،ہم نے ملک بھر کے علماء سے دہشتگردی اور خودکش حملوں کیخلاف فتوے جاری کروائے پھر بھی ہم پر شک کیا جارہا ہے‘ مدارس اور مذہبی جماعتوں کو فورتھ شیڈول میں رکھا جائیگا تو بات کیسے بنے گی؟ مولانا فضل الرحمن

 
0
418

کشمیر کمیٹی پارلیمنٹ کی نمائندہ ہے، اگر حکومت اور پارلیمنٹ کچھ نہیں کریگی تو کشمیر کمیٹی کیا کرے، قومی اسمبلی میں بیان
اسلام آباد،جنوری 15 (ٹی این ایس): جمعیت علماء اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمن نے کہا ہے کہ نائن الیون کے بعد خوف میں آ کر بنائی گئی پالیسی پاکستان کے مفاد میں نہیں تھی،امریکہ کیلئے کام کرنے کے باوجودہم قابل اعتبارنہیں، 1980ء سے ہم نے افغانستان میں سرمایہ کاری کی آج وہاں بھارت بیٹھا ہے، ہم نے ملک بھر کے علماء سے دہشتگردی اور خودکش حملوں کیخلاف فتوے جاری کروائے پھر بھی ہم پر شک کیا جارہا ہے،مدارس اور مذہبی جماعتوں کو فورتھ شیڈول میں رکھا جائیگا تو بات کیسے بنے گی۔ کشمیر کمیٹی پارلیمنٹ کی نمائندہ ہے۔ اگر حکومت اور پارلیمنٹ کچھ نہیں کریگی تو کشمیر کمیٹی کیا کرے، پاکستان کو تنہائی سے نکالنا ہے تو شائستگی سے فیصلے کئے جائیں۔

پیر کو قومی اسمبلی میں پالیسی بیان دیتے ہوئے جمعیت علماء اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمن نے کہا کہ نائن الیون کے بعد ہم نے جو پالیسی بنائی اس میں پاکستان کے مفاد کے بجائے ایک خوف مدنظر تھااور ہم اس خوف کے سامنے ڈھیر ہوگئے۔ انہوں نے کہا کہ بدقسمتی سے ملک کی سیاسی جماعتوں نے اس پالیسی کی تائید کی۔ پتھر کے زمانہ میں دھکیلے جانے اور بھارت کی جانب سے فائدہ اٹھانے کے خوف نے ہمیں اس جانب دھکیلا۔ انہوں نے کہا کہ اس جنگ میں ہم نے 200 ارب کا اپنا نقصان کیا۔ دہشت گردی کے خلاف مشترکہ جنگ میں پاکستان کی سرزمین حوالے کی گئی۔ انہوں نے کہا کہ اس جنگ میں اگر پاکستان کی کچھ مدد کی گئی تو اب اس کو جتلایا جارہا ہے۔انہوں نے کہا کہ امریکہ کیلئے کام کرنے کے باوجودہم قابل اعتبارنہیں، امریکہ اوریورپ ہم پراعتماد نہیں کرتے ۔

انہوں نے کہا کہ 1980ء سے ہم نے افغانستان میں کتنا انویسٹ کیا لیکن آج اس افغانستان میں پاکستان کی جگہ بھارت موجود ہے ۔ انہوں نے کہا کہ خارجہ پالیسی میں ہم امریکہ اور مغربی ممالک کی مخالفت کو تنہائی قرار دیتے ہیں۔ اصل میں پڑوسی ممالک ساتھ نہ ہوں تو یہ تنہائی ہے۔ صرف چین ہمارے ساتھ کھڑا ہے۔ چین کی پاکستان کے حوالے سے اپنی ایک پالیسی ہے وہ اقتصادی تعلقات کے فروغ میں دلچسپی رکھتا ہے۔ وہ اسلحہ کی جنگ کو ترجیح نہیں دیتا۔وہ ہمارے لئے گولی نہیں چلائے گا ۔ انہوں نے کہا کہ ایران مشکلات کاسامناکررہاہے ۔

انہوں نے کہا کہ جب تک ہمارے اندر پارلیمنٹ کو سپریم بنانے کا عزم اور یکسوئی نہیں ہوگی ۔انتخابات اور اقتدار کو ثانوی حیثیت نہیں دینگے تب تک ہم یکجہتی سے فیصلے نہیں کر پائینگے ۔انہوں نے کہا کہ یکجہتی سے فیصلے نہ کرپانے کا خمیازہ بعد میں ہمیں بھگتنا پڑتا ہے ۔ انہوں نے کہا کہ ٹرمپ کے بیان پر قوم میدان میں آئی ہے تاہم اسے نہیں پتہ کہ اس کے جذبات سے کیا کھیل کھیلا جارہا ہے۔ یہ پارلیمنٹ عوام کی نمائندہ ہے۔

انہوں نے کہا کہ ٹرمپ بیت المقدس میں سفارت خانہ نہیں کھول سکتا‘ یہ متنازعہ ہے۔ انہوں نے کہا کہ اسرائیل کا اس پر قبضہ ہے۔ اس کے بیان پر پوری امت مسلمہ میں احتجاج کیا گیا۔ پاکستان میں فلسطینی سفیر کے ایک مظاہرہ میں شمولیت پر اپنا سفیر واپس بلا لیا۔انہوں نے کہا کہ بھارت اسرائیل کے وزیراعظم کو کس طرح استعمال کر رہا ہے یہ سب کے سامنے ہے۔ صرف بیانات پالیسی نہیں ہوتے۔ اس پالیسی بیان میں نرمی اور ابہام ہے۔

انہوں نے کہا کہ ہم نے مساجد اور مدارس کو دہشتگروں کی پناہ گاہیں کہا‘ ایک بڑے حصہ کو ناراض کیا۔ ہم نے 2010ء میں کوئٹہ اور پشاور‘ لاہور اور دیگر شہروں میں ہزاروں علماء کو جمع کرکے خودکش حملوں کو حرام کہا ‘ ریاست کے آئین کو ماننے کی بات کی۔ انہوں نے کہا کہ ہم ریاستی اداروں اور سیاسی جماعتوں کا احترام کرتے ہیں۔ ہم لمحہ بہ لمحہ ریاست کے ساتھ کھڑے ہیں۔ میرے بیان دینے کے باوجود ہمیں شک میں رکھا جارہا ہے۔ لاکھوں علماء اگر آپ کے ساتھ کھڑے ہیں تو یہ حجت نہیں ہے؟۔ ریاست بتائے کہ اسے پاکستان کی مذہبی جماعتوں‘ تعلیمی اداروں پر اعتماد ہے۔ اگر ان کو فورتھ شیڈول میں رکھیں گے تو بات کیسے بنے گی۔ انہوں نے کہا کہ ریاست ہمیں کیا دے رہی ہے وہ اپنا بیانیہ بتائے۔

کشمیر کمیٹی پارلیمنٹ کی نمائندہ ہے۔ اگر حکومت اور پارلیمنٹ کچھ نہیں کرے گی تو کشمیر کمیٹی کیا کرے گی۔ فاٹا میں دہشت گردوں کے خلاف جنگ میں پوری قوم آپ کے ساتھ کھڑی تھی۔ فاٹا کے عوام سے رویہ جمہوری نہیں ہے‘ یہ پارلیمنٹ جبروت کی نہیں جمہور کی نمائندہ ہے۔ انہوں نے کہا کہ فاٹا کے لوگوں کو ان کا جمہوری حق نہیں مل رہا۔ فاٹا میں کورٹس کی توسیع میں آئین کو مدنظر رکھنا چاہیے تھا۔ یہ قانون فوری پاس کرنے کی کیا ضرورت ہے۔ اس طرح پاکستان کو کیسے تنہائی سے نکالا جاسکتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ مسائل کو سنجیدگی سے لیا جائے‘ پاکستان کو تنہائی سے نکالنا ہے تو شائستگی سے فیصلے کئے جائیں۔