ایف آئی اے سائبر کرائم ونگ راولپنڈی نے لینڈ مافیا اور جرائم پیشہ افراد کیساتھ گٹھ جوڑ کر کے سینئر صحافی اور معروف وی لاگر قاضی طارق عزیز کو غیر قانونی طور پر یرغمال بنائے رکھا، سنگین نتائج کی دھمکیاں دیں اور موبائل فون سمیت اہم کاغذات و پرس چھین لیا

 
0
580

اسلام آباد 02 مئی 2021 (ٹی این ایس): ۔تفصیلات کے مطابق لاہور سے تعلق رکھنے والے سینئر صحافی قاضی طارق عزیز کو ایف آئی اے سائبر کرائم ونگ راولپنڈی کے سب انسپکٹر شہریار طلعت کی جانب سے وٹس ایپ کے ذریعے سمن بھیجا گیا تھا جس میںانہیں راولپنڈی طلب کیا گیا تھا ۔جب صحافی نے مذکورہ نمبر پر فون کر کے سمن کی بابت جاننا چاہا تو انہیں جواب دیا گیا کہ وہ ہر صورت حاضر ہوں ورنہ ان کیخلا ف سنگین کارروائی کی جائے گی ۔قاضی طارق عزیز جب 28 اپریل کو وہاں پہنچے اور ایڈیشنل ڈائریکٹر عبدالرﺅف سے ملے ۔انہوں نے سب انسپکٹر شہریار کو اپنے کمرے میں بلوا کر صحافی کا تعارف کروایا اور ہدایت کی کہ اگر ان کیخلاف کوئی درخواست ہے تو اس کی کاپی انہیں دیں تاکہ یہ جواب دے سکیں ۔شہریار نامی سب انسپکٹر صحافی کو اپنے کیبن لے گیا اور دو مزید اہلکاروں کو بلوا کر موبائل فون بارے پوچھا ۔صحافی نے کہا کہ وہ ساتھ آئے صحافی قاسم جٹ کے پاس ہے،وہ انہیں درخواست کی کاپی دیں تاکہ ان کو پتا چلے کہ ان پرالزام کیا ہے، مدعی کون ہے ، معاملے کی نوعیت کیا ہے ؟ ۔ ا±س نے صحافی کے علم میں لائے بغیر قاسم جٹ کو اپنے کمرے میں بلوا لیا اور زبردستی قاضی طارق کا موبائل چھین لیا یہ کہہ کر کہ موبائل مال مقدمہ کے طور پر سیز کر دیا گیا ہے۔جب صحافی نے سب انسپکٹر کو بتایا کہ یہ عمل خلاف قانون ہے،وہ بغیر کسی عدالتی اجازت نامہ کے موبائل نہیں چھین سکتے اور نہ ہی ضبط کر سکتے ہیں ،جب کہ ان کی جانب سے ابھی نہ تو جواب جمع کروایا گیا ہے اور نہ ہی میںوہ یہ جانتے ہیں کہ الزام کیا ہے۔انہوں نے اس بحث کے بعدموبائل کی واپسی کے لیے شناختی کارڈ مانگا۔ جب انہوں نے شناختی کارڈ کیلئے جیب سے پرس نکالا تووہ بھی چھین لیاگیا۔ اس غیر قانونی فعل پر صحافی نے احتجاج کیا تو شہریار نامی سب انسپکٹر نے ایک اور اہلکار سے مل کر بدتمیزی شروع کر دی۔ اس غیر قانونی اور غیر مہذب رویے پر قاضی طارق عزیز دوبارہ ایڈیشنل ڈائریکٹر عبدالرﺅف کے پاس گئے۔ انہوں نے مذکورہ سب انسپکٹر کو بلوا کر کہا کہ انہیں ان کا موبائل ، پرس واپس کر دیں۔جس پر سب انسپکٹر صحافی کو ڈپٹی ڈائریکٹر انویسٹی گیشن کے کمرے میں لے گئے اور انہیں زدوکوب کیا اوران کے ساتھ گالم گلوچ کرتے رہے ۔صحافی کی طرف سے غیر اخلاقی اور خلاف قانون اقدام پر عدالت جانے کا کہا گیا تو مذکورہ صحافی قاضی طارق عزیز کے بقول سب انسپکٹر اور ڈپٹی ڈائریکٹر نے عدلیہ کو بھی گالیاں نکالیں ۔قاضی طارق بمشکل وہاں سے ایڈیشنل ڈائریکٹر عبدالرﺅف کے پاس دوبارہ گئے اور انہیں بتایا تو انہوں نے ایس ایچ او کو بلا کر یہ مسئلہ حل کرنے کی ہدایت کی ۔مگر شہریار نامی سب انسپکٹر نے ڈپٹی ڈائریکٹر سے مل کر قاضی طارق کو دوبارہ ایک کیبن میں لے جا کر زبردستی بند کر دیا اور آدھا گھنٹہ وہاں محبوس رکھا ۔قاضی طارق کے ساتھ گئے دیگر صحافیوں کے احتجاج پر انہوں نے انہیں ایک اے ٹی ایم اور شناختی کارڈ دے کر وہاں سے نکال دیا ۔ایف آئی اے ملازمین کی اس غنڈہ گردی کے خلاف صحافی قاضی طارق عزیز نے ڈائریکٹر آپریشنز سائبر کرائم ونگ ایف آئی اے اور دیگر متعلقہ فورمز پر کارروائی کیلئے درخواست دے دی ہے ۔
صحافی قاضی طارق عزیز نے کہا ہے کہ وہ آزادی صحافت کیلئے آواز اٹھاتے رہیں گے ،اس سلسلے میں انہیں چاہے دھمکیاں دی جائیں یا جھوٹی مقدمہ بازی سے نشانہ بنایا جائے ،وہ حقائق بیانی کی ذمہ داری سے کسی صورت پیچھے نہیں ہٹیں گے ۔انہوں نے کہا کہ اس وقوعہ اوروہاں ان کے ساتھ ہونے والی غیر قانونی ہراسگی، ڈپٹی ڈائریکٹر کے کمرے میں تشدد، سی سی ٹی وی میں محفوظ ہو گا۔ فوٹیج نکلوا کر ان کے موقف کی تصدیق کی جا سکتی ہے یا ان کے ساتھ گئے ان کے آفس کولیگز سے بھی تصدیق کی جا سکتی ہے۔ان کے موبائل میں موجود ڈیٹا انتہائی قیمتی ہے جو غیر قانونی طور پر استعمال ہوسکتا ہے ۔