فیض آباد دھرنا ٗ معاہدے کی ایک شق بھی قانون کے مطابق نہیں ٗجسٹس شوکت عزیز صدیقی

 
0
907

اسلام آباد دسمبر 4(ٹی این ایس)اسلام آباد ہائی کورٹ کے جج جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے ریمارکس دئیے ہیں کہ فیض آباد دھرنے کے خاتمے کے لئے کئے گئے معاہدے کی ایک شق بھی قانون کے مطابق نہیں اور جو معاہدہ ہوا اس کی قانونی حیثیت دیکھنی ہے۔فیض آباد میں مذہبی جماعت کے دھرنے کے خلاف اسلام آباد ہائی کورٹ میں درخواستوں کی سماعتپیر کو جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے کی ۔ سماعت کے دوران اٹارنی جنرل اشتر اوصاف نے عدالت کو بتایا کہ دھرنا کیس اب از خود نوٹس کیس بن گیا ہے اور سپریم کورٹ میں مقدمے کی سماعت ہورہی ہے، ہم سب کو بہتری کے لئے اپنا حصہ ڈالنا ہے اگر ہم اپنا حصہ نہیں ڈالیں گے تو کوتاہی کریں گے، تھوڑا وقت دیا جائے ایک مفصل رپورٹ پیش کردی جائے گی۔اس موقع پر جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے استفسار کیا کہ آپ کی باتوں کا سسٹم پر اثر ہوا ٗنہ جانے کیسی کیسی باتیں نبی سے منسوب کی گئیں ٗسپریم کورٹ کے احترام کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے حکم پاس نہیں کریں گے۔

وکیل درخواست گزار نے کہا کہ سپریم کورٹ میں مختلف کیس چل رہا ہے اور ہمارا کیس مختلف ہے، میرے موکل کو اٹھایا گیا اور مارا گیا جب کہ دہشت گردوں کو لفافے دیے گئے جس پر جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے کہا کہ ہم سے زیادہ حقائق آپ کو نہیں پتا۔جسٹس شوکت صدیقی نے اٹارنی جنرل کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ جو معاہدہ ہوا اس کی قانونی حیثیت دیکھنی ہے، اس کو معاہدہ کہنا زیادتی ہے جس میں ایک شق بھی قانون کے مطابق نہیں۔معزز جج نے کہا کہ جو معاہدہ ہوا اس کی کاپی پارلیمنٹ کے مشترکہ سیشن میں بھیجی جائے یا پھر وفاقی حکومت اس معاہدے پر ثالثوں کے ساتھ بیٹھ کر ڈسکس کرے، آپ خود کہتے ہیں کہ پارلیمنٹ بالادست ہے، عدالت پارلیمنٹ کی بالادستی تسلیم کرتے ہوئے معاملہ بھیج رہی ہے۔اٹارنی جنرل نے کہا کہ آپ کے سامنے راجا ظفر الحق کی رپورٹ بھی پیش کردی جائے گی۔

جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے کہا کہ زخمی میں ہوا ہوں ریاست کو کیا حق ہے میری جگہ راضی نامہ کرے جس پولیس کو مارا گیا کیا وہ ریاست کا حصہ نہیں، اسلام آباد پولیس کو 4 ماہ کی اضافی تنخواہ دینی چاہیے، پولیس کا ازالہ نہیں کیا جاتا تو مقدمہ نہیں ختم ہونے دوں گا۔اس موقع پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ ریاست کا جو نقصان ہوا وزارتوں سے کہا ہے تخمینہ لگائیں۔فاضل جج نے کہا کہ ریاست نے دھرنے والوں کے آگے سرنڈر کردیا ٗجو معاملہ سپریم کورٹ میں نہیں وہ دیکھنا چاہتے ہیں۔سماعت کے دور ان اٹارنی جنرل نے پارلیمنٹ میں معاہدہ زیر بحث لانے کی مخالفت کرتے ہوئے کہا کہ ہم اس معاملے کو خود دیکھیں گے ٗ معاہدے میں فوج کی ثالثی پر قانونی معاونت کے لئے وقت درکار ہے۔جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ مساجد اور مدارس سے کفر کے فتوی بند کروائے جائیں، خادم رضوی خون کیسے معاف کر سکتے ہیں؟، تحریک لبیک کا دوسرا گروپ کہہ رہا ہے کہ انہوں نے کروڑوں روپے لئے ٗبتایا جائے کہ معاہدے میں آرمی چیف کا نام کیوں استعمال ہوا؟دہشتگردی ایکٹ کے تحت درج مقدمات کیسے ختم کئے جاسکتے ہیں؟نجی ٹی وی کے مطابق اسلام آباد انتظامیہ اور آئی بی کی جانب سے دھرنے سے متعلق رپورٹس عدالت میں جمع کرادی گئیں جبکہ بیرسٹر ظفراللہ نے ختم نبوت حلف نامے میں ترمیم کی انکوائری سے معذرت کر لی ہے۔ اسلام آباد ہائیکورٹ نے بیرسٹر ظفراللہ کو معاملے کی انکوائری کر کے رپورٹ دینے کا حکم دیا تھا۔ کیس کی سماعت 12 جنوری تک ملتوی کردی گئی