اسلام آباد دسمبر 21(ٹی این ایس)شہداء فاؤنڈیشن آف پاکستان(لال مسجد)کے مرکزی رہنماء حافظ احتشام احمد نے شہداء فاؤنڈیشن سے مستعفی ہونے سے قبل آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کو اہم ترین معاملات کے حل کے لئے خط لکھ دیا۔
رہنماء شہداء فاؤنڈیشن نے تین صفحات پر مشتمل خط میں آرمی چیف سے سوشل میڈیا میں مقدس ہستیوں کی شان میں بدترین گستاخی کے سلسلے کو روکنے،گستاخی کے مرتکب افراد کو آئین و قانون کی گرفت میں لانے،لال مسجد و جامعہ حفصہ کو درپیش مسائل اور لاپتہ افراد کے معاملے کے حل کے لئے مداخلت کرنے کی درخواست کی ہے،
خط میں رہنماء شہداء فاؤنڈیشن نے آرمی چیف سے یہ مطالبہ بھی کیا ہے کہ لال مسجد،جامعہ حفصہ اور افواج پاکستان کے درمیان خلاء کے تاثر کو ختم کرنے کے لئے بھی اقدامات کئے جائیں،لال مسجد و جامعہ حفصہ اور افواج پاکستان کے درمیان خلاء کا خاتمہ ملک دشمن قوتوں کی شکست ہوگی۔
تفصیلات کے مطابق شہداء فاؤنڈیشن آف پاکستان(لال مسجد)کے مرکزی رہنماء حافظ احتشام احمد نے جمعیت علمائے اسلام(س)میں شمولیت کے پیش نظر شہداء فاؤنڈیشن سے مستعفی ہونے سے قبل آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کو تین صفحات پر مشتمل خط لکھ دیا،خط میں رہنماء شہادء فاؤنڈیشن نے تین اہم معاملات کے حل کے لئے آرمی چیف سے مداخلت کرنے کی درخواست کی ہے۔
خط میں رہنماء شہداء فاؤنڈیشن نے آرمی چیف جنرل قمرجاوید باجوہ سے سوشل میڈیا میں مقدس ہستیوں کی شان میں بدترین گستاخی کے سلسلے کو روکنے اور گستاخی میں ملوث ملزمان کو کیفرکردار تک پہنچانے کی استدعا کرتے ہوئے موقف اختیار کیا ہے کہ’’ایک طویل عرصے سے سوشل میڈیا(فیس بک اور ٹوئٹر )پر مقدس ہستیوں بالخصوص اللہ تعالی،آقا ﷺ،امہات المؤمنین،اہل بیت اور صحابہ کرام کی شان میں بدترین گستاخی کا سلسلہ جاری ہے،خطیب لال مسجد حضرت مولانا عبدالعزیز غازی حفظہ اللہ تعالی کے داماد،لاہور ہائیکورٹ کے وکیل جناب سلمان شاہد ایڈووکیٹ نے سوشل میڈیا میں مقدس ہستیوں کی شان میں جاری بدترین گستاخی کے خلاف فروری 2017میں اسلام آباد ہائیکورٹ سے رجوع کیا،سلمان شاہد ایڈووکیٹ کی جانب سے اسلام آباد ہائیکورٹ سے رجوع کیئے جانے کے بعد حکومتی مشینری اور عدالت سوشل میڈیا میں مقدس ہستیوں کی شان میں گستاخی کے خلاف حرکت میں آئی،مگر افسوس کہ نہ تو سوشل میڈیا میں مقدس ہستیوں کی شان میں گستاخی کے اصل ملزمان تاحال گرفتار ہوئے اور نہ ہی سوشل میڈیا میں مقدس ہستیوں کی شان میں گستاخی کا سلسلہ رکا،میں سمجھتا ہوں کہ حکومت اور عدلیہ سوشل میڈیا میں مقدس ہستیوں کی شان میں بدترین گستاخی کے سلسلے کو روکنے اور گستاخی میں ملوث مجرمان کو قانون کے شکنجے میں لانے میں مکمل طور پر ناکام ہوچکی ہے۔
لہذا میں آپ سے انتہائی ادب و احترام سے درخواست کرتا ہوں کہ آپ بحیثیت آرمی چیف سوشل میڈیا میں مقدس ہستیوں کی شان میں بدترین گستاخی کے سلسلے کو روکنے ،مقدس ہستیوں کی شان میں گستاخی کے مرتکب مجرمان کو آئین قانون کی گرفت میں لانے بالخصوص اللہ تعالیٰ،آقاﷺ،امہات المؤمنین،اہل بیت اور اصحاب رسول ﷺ کی عزت،ناموس و حرمت کے تحفظ کے لئے فوری طور پر مداخلت کرتے ہوئے اپنا قلیدی کردار اداء فرمائیں۔
میں سمجھتا ہوں کہ جس طرح سے پاکستان کی جغرافیائی سرحدات کا تحفظ کرنا افواج پاکستان کی ذمہ داری ہے،بالکل اسی طرح پاکستان کی نظریاتی سرحدات جو مقدس ہستیوں بالخصوص آقا ﷺ کی عزت و ناموس ہے،اس کا تحفظ کرنا بھی افواج پاکستان کی ذمہ داریوں میں شامل ہے‘‘۔
خط میں رہنماء شہداء فاؤنڈیشن نے لال مسجد و جامعہ حفصہ کو درپیش مسائل کا نوٹس لینے کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ’’لال مسجد آپریشن پرویزمشرف کا فیصلہ تھا،افواج پاکستان اس کی ذمہ دار نہیں،میں سمجھتا ہوں کہ 2007میں بھی افواج پاکستان کی اعلیٰ قیادت لال مسجد آپریشن کے حق میں نہیں تھی اور آج بھی لال مسجد آپریشن کو درست نہیں سمجھتی،پرویزمشرف کے غلط فیصلے کی وجہ سے پاکستان دہشت گردی کی آگ کے لپٹ میں آیا،لال مسجد آپریشن کی وجہ سے ہی مسلح تنظیمیں وجود میں آئیں،اگر پرویزمشرف کو لال مسجد آپریشن کے جرم میں سزاء دے دی جاتی تو اس سے افواج پاکستان کے وقار میں اضافہ ہوتا اور لال مسجد آپریشن کی بنیاد پر وجود میں آنے والی مسلح تنظیمیں اپنی موت آپ مر جاتیں،مگر افسوس کہ پرویزمشرف کو سزاء سے بچایا گیا،اب ہمیں ااگے بڑھنا چاہیئے اور ایسے اقدامات کرنے چاہیئے جس سے لال مسجد و جامعہ حفصہ اور افواج پاکستان کے درمیان خلاء کا تاثر ختم ہو‘‘۔
خط میں رہنامء شہداء فاؤنڈیشن نے خطیب لال مسجد مولانا عبدالعزیز کو خفیہ اداروں کی جانب سے سات ماہ تک حراست میں رکھنے اور رہائی کے بعد سے تاحال خفیہ اداروں کی جانب سے انہیں حراساں کرنے کے معاملے کا نوٹس لینے کی بھی درخواست کی ہے۔حافظ احتشام احمد نے جنرل قمر جاوید باجوہ کے نام خط میں لاپتہ افارد کے مسئلے کو پاکستان میں شدت پسندی کی بڑی وجہ قرار دیتے ہوئے لاپتہ افراد کے معاملے کے حل کے لئے عسکری سطح پر اعلیٰ سطحی کمیٹی قائم کرنے کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ’’اس وقت پاکستان میں لاپتہ افراد کی تعداد ہزاروں میں ہے۔ان میں سے اکثر لاپتہ افراد کا تعلق ایک مخصوص مسلک و مخصوص مکتب فکر سے ہے۔میں سمجھتا ہوں کہ لاپتہ افراد کا معاملہ بھی پاکستان میں شدت پسندی کے فروغ کی ایک وجہ ہے۔
جب کسی شہری کو لاپتہ کردیا جاتا ہے تو اس وقت اس کے خاندان پر کیا گزرتی ہے؟؟؟اس بات کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا۔میں سمجھتا ہوں کہ لاپتہ افراد کا معاملہ پاکستان کو عدم استحکام کا شکار کرنے اور پاکستان میں شدت پسندی کو فروغ دینے کی سازش ہے۔ملک میں آئین و قانون موجودہے،عدالتیں موجود ہیں،اب تو ملٹری کورٹس بھی قائم ہیں۔ایسے وقت میں شہریوں کو لاپتہ رکھنا کسی طور پر بھی مناسب نہیں۔میں آپ سے درخواست کرتا ہوں کہ لاپتہ افراد کے معاملے کے حل کے لئے عسکری سطح پر ایک اعلیٰ سطحی کمیٹی تشکیل دی جائے۔وہ کمیٹی لاپتہ افراد کے متعلق معاملات کا جائزہ لے۔اگر کسی فرد پر ملک دشمن و خلاف آئین و قانون سرگرمی میں ملوث ہونے کا الزام ہو تو اس کا آئین و قانون کے مطابق ٹرائل کیا جائے۔اگر کوئی ملک دشمن اور خلاف آئین و قانون سرگرمی میں ملوث نہیں تو اسے رہا کردیا جائے اور آئندہ کے لئے اس بات کو یقینی بنایا جائے کہ پاکستان میں لاپتہ افراد کا باب ہمیشہ کے لئے بند ہو جائے‘‘۔