قصورجنوری 11 (ٹی این ایس)سات سالہ بچی سے زیادتی کے بعد قتل کے لرزہ خیز واقعہ پر ملک کی فضا سوگوار ہے جبکہ قصور میں حالات بدستورکشیدہ اور نظام زندگی مکمل طور پر مفلوج ہے،تعلیمی ادارے اور تجارتی مراکز مکمل بند رہے ،مشتعل مظاہرین نے شہر کے مختلف مقامات پر احتجاجی مظاہرے کئے جس سے قصور شہر کا دوسرے شہروں سے زمینی راستہ بھی منقطع ہوگیا، پولیس فائرنگ سے جاں بحق ہونے والے دو افراد کی لاشیں پوسٹمارٹم کے بعد ورثاء کے حوالے کردی گئیں جس کے بعدپینتالیس سال محمد علی کے ورثاء اور اہل علاقہ نے لاش ڈی ایچ کیو ہسپتال کے سامنے سڑک پر رکھ احتجاجی مظاہرہ کیا ،مشتعل مظاہرین زبردستی ڈسٹرکٹ ہیڈکوارٹر ہسپتال میں داخل ہو گئے جس کے بعد ڈاکٹراورعملہ کام چھور کر چلا گیا جس سے ایمر جنسی سمیت دیگر وارڈزمیں سروسز معطل ہو گئیں ، واقعہ کے خلاف پنجاب کے دیگر اضلاع میں بھی مظاہرے کئے گئے جبکہ وکلاء تنظیموں نے بھی ہڑتال کرکے اپنا احتجاج ریکارڈ کرایا۔
تفصیلات کے مطابق معصوم بچی سے زیادتی کے بعد قتل اور واقعہ کے خلاف احتجاج کرنے والے مظاہرین پر پولیس فائرنگ سے دو افراد کی ہلاکت کے خلاف قصور میں دوسرے رو ز بھی حالات کشیدہ رہے جس کی وجہ سے خوف و ہراس پھیلا رہا ۔ حکام کی جانب سے عوام میں پولیس کے خلاف پائی جانے والی شدید غصے کی لہر کے باعث پولیس کو پیچھے ہٹا دیا گیا ہے جبکہ صرف اہم سرکاری عمارتوں کی حفاظت کے لئے اہلکاروں کو اندرتعینات کیا گیا ہے اور انہیں کسی بھی طرح کا رد عمل سے روک دیاگیاہے ۔
گزشتہ روز صبح کے وقت ہی مختلف مقامات پر مظاہرین جمع ہونا شروع ہو گئے جنہوں نے بچی کے قتل اور پولیس فائرنگ سے ہلاکتوں کے خلاف احتجاجی مظاہرے کئے ۔ مشتعل مظاہرین نے ٹائر وں کو آگ لگا کر دوسری شہروں کو جانے والے راستے بند رکھے جس سے مسافروں کوشدید مشکلات درپیش رہیں ۔ مظاہرین نے کالی پل چوک پر دھرنا دیدیا جس سے ٹریفک کا نظام معطل ہوگیا،ڈنڈا بردار مظاہرین نے سٹیل باغ چوک کو ٹریفک کے لئے بند کر دیا ۔مشتعل مظاہرین نے ڈسٹرکٹ ہسپتال کے سامنے ٹائر نذرآتش کر کے شدید احتجاج کیا اور توڑ پھوڑ کے دوران ہسپتال کا مرکزی دروازہ بھی توڑ دیا۔انتظامیہ کی جانب سے کسی بھی نا خوشگوار واقعہ سے بچنے کے لئے پولیس کی تعیناتی نہیں کی گئی ۔
مظاہرین کی جانب سے ہسپتال میں داخل ہونے کے بعد ڈاکٹرز ، پیر امیڈیکل سٹا ف کام چھوڑ کرچلے گئے جس کے بعد ہسپتال میں ایمر جنسی اور دوسرے وارڈز میں سروسز معطل ہو گئیں ۔ جس کے بعد لواحقین ایمبولینسز کے ذریعے مریضوں کو گھروں یا دوسرے ہسپتالوں میں منتقل کرتے ہوئے دکھائی دئیے۔واقعہ کے خلاف شہر کے تمام تجارتی مراکز اور تعلیمی ادارے بند رہے ۔ قصور واقعہ کے خلاف پنجاب کے دیگر اضلاع میں بھی احتجاج کیا گیا ۔مظفر گڑھ میں مظاہرین نے سنانواں میں مظاہرہ کیا اور ملزم کو گرفتار کر کے قرار واقعی سزا دینے کا مطالبہ کیا ۔ وہاڑی میں طلبہ نے لرزہ خیز واقعہ کے ریلی نکالی اور بعد ازاں مظاہرہ کیا ۔
گوجرانوالہ میں مظاہرین نے جی ٹی روڈ کو گوندالوالہ چوک میں میں بند کر دیا جس سے ٹریفک کا نظام معطل ہو گیا ۔ وکلاء تنظیموں کی جانب سے بھی واقعہ کے خلاف ہڑتال کر کے احتجاج ریکارڈ کرایا گیا ۔ وکلاء عدالتوں میں پیش نہ ہوئے جس کے باعث سائلین کو اگلی تاریخیں دیدی گئیں ۔اسلام آد ہائیکورٹ بار کی جانب بھی واقعہ کے خلاف ہڑتال کی گئی ۔پنجاب بار کونسل کا کہنا ہے کہ مقتولہ زینب کے والدین کو مفت قانونی معاونت فراہم کی جائے گی۔
ترجمان پنجاب حکومت ملک محمد احمد خان نے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ قانون نافذ کرنا اور ملزم کی گرفتاری دو صورتحال کا سامنا ہے۔ انہوں نے کہا کہ کچھ سیاسی قوتوں نے اس واقعے کو اس طرح اٹھایا کہ مظاہرین سے مذاکرات کی دو مرتبہ کوشش ناکام ہوئی۔ترجمان پنجاب حکومت نے کہا کہ مظاہرین کا غم و غصہ پولیس کے خلاف ہے، گزشتہ روز پولیس کی جانب سے فائرنگ نہیں ہونی چاہیے تھی اور اس کا دفاع بھی نہیں کیا جاسکتا، مظاہرین پولیس کی گاڑی کو دیکھتے ہی اس پر حملے کر رہے ہیں۔ترجمان محمد احمد خان کا مزید کہنا تھا کہ صورتحال پر قابو پانے کے لئے رینجرز کو طلب کرلیا گیا ہے اور پولیس کو مظاہرین کی مزاحمت پر ردعمل نہ دینے کا کہا ہے اور فی الوقت امن و امان کی صورتحال پر قابو پانا ہے تاکہ کسی عام شہری کو زندگی کو نقصان نہ ہو اور اس کے لئے دو ٹیمیں تشکیل دی گئی ہیں۔