پشاور آرمی پبلک سکول سانحے کو 3برس بیت ‘ملک کے مختلف شہروں میں شہداءکی یاد میں تقریبات کا اہتمام

 
0
1412

پشاور دسمبر 16(ٹی این ایس)پشاور کے آرمی پبلک اسکول سانحے کو 3برس بیت گئے، ملک کے مختلف شہروں میں ہونے والی تقریبات میں شہداءپشاور کی یاد میں شمعیں روشن کی جائیں گی۔پشاورکے آرمی پبلک سکول پردہشتگردوں کے حملے کو 3 سال مکمل ہوے پرآج سانحے کی تیسری برسی منائی جارہی ہے۔شہدا ءاے پی ایس کی یاد میں مرکزی تقریب آرمی پبلک سکول میں ہوئی جس کے مہمان خصو صی کور کمانڈر پشاورجنرل نذیر احمد بٹ تھے تقریب میں زخمی طلباءسمیت شہید ہونے والے بچوں کے والدین ‘ اساتذہ کے ورثاء اور مختلف مکاتب فکر سے تعلق رکھنے والی نمایاں شخصیات نے شرکت کی۔16 دسمبر سال 2014کو آرمی پبلک سکول پر دہشتگردوں کے حملے میں اساتذہ سمیت 144طلباءشہید ہوئے تھے ۔

شہدا کے والدین آج بھی صدمے سے نڈھال ہیں، جن والدین کے بچے بچ گئے وہ بھی اس ہولناک دن کوفراموش نہیں کرسکے، دہشت گردوں نے سکول پرحملہ کرکے علم کی شمع بجھانا چاہی لیکن قوم کے حوصلے پست نہ ہوئے۔اپنے پیاروں کو کھونے کے بعد قوم نے نئے عزم کے ساتھ دہشتگردوں کا مقابلہ کرنے کی ٹھانی جبکہ حکومت نے بھی انسداد دہشت گردی کے لئے قومی ایکشن پلان شروع کیا۔

دہشت گردوں نے مستقبل کے معماروں کونشانہ بنا کرملک اورسیکورٹی اداروں کا حوصلہ توڑنے کی کوشش کی لیکن ملک بھرمیں جاری تعلیمی سرگرمیاں ملک دشمنوں کو پیغام دے رہی ہیں کہ قوم کے عزم میں کوئی تبدیلی نہیں آئی، شہداکی قربانیاں رائیگاں نہیں جائیں گی۔دہشت گردوں کے سفاکانہ حملے میں دسویں جماعت کا طالب علم اسفند خان بھی گولیوں کا نشانہ بن گیا تھا، اسفند ماں باپ کا سب سے بڑا بیٹا تھا، اس لئے والدین کی انسیت بھی اس سے زیادہ تھی۔والدین نے جگر کے ٹکڑے کا سامان اب بھی اسی طرح سنبھال رکھا ہے۔دہشت گردوں نے علم کی شمع روشن کرنے والی سکول ٹیچر فرحت عباس کو بھی شہید کردیا۔ فرحت عباس گولیوں کی آواز سن کرسکول میں موجود اپنے بچوں کی طرف دوڑیں اورانہیں سیڑھیوں میں گولیوں کا نشانہ بنادیا گیا۔

16 دسمبر 2014 کے طلوع ہوتے سورج کے ساتھ کسی بھی شخص نے نہیں سوچا ہو گا کہ یہ دن جاتے جاتے کتنی بھیانک یادیں چھوڑ کر جائے گا۔ تین سال گزر جانے کے باوجود آرمی پبلک سکول پشاور میں بیتے قیامت کے لمحے آج بھی ذہنوں پر نقش ہیں۔

آرمی پبلک سکول پشاورمیں پڑھنے والے آٹھویں نویں دسویں جماعت کے طالبعلم کلاس رومز کی بجائے سکول کے آڈیٹوریم میں جمع ہوئے، جہاں سانسوں کی ڈور کو رواں رکھنے کے لیے بچوں کو طبی امداد کی تربیت دی جا رہی تھی۔ مسیحائی کی تربیت حاصل کرنے کی خوشی میں مگن ان بچوں کے گمان میں نہ تھا کہ یہاں کچھ دیر میں موت کا بھیانک رقص ہوگا جو ہر دل دہلا دے گا۔

آج بھی شہید فرحت عباس کی یاد ان کے خاندان کو غمگین کردیتی ہے۔شہید حسن زیب کے والد نے ایک کمرے میں بیٹے کے استعمال کی تمام چیزیں رکھ دی ہیں‘ بچپن کی تصاویر بھی حسن زیب کے کمرے کی زینت بن گئی ہیں،جہاں اس کے استعمال کے پرفیوم کےساتھ یونیفارم اور دیگر سامان بھی پڑا ہے لیکن گھر میں اب صرف حسن زیب کی یادیں ہی ہیں۔آڈیٹوریم ہال میں دہشت گردوں کے سامنے سینہ سپر ہونے اور بچوں کی جان بچانے کے دوران قوم کی بہادر بیٹی بینش نے شہادت پائی، ہمت اورحوصلے کی نئی داستان رقم کرنے پربینش شہید کو تمغہ شجاعت سے نوازا گیا۔15 سالہ اسامہ طاہراعوان بھی ان شہداءمیں شامل ہے، اسامہ کے والدین کے زخم ابھی بھی تازہ ہیں۔ اسامہ کے استعمال کی اشیاءآج بھی کمرے کی زینت ہیں، میڈل سے لے کر کتابیں اورکیمرہ اس کی یاد دلاتا ہے۔

بچوں کو نور علم سے آراستہ کرنے والے سکول کی پرنسپل، اساتذہ اور دیگر عملہ بھی اپنے ہاتھوں سے سینچے گئے ان ننھے پودوں کو بچاتے بچاتے دہشتگردوں کی بھینٹ چڑھ گئے۔ اس کرب ناک دن کے اختتام پر شہر پشاور کی ہر گلی سے جنازہ اٹھا۔ 144 شہادتوں نے پھولوں کے شہر کو آہوں اور سسکیوں میں ڈبو دیا۔ سانحہ آرمی پبلک سکول کے شہید بچوں کے والدین کو اپنے پیاروں کا غم آج بھی کھوکھلا کر رہا ہے۔

 

آرمی پبلک سکول میں خصوصی مرکزی تقریب کے انعقاد کے علاوہ پبلک لائبریری کے پہلو میں تعمیر کردہ یادگار شہدا کا بھی افتتاح کیاجائے گا تاہم شہدائے آرمی پبلک سکول کی برسی کے سلسلے میں خیبر روڈ پر شہدا کی تصاویر سجادی گئی ہیں جب کہ آرمی پبلک سکول اورآرکائیوز لائبریری تقاریب میں اہم شخصیات کی آمد بھی متوقع ہے۔