موجودہ حالات میں قبل از وقت انتخابات بہتر آپشن ہے ،مجھے عدم اعتماد، استعفیٰ یا انتخابات کے تین آپشنز کی پیشکش کی گئی، استعفیٰ کا سوچ بھی نہیں سکتا، وزیراعظم عمران خان کا نجی ٹی وی چینل کو انٹرویو

 
0
112

اسلام آباد 01 اپریل 2022 (ٹی این ایس): وزیراعظم عمران خان نے موجودہ حالات میں قبل از وقت انتخابات کو بہتر آپشن قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ مجھے عدم اعتماد، استعفیٰ یا انتخابات کے تین آپشنز کی پیشکش کی گئی، استعفیٰ کا سوچ بھی نہیں سکتا، قوم سے کہوں گا کہ جب بھی انتخابات ہوں ملک کو صحیح خطوط پر استوار کرنے کیلئے مجھے بھاری اکثریت سے کامیاب کرائے، مجھے اپنے اقتدار کی نہیں اپنے عوام کی فکر ہے، کپتان کی حیثیت سے اتوار کا پلان تیار کر رکھا ہے، آخری گیند تک مقابلہ کروں گا، ہمیشہ چاہوں گا ہماری فوج مضبوط سے مضبوط تر ہو، کوئی ایسا کام نہیں کروں گا جس سے پاکستان کمزور ہو، سیاست میں چوروں اور ڈاکوئوں کے احتساب کے لئے ہی آیا تھا، احتساب کے عمل کو جان بوجھ کر الجھایا گیا اور تاخیری حربے استعمال کئے گئے، احتساب کے عمل میں خلل ڈال کر ملک سے بڑی غداری کی گئی۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے جمعہ کی شب نجی ٹی وی چینل ”اے آر وائی” کو دیئے گئے انٹرویو میں کیا۔

وزیراعظم نے کہا کہ نواز شریف سے زیادہ کسی نے ملک کو نقصان نہیں پہنچایا، رشوت، پیسے کی سیاست، لفافہ جرنلزم، چھانگا مانگا کی سیاست، سیاستدانوں کی قیمتیں لگانا، ججوں کو پلاٹس دینا، ججوں کو خریدنا، ڈرانا دھمکانا سب اسی نے شروع کیا، دوسری طرف زرداری مل گیا، ان دونوں نے مل کر ملک میں بڑی تباہی مچائی، ہماری اخلاقیات تباہ کر دیں، جو ممالک ہم سے پیچھے تھے وہ ہم سے آگے نکل گئے، سندھ ہائوس میں جو ڈرامہ ہوا وہ سب کچھ قوم کے سامنے ہے، کسی مہذب معاشرے میں یہ سوچا بھی نہیں جا سکتا کہ ارکان کی 20، 25 کروڑ روپے کی قیمتیں لگائی جائیں اور عوامی نمائندوں کو خریدا جائے، یہ سب انہی نے شروع کیا ہے۔

وزیراعظم نے کہا کہ 2008ء سے 2018ء کے دور میں انہوں نے ملک کو لوٹا، مشرف کے این آر او ون کے ذریعے ان کی کرپشن معاف کی گئی، حدیبیہ پیپر کا کیس تیار تھا، سرے محل بک چکا تھا اور اس کے پیسے پاکستان کو ملنے تھے لیکن انہیں این آر او دے دیا گیا، اس کے بعد پھر سے انہوں نے ملک کو لوٹنا شروع کر دیا، اب یہ مجھ سے این آر او ٹو مانگتے رہے ہیں، ان کی کوشش ہے کہ انہیں کسی طرح اقتدار ملے، سب سے پہلے یہ نیب کو ختم کریں گے، اس سے ان کے کرپشن کیسز ختم ہوں گے، نواز شریف کو سپریم کورٹ نے نااہل کیا ہوا ہے اس کو واپس بحال کرنے کی کوشش کریں گے، ملک کے سارے انصاف کے ادارے تباہ کرکے یہ اپنے آپ کو بحال کرنے کی کوشش کریں گے، جنرل مشرف نے اپنی حکومت بچانے کیلئے انہیں این آر او دیا حالانکہ فوج، عدلیہ، (ق) لیگ سب اس کے کنٹرول میں تھے، مشرف کی مارشل لاء سے سب سے بڑی غداری انہیں این آر او دینا تھا، اس نے ڈاکوئوں کو معاف کرکے بڑا ظلم کیا، حکومت چلی جائے یا جان چلی جائے این آر او نہیں دوں گا، ان ڈاکوئوں نے ہمیں دنیا میں ذلیل کیا، باہر کی قوتیں اس لئے انہیں استعمال کر رہی ہیں کہ انہیں ملک کو کنٹرول کرنے کیلئے چور، ڈاکو اور کرپٹ لوگ چاہئیں۔

انہوں نے کہا کہ مسلم لیگ (ن) کے رہنما خواجہ آصف کا بیان سن کر حیرت ہوئی، خواجہ آصف کہتے ہیں ہم امریکی لائف سپورٹ پر ہیں، خواجہ آصف سے پوچھتا ہوں کہ پھر ہمیں انگریزوں سے آزادی لینے کی کیا ضرورت تھی، کیا ملک کو غلام بنانا چاہتے ہیں، میں سیاست میں پیسے بنانے، فیکٹریاں بنانے اور شہرت کیلئے نہیں آیا، میرے سیاست میں آنے کا ایک مقصد نظریہ پاکستان ہے اور اس کیلئے جب تک زندہ ہوں لڑوں گا۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان کی آزاد خارجہ پالیسی ہونی چاہئے، روس، امریکہ، برطانیہ، یورپ، چین سمیت سب سے دوستی ہونی چاہئے، 80ء کی دہائی میں پاکستان بڑی فرنٹ لائن اسٹیٹ بنتا رہا، امن کا حصہ بنیں گے، تنازعات میں شریک نہیں ہوں گے، بھارت کی خارجہ پالیسی دیکھ لیں، سوویت یونین کے قریب تھے، امریکہ سے بھی تعلقات رکھے۔

وزیراعظم نے کہا کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ کے دوران بیرون ملک پاکستانیوں کے ساتھ ذلت آمیز سلوک کیا جاتا تھا اور ساری دنیا میں انہیں لاوارث کر دیا گیا، صرف امریکہ کو خوش کرنے اور امداد کیلئے خود داری کا سودا کیا گیا، کسی ملک سے کوئی مسئلہ نہیں ہے، میری خارجہ پالیسی میں پاکستانیوں کے مفاد اور حقوق کو اولیت حاصل ہو گی۔ وزیراعظم نے کہا کہ بھارت کی خارجہ پالیسی کی وجہ سے ان کے پاسپورٹ کی عزت دیکھ لیں، ہم کبھی کسی بلاک میں چلے گئے اور کبھی کسی بلاک میں چلے گئے، ذوالفقار علی بھٹو نے او آئی سی اجلاس کرایا، انہیں کیسے مروایا گیا، یہی پارٹیاں اس وقت بھی بھٹو کے خلاف سازش کا حصہ تھیں، یہ ہی فضل الرحمان، نواز شریف کی پارٹی سازش کا حصہ تھی، بھٹو کو قتل کرانے میں ان کا ہاتھ تھا۔

وزیراعظم نے کہا کہ سابق حکمرانوں نے اپنے دور میں ملک میں ڈرون حملوں کی اجازت دی ہوئی تھی، 10 سال میں یہاں 400 ڈرون حملے ہوئے، یہ اس لئے نہیں بولتے تھے کہ ان کے اربوں روپے کی جائیدادیں باہر پڑی ہیں۔ وزیراعظم نے کہا کہ کوئی بھی سازش ہوتی ہے تو اس میں میر صادق اور میر جعفر ہوتے ہیں، مجھے اگست سے آئیڈیا ہو گیا تھا کہ میرے خلاف سازش ہو رہی ہے، نواز شریف لندن میں بیٹھ کر لوگوں کو مل رہا تھا، حسین حقانی جیسے لوگ نواز شریف سے ملاقاتیں کر رہے تھے ایجنسی کی رپورٹ تھی لوگ یہاں سے لندن جاتے اور آتے تھے، ملک کو غلام بنانے کے لئے ایسے لوگ چاہئیں، ایسے لوگ چاہئے ہوتے ہیں جو ذاتی مفاد کے لئے ملک کو قربان کر دیں، ہمارے دشمن پاکستان کے 3 ٹکڑے کرنا چاہتے ہیں، 7 مارچ کو ہمیں مراسلہ ملا، نواز شریف کی آخری ملاقات 3 تاریخ کو ہوئی، نواز شریف کی بیٹی نے کھل کر پاک فوج پر تنقید کی، یہ لوگ پاک فوج پر کھل کر تنقید کرتے رہتے ہیں، میں کبھی فوج کے خلاف بات نہیں کروں گا۔

انہوں نے کہا کہ نواز شریف کے ساتھ وہ رابطے میں تھے جو پاک فوج کے خلاف ہیں، نواز شریف نے ملک کو جتنا نقصان پہنچایا کسی نے نہیں پہنچایا، نواز شریف اور آصف زرداری نے کرپشن کو قابل قبول بنا دیا، ان کی کوشش ہے اقتدار میں آئیں، یہ سب سے پہلے نیب کو ختم کریں گے، یہ ملکی اداروں کو تباہ کرکے اپنے مقاصد حاصل کرنے کی کوشش کریں گے۔

وزیراعظم نے کہا کہ مجھے جو دھمکی دی گئی ہے اس میں کہا گیا ہے کہ عمران خان عدم اعتماد سے نکل گیا تو پاکستان کو بڑی مشکلات ہوں گی، عمران خان حکومت میں رہا تو تنہا کر دیں گے، مراسلے میں کہا گیا کہ تحریک عدم اعتماد میں ہار گیا تو پاکستان کو معاف کر دیں گے، اس کا مطلب ہے کہ مراسلہ لکھنے والوں کو پتہ ہے کہ آنے والے ان کا ساتھ دیں گے، 6 ماہ پہلے سے سازش ہو رہی ہے۔

ایک سوال کے جواب میں وزیراعظم نے کہا کہ میرے پاس ساری رپورٹس ہیں، کون کس سفارتخانے میں جاتا تھا، کون سے سیاستدان، اینکر، صحافی کسی سفارتخانے جاتے تھے، سب سازش کا پتہ تھا، کابینہ کو بھی آگاہ کیا، ان کی ملاقاتوں کا مقصد کیا تھا، انہیں خارجہ پالیسی کا کیا پتہ، دوسرے ملک میں کوئی سیاستدان دوسرے ملک کے لوگوں سے مل کر دکھائے، مریم نواز سے غیر ملکی سفارتخانے کے لوگ کیوں ملتے تھے، ماضی میں ایک فون کال پر ساری باتیں منوا لی جاتی تھیں، پہلی بار ایسا شخص آیا جو آزاد خارجہ پالیسی لے کر چل رہا ہے، باہر کا ملک باضابطہ طور پر آپ کو کہہ رہا ہے اور کیا حقیقت ہو سکتی ہے، باہر کے ملک کو پہلے سے ہی عدم اعتماد کا پتہ تھا، اس کا مطلب 5، 6 ماہ سے پلاننگ ہو رہی تھی، کھلے عام حکومت گرانے کی دھمکی دی جا رہی ہے اس سے بڑی بات کیا ہو سکتی ہے۔

وزیراعظم نے کہا کہ یہ سازشی میری کردار کشی بھی کریں گے، ابھی سے بتا رہا ہوں، خاتون اول گھر سے نہیں نکلتیں، ان کے خلاف بھی مہم چلائی جا رہی ہے، میری جان کو خطرہ ہے لیکن میں خاموش نہیں بیٹھوں گا، آخری گیند تک لڑوں گا، کردار کشی کی الگ مہم تیار کی گئی ہے، جان کو بھی خطرہ ہے، ملک کے لئے اس سے بڑی دھمکی اور کیا ہو سکتی ہے، خوف آتا ہے، ہم اس سطح پر آ گئے ہیں کہ ہمیں دھمکیاں مل رہی ہیں۔

انہوں نے ملک کو اتنا گرا دیا ہے، اسی لئے ایسی دھمکیاں آ رہی ہیں، میری اور اہلیہ کی کردار کشی کے لئے باہر سے پیسہ دیا گیا، دہشت گردی کے خلاف جنگ کے وقت بھی میرے خلاف مہم چلائی گئی، اخبارات میں میرے خلاف کیسی خبریں لگائی گئیں، مجھے طالبان خان کہا گیا، میں کہتا تھا یہ ہماری جنگ ہی نہیں، یہ میڈیا ٹیکٹس ہیں، اخبارات کو پیسے دیئے جاتے ہیں، میڈیا میں پیسہ چلایا جاتا ہے، شہباز شریف کو چیری بلاسم بوٹ پالش کہتا ہوں، وہ کہتا ہے کہ یورپی یونین کو عمران خان نے یہ کیا کہہ دیا کیونکہ یہ پیسے کے غلام ہیں، انہیں عوام کی حمایت ہی حاصل نہیں ہے، سب نے مل کر لوگ جمع کئے، فضل الرحمن کے مدارس کے بچے نکال دیں تو ان کے پاس لوگ ہی جمع کرنے کیلئے نہیں ہیں جبکہ 27 مارچ کے ہمارے جلسہ میں تو بہت سے کارکن پہنچ ہی نہیں سکے، لوگ جب تک خود چل کر نہیں آئیں گے آپ کے جلسے کامیاب نہیں ہوں گے، بلاول بھٹو نے اربوں روپے خرچ کرکے کانپیں ٹانگنے والا ٹوور کیا، لوگ ان کیلئے نہیں نکلتے۔

وزیراعظم نے کہا کہ خیبرپختونخوا میں بلدیاتی انتخابات دیکھ لیں، ہم نے کلین سویپ کیا ہے، آدھی سے زیادہ نشستیں ہم جیت گئے ہیں، ووٹ بینک بڑھا ہے، مہنگائی تو ایک عالمی مسئلہ ہے، ہم نے کورونا میں غریبوں کو بچایا، ریکارڈ ٹیکس جمع کیا، برآمدات اور ترسیلات زر بلند ترین سطح پر ہیں، اضافی آمدنی ڈیزل اور پٹرول کی قیمتیں کم کرنے پر خرچ کیں، ان کے پاس کیا حل ہے، شہباز شریف تیل کی قیمت کیسے کم کرے گا۔ وزیراعظم نے کہا کہ آخری گیند تک لڑوں گا، جب تک آخری گیند نہیں کھیلی جاتی میچ نہیں ہارا جاتا، ضمیر فروش ملک سے غداری کر رہے ہیں اور باہر کی سازش کا حصہ بنے ہوئے ہیں، پارلیمانی سکیورٹی کمیٹی میں سب کو دعوت دی کہ وہ بیرونی سازش دیکھ لیں، شہباز شریف کو دعوت دی، وہ اجلاس میں آئے ہی نہیں، شہباز شریف نے اس لئے بائیکاٹ کیا کیونکہ وہ سازش کا حصہ ہیں، یہ قوم کے غدار ہیں۔

وزیراعظم نے کہا کہ وہ چاہتے ہیں کہ قوم ان لوگوں کے چہرے دیکھ لے جو غدار ہیں۔ ایک سوال کے جواب میں وزیراعظم نے کہا کہ میں ان چوروں سے کیوں این آر او مانگوں گا، جس کا چوری کا پیسہ باہر پڑا ہو تو وہ کبھی آزاد خارجہ پالیسی کی بات نہیں کرتا۔

قبل از وقت الیکشن کے حوالہ سے ایک سوال کے جواب میں وزیراعظم نے کہا کہ اگر ہم تحریک عدم اعتماد میں کامیاب ہوتے ہیں تو موجودہ حالات میں قبل از وقت الیکشن اچھا آئیڈیا ہے تاکہ دودھ کا دودھ، پانی کا پانی ہو جائے، لیکن یہ ملک کیسے چلائیں گے، کبھی ایسے بھی ملک چلا ہے کہ بندر بانٹ ہو، شہباز شریف سے بات کر سکتا ہوں نہ کروں گا، اس نے 16 ارب روپے اپنے ملازمتوں کے اکائونٹس میں رکھے ہوئے ہیں، بیٹے اور داماد کو بھگا دیا ہے، اس فراڈ کے ساتھ بات نہیں کر سکتا۔

ایک سوال کے جواب میں وزیراعظم نے کہا کہ مجھے عدم اعتماد کا سامنا کرنے، استعفیٰ یا انتخابات کے تین آپشنز کی پیشکش کی گئی، الیکشن بہترین آپشن ہے، استعفے کا سوچ بھی نہیں سکتا، عدم اعتماد پر تو کہوں گا میں تو مقابلے والا ہوں، آخری بال تک لڑوں گا، چھانگا مانگا کے دن چلے گئے، اب سوشل میڈیا کا زمانہ ہے، لوگ انہیں غدار کہہ رہے ہیں، کیا یہ سمجھتے ہیں کہ لوگ انہیں بھول جائیں گے، ابھی بھی ان کیلئے وقت ہے کہ اپنا مستقبل بچا لیں۔

ایک اور سوال کے جواب میں وزیراعظم نے کہا کہ وکلاء سے طویل مشاورت کی ہے، اس سے اور بڑی غیر ملکی مداخلت کیا ہو سکتی ہے کہ آپ کے الیکشن میں کوئی دوسرا ملک مداخلت کرے، ہم معاملہ سپریم کورٹ لے جانے کا سوچ رہے ہیں، مراسلہ قومی سلامتی کا معاملہ ہے، باہر سے حکومت گرانے کی کوشش ہو رہی ہے تو اس سے بڑی دھمکی اور کیا ہو سکتی ہے، مراسلے میں حکومت کا بھی نہیں عمران خان کا نام ہے، مراسلے میں لکھا ہے حکومت نہیں عمران خان کو ہٹا دو، کہا گیا روس جانے کا فیصلہ عمران خان کا تنہا تھا حالانکہ اس میں سب کی مشاورت تھی، ہماری حکومت اور فوج جیسی کوآپریشن کسی کی نہیں رہی، میں کون سا پیسہ بنا رہا تھا جو کہوں کہ مجھے فوج سے خطرہ ہے، میں نواز شریف کی طرح مودی سے چھپ چھپ کر نہیں ملتا تھا، میں آصف زرداری کی طرح حسین حقانی کے ذریعے امریکیوں کو مراسلے نہیں بھیجتا تھا، فوج کے ساتھ تمام معاملات ایک پیج پر رہے ہیں، کسی معاملہ پر کوئی اختلاف نہیں ہوا۔

وزیراعظم نے کہا کہ اپوزیشن رہنمائوں کا سارا پیسہ باہر پڑا تھا، پاک فوج کو اپوزیشن رہنمائوں کی کرپشن کا پہلے پتہ چل جاتا تھا، یہ لوگ کرپشن کرتے تھے اس لئے انہیں فوج کا خطرہ ہوتا تھا، آرمی چیف کو ڈی نوٹیفائی کی بات (ن) لیگ کی ڈس انفارمیشن مہم تھی، ہمیشہ چاہوں گا ہماری فوج مضبوط ہو، کوئی ایسا کام نہیں کروں گا جس سے پاکستان کمزور ہو، نواز شریف بیرون ملک کس سے ملتا ہے سب کو پتہ ہے، میں تو پاکستان کے اداروں کو مزید مضبوط کر رہا ہوں، میرے تو کبھی ذہن میں نہیں آیا کب کس کی پروموشن ہو، پاک فوج کے ساتھ اچھے تعلقات ہیں۔

ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ نائن الیون کے بعد مسلمانوں کو بہت مشکلات کا سامنا کرنا پڑا، دہشت گردی کو اسلام کے ساتھ جوڑ دیا گیا، کسی مسلمان سربراہ نے اسلامو فوبیا کا معاملہ نہیں اٹھایا، میں نے اقوام متحدہ، او آئی سی اور ہر جگہ یہ معاملہ اٹھایا جس کے بعد انہیں اس کی سمجھ آ گئی۔ وزیراعظم نے کہا کہ ہمارے دور میں فصلوں کی ریکارڈ پیداوار ہوئی ہے، کسان خوشحال ہوا ہے، صنعتی ترقی ہوئی ہے، آئی ٹی برآمدات میں 75 فیصد اضافہ ہوا ہے، سابق ادوار میں برآمدات میں کوئی اضافہ نہیں ہوا۔

ایک اور سوال کے جواب میں وزیراعظم نے کہا کہ کرسی، عزت اور اقتدار اﷲ کے ہاتھ میں ہے، مجھے کوئی فکر نہیں، اپنے گھر میں رہتا ہوں سوائے سکیورٹی کے سارے اخراجات خود برداشت کرتا ہوں۔ وزیراعظم نے کہا کہ ہمارے ایم این ایز کو پیسوں کی پیشکش کی گئی، سینٹ انتخابات میں پوری کوشش کی گئی کہ اوپن بیلٹ ہو کیونکہ وہاں پیسہ چلتا ہے، یوسف رضا گیلانی کے ووٹ خریدنے کی ویڈیو آ گئی، ایک سال ہو گیا ہے لیکن اس کا کچھ نہیں ہوا، انہوں نے میریٹ میں ضمیر فروش رکھے ہوئے ہیں، پہلے یہ سندھ ہائوس میں تھے، یہ بکروں کی طرح نیلام ہو رہے ہیں۔

وزیراعظم نے کہا کہ اتوار کا دن دیکھیں گے، چاہتا ہوں پوری قوم دیکھے، قوم کو ان لوگوں کی شکلیں دکھانا چاہتا ہوں، قوم کو پتہ چل گیا ہے کہ سازش باہر سے ہو رہی ہے، ان میر جعفروں اور میر صادقوں کی شکلیں قوم کو دکھانا چاہتا ہوں تاکہ ہمیشہ کیلئے ان پر مہر لگ جائے، استعفے کا سوچ بھی نہیں سکتا، کپتان ہمیشہ اپنی پلاننگ پوری کرتا ہے۔ احتساب کے حوالہ سے ایک سوال کے جواب میں وزیراعظم نے کہا کہ سیاست میں ان چوروں کے پیچھے احتساب کے لئے ہی آیا تھا، احتساب کے عمل میں جان بوجھ کر خلل ڈالا گیا، تاخیری حربے استعمال کئے گئے، ان لوگوں کو سازش، ڈیلز کے تحت بچایا گیا، احتساب کے عمل کو خراب کرکے ملک سے بڑی غداری کی گئی۔ وزیراعظم نے کہا کہ سب پتہ ہے، ہم بے بس تھے۔

وزیراعظم نے کہا کہ وہ چاہیں گے کہ الیکشن ہوں، عوام کے پاس جائوں گا اور انہیں کہوں گے کہ اگر وہ چاہتے ہیں کہ ملک ٹھیک کریں تو ہمیں بھاری اکثریت دیں کیونکہ جب تک اکثریت نہیں ملتی کبھی بلیک میل کیا جاتا ہے اور کبھی سمجھوتے کرنے پڑتے ہیں، ہم نے ساڑھے تین سال بڑی مشکل سے ملکی معاملات چلائے ہیں، خواہش ہے کہ جب بھی الیکشن ہوں تو اکثریت کے ساتھ آئوں تاکہ یہ سارا گند صاف ہو

۔ وزیراعظم نے کہا کہ انہوں نے سپریم کورٹ میں ایک ایک ثبوت دیا، پہلے بھی میرے خلاف مقدمات بنائے گئے تھے، یہ مافیا ہیں اور ان کی سیاست کا سب کو پتہ ہے، کبھی کسی کو لالچ دیا، کبھی کسی کو خرید لیا یا دھمکا دیا، بلیک میل کیا۔ وزیراعظم نے کہا کہ اتوار کیلئے بھی کپتان کا پلان ہے ہر سطح پر ان کا مقابلہ کیا جائے گا۔