سپریم جوڈیشل کمیشن کی کثرت رائے سے لاہور ہائی کورٹ کی جسٹس عائشہ ملک کو سپریم کورٹ میں بطور جسٹس مقرر کرنے کی منظوری

 
0
233

اسلام آباد 06 جنوری 2022 (ٹی این ایس): سپریم جوڈیشل کمیشن نے کثرت رائے سے لاہور ہائی کورٹ کی جسٹس عائشہ ملک کو سپریم کورٹ میں بطور جسٹس مقرر کرنے کی منظوری دے دی اور وہ ملکی تاریخ میں عدالت عظمیٰ کی پہلی خاتون جسٹس ہوں گی۔ ذرائع نے بتایا کہ جوڈیشل کمیشن نے جسٹس عائشہ ملک کے نام کی سفارش کر دی اور معاملہ حتمی منظوری کے لیے پارلیمانی کمیٹی برائے ججز تقرری کو بھیج دیا گیا۔جوڈیشل کمیشن کے اجلاس کے حوالے سے وفاقی وزیر قانون فروغ نسیم نے صحافیوں سے گفتگو کرتےہوئے کہا کہ جوڈیشل کمیشن نے تاریخی فیصلہ کیا یے اور پاکستان کی تاریخ میں پہلی مرتبہ ایک خاتون کی سپریم کورٹ کے جج کے طور پر تقرری ہوئی۔انہوں نے کہا کہ 5 اراکین نے حق میں ووٹ دیا اور 4 اراکین نے مخالفت کی۔ان سے پوچھا کہ کیا جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے بھی جسٹس عائشہ ملک کی تقرری کی مخالفت کی تو انہوں نے کہا کہ میں مخالفت کرنے والوں کا نہیں بتا سکتا لیکن حمایت کرنے والوں کے نام بتا سکتا ہوں۔ان کا کہنا تھا کہ چیف جسٹس گلزار احمد، جسٹس عمر عطا بندیال، جسٹس (ر) سرمد جلال عثمانی، وزیر قانون اور اٹارنی جنرل نے حمایت کی۔فروغ نسیم نے پاکستان بار کونسل کے سنیارٹی سے متعلق اصول پر کہا کہ سپریم کورٹ کے فیصلے اس حوالے سے موجود ہیں اور سپریم کورٹ واضح کرچکی ہے کہ ہائی کورٹ کے جج کی سپریم کورٹ میں تقرری پر سنیارٹی اصول کا اطلاق نہیں ہوگا۔ان کا کہنا تھا کہ اگر کسی کو اعتراض ہے تو سپریم کورٹ کے فیصلوں پر نظر ثانی کرائے۔ایک سوال پر وفاقی وزیر قانون نے کہا کہ جوڈیشل کمیشن میں مخالفت کرنے والے کہتے ہیں کہ طریقہ کار وضع کرکے اجلاس بلانا چاہیے۔
قبل ازیں ستمبر 2021 میں منعقدہ جوڈیشل کمیشن کے اجلاس میں جسٹس عائشہ ملک کے نام کی منظوری نہیں دی گئی تھی۔جوڈیشل کمیشن کے اجلاس کے دوران کمیشن کے 4 اراکین نے جسٹس عائشہ ملک کی تقرری کی مخالفت کی جو لاہور ہائی کورٹ میں سنیارٹی فہرست میں چوتھے نمبر پر ہے۔جسٹس عائشہ ملک کی سپریم کورٹ میں تعیناتی کے لیے 4 اراکین نے حمایت کی تھی۔اس وقت سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے صدر عبداللطیف آفریدی نے ملک بھر کی بارز میں احتجاج کا اعلان کیا تھا اور وکلا برادری نے اس معاملے کو سنیئر ججوں کی عدالت عظمیٰ میں تقرری کے لیے زیادتی قرار دیا تھا۔ 9ستمبر کو ایک توسیعی میٹنگ کے دوران اتفاق رائے نہ ہونے کے سبب جے سی پی ملک کی عدالتی تاریخ میں پہلی خاتون جج کے طور پر جسٹس عائشہ ملک کی سپریم کورٹ کی ترقی کو مسترد کرنے پر مجبور ہوا تھا، جسٹس عائشہ ملک لاہور ہائی کورٹ کی چوتھی سب سے سینئر جج ہیں۔پاکستان بار کونسل(پی بی سی) کے وائس چیئرمین نے فوری ردعمل ظاہر کرتے ہوئے اس اقدام پر تحفظات اور تشویش کا اظہار کیا جسے انہوں نے سپریم کورٹ اور ہائی کورٹس میں ججوں کی ترقی کے لیے سنیارٹی کے اصول کی خلاف ورزی کی کوشش قرار دیا۔’دی ویمن ان لا پاکستان‘ نے کہا ہے کہ ’آئین یا قانون میں سینیئر ترین جج کو سپریم کورٹ میں تعینات کرنے کی کوئی شرط موجود نہیں ہے‘۔لاہور ہائی کورٹ کی جج جسٹس عائشہ ملک کے سپریم کورٹ میں تقرر کے حوالے سے جاری ہونے والے اس بیان میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ ’کم از کم 41 مرتبہ ایسا ہوا ہے کہ کسی جج کو سینیئر ترین نہ ہونے کے باوجود سپریم کورٹ میں تعینات کیا گیا ہو، اس وجہ سے سینیئر ترین جج کی تعیناتی کوئی روایت بھی نہیں ہے، ’سینیارٹی بار کے کچھ ممبران کا مطالبہ ہے تاہم اس کی کوئی قانونی بنیاد نہیں ہے‘۔بیان میں آئینِ پاکستان کے آرٹیکل 175 اے (3) کا حوالے دیا گیا ہے ’جس میں صرف چیف جسٹس آف پاکستان کی تقرری کے لیے سینیارٹی کی بات کی گئی ہے‘۔بیان میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ آرٹیکل (2)177 کے مطابق سپریم کورٹ کا جج بننے کے لیے پاکستان کا شہری اور 5 سال تک ہائی کورٹ کا جج یا 15 سال تک ہائی کورٹ کا ایڈووکیٹ ہونا ضروری ہے۔

بیان کے مطابق ’آرٹیکل 177 میں سپریم کورٹ میں تعیناتی کی شرائط میں ’سینیئر ترین‘ کے الفاظ نہ ہونے کا مطلب ہے کہ سپریم کورٹ میں تعیناتی کے لیے ہائی کورٹ کے جج کا سینیئر ترین ہونا ضروری نہیں ہے‘۔ویمن ان لا پاکستان نے اپنے بیان میں مزید کہا کہ ’سینیارٹی کو ایک عبوری اقدام کے طور پر اختیار کرنے سے مزید شفافیت اور بہتر نمائندگی کے لیے ضروری مجموعی اصلاحات کی بحث میں رکاوٹ آئے گی‘۔یہ بیان اس وقت سامنے آیا ہے جب وکلا برادری کے ایک حصے نے چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس گلزار احمد سے جسٹس عائشہ کی ترقی پر غور کرنے کے لیے 6 جنوری کو ہونے والے جوڈیشل کمیشن آف پاکستان کے اجلاس کو ملتوی کرنے کا مطالبہ کیا تھا۔ اجلاس ملتوی نہ ہونے پر پاکستان بار کونسل اور تمام بار ایسوسی ایشنز اعلیٰ عدلیہ سے لے کر ماتحت عدالتوں تک کی تمام کارروائیوں کا بائیکاٹ کیا گیاچیف جسٹس کی جانب سے سپریم کورٹ میں ترقی کے لیے دوبارہ جسٹس عائشہ ملک کا نام دیے جانے پر جوڈیشل کمیشن کا اجلاس 6 جنوری جو طلب کیا گیا تھا۔

اس سے قبل یہ معاملہ 9 ستمبر کو جے سی پی کے اجلاس میں زیر غور آیا تھا لیکن اتفاق رائے نہ ہونے پر کمیشن جسٹس عائشہ ملک کی تعیناتی مؤخر کرنے پر مجبور ہوگیا تھا۔جسٹس عائشہ ملک لاہور ہائی کورٹ میں سینیارٹی کے لحاظ سے چوتھے نمبر پر ہیں اور سپریم کورٹ میں ترقی سے وہ عدالت عظمیٰ کی پہلی خاتون جسٹس ہوں گی۔