عمران خان نے پارلیمنٹ کو نہیں خود کو گالی دی ہے ٗاراکین قومی اسمبلی شیخ رشید اور عمران خان برس پڑے

 
0
386

اسلام آباد جنوری 18(ٹی این ایس) اراکین قومی اسمبلی نے لاہور کے مال روڈ پر اپوزیشن جماعتوں کے احتجاجی جلسے میں پاکستان تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان کی جانب سے پارلیمنٹ کیلئے ‘لعنت’ کا لفظ استعمال کرنے اور عوامی مسلم لیگ شیخ رشید کی جانب سے پارلیمنٹ کو تنقید کا نشانہ بنائے جانے کی شدید مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ دونوں رہنماؤں کیخلاف استحقاق کی تحریک لائی جائے اور طلب کیا جائے ٗپارلیمنٹ اور جمہوریت کے خلاف بات کرنے والے کبھی پاکستان کی تاریخ میں زندہ نہیں رہیں گے ٗملک کی سیاست ایک نئے رخ پر چل پڑی ہے ٗ سیاستدانوں نے پارلیمنٹ کیلئے قربانیاں دیں ٗپاکستان کو بچانے کا آخری حل ہماری پارلیمنٹ ہوگی ٗبڑے سیاستدان کو سوچ کر بات کرنی چاہیے‘ ہمیں یک آواز ہوکر پارلیمنٹ کو گالیاں دینے والوں کے خلاف آواز اٹھانی ہوگی۔

جمعرات کو قومی اسمبلی میں نکتہ اعتراض پر سیّد خورشید شاہ نے کہا کہ گزشتہ روز اس کنٹینر پر ہم بھی تھے‘ ہمارا احتجاج موجودہ نظام اور لاقانونیت کے حوالے سے تھا۔ انہوں نے کہا کہ قصور پارلیمنٹ کا نہیں ہوتا اگر کوئی سوچتا ہے کہ قصور پارلیمنٹ کا ہے تو پھر وہ اندھیرے میں ہے‘ اسے سیاست چھوڑ دینی چاہیے ٗکسی کو جذبات میں آنے‘ جھگڑا کرنے اور گالی دینے کی ضرورت نہیں‘ ملک کی سیاست ایک نئے رخ پر چل پڑی ہے۔ پہلے یہ پارلیمنٹ کا وجود ہی نہیں تھا پھر ایک ڈکٹیٹر کی چھتری کے سائے میں رہی۔ 48 سے 49 سالوں سے پارلیمنٹ میں کئی اتار چڑھاؤ آئے۔ سیاستدانوں نے پارلیمنٹ کے لئے قربانیاں دیں۔ 16 سال کی عمر میں جمہوریت کی بحالی کے لئے ایوب خان دور میں میں نے کوڑے کھائے ٗپاکستان کو بچانے کا آخری حل ہماری پارلیمنٹ ہوگی۔

انہوں نے کہا کہ گزشتہ روز مجھے سن کر بڑا دکھ ہوا۔ مجھے شہید بھٹو کی لاش تختہ دار پر لٹکتی ہوئی نظر آئی۔ مجھے محترمہ بے نظیر بھٹو کی شہادت یاد آئی جنہوں نے دنیا کے منع کرنے کے باوجود یہاں جمہوریت کی بحالی کیلئے آنے کی بات کی۔ اس پارلیمنٹ نے 73ء کا آئین بنایا ۔ اس پارلیمنٹ نے ہمیں اپنے حق کیلئے آواز بلند کرنے کی زبان دی اور تمام اداروں کو طاقت دی۔ اس پارلیمنٹ نے بھارت سے 90 ہزار فوجی و سول قیدیوں کو آزاد کرایا۔ اسی پارلیمنٹ نے پاکستان کو ایٹمی طاقت بنایا۔ ملک کو میزائل ٹیکنالوجی دی۔ اسی پارلیمنٹ نے اٹھارہویں ترمیم کے لئے صوبوں کو ڈکٹیٹر سے چھین کر اختیار دیئے ٗ پارلیمنٹ کے خلاف جو لفظ استعمال کئے گئے وہ ہم یہاں نہیں دہرائیں گے جس نے بھی وہ لفظ کہے اس کے منہ میں خاک۔ انہوں نے کہا کہ ہر ایک کی خواہش ہوتی ہے کہ وہ اس پارلیمنٹ کا رکن بنے اور پاکستان کے عوام اور بچے بچے کے لئے یہاں قانون بنائے۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان کے بیس کروڑ عوام کو انہوں نے ذہنی مریض بنا دیا ہے۔ لوگ سوچیں گے کہ وہ اس پارلیمنٹ کو ووٹ کیوں دیں۔ انہوں نے کہا کہ اس ملک کے نوجوان کو پاکستان کی شناخت چاہیے۔ ان بچوں سے اداروں کی توہین کرکے شناخت چھینی جارہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ بڑے فخر سے کہتا ہوں کہ ہم تختہ دار پر بھی چڑھے‘ اگر بھٹو ہوتا تو کبھی امریکا کی ڈکٹیشن نہ لیتا‘ دنیا بھٹو کی آواز سے بھی کانپتی تھی۔ محترمہ بے نظیر بھٹو زندہ ہوتی تو کسی کو پاکستان کے خلاف 33 ارب کی بات کرنے کی جرات نہ ہوتی۔اس پارلیمنٹ کو بڑے بڑے لوگوں نے بریفنگ دی۔ اس پارلیمنٹ نے دہشت گردی کے خلاف آپریشن ضرب عضب‘ ردالفساد کئے ۔ عمران خان اور شیخ رشید نے اس پارلیمنٹ کا تقدس پامال کیا۔ ہم نے لاشیں اٹھائیں مگر ہم نے کبھی نہیں کیا کہ ہمیں پاکستان نہیں چاہیے ٗہم نے کبھی اداروں کی توہین نہیں کی۔ ہم نے لعنت نہیں بھیجی ٗ ہمارے وزیراعظم کو ایک سیکنڈ میں نکال دیا گیا ہم نے کسی ادارے کی توہین نہیں کی ٗآج ان ججوں کو محسوس ہوتا ہوگا کہ وہ پیپلز پارٹی پاکستان کی خوشحالی چاہتی ہے۔ محب وطن جماعت ہے۔

انہوں نے کہا کہ ہم زینب کے قتل اور حکومتی پالیسیوں کی مخالفت کرتے ہیں مگر مردان اور ڈیرہ اسماعیل خان کے واقعات کی پردہ پوشی کی جاتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان کے نام پر ہم جان کی قربانیاں دینے والے ہیں ٗپاکستان کے اداروں کی مضبوطی کے لئے سر دھڑ کی بازی لگانے والے ہیں۔ پاکستان کے عوام سے کہتے ہیں کہ پاکستان سے محبت کرنے والوں کو پہچان‘ کوئی بھی استعفیٰ دے دے اس ایوان کو فرق نہیں پڑتا۔ مگر یہی پارلیمنٹ ہماری محافظ اور چھتری ہے۔ یہ چاہتے ہیں کہ یہاں ڈکٹیٹر شپ آجائے ٗہم عدلیہ کو آزاد دیکھنا چاہتے ہیں۔ وہ آزادانہ اور ملک کے حق میں فیصلے کریں۔ ہم پاک فوج کو سیسہ پلائی ہوئی دیوار بنانا چاہتے ہیں۔ ان کی اس بات سے پاکستان کے 20 کروڑ عوام کو تکلیف ہوئی۔ ہم ہمیشہ پاکستان زندہ باد ‘ پارلیمنٹ زندہ باد‘ جمہوریت زندہ باد کا نعرہ لگانے والے ہیں۔ ہم ملک کے لئے جان دینے والے ہیں۔ پارلیمنٹ اور جمہوریت کے خلاف بات کرنے والے کبھی پاکستان کی تاریخ میں زندہ نہیں رہیں گے۔

اعجاز جاکھرانی نے کہا کہ گزشتہ روز لاہور میں ایک جلسہ تھا جس میں ایک تانگہ پارٹی کے لیڈر نے اس پارلیمنٹ کو گالیاں دیں۔ اس رکن کی کوئی حیثیت نہیں ہے وہ اس طرح کی باتیں کرتا رہتا ہے۔ اس کو صرف گالیاں دینی آتی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ایک ایسی جماعت کے لیڈر جس میں 35 سے 36 ارکان موجود ہیں اس نے اس کی بات کی تائید کی حالانکہ وہ بھی اسی پارلیمنٹ کے رکن ہیں۔ پارلیمنٹ جمہوریت کا حسن ہے جس کے پاس یہاں اکثریت ہو وہی حکومت بناتی ہے۔ پارلیمنٹ نے اگر کوئی غلط قانون یا بل منظور کیا ہے اس سے اختلاف کیا جاسکتا ہے ۔ پاکستان پیپلز پارٹی نے اس پارلیمنٹ اور جمہوریت کے لئے بے شمار اور بے مثال قربانیاں دی ہیں۔ محترمہ بے نظیر بھٹو کہتی تھیں ’’ جمہوریت بہترین انتقام‘‘ ہے۔ پارلیمنٹ بالادست ہے ہم ان کی اس بات کی مذمت کرتے ہیں۔ ان کے خلاف استحقاق کی تحریک لائی جائے اور انہیں طلب کیا جائے۔

انہوں نے کہا کہ ان ہی لوگوں نے پارلیمنٹ پر حملہ کیا ۔ ہم اس اس وقت بھی جمہوریت کو بچانے کے لئے یہاں آتے رہے۔ ہم پارلیمنٹ کی بالادستی پر یقین رکھتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ 2014ء کے دھرنے کے بعد مسلم لیگ (ن) سمیت تمام جماعتوں کو سبق سیکھنا چاہیے تھا ٗعمران خان کو یوٹرن لینے کی عادت ہے وہ ایک بات کرتے ہیں پھر اس سے انکاری ہو جاتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ پارلیمنٹ کو جب بھی کوئی خطرہ ہوگا پیپلز پارٹی سب سے آگے کھڑی ہوگی۔ انہوں نے کہا کہ پیپلز پارٹی جمہوریت کے خلاف کسی سازش کا حصہ نہیں بنے گی۔ایم کیو ایم پاکستان کے رکن شیخ صلاح الدین نے کہا کہ پارلیمنٹ کو گالی دے کر انہوں نے ہر پارلیمنٹرین کی توہین کی ہے ٗ انہوں نے چار سال قبل دھرنے کے وقت بھی یہی کیا تھا ٗ یہ غیر ذمہ دارانہ بات کرکے انہوں نے 20 کروڑ عوام کی توہین کی ہے۔ جو الفاظ پارلیمنٹ کے لئے استعمال کئے ہیں اس حوالے سے متفقہ تحریک استحقاق لائی جائے۔ ایم کیو ایم اس کی حمایت کریگی۔ جس نے استعفی دینا ہے وہ مخدوم جاوید ہاشمی کی طرح ایوان میں آکر استعفیٰ دے۔

انہوں نے کہاکہ پارلیمنٹ میں قانون سازی ہوتی ہے‘ سپریم کورٹ اور الیکشن کمیشن اس قانون سازی کے تحت چلتے ہیں۔ پارلیمنٹ کو گالیاں دینے کا کیا جواز بنتا ہے۔ پارلیمنٹ اور ٹی وی پر حملوں کا پہلے موثر نوٹس نہیں لیا گیا۔ ہمیں محسوس ہو رہا ہے کہ یہ کسی کے اشاروں پر چل رہے ہیں اور امپائر کی انگلی کے اشارے کی طرف دیکھ رہے ہیں۔ تمام جماعتیں مل کر تحرک استحقاق لائیں۔عوامی نیشنل پارٹی کے پارلیمانی لیڈر حاجی غلام احمد بلور نے کہاکہ شیخ رشید نے جب سے مارشل لاء کی نوکری کی ہے ان کی طبیعت میں فتور آگیا ہے حالانکہ وہ ایک اچھے سیاسی کارکن تھے۔ ان کی پارلیمنٹ سے محبت نہیں ہے وہ یہ چاہتے ہیں کہ یہاں مارشل لاء لگے اور وہ وزیر بنیں۔ انہوں نے کہا کہ عمران خان خود کو بڑا لیڈر کہتے ہیں انہیں تو گالیاں نہیں دینی چاہئیں تھیں۔ جس پارلیمنٹ کے وہ رکن منتخب ہوئے اسے ہی گالیاں دے رہے ہیں۔ بڑے سیاستدان کو سوچ کر بات کرنی چاہیے۔وہ کسی اور ادارے پر لعنت نہیں بھیجتے پارلیمنٹ پر اس لئے لعنت بھیجی ہے کیونکہ یہ کمزور ہے۔

انہوں نے کہا کہ جن جن لوگوں نے گزشتہ روز تقاریر کی ہیں انہوں نے عدلیہ پر عدم اعتماد کا اظہار کردیا ہے کیونکہ وہ کیس عدلیہ میں زیر سماعت ہے۔ تحریک استحقاق کے ذریعے ان کو یہاں طلب کرکے معافی منگوائی جائے اور یہ معافی مانگ بھی لیں گے۔جمعیت علماء اسلام (ف) کی رکن شاہدہ اختر علی نے کہا کہ ایک بندے کے کردار کے ذریعے اس بات کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ اس کی تربیت کیسے ہوتی ہے ٗ ہمیں کوئی تعجب نہیں ہوا‘ عزت اور ذلت دینے والا صرف اللہ ہے ٗایسا شخص جو اس ایوان میں آکر وزیراعظم بننا چاہتا ہے اور پھر اس ایوان کو گالیاں دیتا ہے اس کو تحریک استحقاق کے ذریعے ایسا سبق دیا جائے کہ وہ یاد رکھے۔پھر وہ کیسے لوگوں سے اس ایوان میں آنے کے لئے ووٹ مانگے گا۔ ایسا واقعہ تاریخ میں پہلے کبھی نہیں ہوا‘ ہمیں یک آواز ہو کر ان کے خلاف آواز اٹھانی ہوگی

۔بلوچستان نیشنل پارٹی کے رکن قومی اسمبلی سید عیسیٰ نوری نے کہاکہ کل کے جلسہ میں اس مقدس ایوان کے بارے میں جو کچھ کہا گیا اس حوالے سے قرارداد مذمت لائی جائے۔ سپیکر اس حوالے سے رولنگ بھی دیں۔ 24 کروڑ عوام کے نمائندوں پر لعنت بھجوائی گئی ہے۔ اس بات کو درگزر نہیں کیا جاسکتا۔ پارلیمنٹ کے تقدس کی بحالی کے لئے تحریک استحقاق لائی جائے۔مسلم لیگ (ن) کے رکن خلیل جارج نے گزشتہ روز کے واقعہ کی پرزور مذمت کی اور کہا کہ اس مقدس ایوان کی توہین کی گئی۔ یہ ایوان سب کے لئے قانون بناتا ہے۔ اس مقدس ایوان کو اپنے تقدس کے لئے بھی قانون بنانا چاہیے۔ تاکہ اس کی توہین کرنے والوں کو کڑی سے کڑی سزا دی جائے۔ شیخ رشید کو دس سال کی سزا دی جائے تاکہ وہ اس ایوان میں دس سال تک نہ آئے۔ میں اس ایوان کے تقدس کے لئے جان دے دوں گا مگر آنچ نہیں آنے دوں گا۔

عمران خان کے ہاتھ میں وزیراعظم بننے کی لکیر ہی نہیں ہے پھر وہ کیسے وزیراعظم بن سکتا ہے۔مسلم لیگ ضیاء کے سربراہ اعجاز الحق نے کہا کہ اپوزیشن کا جلسہ جلوس کرنے کا حق ہے۔ اپوزیشن کی بعض باتوں سے ہم متفق بھی ہوں گے۔ گذشتہ روز کی گفتگو سن کر بہت افسوس ہوا جس تھالی میں کھاتے ہیں اسی میں چھید کرتے ہیں۔ ماضی میں کسی نے نہیں دیکھا ایسا ہوا ہو۔ غیر فطری اتحاد کبھی کامیاب نہیں ہوتے۔ 2014ء کے دھرنے کے وقت بھی بعض جماعتیں الگ ہوئیں۔ تحریک استحقاق اور مذمتی قرارداد کے حق میں ہوں۔ انسان سے زندگی میں غلطیاں ہو جاتی ہیں‘ بندہ معافی مانگ لیتا ہے۔ پارلیمنٹ تمام اداروں کی ماں کا درجہ رکھتی ہے۔ سپریم کورٹ سمیت تمام ادارے اس کے ماتحت ہیں۔ پیپلز پارٹی گزشتہ روز احتجاج میں شریک تھی مگر ان کے ایک رکن نے غیر پارلیمانی زبان ی مذمت کی۔

مسلم لیگ (ن) کے رکن میاں جاوید لطیف نے کہا کہ دیا میں ریاستوں نے پارلیمانی نظام سے ہی ترقی کی۔ بدقسمتی سے ہمارے کچھ لوگ پارلیمنٹ پر یقین نہیں رکھتے۔ پیپلز پارٹی کے علاوہ لاہور کے جلسہ میں جتنے بھی چہرے تھے وہ آئین‘ پارلیمنٹ اور جمہوریت پر یقین نہیں رکھتے۔ پارلیمنٹ کو گالی دینا ریاست کو گالی دینا ہے اور ریاست کو جو گالی دیتا ہے وہ غدار ہوتا ہے۔ گزشتہ روز جو کچھ ہوا وہ کسی طور پر بھی ایک باضمیر شخص کو گوارہ نہیں ہے۔ تحریک انصاف کے ارکان بھی اپنے ضمیر سے پوچھیں۔ عمران خان‘ شیخ رشید اور طاہر القادری اقتدار کے رسیا ہیں‘ چور دروازے سے اقتدار تک پہنچنا چاہتے ہیں۔ پیپلز پارٹی اور پارلیمنٹ پر یقین رکھنے والوں سے کہتا ہوں کل کا جلسہ جمہوریت اور پارلیمنٹ کے خلاف تھا۔ پیپلز پارٹی تنہا اس سے بڑا جلسہ کر سکتی تھی۔ لوگوں نے لاہور جلسہ میں غیر جمہوری عناصر کو مسترد کردیا ہے۔