ہم آئین کی عملداری چاہتے ہیں، آئین کا دفاع ہرپاکستانی کا فرض ہے، نگران وزیر اعظم کے مشاورتی عمل کا حصہ نہیں بنیں گے، اپوزیشن رہنمائوں کی پریس کانفرنس

 
0
121

اسلام آباد 04 اپریل 2022 (ٹی این ایس): اپوزیشن رہنمائوں نے کہا ہے کہ ہم پاکستان میں آئین کی عملداری چاہتے ہیں ،سپریم کورٹ گزشتہ روز اٹھائے گئےاقدام کے معاملے میں ملوث عناصر کے خلاف کارروائی کرے،خط اور تحریک عدم اعتماد الگ الگ چیزیں ہیں، پاکستان کے آئین کا دفاع مسلم لیگ (ن)، پیپلزپارٹی اور اپوزیشن کا نہیں بلکہ ہرپاکستانی کا فرض ہے، اگر اپوزیشن جماعتیں بین الاقوامی سازش کاحصہ ہیں تو ہمیں تختہ دار پر چڑھا دیں مگر جمہوریت کاتسلسل برقرار رہناچاہیے، نگران وزیر اعظم کے مشاورتی عمل کا حصہ نہیں بنیں گے۔

پیر کو مشترکہ پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے مسلم لیگ (ن) کے صدر شہباز شریف نے کہا کہ گزشتہ روز جو کچھ ہوا سے پاکستان کی تاریخ میں سیاہ دن کے طورپر یاد رکھا جائے گا۔

آئین کی واضح خلاف ورزی کی گئی ہے۔ 24 مارچ کو سپیکر قومی اسمبلی نے ایوان کی منشا کے مطابق عدم اعتماد کی تحریک کو ایجنڈے میں شامل کیا۔ قومی اسمبلی کاایجنڈ ایک قانونی عمل کے تحت مرتب کیاجاتا ہے ۔ا گر عدم اعتماد کی تحریک آرٹیکل 5 کےزمرے میں آ رہی تھی تو اسے 24 مارچ کے ایجنڈے میں کیوں شامل کیا گیا۔ گزشتہ روز ووٹنگ کا عمل ہر صورت مکمل ہوناتھا۔ ڈپٹی سپیکر کو اس ساری کارروائی کے لئے آلہ کار کے طورپر استعمال کیا گیا۔

شہباز شریف نے کہا کہ صاف ظاہر ہوتا ہے کہ سپیکر نے اجلاس کے آغاز پر فوری طور پر فلور وزیرقانون کو دیا جنہوں نے ایک خط پڑھا جس کے بعد تحریک نمٹا دی گئی۔

انہوں نے کہاکہ اگر انہیں کوئی اعتراض تھا تو 7 مارچ سے 24 مارچ تک ان کے پاس وقت تھا مگر اس کے باوجود 24 مارچ کو عدم اعتماد کی تحریک پیش کرنے کی اجازت دی گئی اور آئین شکنی کا ارتکاب کیا گیا۔

انہوں نے کہا کہ عدالت عظمیٰ نے بھی ہدایت کی تھی کہ کوئی بھی ماورائے آئین اقدام نہ اٹھایا جائے۔ چند روز قبل اٹارنی جنرل نے بھی ان سے کہا کہ ووٹرز کو جانے دیں اور ایک نجی ٹی کے پروگرام میں بھی اٹارنی جنرل نے یہ کہا تھا کہ اتوار کو ووٹنگ ہو گی۔ شہبازشریف نے کہا کہ ہمارے سفیر اسد خان نے ٹویٹ کیا کہ16 مارچ کو امریکی سیکرٹری ڈونلڈ لو نے انہیں دعوت دی جبکہ خط 7 مارچ کو موصول ہوا۔ 16 مارچ کی دعوت میں یہ شکریہ ادا کرتے رہے۔

اگر 7 مارچ کو کوئی اس سلسلہ میں میٹنگ ہوئی ہے تو 16 مارچ کی دعوت کاشکریہ کس بات کا ادا کیا گیا۔ یہ دونوں متضاد باتیں ہیں۔ انہوں نے کہا کہ آئین کا آرٹیکل 2 ایوان کی کارروائی کو تحفظ دیتا ہے مگر آئین توڑ ا جائے تو یہ کوئی معمولی معاملہ نہیں ہے، ہم پورے پاکستان کی گلی محلوں میں احتجاج کریں گے۔ایک سوال کے جواب میں شہباز شریف نے کہا کہ نگران وزیر اعظم کے مشاورتی عمل کا حصہ نہیں بنیں گے۔

ایک اورسوا ل کے جوا ب میں شہباز شریف نے کہا کہ سپریم کورٹ میں جوکارروائی جاری ہے اس کے حوالے سے ہماری آئینی اور قانونی ماہرین سے مشاورت کا سلسلہ جاری ہے ۔ جب تک آئین توڑنے والوں کے خلاف کارروائی نہیں ہو جاتی ہم چین سے نہیں بیٹھیں گے۔

پاکستان پیپلزپارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے کہا ہے کہ وزیراعظم کو ہٹانے کا ایک ہی آئینی طریقہ ہے ،کسی بھی وزیراعظم کو جمہوری طریقہ کے تحت عدم اعتماد سے ہی ہٹایا جا سکتا ہے۔ہم سب جمہوریت پسندلوگ ہیں۔ 1973 کے آئین کی بنیاد تمام سیاسی جماعتوں نے رکھی۔

پاکستان کے آئین کا دفاع کرنا ہر پاکستانی کی ذمہ داری ہے۔ ہم کبھی نہیں چاہتے کہ کوئی غیر آئینی کام ہو۔ جو کچھ ہوا یہ ایک سیاسی خودکشی کے مترادف ہے۔ اگروزیراعظم خود استعفیٰ دیتاتو وہ آئینی اقدام ہوتا۔ قومی اسمبلی میں عدم اعتماد کی تحریک پر ووٹنگ بھی ایک جمہوری عمل ہے۔ یہ آئین شکنی کے مرتکب ہوئے ہیں۔ انہوں نے مطالبہ کیاکہ اعلیٰ عدلیہ فیصلہ کرے کہ آئین کاغذ کا ٹکرا ہے یا اس کی پاسداری ہونی چاہیے۔

انہوں نے مطالبہ کیا کہ فل کورٹ بینچ تشکیل دے کر اس کیس کا فیصلہ سنایا جائے ۔ اگر ہم بین الاقوامی سازش کا حصہ ہیں تو ہمیں تختہ دار پر چڑھا دیاجائے ۔جے یو آئی ف کے رہنما مولانا اسعد محمود نے کہا کہ مغرب مخالف اور امریکا مخالف بیانیہ بنانے کی کوشش کی جارہی ہے ۔اس سے پاکستانی عوام کو مزیددھوکہ نہیں دیا جاسکتا ۔

انہوں نے کہاکہ ہم قطعاًپاکستان پر بیرونی دبائو قبول کرنے کے لئے تیار نہیں ہیں۔ ہم ملک میں آئین کی پاسداری چاہتے ہیں۔ بلوچستان نیشنل پارٹی کے سربراہ ختر مینگل نے کہا کہ پاکستان کی سیاسی اور آئینی تاریخ میں یہ پہلادن نہیں تھا مگر بدقسمتی سے آج تک آئین شکنوں کے خلاف کوئی کارروائی نہیں ہوئی ۔

ایم کیو ایم پاکستان کنوینر ڈاکٹر خالد مقبول صدیقی نے کہا کہ اگر کوئی سازش ہو رہی ہے تو ایک کمیشن قائم کیا جائے اورسچ ثابت کیاجائے ۔ میں آپ کے ساتھ ہوں مگر شرط ہے یہ ہے کہ سچ کوسامنے لایا جائے ۔آپ نے گزشتہ الیکشن میں ہم سے 14 نشستیں چھینی تھیں۔ ہم نے گزشتہ روز آپ سے حکومت چھین لی ہے۔