بلوچستان کے نئے وزیر اعلیٰ کے انتخاب کے لیے صوبائی اسمبلی کا اجلاس کو ئٹہ میں شروع

 
0
568

اسلام آباد ،جنوری13(ٹی این ایس):بلوچستان کے نئے وزیر اعلیٰ کے انتخاب کے لیے صوبائی اسمبلی کا اجلاس کو ئٹہ میں شروع ہوگیا ہے‘۔اسمبلی کا اجلاس ہفتہ کے روز صبح ساڑھے گیارہ بجے شروع ہونا تھا تاہم آدھے گھنٹے کی تاخیرسے اجلاس دن12بجے کے قریب شروع ہوا۔ وزیر اعلیٰ کے عہدے کے لیے 3 امیدواروں نے کاغذات نامزدگی جمع کرائے ہیں جن میں عبد القدوس بزنجو، عبد الرحیم زیارتوال اور آغا لیاقت شامل ہیں۔

عبدالقدوس بزنجو کا تعلق مسلم لیگ( ق) سے ہے اور وہ نون لیگ میں سابق وزیر اعلیٰ نواب ثنا اللہ زہری سے منحرف اراکین اور مسلم لیگ (ق )کے متفقہ امیدوار ہیں۔ان کے مقابلے میں باقی دونوں امیدواروں کا تعلق پشتونخوا ملی عوامی پارٹی سے ہے۔بلوچستان اسمبلی کے 65 اراکین میں سے ن لیگ کے 21، پشتونخوا ملی عوامی پارٹی کے 14، نیشنل پارٹی کے 11، جمعیت علماءاسلام (ف)کے 8، ق لیگ کے 5بلوچستان نیشنل پارٹی کے2 اراکین ہیں۔

عوامی نیشنل پارٹی، بی این پی (عوامی )، مجلس وحدت المسلمین کے ایک، ایک رکن کے علاوہ ایک آزاد رکن بھی ہے۔جے یو آئی (ف)، بلوچستان نیشنل پارٹی، عوامی نیشنل پارٹی اور بلوچستان نیشنل پارٹی (عوامی ) حزب اختلاف میں ہیں۔حزب اختلاف کی جماعتوں نے بھی قدوس بزنجو کی حمایت کا اعلان کیا ہے۔مبصرین کے مطابق دوسرے امیدواروں کے مقابلے میں میر عبد القدوس بزنجو کی پوزیشن مضبوط ہے اور ان کی کامیابی یقینی ہے۔

قدوس بزنجو کا تعلق بلو چستان کے پسماندہ ترین ضلع آواران سے ہے آروان کی تحصیل جھاو ¿ میں 1974 میں پیدا ہو ئے۔پہلی مرتبہ وہ 2002 میں ضلع آواران پر مشتمل بلوچستان اسمبلی کی نشست پی بی 41 سے رکن اسمبلی منتخب ہوئے۔ 2002 سے2007 تک وزیر لائیوسٹاک رہے۔2013ءکے انتخابات میں وہ دوبارہ ضلع آواران سے رکن اسمبلی منتخب ہوئے۔مسلح تنظیموں کی انتخابات کے حوالے سے دھمکیوں کے باعث آواران میں بلوچستان اسمبلی کی نشست پر6 سو سے زائد ووٹ پڑے تھے۔

قدوس بزنجو کو ان میں سے 544ووٹ ملے تھے جو کہ پاکستان کی تاریخ میں کسی کامیاب امیدوارکو پڑنے والے سب سے کم ووٹ ہیں۔ذرائع نے بتایا(ن) لیگ کی قیادت نے وزیراعلیٰ بلوچستان کے لیے نام کوفائنل کرنے کیلیے لاہوراوراسلام آبادمیں کئی مشاورتی اجلاس کیے لیکن بلوچستان اسمبلی میں (ن) لیگ کے منحرف ارکان کی تعدادمیں اضافے کی وجہ سے وزارت اعلیٰ کے لیے امیدوار سامنے نہ لاسکی۔

خیال رہے کہ 65رکنی بلوچستان اسمبلی میں مسلم لیگ(ن) کی21نشستوں کے مقابلے میں مسلم لیگ (ق) کی صرف 5نسشتیں ہیں۔وفاق میں حکمران جماعت مسلم لیگ نون کے 6 اراکین اسمبلی کی جانب سے مسلم لیگ (ق) کے میر عبدالقدوس بزنجو کے حق میں ووٹ دینے کا فیصلہ سامنے آیا ہے۔ مسلم لیگ (ق) کے رکن صوبائی اسمبلی عبدالقدس بزنجو نے پانچ کاغذات نامزدگی جمع کروائے ہیں۔

دوسری جانب نیشنل پارٹی نے وزیراعلیٰ کی نشست کے لیے ہونے والے انتخاب میں غیر جانبدار رہنے کا فیصلہ کیا ہے اور پشتونخوا ملی عوامی پارٹی کے دو صوبائی رکن نے کاغذات نامزدگی جمع کرائے ہیں جس کے بارے میں پارٹی کا موقف ہے کہ مذکورہ نامزدگی جمہوری عمل کو مستحکم رکھنے کا طریقہ ہے۔مسلم لیگ (ن) کے مرکزی رہنما سردار یعقوب خان نے اعلان کیا تھا کہ ان کی جماعت دیگر دونوں جماعتوں این پی اور پی کے میپ کے ساتھ مل کر وزارت اعلیٰ کے لیے امیدوار نامزد کرے گی لیکن مسلم لیگ (ن) کے 6 اراکین اسمبلی نے سابق وزیرِ داخلہ عبدالقدوس بزنجو سے ملاقات کیں اور مکمل حمایت کا عندیہ بھی دیا۔

منحرف ہونے والے 6 لیگی اراکین میں سردار محمد ناصر، اظہر حسین کھوسہ، محمد خان لاشاری، ثمینہ خان، انیتا عرفان اور کشور جٹ شامل ہیں۔حکمران جماعت کی نشستوں سے عبدالقدوس بزنجو کی حمایت میں جانے والے اراکین کی تعداد 19 ہو چکی ہے جبکہ دیگر 2 میں قائد ایوان راحیلہ حمید خان درانی اور سابق وزیراعلیٰ ثناءاللہ زہری بچے ہیں۔ بتایا گیا کہ سردار صالح محمد بھوتانی، جان محمد جمالی، سرفراز بگٹی، ظفراللہ زہری، امان اللہ کزانی، عامر رند اور غلام دستگیر پی کے میپ کی قیادت سے مشاورت کے بعد عبدالقدوس بزنجو کی حمایت میں دستبردار ہو گئے تھے۔

عبدالقدوس بزنجو کی قیادت میں ایک وفد نے سردار اسلم بزنجو کے گھر میں ڈاکڑ عبدالمالک بلوچ اور دیگر این پی رہنماو ¿ں سے ملاقاتیں کیں تاہم این پی نے واضح کیا کہ وہ وزیراعلیٰ کی نشست پر ہونے والے انتخابات کا حصہ نہیں بنیں گے۔سرفراز بگٹی کا کہنا ہے کہ نیشنل پارٹی اسمبلی میں منعقدہ انتخابات میں کسی امیدوار کی حمایت نہیں کرے گی۔