اسلام آباد۔17دسمبر (ٹی این ایس):وفاقی پارلیمانی سیکرٹری برائے انفارمیشن ٹیکنالوجی سبین غوری نے کہا ہے کہ وزیراعظم محمدشہبازشریف کی قیادت میں خواتین کو بااختیار بنانے کے لئے ہر ممکن اقدامات اٹھائے جارہے ہیں، اداروں میں 10 فیصد کوٹہ جبکہ بورڈز میں خواتین کی نمائندگی لازمی قرار دیدی گئی ہے ،ٹیکنالوجی کے بڑھتے ہوئے رحجان میں معاشرتی اقدار و اصولوں کو بھی مد نظر رکھنا چاہئے۔
وہ بدھ کو گروئنگ ویمن کے زیراہتمام خواتین کی استعداد میں اضافے اور انہیں بااختیاربنانے سے متعلق آگاہی سیمینار سے خطاب کر رہی تھیں ۔ وفاقی پارلیمانی سیکرٹری نے کہاکہ سائبر سکیورٹی اور سائبر کرائم اس وقت بڑے چیلنجز ہیں ،یہ چیزیں انفارمیشن ٹیکنالوجی سے منسلک ہیں ، اگر غلطی سے کسی لنک پر کلک ہو جائے تو اس سے فون کا ڈیٹا یا واٹس ایپ ہیک ہو جاتا ہے جس میں اہم اور ذاتی معلومات ہوتی ہیں۔
انہوں نے کہا کہ حکومت کے لئے خواتین کا تحفظ سب سے اہم ہے، اس تناظر میں ”زینب الرٹ” اور ”سہیلی” ایپ کا بھی آغاز کیا گیا ہے جو کامیابی سے چل رہی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ موجودہ حکومت نے خواتین کو بااختیار بنانے کے لئے اداروں میں بھرتی کے لئے 10 فیصد کوٹہ مختص کرنے کے ساتھ ساتھ اداروں میں بننے والے بورڈز میں بھی خواتین کی نمائندگی کو لازمی قرار دیدیا ہے۔ اس وقت وزارت انفارمیشن ٹیکنالوجی اوراین آئی ٹی بی میں 50 فیصد سے زیادہ جبکہ پیس ایپ میں 33 فیصد سے زیادہ خواتین کام کر رہی ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ خواتین کو با اختیار بنانا مسئلہ نہیں ہے ،ہمیں اپنے معاشرے کو اس کے لئے تیار کرنا ہوگا کیونکہ اسلام نے بھی خواتین کو حقوق دیئے ہیں ، ہم ایک اسلامی ملک میں رہتے ہیں اور ہمارا دین جس طرح عورت کو باپردہ رہنے کا حکم دیتا ہے اسی طرح مرد کو بھی اپنی نظر نیچی رکھنے کا درس دیتا ہے، عورت کو آزادی اسی دن مل گئی تھی جس دن دین اسلام آیا اور نبی اکرم نے عورتوں کے حقوق بتائے تھے۔ انہوں نے کہا کہ خواتین کے حقوق کو نصاب کا حصہ ہونا چاہئے ،اس سے نئی نسل کو آگاہی ملے گی اور تبدیلی وہیں سے شروع ہونی ہے۔
انہوں نے کہا کہ ملک کی مجموعی آبادی کا نصف خواتین پرمشتمل ہے ، اگر ہم انہیں مساوی حقوق نہیں دیں گے تو ہم دنیا کی ترقی کا حصہ کیسے بنیں گے۔ انہوں نے کہا کہ حکومت بہت کچھ کر رہی ہے مگر جب تک ہم اپنی سوچ نہیں بدلیں گے تو آگے نہیں بڑھ سکیں گے۔ انہوں نے کہا کہ حکومتی سطح پر ملک بھر میں مفت ہائی ٹیک کورسز کرارہے ہیں ، رجسٹرڈ ہونے والے 3 لاکھ امیدواروں میں سے 10 فیصد خواتین ہیں۔ انہوں نے کہا کہ کے پی کے اور بلوچستان میں خواتین کو ورک فرام ہوم کی طرف لارہے ہیں ، ان کو تربیت دی جارہی ہے ، یہ سب کام اسی وقت مکمل ہوں گے جب معاشرہ اور گھر مل کر خواتین کو ایک محفوظ ماحول مہیا کریں گے۔
انہوں نے کہا کہ خواتین کے لئے وفاقی دارالحکومت میں انکوبیشن سینٹر کا قیام آئندہ دو ماہ تک عمل میں آجائے گا ،اس سے اسلام آباد کے دیہی علاقوں کی خواتین کو باآسانی امور سرانجام دینے میں مدد ملے گی۔ گروئنگ ویمن کی سی ای او رومانہ چوہدری نے کہا کہ حکومت کے ساتھ ساتھ ڈویلپمنٹ سیکٹر بھی خواتین کو بااختیار بنانے میں مثبت کردار ادا کر رہا ہے، ہمیں اپنی گلی محلے میں ایسا ماحول پیدا کرنا ہوگا تا کہ خواتین جس طرح گھر کے اندر محفوظ ہیں اسی طرح باہر بھی محفوظ ہوں ، اس مقصد کے لئے خاص میکنزم واضح کرنا چاہئے۔
ایف آئی اے کے سابق ایڈیشنل ڈی جی نواز الحق نے کہا کہ مجھے سائبر کرائم کا پہلاڈپٹی ڈائریکٹر ہونے کا اعزاز حاصل ہے ، اس دوران خواتین سے متعلق بہت سے کیسز کی انویسٹی گیشن کی ہے ، اس سارے عمل میں ایک چیز دیکھی جب خواتین خود ہوں تو ٹھیک لیکن گھر والوں تک بات پہنچے تو پھر معاملہ رک جاتا ہے۔اس موقع پر سینئر صحافی ،اینکر پرسن اور چیئرمین پیاس انٹرنیشنل ہیومن رائٹس رانا عمران لطیف نے کہا کہ سائبر کرائم ادارہ تو بن گیا ہے لیکن اس کا باقاعدہ دفتر موجود نہیں ہے ، ایک ہی کمرے میں کئی افسران بیٹھے ہوئے ہیں اور موصول ہونے والی درخواستوں کو نمٹانے کابھی کوئی موثر نظام نہیں ہے ، ان حالات میں کام کیسے ہو گا۔ انہوں نے کہا کہ اسلام اور قرآن پاک میں خواتین کے حقوق کو واضح انداز میں بیان کیا گیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ ترقی یافتہ ممالک میں بھی خواتین مردوں کے شانہ بشانہ کام کرتی ہیں اس سے ہمیں سیکھنا چاہئے۔ انہوں نے کہا کہ پیاس انٹرنیشنل ہیومین رائٹس کی جانب سے خواتین کی شکایات کے انداراج کے لئے ہیلپ لائن 24/7 کام کرہی ہے جبکہ اس حوالے سے بہت جلد آن لائن پورٹل بھی شروع کیا جائے گا۔ سابق ڈی جی نادرا انور اجمل ، سابق نائب صدر ویمن چیمبر صدف عباسی اور دیگر مقررین نے خواتین کے حقوق کی اہمیت کو اجاگر کیا۔
آر۔پی۔وی۔سی، گروئنگ ویمن کی چیف ایگزیکٹو آفیسروبانی رومانہ چوہدری نے کمیونٹی کی سطح پر شروع کیے جانے والے ان اقدامات پرروشنی ڈالی جن کا محور مہارتوں کی ترقی، رہنمائی اور خواتین کے لیے محفوظ ماحول کی فراہمی ہے تاکہ خواتین ذاتی اور پیشہ ورانہ طور پر آگے بڑھ سکیں۔ انہوں نے بامعنی اور دیرپا اثرات کے حصول کے لیے سول سوسائٹی، حکومت اور تعلیمی اداروں کے درمیان باہمی تعاون کی اہمیت پربھی زور دیا۔
ہائی ٹیک یونیورسٹی کے حکام نے خواتین کی تعلیم اور پیشہ ورانہ ترقی کے لیے جاری اپنے منصوبوں سے آگاہ کیا، جن میں ہوپ اکیڈمی اوراوآرآئی سی کے تحت چلنے والے پروگرامز شامل ہیں۔ ان پروگرامز کا مقصد طالبات کو سائنس، ٹیکنالوجی، انجینئرنگ اور ریاضی(سٹیم) ، کاروباری صلاحیتوں اور تحقیق کے شعبوں میں نمایاں کارکردگی کے قابل اور بااختیار بنانا ہے۔
وہ بدھ کو گروئنگ ویمن کے زیراہتمام خواتین کی استعداد میں اضافے اور انہیں بااختیاربنانے سے متعلق آگاہی سیمینار سے خطاب کر رہی تھیں ۔ وفاقی پارلیمانی سیکرٹری نے کہاکہ سائبر سکیورٹی اور سائبر کرائم اس وقت بڑے چیلنجز ہیں ،یہ چیزیں انفارمیشن ٹیکنالوجی سے منسلک ہیں ، اگر غلطی سے کسی لنک پر کلک ہو جائے تو اس سے فون کا ڈیٹا یا واٹس ایپ ہیک ہو جاتا ہے جس میں اہم اور ذاتی معلومات ہوتی ہیں۔
انہوں نے کہا کہ حکومت کے لئے خواتین کا تحفظ سب سے اہم ہے، اس تناظر میں ”زینب الرٹ” اور ”سہیلی” ایپ کا بھی آغاز کیا گیا ہے جو کامیابی سے چل رہی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ موجودہ حکومت نے خواتین کو بااختیار بنانے کے لئے اداروں میں بھرتی کے لئے 10 فیصد کوٹہ مختص کرنے کے ساتھ ساتھ اداروں میں بننے والے بورڈز میں بھی خواتین کی نمائندگی کو لازمی قرار دیدیا ہے۔
اس وقت وزارت انفارمیشن ٹیکنالوجی اوراین آئی ٹی بی میں 50 فیصد سے زیادہ جبکہ پیس ایپ میں 33 فیصد سے زیادہ خواتین کام کر رہی ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ خواتین کو با اختیار بنانا مسئلہ نہیں ہے ،ہمیں اپنے معاشرے کو اس کے لئے تیار کرنا ہوگا کیونکہ اسلام نے بھی خواتین کو حقوق دیئے ہیں ، ہم ایک اسلامی ملک میں رہتے ہیں اور ہمارا دین جس طرح عورت کو باپردہ رہنے کا حکم دیتا ہے اسی طرح مرد کو بھی اپنی نظر نیچی رکھنے کا درس دیتا ہے، عورت کو آزادی اسی دن مل گئی تھی جس دن دین اسلام آیا اور نبی اکرم ﷺنے عورتوں کے حقوق بتائے تھے۔
انہوں نے کہا کہ خواتین کے حقوق کو نصاب کا حصہ ہونا چاہئے ،اس سے نئی نسل کو آگاہی ملے گی اور تبدیلی وہیں سے شروع ہونی ہے ۔ انہوں نے کہا کہ ملک کی مجموعی آبادی کا نصف خواتین پرمشتمل ہے ، اگر ہم انہیں مساوی حقوق نہیں دیں گے تو ہم دنیا کی ترقی کا حصہ کیسے بنیں گے۔ انہوں نے کہا کہ حکومت بہت کچھ کر رہی ہے مگر جب تک ہم اپنی سوچ نہیں بدلیں گے تو آگے نہیں بڑھ سکیں گے ۔
انہوں نے کہا کہ حکومتی سطح پر ملک بھر میں مفت ہائی ٹیک کورسز کرارہے ہیں ، رجسٹرڈ ہونے والے 3 لاکھ امیدواروں میں سے 10 فیصد خواتین ہیں ۔ انہوں نے کہا کہ کے پی کے اور بلوچستان میں خواتین کو ورک فرام ہوم کی طرف لارہے ہیں ، ان کو تربیت دی جارہی ہے ، یہ سب کام اسی وقت مکمل ہوں گے جب معاشرہ اور گھر مل کر ایک محفوظ ماحول خواتین کو مہیا کریں گے۔
انہوں نے کہا کہ خواتین کے لئے وفاقی دارالحکومت میں انکوبیشن سینٹر کا قیام آئندہ دو ماہ تک عمل میں آجائے گا ،اس سے اسلام آباد کے دیہی علاقوں کی خواتین کو باآسانی امور سرانجام دینے میں مدد ملے گی ۔ گروئنگ ویمن کی سی ای او رومانہ چوہدری نے کہا کہ حکومت کے ساتھ ساتھ ڈویلپمنٹ سیکٹر بھی خواتین کو بااختیار بنانے میں مثبت کردار ادا کر رہا ہے، ہمیں اپنی گلی محلے میں ایسا ماحول پیدا کرنا ہوگا تا کہ خواتین جس طرح گھر کے اندر محفوظ ہیں اسی طرح باہر بھی محفوظ ہوں ، اس مقصد کے لئے خاص میکنزم واضح کرنا چاہئے۔
ایف آئی اے کے سابق ایڈیشنل ڈی جی نواز الحق نے کہا کہ مجھے سائبر کرائم کا پہلاڈپٹی ڈائریکٹر ہونے کا اعزاز حاصل ہے ، اس دوران خواتین سے متعلق بہت سے کیسز کی انوسٹی گیشن کی ہے ، اس سارے عمل میں ایک چیز دیکھی جب خواتین خود ہوں تو ٹھیک لیکن گھر والوں تک بات پہنچے تو پھر معاملہ رک جاتا ہے ۔
اس موقع پر سینئر صحافی ،اینکر پرسن اور چیئرمین پیاس انٹرنیشنل ہیومن رائٹس رانا عمران لطیف نے کہا کہ سائبر کرائم ادارہ تو بن گیا ہے لیکن اس کا باقاعدہ دفتر موجود نہیں ہے ، ایک ہی کمرے میں کئی افسران بیٹھے ہوئے ہیں اور موصول ہونے والی درخواستوں کا نمٹانے کابھی کوئی موثر نظام نہیں ہے ، ان حالات میں کام کیسے ہو گا ۔
انہوں نے کہا کہ اسلام اور قرآن پاک میں خواتین کے حقوق کو واضح انداز میں بیان کیا گیا ہے ۔انہوں نے کہا کہ ترقی یافتہ ممالک میں بھی خواتین مردوں کے شانہ بشانہ کام کرتی ہیں اس سے ہمیں سیکھنا چاہئے ۔ انہوں نے کہا کہ پیاس انٹرنیشنل ہیومین رائٹس کی جانب سے خواتین کی شکایات کے انداراج کے لئے ہیلپ لائن 24/7 کام کرہی ہے جبکہ اس حوالے سے بہت جلد ہم آن لائن پورٹل بھی شروع کیا جائے گا۔ سابقہ ڈی جی نادرا انور اجمل ، سابق نائب صدر ویمن چیمبر صدف عباسی اور دیگر مقررین نے خواتین کے حقوق کی اہمیت کو اجاگر کیا ۔














