آرمی چیف نے امن کے دشمن دہشتگردوں کی شکست کی بات کی:خرم نواز گنڈاپور

 
0
331

کوئی مولانا یہ اشارہ اپنی طرف سمجھتا ہے تو یہ ’’چور کی داڑھی میں تنکا ‘‘کے سوا اور کچھ نہیں
محب وطن فوج کے خلاف منفی پراپیگنڈا کرنے والوں کو عوام نے مسترد کر دیا،سیکرٹری جنرل عوامی تحریک
چھانگا مانگا اور مینڈیٹ چرانے کے کلچر کے بانی کہتے ہیں مینڈیٹ کا احترام نہ کرنے کی روایت نہ ڈالی جائے
اسلام آباد اگست 1(ٹی این ایس) پاکستان عوامی تحریک کے سیکرٹری جنرل خرم نواز گنڈاپور نے کہا ہے کہ پاکستان کے دشمنوں نے خودکش دھماکوں کے ذریعے انتخابی عمل روکنے، عوام کو خوفزدہ کرنے اور پاکستان کو بند گلی میں دھکیلنے کا جو خواب دیکھا تھا وہ پاکستان کے محب وطن اور جرأت مند عوام نے ناکام بنا دیا، اگر کوئی مولانا آرمی چیف کے بیان میں استعمال ہونے والے لفظ ’’دشمن‘‘ کی شکست کا اشارہ اپنی طرف محسوس کررہے ہیں تو یہ چور کی داڑھی میں تنکے والا معاملہ تو ہو سکتا ہے اس کے علاوہ کچھ نہیں۔ افواج پاکستان کے سربراہ اپنے ہی ملک کے کسی شہری کے بارے میں ایسی رائے قائم نہیں کر سکتے اور اگر کسی شہری کے دل میں ایسا کوئی چور ہے تو وہ اس چور کو نکالے اور قانون کے حوالے کر دے،

انہوں نے کہا کہ پاکستان کے عوام نے اغیار کی خواہش کی تکمیل کیلئے فوج کے خلاف مہم چلانے والے ناپسندیدہ سیاسی عناصر کو مسترد کر کے لوٹ مار کے بیانیہ کو دفن کر دیا، اب جو بھی فوج اور عدلیہ کے ادارے کو ٹارگٹ کرے گا عوام اسے ٹارگٹ کریں گے، انہوں نے کہا کہ کسی خاص ایشو پر اداروں سے گلہ کرنا اور بات ہے مگر اداروں کو ڈس کریڈٹ کرنے کی کوشش کرنا ملک دشمنی ہے یہ دشمنی کوئی دشمن کرے یا اس کا آلہ کار عوام قبول نہیں کرینگے، خرم نواز گنڈاپور نے میاں شہباز شریف کے بیان کہ مینڈیٹ کا احترام نہ کر کے غلط روایت نہ ڈالی جائے پر کہا کہ چھانگا مانگا اور مینڈیٹ چرانے کے کلچر کے بانی یہ کہتے اچھے نہیں لگے۔انہوں نے مزید کہا کہ سابق شریف حکومت پاکستان کو عالمی ساہوکاروں کے پاس رہن رکھ کر رخصت ہوئی، بھاری قرضے کیوں لیے اور کہاں خرچ ہوئے؟ یہ جاننے کیلئے ایک ٹروتھ کمیشن بننا چاہیے اور نئی حکومت تمام حقائق قوم کے سامنے رکھے۔ انہوں نے کہا کہ 9 ہزار ارب کے قرضے، سالانہ 13سو ارب سود کی ادائیگی، سرکاری کارپوریشنز کا سالانہ 500 ارب خسارے، 550ارب روپے کے گردشی قرضے، روپے کی بے قدری کے پس پردہ کیا عوامل ہیں اس ضمن میں سابق مفرور وزیر خزانہ کو کٹہرے میں کھڑنا کرنا چاہیے اور ان سے باز پرس ہونی چاہیے۔