مولانا کا سپریم کورٹ کے آرمی چیف سے متعلق فیصلے پر ردِعمل

 
0
254

اسلام آباد نومبر 26 (ٹی این ایس): سپریم کورٹ نے آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع کا نوٹیفیکیشن معطل کر دیا جس پر اب جمعیت علمائے اسلام ف کے سربراہ مولانا فضل الرحمن کا بھی ردِ عمل سامنے آیا ہے۔تفصیلات کے مطابق ہے جمعیت علمائے اسلام ف کے سربراہ مولانا فضل الرحمن اے پی سی میں شرکت کے لیے پہنچ گئے ہیں۔اس موقع پر صحافی نے سوال کیا کہ سپریم کورٹ کے ابتدائی حکم نامے کو آپ کہ جدوجہد کے ساتھ بھی منسلک کیا جا سکتا ہے؟۔
جس کا جواب دیتے ہوئے مولانا فضل الرحمن نے کہا نہیں، آج کا فیصلہ خالصتاََ عدالتی فیصلہ ہے۔آج کے فیصلے کو ہماری جدوجہد کے ساتھ منسلک نہیں کیا جا سکتا۔خیال رہے آج سپریم کورٹ میں آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع کے خلاف درخواست کی سماعت ہوئی،درخواست گزار نے آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع کے خلاف درخواست واپس لینے کی استدعا کی۔ عدالت نے کیس واپس لینے کی استدعا مسترد کرتے ہوئے کہا کہ کیس واپس لینے کے لیے ہاتھ سے لکھی درخواست کے ساتھ کوئی بیان حلفی نہیں۔
معلوم نہیں مقدمہ آزادانہ طور پر واپس لیا جا رہا ہے یا نہیں۔اٹارنی جنرل نے بتایا کہ 29نومبر کو آرمی چیف ریٹائرڈ ہو رہے ہیں۔ان کی مدت ملازمت میں توسیع کا نوٹیفیکیشن صدرِ مملکت کی منظور کے بعد جاری ہو چکا ہے۔ چیف جسٹس نے کہا صدر کی منظوری اور نوٹیفیکیشن دکھائیں۔اٹارنی جنرل نے دستاویزات اور وزیراعظم کی صدر کو سفارش عدالت میں پیش کی۔
چیف جسٹس نے کہا وزیراعظم کو آرمی چیف تعینات کرنے کا اختیار نہیں۔آرمی چیف تعینات کرنے کا اختیار صدر کا ہے۔یہ کیا ہوا پہلے وزیراعظم نے توسیع کا لیٹر جاری کر دیا۔پھر وزیراعظم کو بتایا گیا کہ توسیع آپ نہیں کر سکتے۔ ۔آرمی چیف کی توسیع کا نوٹیفیکیشن 19 اگست کا ہے۔19 اگست کو نوٹیفیکیشن ہوا ، وزیراعظم نے کیا 21 اگست کو منظور دی۔اٹارنی جنرل نے بتایا کہ کابینہ کی منظوری چاہئیے تھی۔
چیف جسٹس نے کہا کابینہ کی منظوری سے پہلے ہی توسیع کی منظوری دی اور کیا کابینہ کی منظوری کے بعد صدر نے دوبارہ منظوری دی؟۔جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ آئین میں آرمی چیف کی دوبارہ تقرری کا اختیار کہاں ہے؟ اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ آرمی چیف کی توسیع کا اختیار وفاقی کابینہ کا ہے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ سیکیورٹی کو تو صرف آرمی چیف نے نہیں بلکہ ساری فوج نے دیکھنا ہوتا ہے۔
اٹارنی جنرل نے نکتہ اٹھایا کہ تقرری کرنے والی اتھارٹی توسیع کا اختیار رکھتی ہے۔ریٹائرمنٹ کی معطلی تو کچھ دیر کے لیے ہو گی۔چیف جسٹس نے ریمارکس دئیے کہ دستاویزات کے مطابق کابینہ کی اکثریت نے توسیع پر کوئی رائے نہیں دی۔ 25 رکن میں سے صرف 11 نے توسیع کے حق میں رائے دی۔ 14 ارکان نے عدم دستیابی کے باعث کوئی رائے نہیں دی۔کیا حکومت نے ارکان کی خاموشی کو ہاں سمجھ لیا؟۔
جمہوریت میں فیصلے اکثریت کی بنیاد پر ہوتے ہیں۔اٹارنی جنرل نے کہا جنہوں نے رائے نہیں دی انہوں نے ووٹنگ میں حصہ نہیں لیا۔چیف جسٹس نے کہا کابینہ ارکان کو سوچنے کا موقع بھی نہیں دینا چاہتے،کابینہ کے 14 ارکان نے ابھی تک آرمی چیف کی توسیع پر ہاں نہیں کی۔ سپریم کورٹ نے آرمی چیف کی توسیع کا نوٹیفیکیشن معطل کرتے ہوئے سماعت کل تک ملتوی کر دی۔