اسلام آباد دسمبر 03 (ٹی این ایس): سپریم کورٹ میں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کیخلاف صدارتی ریفرنس کے بارے میں سپریم جوڈیشل کونسل کی کارروائی روکنے سے متعلق دائر درخواستوں پر سماعت کے دور ان جسٹس عمر عطاء بندیال نے ریمارکس دیئے کہ اس معاملے پرسپریم جوڈیشل کونسل کے پاس اتنا مواد تھا کہ اس نے جسٹس قاضی فائز عیسی ٰکو اظہار وجوہ کا نوٹس جاری کیا ، تاہم ناگزیر حالات میں جاسوسی کے حوالے سے قانون سازی کی ضرورت ہے۔
منگل کو جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں دس رکنی بینچ نے درخواستوں پر سماعت کی ۔جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے وکیل منیر اے ملک نے اپنے دلائل جاری رکھتے ہوئے کہا کہ کسی جج کے خلاف شکایت کی صورت میں صدر مملکت کو اپنا ذہن استعمال کرتے ہوئے معاملہ سپریم جوڈیشل کونسل کو بھجوانے یا نہ بھجوانے کا فیصلہ کرنا ہوتا ہے، اسی طرح معاملہ ریفر ہونے کی صورت میں کونسل کو بھی کارروائی کا آغاز کرنے یا نہ کرنے کا فیصلہ کرنا ہوتا ہے جس پر جسٹس منصور علی شاہ نے سوال اٹھایا کہ جب صدر اپنی رائے قائم کر دے اور معاملہ کونسل کو بھیج دے تو کیا کونسل کو ہر صورت انکوائری کرنی ہوتی ہی وکیل نے جواب دیا کہ جی بالکل ایسی صورت میں کونسل نے اپنا ذہن استعمال کیے بغیر انکوائری کا آغاز کرنا ہوتا ہے ، جسٹس عمر عطاء بندیال نے ریمارکس دیئے کہ اس معاملے پرسپریم جوڈیشل کونسل کے پاس اتنا مواد تھا کہ اس نے جسٹس قاضی فائز عیسی ٰکو اظہار وجوہ کا نوٹس جاری کیا تاہم ناگزیر حالات میں جاسوسی کے حوالے سے قانون سازی کی ضرورت ہے ، جس پر منیر اے ملک کا کہنا تھا کہ عدالت جاسوسی کی بنیاد پر جمع شدہ مواد کا جائزہ لینے کے ساتھ ساتھ تحقیقات کا حکم بھی جاری کرے،عدالت نے درخواستوں پر مزید سماعت بدھ کو دن ایک بجے تک ملتوی کردی۔