بچوں کی راہنمائی کیسے کی جائے

 
0
481

اسلام آباد ستمبر 27 ( ٹی این ایس ) بے حد معصوم چہرے، کے ساتھ ساتھ ان  کی سوچ اور خواب بھی اتنے ہی معصوم ہوتے ہیں یہ دنیا کی تلخیوں سے بے خبر سمجھتے ہیں جسے ضرورت کی چھوٹی چھوٹی چیزیں  آسانی سے انہیں  مل جاتی ہیں ویسے ہی  ان  کے خواب بھی آسانی سے پورے ہو جایئں گے یہ کوئی اور نہیں ہمارے  پھولوں جیسے بچے ہیں ۔ جن کی رہنمائی کرنا  ہمارہ فرض ہے ؛  شائدیہ فرض بہت سے لو گ نبھانا  بھول گے ہیں

سوشیالوجی کا جز سوشلائزیشن سب سے اہم ہوتا ہے جہاں انسان شروع سے ہی معاشرتی کرداروں، معاشرتی زندگی کے مختلف پہلووں سے روشناس ہوتا ہے، جس میں سب سے اول ماں کی گود، گھرکا ماحول، تعلیمی ادارے، مذہبی ادارے سمیت میڈیا بھی اہم کردارادا کرتا ہے، یہ سب ہی ادارے ایک انسان کی تربیت کا حصہ ہوتے ہیں تاہم سب سے زیادہ جس عنصر کو انسان کی تربیت میں فوقیت دی گئی ہے وہ اس کا گھر کا ماحول ہے جہاں بچہ جلدی اور سب سے زیادہ سیکھتا ہے۔ اسکول میں تقریبا ہراستاد کسی نہ کسی جماعت میں یہ سوال طالب علموں سے پوچھتا ہی ہے کہ وہ طالب علم بڑے ہوکرکیا بننا چاہتے ہیں، نہ صرف اسکول بلکہ بچے اپنے دوستوں یا گھرمیں بھائی بہن یا رشتے داروں کے ہمراہ جب ہوتے ہیں تو یہ سوال ضرورپوچھا جاتا ہے، جس پرزیادہ ترجواب یہ ہی ملتا ہے وہ بچے بڑے ہوکر ڈاکٹر، انجینئیر، وکیل، استاد وغیرہ بننا چاہتے ہیں، پھر اساتذہ اور اہل خانہ کی جانب سے ان کے ذہنوں میں بچپن سے یہ بات بٹھائی جاتی ہے کہ اپنی اپنی منازل تک پہنچنے کے لیے بہت محنت کرنی پڑے گی، دل لگا کر پڑھنا ہوگا اورپھر وہ مقام ضرور ملے گا جس کی خواہش کی ہوگی۔

دوسری جانب کتنے ہی بچے ایسے ہیں جنہیں یہ ذہن میں نہیں بٹھایا جاتا کہ زندگی میں انہیں جو کچھ بھی بننا یا حاصل کرنا ہے اس کے پیچھے ذہن میں کمائی کے عنصر کے علاوہ بھی بہت کچھ ہونا چاہیئے، جس میں سب سے بڑھ کر انسانیت کو سمجھنا، ہمدرد بننا، ساتھ نبھانا اورجس حد تک مدد کرنا ہو وہ کرسکیں، جن بچوں کو بچپن سے ہی اس بات کا درس دیا جائے کہ انہیں محض تعلیم اس لیے حاصل نہیں کرنی چاہیئے کہ وہ خوب کماسکیں اس کے بعد عیش کی زندگی گزارسکیں بلکہ ان سب چیزوں سے بڑھ کربھی بہت کچھ ہے ورنا ایک تعلیم تو وہ بھی ہوتی ہے جسے حاصل کرنے کے بعد شعور نہیں آتا بلکہ طالب علم تکبر میں ڈوب جاتا ہے اور یہ سمجھتا ہے کہ اس نے وہ کامیابی حاصل کرلی جو بہت کم لوگ  کرسکتے ہیں ۔

ہمیں بچوں کو اسکول سے ہی اس بات کا درس دینا چاہیئے کہ ہم دوسروں کی مدد کریں اور جس حد تک کر سکیں بلا معاولضہ بھی کریں، ہمیں مساوات سمیت انہیں اچھے اخلاق کا درس دینا چاہیئے اور انہیں مختلف طریقوں سے بتانا چاہیئے کہ جو مزہ درد بانٹنے میں ہے، تسلی دینے میں ہے، امید دلانے میں ہے، کسی کی بجھی ہوئی شمع جلانے میں ہے وہ کسی اورمیں نہیں ہے۔ بے شک چھوٹی سی عمر میں یہ باتیں سمجھنا انتہائی مشکل ہوتا ہے کیونکہ بچہ اپنی شرارتوں کے ارد گرد ہی گھوم رہا ہوتا ہے لیکن کہیں نہ کہیں یہ باتیں اس کے ذہن نشیں بھی ہورہی ہوتی ہیں جو شاید اس وقت کے لیے تو بے معنی ہوں پرآگے چل کریہ ہی باتیں اسے متاثر کرتی ہیں۔

بچوں کو 6 گھنٹے اسکول بھیجنے، پھر مدرسہ اورپھر ٹیوشن بھیجنے کی ذمہ داری ہی مکمل نہیں بلکہ اس سے بڑھ کر بھی بہت کچھ ہے۔ بچوں کے ساتھ وقت بتا کر انہیں بہترین سے بہترین زندگی گزارنے کے طریقے بتائے جاسکتے ہیں اور اس محنت کی خاطر خواہ نتائج بچے کی ذات پر بہت جلدی نمایاں ہوجاتے ہیں کیوں کہ وہ معصوم ہوتے ہیں، انہیں جس طرف ڈھالا جائے وہ ڈھل جاتے ہیں، وہ توچکنی مٹی کی مانند ہوتے ہیں۔

شروع سے ہی بچوں کو ان ہی کی زبان میں سمجھانا کہ اچھی اوربری بات کیا ہے، اخلاقیات کیا ہے، انہیں سب سے کس انداز میں بات کرنا چاہیئے، انہیں کس طرح کا رویہ اختیارکرنا چاہیئے، انہیں ہر حال میں بڑوں کی عزت کرنی چاہیئے اوراس جیسی ہزارباتیں اس کی ذات پر بہت اثر اندازہوتی ہیں۔

آج کل ہمارے تعلیمی اداروں میں بچوں کی کاؤنسلنگ پرزیادہ توجہ نہیں دی جارہی اور روایتی کورس ورک پورا کرانا ہی بس ذمہ داری سمجھا جاتا ہے۔ بچوں کے سیکھنے کے عمل کو متاثرکرنا، انہیں نت نئے طریقوں سے چیزوں کو پرکھنے کے بارے میں نہ بتانا دراصل ان بچوں کی حق تلفی ہے۔

تو اس بات کا انتطار کرنا درست نہیں کہ بچے جب بڑے ہوں گے تو خود سیکھ جائیں گے، یا وہ اسکول، مدرسہ اور ٹیوشن جا تو رہے ہیں توانہیں سب کچھ خود معلوم ہوجائے گا ، نہیں ایسا نہیں ہے، اس وقت تک تو ان کی عادتیں پختہ ہوجائیں گی جنہیں بدلنے میں وقت لگ جاتا ہے اوروہیں سے ہی اچھی تربیت اور خراب تربیت کا سفر شروع ہوجاتا ہے