مقبوضہ کشمیر پی ڈی پی ،بی جے پی کی راہیں بالآخر الگ الگ

 
0
350

1130دنوں پرمحیط  حکومتی اتحاد ٹوٹ گیا

ریاست جموں وکشمیر میں سیاسی بحران ،صدر راج 8ویں مرتبہ یقینی، کٹر ہندو فرقہ پرست اور سابق میجر جنرل (ر) گگن دیپ بخشی کو نیا گورنر بنائے جانے کا امکان

سری نگر، جون 09 (ٹی این ایس):ستمبر2014کی تباہ کن سیلابی صورتحال کے بعدہوئے اسمبلی انتخابات کے نتائج ظاہرہونے کے بعدکسی جماعت کوواضح اکثریت نہیں ملی ،لیکن پی ڈی پی کووادی کشمیراوربی جے پی کوجموں میں سب سے زیادہ اسمبلی حلقوں میں کامیابی حاصل ہوئی۔کے این این کے مطابق انتخابی نتائج سامنے آنے کے بعدجوڑتوڑاورگٹھ جوڑکی سرگرمیاں تیزہوگئیں ،بھاجپاکے قومی جنرل سیکرٹری رام مادھوسری نگرمیں خیمہ زن ہوگئے ۔انہوں نے پی ڈی پی کیساتھ مشاورت کاسلسلہ شروع کرکے مخلوط سرکاربنانے کی راہیں تلاش کرنی شروع کردیں ۔مظفرحسین بیگ کیساتھ رام مادھونے کئی میٹنگس کیں لیکن اس میں بالآخرکوئی پیش رفت نہ ہوسکی ۔پی ڈی پی نے مظفربیگ کواس مشن سے فارغ یاالگ کرکے یہ ذمہ داری ڈاکٹرحسیب درابوکوسونپ دی ۔ایک جانب پی ڈی پی اوربی جے پی کے مابین مخلوط سرکاربنانے کے معاملے پرگفت وشنیدجاری تھی تودوسری جانب غیرسیاسی افرادکاایک گروپ پی ڈی پی ،نیشنل کانفرنس اورکانگریس پرمشتمل ملی جلی سرکارتشکیل دینے کیلئے کوشاں تھا۔کہاجاتاہے کہ پی ڈی پی کے بانی مفتی محمدسعیدبھاجپاکیساتھ اتحادکے حق میں نہیں تھے ،اوروہ کئی روزتک اس ساری سیاسی سودے بازی سے دورسیاحتی مقام گلمرگ کے ایک ہوٹل میں رہے ۔تاہم ڈاکٹرحسیب درابواپنے مشن میں کامیاب ہوگئے ،اورپی ڈی پی نے بی جے پی کیساتھ ملکرمخلوط سرکاربنانے کاغیرمقبول فیصلہ لیا۔مخلوط سرکارچلانے کیلئے نظریاتی اعتبارسے نارتھ اورساوتھ پول کہلانے والی جماعتوں پی ڈی پی اوربی جے پی نے مخلوط سرکارتشکیل دینے کیلئے ایجنڈاآف الائنس مرتب کیااورا سمیں کئی ماہ لگے ۔بالآخریکم مارچ 2015کومفتی محمدسعیدنے لگ بھگ 10سال بعددوسری مرتبہ وزیراعلیٰ کی حیثیت سے حلف لیااورحلف برداری کی اس تقریب میں وزیراعظم نریندرمودی بھی شامل ہوئے ۔2002سے2005تک وزیراعلیٰ رہے مفتی محمدسعیدکادوسرادورمحض337دنوں پرمحیط تھاکیونکہ 7جنوری2016کومفتی محمدسعیددہلی کے ایک اسپتال میںانتقال کرگئے ۔مفتی محمدسعیدکاانتقال ہوجانے کے بعدریاست میں لگ بھگ تین ماہ تک گوررراج رہاکیونکہ والدکے اچانک انتقال سے نڈہال پی ڈی پی صدرمحبوبہ مفتی مخلوط سرکارکی کمان سنبھالنے کیلئے راضی نہیں ہوئیں ۔تاہم پارٹی لیڈرشپ نے محبوبہ مفتی کوراضی کرلیا،اوروہ وزیراعلیٰ کامنصب لینے کیلئے تیارہوگئیں ۔4اپریل2016کومحبوبہ مفتی نے وزیراعلیٰ کے بطورریاستی گورنرسے عہدے اوررازداری کاحلف لیا،اورریاست کی اولین خاتون وزیراعلیٰ کی حیثیت سے محبوبہ مفتی نے مخلو سرکارکی کمان سنبھال لی ۔مخلوط سرکارکیلئے مرتب کردہ ایجنڈاآف الائنس میں شامل نکات بشمول بحالی مذاکرات ،پاﺅرپروجیکٹوں کی واپسی اوراعتمادسازی اقدامات کے سلسلے میں محبوبہ مفتی کی کوششیں بارآورثابت نہیں ہوسکیں جبکہ موصوفہ کے اپریل2016میں اقتدارسنبھالنے کے محض تین ماہ بعدحزب کمانڈربرہان وانی کی ہلاکت کے بعدپورے کشمیرمیں ہلاکت خیزصورتحال پیداہوئی ،اورمتواتر5ماہ تک جاری رہنے والی ایجی ٹیشن کے دوران 90سے زیادہ عام شہری اورپولیس اہلکارازجان اور11ہزارسے زیادہ عام شہری اورپولیس وفورسزاہلکارزخمی ہوگئے ۔محبوبہ مفتی کے دورمیں کئی ایسے مواقعے آئے جب پی ڈی پی اوربی جے پی کے ایکدوسرے سے ناطہ توڑنے کی قیاس آرائیاں ہونے لگیں لیکن ہرایسے موقعے پردونوں جماعتوں کے لیڈروں نے باہمی گفت وشنیدکے بعدصورتحال سنبھالا۔تاہم مذاکرات کی بحالی ،مظاہرین کیخلاف طاقت کے استعمال ،پاﺅرپروجیکٹوں کی واپسی ،دفعہ370اور35-Aجیسے حساس معاملات پراختلاف رائے بنارہا۔عید کے بعد وزیر داخلہ راجناتھ سنگھ نے رمضان میں یکطرفہ اور نام نہاد جنگ بندی کا اعلان کیا  تاہم یہ  حربہ ناکام رہا کہ کشمیریوں نے اسے خاطر میں نہیں لایا ۔ گذشتہ روز  بھارتی حکومت نے وزیر اعظم مودی کے زیر صدارت اجلاس کے بعد جنگ بندی کو توسیع نہ دینے کا فیڈلہ کیا اور دو روز بعد ہی  پی ڈی پی کیساتھ سیاسی ناطہ بھی توڑنے کا اعلان کیا۔

حکومتی اتحاد ٹوٹنے کے بعد مقبوضہ ریاست میں گورنر راج   یعنی براہ راست دہلی کے راج کا  نفاذ یقینی بن گیا ہے اور ذرائع کا کہنا ہے کہ بھارتی حکومت نے اس کے لئے کشمیر و پاکستان کے دشمن اور کٹر ہندو انتہاء پسند میجر جنرل (ر) گگن دیپ بخشی کا  انتخاب کر لیا ہے اور کشمیری مبصرین کا کہنا ہے کہ اگر اس شخص کو گورنر بنایا گیا تو یہ مودی حکومت کی طرف سے کشمیریوں کے خلاف اعلان جنگ سے کم نہ ہوگا۔