اسلام آباد ، جنوری 15 (ٹی این ایس): وفاقی وزیر برائے نجکاری دانیال عزیز نے کہا ہے کہ حکومت پی آئی اے کے ’’ کور بزنس‘‘ کی نجکاری کے عمل کو 15 اپریل تک حتمی شکل دینے کیلئے پرعزم ہے، نجکاری کے اس عمل سے قومی معیشت مضبوط ہو گی، ہم پی آئی اے کو درست سمت میں گامزن کرکے اس کی عظمت رفتہ بحال کرنے کیلئے کوشاں ہیں، پی آئی اے کی بیلنس شیٹ کو منفی سے مثبت ایکٹیویٹی میں لانے کی کوشش کر رہے ہیں، نجکاری کے عمل میں قانون پر عملدرآمد اور شفافیت کو یقینی بنائیں گے جس سے غیر ملکی سرمایہ کاروں کو پاکستان میں سرمایہ کاری کیلئے راغب کرنے میں مدد ملے گی۔
ان خیالات کا اظہار انہوں نے پیر کو پی آئی ڈی میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے کیا۔ انہوں نے کہا کہ دن رات محنت کرکے نجکاری کے عمل کو درست سمت میں گامزن کر دیا ہے، پی آئی اے کی نجکاری پر مشترکہ مفادات کونسل، کابینہ سمیت دیگر فورمز پر تفصیلی تبادلہ خیال کیا گیا، پی آئی اے کی نجکاری کے عمل پر غور و خوض سابق حکومتوں کی بھی ذمہ داری رہی ہے۔
انہوں نے کہا کہ پی آئی اے کی نجکاری کا انتخابات سے کوئی تعلق نہیں، جیسے مخالفین کہتے ہیں اور نہ ہی یہ سیاسی پوائنٹ سکورنگ ہے، یہ قانونی ضرورت ہے جس پر عمل کیا جا رہا ہے، اس حوالہ سے تمام سیاسی جماعتوں نے اتفاق رائے سے 15 اپریل 2017ء کو ایک قانون منظور کیا جس کے تحت پی آئی اے کی نجکاری کا عمل قانونی تقاضا ہے۔ انہوںنے کہا کہ حکومت پی آئی اے کے مینجمنٹ اور فلائٹ آپریشن سے متعلق صرف ’’کوربزنس‘‘ کو فروخت کرے گی تاہم دیگر املاک اور اثاثہ جات حکومت کے پاس رہیں گے، حکومت ایک اور کمپنی قائم کرنے کی منصوبہ بندی کر رہی ہے جو پی آئی اے کے تمام فکسڈ اثاثہ جات کا نظام چلائے گی۔
انہوں نے کہا کہ پی آئی اے کی نجکاری سے ملکی معیشت کو فروغ ملے گا، یہ کوئی نئی چیز نہیں ہے بلکہ دنیا بھر میں نجکاری کی جاتی ہے، اتحاد اور ایمریٹس ایئرویز کی نجکاری اس کی بہترین مثالیں ہیں، جن ممالک نے اپنے اداروں کی تیزی سے نجکاری کی ہے وہاں کی معیشت نے ترقی کی ہے، دنیا کے کئی ممالک میںنجی شعبے ایئر لائنز چلا رہے ہیں، ایئر لائنز نجی شعبے کے حوالے کرنے سے مقابلے کی فضا پیدا ہوتی ہے ،دنیا کی کئی ایئر لائنز پی آئی اے کی آمد کے بعد آئیں اور کامیاب ہوچکی ہیں، ہم پی آئی اے کا قومی تشخص بھی برقرار رکھنا چاہتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ پی آئی اے کو بعض چیلنجز درپیش ہیں جس کے باعث اس کو نجکاری کی فہرست میں شامل کیا گیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ پی آئی اے کی نجکاری کو منفی انداز میں پیش کیا جا رہا ہے حالانکہ اس کو سمجھنے کی ضرورت ہے کیونکہ پی سی آرڈیننس کے تحت ہم اس کی نجکاری کرنے کے پابند ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ہم پی آئی اے کے ملازمین کے حقوق کا تحفظ کریں گے، میں نجکاری کمیشن کا پہلا چیئرمین ہوں جس نے پاکستان سٹیل ملز کے ملازمین کو چار ماہ کی تنخواہوں کی ادائیگی یقینی بنائی ہے، سٹیل مل سے اگر مقامی طور پر سٹیل پیدا ہو رہی ہوتی تو وہ ہمیں درآمد نہ کرنا پڑ رہی ہوتی۔
انہوں نے کہا کہ سٹیل ایئرپورٹس، بندگاہوں، ہائی ویز،برجز ،انڈر پاسز اور بلڈنگز میں استعمال ہوتا ہے وہ جب بڑے پیمانے پردرآمد کرتے ہیں تو اس سے درآمدی بل میں اضافہ ہوتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ فارن ایکسچینج پر دبائو میں یہ تمام چیزیں منسلک ہیں۔ انہوں نے کہا کہ 25 سے 30 برس سے اوسطاً سالانہ خسارہ 60 ارب روپے بنتا ہے اس میں بیشتر حصہ پی آئی اے کا ہے، پی آئی اے کی نجکاری سے اس خسارہ میں کمی آئے گی، خسارہ کی یہ رقم ترقیاتی کاموں اور غربت کے خاتمہ پر خرچ کی جا سکتی ہے۔
انہوں نے کہا کہ ہم پی آئی اے کی عظمت رفتہ کو بحال کرنا چاہتے ہیں، ہم اسے ایسا ادارہ بنانا چاہتے ہیں جس پر ملک و قوم کو فخر ہو۔ انہوں نے کہا کہ پی آئی اے کے اثاثے فروخت نہیں کئے جا رہے بلکہ اثاثے بچانے کیلئے اقدامات کر رہے ہیں۔ ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ پی آئی اے کے 51 فیصد شیئرز اور مینجمنٹ حکومت کے پاس رہنے کا قانون ہے تاہم اگر اچھی پیشکش ہوئی تو اس قانون پر نظرثانی بھی کر سکتے ہیں۔