فنانشل ایکشن ٹاسک فورس کے کسی اقدام سے پاکستانی معیشت متاثر نہیں ہو سکتی

 
0
378

پاکستان میں کوئی بڑی سرمایہ کاری نہیں ہے۔ پاکستان کو مواقع اور مشکلات کے تناظر میں رکھ کر اقدام اٹھانا چاہئے، ماہرین

اسلام آباد، مارچ 05  (ٹی این ایس): فنانشل ایکشن ٹاسک فورس FATF اقوام امتحدہ کی سیکورٹی کونسل جیسا ادارہ نہیں ہے۔ یہ ایک انتہائی سنجیدہ تکنیکی فورم ہے ، جس کے34 رکن ممالک ہیں اور مالی امور کے حوالے سے 40 مندرجات کو 1989ء سے دیکھ رہا ہے جس میں لوٹی ہوئی دولت ، غیر قانونی طور پر دولت کی دوسرے ممالک میں منتقلی اور دہشت گردی کی مد میں استعمال ہونے والی دولت سمیت دیگر مندرجات ایف اے ٹی ایفFATF کے دائر کار میں آتے ہیں ۔ہمیں اس سے درپیش خدشات کو ذہن میں رکھ کر بہتری کا موقع جانتے ہوئے سنجیدگی سے لینا چاہئے ۔ پاکستان شعبہ مالیات کے حوالے سے 2015ء سے’’فورتھ شیڈول‘‘ جیسے اقدامات پہلے ہی اُٹھا چکا ہے۔ پاکستان میں بہت بڑی بیرونی سرمایہ کاری نہیں ہوئی جس کے واپس چلے جانے کا خطرہ ہو۔ اعلیٰ پیشہ وارانہ مہارت سے عالمی مالیاتی روحجانات کو سمجھ کر اقدام اٹھانے کی اشد ضرور ت ہے ۔ حکومت ذمہ دارانہ طرز عمل اختیار کر کے اقدامات اٹھائے ۔

ان خیالات کا اظہار پالیسی ادارہ برائے پائیدار ترقی (ایس ڈی پی آئی) کے زیر اہتمام’’ فنانشل ایکشن ٹاسک فورس و مستقبل کا لائحہ عمل ‘‘کے موضوع پر سیمینار میں پالیسی ادارہ برائے پائیدار ترقی کے سر براہ ڈاکٹر عابد قیوم سلہری ، سینیٹر شبلی فراز، سابق سیکرٹری خزانہ ڈاکٹر وقار مسعود اور عالمی بنک کے مشیر ہارون شریف نے پیرس میں ہونے والے اجلاس کے حوالے سے کہا۔

سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے پاکستان تحریک انصاف کے سینیٹر شبلی فراز نے کہا فنانشل ایکشن ٹاسک فورس کے کسی بھی اقدام کو پیشِ نظر رکھتے ہوئے ہمیں جامع حکمت عملی کے ذریعے ٹھوس اقدام فوری اٹھانے چاہئیں تاکہ ہم ممکنہ خدشات سے محفوظ رہ سکیں۔ ہمیں اپنی کارکردگی کا از سرِ نو جائزہ لینا چاہئے تاکہ اس کو بہتر بنا یا جا سکے۔ انہوں نے مزیدکہا کہ آئندہ کٹھن حالات نظر آرہے ہیں جس کے لئے ہمیں عالمی معاہدات پر پورا اترنے کے لئے سنجیدگی سے اس عمل کو سمجھنا ہو گا۔ ضروری ہے کہ اپنے استبداد کار میں اضافہ کیا جائے۔

سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے سابق سیکرٹری خزانہ ڈاکٹر وقار مسعود نے کہا کہ فنانشل ایکشن ٹاسک فورس (FATF) اقوام متحدہ کے سیکورٹی کونسل جیسا ادارہ نہیں ہے بلکہ انتہائی تکنیکی فورم ہے۔ جو 34 رکن ممالک میں مالی بے ضابطے پر نظر رکھتے ہوئے بہرتی کے رہنما اصول فراہم کرتا ہے۔ اس فورم کی ضرورت 1986ء میں محسوس کی گئی جب ایک سے دوسرے ممالک میں رقوم کی غیر قانونی منتقلی جیسے عمل سامنے آئے۔ امریکہ نے ان مشکلات سے نبرد آزما ہونے کے لئے سب سے پہلے قانون سازی کی جس سے بنیادی تبدیلیاں کی گئیں ۔ اس عالمی ادارے کے 40کے قریب درجات ہیں جس پر سفارشات مرتب کی جاتی ہیں ۔ اس سے قبل پاکستان 2012ء میں بھی گرے لسٹ میں شامل رہا ہے جس داران کافی اقدامات اٹھا کر صورتِ حال بہتر کی گئی جس میں ٹیکس نادہندگان کے حوالے سے اہم اقدامات بھی شامل ہیں ڈاکٹر وقار نے مزید کہا کہ پاکستان نے2015-17 ء کے دوران آٹھ ہزار کو انفرادی حیثیت میں اور 58 تنظیموں کو ’’فورتھ شیڈول‘‘ درجہ چہارم کی فہرست میں شامل کرکے پابندی عائد کر چکے ہیں۔ فنانشل ایکشن ٹاسک فورس کا اعلامیہ سے ظاہر ہوتا ہے کہ پاکستان زبان زدِ عام نہیں ہے۔

ایس ڈی پی آئی کے ڈاکٹر عابد قیوم سلہری نے کہا کہ ہمیں اپنی سر گرمیوں کا از سر نو جائزہ لیتے ہوئے اس پر کڑی نظر رکھنی چاہئے۔ انہوں نے کہا فنانشل ایکشن ٹاسک فورس صرف وہ اقدامات اٹھائے جو کہ امریکہ کی طرف سے چند ممالک کی طرف سے تجویز کئے جاتے ہیں ہمیں ان بیرونی صداؤں کی سماعت سے اپنا قبلہ دست کرنا چاہئے تاکہ کسی کو موقع میسر نہ آسکے۔

سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے عالمی بنک کے مشیر ہارون شریف نے کہا کہ پاکستان کے سامنے یہ سوال حل طلب ہے کہ اگر نام گرے لسٹ میں شامل کر لیا گیا تو عالمی مالیاتی اداروں کا پاکستان کے ساتھ رویہ کیا ہو گا؟ جس پر مل کر سوچنا چاہئے۔

ہارون شریف نے مزید کہا کہ یہ ایک اعلیٰ تکنیکی فورم ہے جس سے معاملات طے کرنے کے لئے بہت زیادہ پیشہ وارانہ تربیت کی ضرورت ہے قانون سازی اس میں اہم شک ہے انہوں نے مزید کہا کہ پاکستان میں ریگولیٹری باڈیز کی کارکردگی بہتر بنانے کی اشد ضرورت ہے۔ پاکستان میں ماہرین کی کمی ہے جو کہ ایسے فورمز پر پاکستان کی نمائندگی کر سکیں۔ انہوں نے مزید زور دیا کہ پاکستان کو دفاعی حیثیت میں جانے کی بجائے انتہائی فعال ہونے کی ضرورت ہے۔ انہوں ے یہ بھی بتایا کہ پاکستان میں کوئی ایسی بڑی بیرونی سرمایہ کاری نہیں ہے جس کے واپس جانے کا پاکستان کو خدشہ ہو.