۔ سعودی عرب، قطر، امارات، چین اور ترکیہ سے اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری کے معاہدے ہوئے۔ گوادر، ریکوڈک، معدنیات اور زراعت کے شعبوں میں غیر معمولی پیش رفت ہوئی۔ آج عالمی مالیاتی ادارے پاکستان کی معیشت کی تعریف کر رہے ہیں، اس کے پیچOGے SIFC اور جنرل عاصم منیر کی قیادت ہے۔
کشمیر کے مسئلے پر انہوں نے پاکستان کی پوزیشن کو نہ صرف مضبوط کیا بلکہ عالمی سطح پر دوبارہ اجاگر کیا۔ اقوام متحدہ، او آئی سی اور عالمی میڈیا میں کشمیر کو زندہ رکھا، لائن آف کنٹرول پر فوج کی تیاری جدید ترین سطح پر پہنچائی۔ چین کے ساتھ “آہنی دوستی” کو نئی بلندیوں پر پہنچایا، سی پیک کے دوسرے مرحلے میں صنعتی زونز، زراعت اور آئی ٹی میں بڑی پیش رفت ہوئی، بلوچستان میں سی پیک کو نشانہ بنانے والی دہشت گردی کو کنٹرول کیا گیا۔
امریکہ اور مغربی دنیا سے تعلقات کو ایک نئے متوازن انداز میں استوار کیا۔ نہ مکمل علیحدگی، نہ پرانی غلامی۔ افغانستان سے امریکی انخلاء کے بعد پاکستان نے آزاد خارجہ پالیسی کو واضح کیا۔ آج امریکہ بھی تسلیم کرتا ہے کہ خطے کے امن میں پاکستان کا کردار ناگزیر ہے۔
2025ء میں جب پارلیمان اور حکومت نے متفقہ طور پر جنرل عاصم منیر کو فیلڈ مارشل کا رتبہ دیا تو یہ محض فوجی اعزاز نہیں تھا بلکہ ایک قوم کا اپنے فوجی سربراہ کے تئیں اعتماد، شکرگزار اور فخر کا اظہار تھا۔ انہوں نے فوج کو متحد اور سیاست سے پاک رکھا، ایک پروفیشنل، جدید اور قوم کے لیے وقف ادارہ بنائے رکھا، ثابت کیا کہ فوج قوم کی خدمت گار ہے، حکمران نہیں۔
آج جب ہم فیلڈ مارشل جنرل سید عاصم منیر احمد شاہ کو دیکھتے ہیں تو ایک ایسے لیڈر کی تصویر سامنے آتی ہے جس نے نہ صرف فوج بلکہ پوری ریاست کو نئے اعتماد، وقار اور استحکام سے ہمکنار کیا۔ عالمی سطح پر جب پاکستان کا نام احترام سے لیا جاتا ہے، جب سعودی عرب سے چین تک، امریکہ سے روس تک پاکستان کی رائے کو اہمیت دی جاتی ہے، تو اس کے پیچھے فیلڈ مارشل عاصم منیر کی خاموش مگر فیصلہ کن قیادت ہے۔
اللہ پاکستان کو ہمیشہ ایسے بیٹوں سے نوازے جو اپنی جان، مال اور عزت سے زیادہ وطن کی عزت کو مقدم رکھیں۔
فیلڈ مارشل جنرل سید عاصم منیر احمد شاہ زندہ باد
پاکستان فوج پائندہ باد
پاکستان دردہ باد













