قومی اسمبلی میں فاٹا اصلاحات بل پھر ایجنڈے پر نہ آسکا، اپوزیشن کامسلسل ساتویں روز اجلاس کا بائیکاٹ

 
0
456

اسلام آباد دسمبر 19(ٹی این ایس)قومی اسمبلی میں فاٹا اصلاحات بل پھر ایجنڈے پر نہ آسکا، اپوزیشن نے مسلسل ساتویں روز اجلاس کا بائیکاٹ کیا، اسپیکر قومی اسمبلی سردار ایاز صادق نے کہا کہ(کل) فاٹا اصلاحات بل ایوان میں پیش کیا جائیگا، کوشش ہے کہ تمام جماعتوں کو اعتماد میں لیا جائے۔ قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف خورشید شاہ نے کہا کہ اخباروں سے پتہ چلا کہ کسی کو راضی کرنے کہ باتیں ہورہی ہیں، جو بل ایجنڈے پہ تھا وہ نہیں لایا گیا۔کاشتکاروں کے بھی مسائل ہیں۔ تمام صوبوں سے تعلق رکھنے والے کاشتکار سڑکوں پر ہیں، الزام تراشیاں اور بُرا بھلا کہنے کی سیاست نہ ہم کرتے ہیں اور نہ آتی ہے، سندھ حکومت 8ارب 60کروڑ روپے کھادوں پر کسانوں کو سبسڈی دے گی،۔ وفاقی حکومت اِسوقت لاپراوہی کررہی ہے۔

حکومتی اراکین کی جانب سے زمینداروں کے مسائل پر حکومت پر کھل کر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ کسانوں کے ساتھ ظلم ہورہا ہے اس ایوان کی بات نہیں سنی جارہی ہے چاروں صوبوں کے وزراء اعلی کو یہاں بلایا جائے جو مل مالکان گنا مقررہ قیمت پر نہیں لے رہے ان کے خلاف ایف آئی آر درج کر گرفتار کیا،کسان اپنی ٖفصل کو آگ لگارہے ہیں اگر یہی حالت رہی تو حکومت کی مشکلات میں اضافہ ہوگا۔تمام معاملات حکومت کی مخالفت میں جارہے ہیں یہ نہ ہو کہ کاشتکار بھی آپ کے خلاف اٹھ کھڑے ہوں۔وزیر قومی تحفظ خوراک سکندر حیات بوسن نے کہا کہ جب ہم فرٹیلائزر یہ سبسڈی دینے کی بات کرتے ہیں تو سندھ حکومت اس سے انحراف کیا پچھلے سال گنے کی 180روپے قیمیت تھی اور پنجاب میں ان کو وہ قیمت ملی مگر سندھ میں کسانوں کو 160روپے قیمت ملی۔ حکومت سندھ بتائے کہ کاشتکاروں کی بہتری کیلئے کیا اقدامات کئے ہیں۔وزیر تجارت کی سربراہی میں کمیٹی بنائی جائے۔منگل کو قومی اسمبلی کا اجلاس اسپیکر قومی اسمبلی سردار ایاز صادق کی صدارت میں ہوا، اجلاس میں سابق وفاقی وزیر میاں محمد زمان کا انتقال ہوا۔

مولوی آغا محمد نے ان کیلئے دعائے مغفرت کرائی، قومی اسمبلی مین قائد حزب اختلاف خورشید شاہ نے اجلاس شروع ہوتے ہی ایوان میں اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ ہم یہ چاہتے ہیں کہ پارلیمنٹ بالا دست رہے، تمام معاملات پارلیمان میں حل کرنے کی حمایت کی۔فاٹا معاملے پر واک آؤٹ کررہے ہیں۔ اخباروں سے پتہ چلا کہ کسی کو راضی کرنے کہ باتیں ہورہی ہیں، جو بل ایجنڈے یہ تھا وہ نہیں لایا گیا۔ کاشتکاروں کے بھی مسائل ہیں۔ تمام صوبوں سے تعلق رکھنے والے کاشتکار سڑکوں پر ہیں، الزام تراشیاں اور بُرا بھلا کہنے کی سیاست نہ ہم کرتے ہیں اور نہ آئی ہے۔ پاکستان زرعی ملک ہے۔ ہم نے رہنے علاقے میں بھی احتجاج کیا ہے۔وزیر خزانہ نہیں، وزیر اعظم اور وزیر تجارت سے بات کی کہ کاشتکار اپنا گنا بھی دے رہا ہے اور پیسے بھی دے رہا ہے اس سے بری حالت کبھی بھی کسانوں کی نہیں ہوئی۔ ہم اس پارلیمان کی اہمیت کو سمجھتے ہیں۔ ہم نے سندھ حکومت پر دباو ڈالا ہے 8ارب 60کروڑ روپے کھادوں پر کسانوں کو سبسڈی سندھ حکومت دے رہی ہے۔ وفاقی حکومت اِسوقت لاپراوہی کررہی ہے۔ ہم مردوں کی طرح بیٹھے ہیں۔اپنا ایشو ختم ہوجاتا ہے تو سب کچھ ختم ہتا ہے۔ پارلیمان اپنا کردار ادا نہیں کررہی ہے۔ رانا محمد حیات خان نے کہا زمنیداروں کے ساتھ ظلم ہورہا ہے اس ایوان کی بات نہیں سنی جارہی ہے چاروں صوبوں کے وزراء اعلی کو یہاں بلایا جائے جو مل مالکان گنا مقررہ قیمت پر نہیں لے رہے ان کے خلاف ایف آئی آر کٹوا کر گرفتار کیا۔

لال چند مہلی نے کہا کہ 180روپے سندھ حکومت کی طرف سے مقر کردہ نرخ نہیں ملتے۔اور وہا ں کاشتکاروں نے ہائی وے پر احتجاج کی کال دی ہے۔ کرنل محمد ریٹائر محمد ساہی نے کہا کہ کسانوں کی حالت ناگفتہ بہ ہے کسانوں کے ساتھ عرصہ دراز سے زیادتی ہے۔ کسان اپنی ٖفصل کو آگ لگارہے ہیں اگر یہی حالت رہی تو حکومت کی مشکلات میں اضافہ ہوگا۔ شیخ صلاح الدین نے کہا کہ فاٹا کے مسئلے کو حل کیا جائے۔ تاکہ روزانہ واک آوٹ نہ ہو۔ کراچی میں پینے کے پانی کا مسئلہہے ملک ریاض کے منصوبے پر پابندی لگائی جائے تاکہ کراچی کے پانی کا مسئلہ حل کیا جائے۔کراچی کچرے کا ڈھیر بنی چکا ہے۔ کراچی کیلئے 25ارب روپے کے پیکیج کا اعلان کیا تھا۔ جس میں 5ارب حیدر آباد کیلئے تھے وہ ہمیں ابھی تک نہیں دیا گیا۔ آرمی چیف کو دونوں ایوانوں کے مشترکہ اجلاس میں بریفینگ دینی چاہیے تھی۔ اداروں کو اپنی ھدود میں رہ کر کام کرنا ہوگا۔

راؤ اجمل نے کہا کہ حکومت کو کاشتکاروں کے حوالے سے سوچنا چاہیے تمام معاملات حکومت کو کاشتکاروں کے حوالے سے سوچنا چاہیے تمام معاملات حکومت کی مخالفتمیں جارہے ہیں یہ نہ ہو کہ کاشتکار بھی آپ کے خلاف اٹھ کھڑے ہوں۔صاحبزادہ طارق اللہ نے کہا کہ فاٹا مسئلے کا کوئی حل نکالا جائے۔اسلام آباد مین اگر دھرنا دیا جائے تو اس کا انجام کیا ہوگا۔ دارلحکومت کے تاجروں نے شٹر ڈاون کی دھمکی دی ہے ان کا بل ایوان مین ہے اور منظوری مین تاکیر کی جارہی ہے۔ آرمی چیف کو قومی اسمبلی مین بھی آکر بریفنگ دینی چاہیے۔

غلام احمد بلور نے کہا کہ ہمارا صوبے کے ساتھ سوتیلی ماں جیسا سلوک کیا جارہا ہے۔ضرورت سے زیادہ گیس اور بجلی پیدا ہورہی ہے مگر کے پی کے میں نہ گیس ہے اور نہ ہی بجلی دی جارہی ہے۔ فاٹا کا مسئلہ حل کیا جائے۔ امجد خان نیازی نے کہا کہ فاٹا اصلاحات وقت کی ضرورت ہے۔ فاٹا اصلاحات پر اسپیکر کو اپنا کردار ادا کرنا چاہیے۔ گنے کے کاشتکاروں کو مناسب قیمت نہیں مل رہی ہے۔وزیر قومی تحفظ خوراک سکندر حیات بوسن نے کہا کہ شوگر کنٹرول ایکٹ صوبوں کی ذمہ داری ہے اور ایس میں کوئی بھی شق وفاق کی نہیں ہے شوگر ملوں کو چلانے کیلئے صوبے ہی ذمہ داری وزارت تجارت کہ ہے سبسڈی دینا وزارت خزانہ کا کام ہے۔خورشید شاہ کی گفتگو پوائنٹ سکورنگ تھی۔ سوائے گندم کی قیمت بڑھانے کے اور کوئی کام نہیں کیا گندم کی قیمت بڑھائی گئی مگر پچھلی حکومت نے ٹیکس بھی لگایا ایک طرف کاشتکار کو خوش کررہے ہیں۔

دوسری طرف کھادوں پر ٹیکس اور دیگر کسانوں کی ضروریات پر ٹیکس لگا دیا۔ جب ہم فرٹیلائزر یہ سبسڈی دنے کی بات کرتے ہیں تو سندھ حکومت اس سے انحراف کیا پچھلے سال گنے کی 180روپے قیمیت تھی اور پنجاب میں ان کو وہ قیمت ملی مگر سندھ میں کسانوں کو 160روپے قیمت ملی۔حکومت سندھ بتائے کہ کاشتکاروں کی بہتری کیلئے کیا اقدامات کئے ہیں۔ وزیر تجارت کی سربراہی میں کمیٹی بنائی جائے۔ جمشید دستی نے کہا کہ کسان کی حالت نہایت خراب ہے۔ شوگر مافیا کے لوگ حکومت میں ہیں اور ڈپٹی کمشنروں کے تبادلے کروادئے جاتے ہیں۔ ضلعی انتظامیہ نے بے بسی کا اظہار کردیا ہے۔