پیپلزپارٹی نے کراچی سے کشمیرتک عوامی رابطہ مہم کا اعلان کردیا

 
0
3529

کراچی اکتوبر 10 (ٹی این ایس): پیپلزپارٹی نے کراچی سے کشمیرتک عوامی رابطہ مہم کا اعلان کردیا۔ پیپلزپارٹی کے مرکزی رہنماؤں نیئربخاری اور قمر زمان کائرہ نے کہا کہ مولانا فضل الرحمان کے آزادی مارچ میں شریک ہوں گے، ابھی تک مولانا فضل الرحمان کا شیڈول نہیں آیا، پیپلزپارٹی دھرنے میں شامل نہیں ہوگی۔انہوں نے پیپلزپارٹی کے کور کمیٹی اجلاس کے بعد پریس کانفرنس کرتے ہوئے بتایا کہ عوام لاقانونیت اور مہنگائی سے عوام تک چکے ہیں۔
عوام موجودہ حکمرانوں سے نجات چاہتے ہیں۔انہوں نے کہا کہ کور کمیٹی اجلاس میں بلاول بھٹو کی ملک گیررابطہ مہم پر بات ہوئی، بلاول بھٹو 18اکتوبر سانحہ کارساز سے باقاعدہ عوامی رابطہ مہم کا آغاز کردیں گے۔ رابطہ کراچی سے کشمیر تک ہوگی۔ 23 اکتوبر کو تھرپارکراور 26 اکتوبر کو کشمور میں جلسہ ہوگا۔ 30 نومبر کو مظفرآباد میں یوم تاسیس جلسے پر رابطہ مہم کا اختتام ہوگا۔
انہوں نے کہا کہ پارلیمنٹ کو غیرمئوثر بنا دیا گیا ہے۔ موجودہ حکومت آرڈیننس کے ذریعے چلائی جارہی ہے، مہنگائی کی شرح دیکھ لیں ، وزیراعظم کی پارلیمنٹ میں حاضری دیکھ لیں ۔ پارلیمنٹ کی روایت کو ہی توڑ دیا ہے۔انہوں نے کہا کہ ملک کے جو اس وقت حالات ہیں ان میں یہ لانگ مارچ کامیاب ہوگا۔قمر زمان کائرہ نے کہا کہ ہم مارچ میں جا رہے ہیں اورمارچ کے ذریعے حکومت پر دباؤ بڑھائیں گے۔
مزید برآں ذرائع کا کہنا ہے کہ چیئرمین پیپلزپارٹی بلاول بھٹو کی صدارت میں منعقد پیپلزپارٹی کورکمیٹی اجلاس کی اندرونی کہانی سامنے آگئی ہے۔ اجلاس میں پیپلزپارٹی نے مولانا فضل الرحمان کے آزادی مارچ پر کم بحث کی جبکہ پنجاب میں ن لیگ کو سیاسی شکست دینے کی حکمت عملی بنانے پر خوب بحث کی گئی۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ اجلاس میں سابق وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی نے تجویز پیش کی کہ آئندہ حکومت بنانی ہے تو پنجاب میں محترک ہونا ہوگا۔
سینئر رہنماؤں نے تجاویز دیں کہ سندھ کارڈ استعمال کرکے وفاق میں حکومت نہیں بنائی جاسکتی۔ ن لیگ کو پنجاب میں ٹف ٹائم دینا ہوگا۔ جس کے لیے بولڈ اسٹیپ لینا ہوں گے۔ مولابخش چانڈیو نے کہا کہ مولانا فضل الرحمان کا مقصد کلیئرنہیں ہے۔ فضل الرحمان نے بغیرمشاورت تاریخ کا اعلان کردیا مارچ شیڈول بھی نہیں دیا۔ مولانا کو یا تو مکمل گرین سگنل ہے یا پھر وہ ساراکریڈٹ خود لینا چاہتے ہیں۔ شیری رحمان نے کہا کہ فضل الرحمان گزشتہ دورحکومت میں ن لیگ کے ساتھی تھے۔ اور پی پی قیادت کے خلاف کام کرتے رہے۔ مذہبی بنیاد پرستوں کے ساتھ کھڑے ہونے سے پیپلزپارٹی کی سیاست کو نقصان ہوگا۔