امریکا کی وزیراعظم شہباز شریف کو مبارکباد، تعاون جاری رکھنے کا عزم

 
0
115

اسلام آباد 14 اپریل 2022 (ٹی این ایس): امریکی سیکریٹری آف اسٹیٹ انٹونی جے بلنکن نے بدھ کے روز نومنتخب وزیر اعظم شہباز شریف کو مبارکباد دی اور حکومت پاکستان کے ساتھ دیرینہ تعاون جاری رکھنے کے بھرپور عزم کا اظہار کیا۔

وزیراعظم عمران خان کو گزشتہ ہفتے تحریک عدم اعتماد کے ذریعے ہٹائے جانے کے بعد شہباز شریف پیر کو پاکستان کے 23ویں وزیر اعظم منتخب ہوئے تھے۔

گزشتہ رات جاری ہونے والے ایک بیان میں انٹونی بلنکن نے کہا کہ پاکستان تقریباً 75 سالوں سے وسیع تر باہمی مفادات میں امریکا کا اہم پارٹنر رہا ہے اور امریکا ان کے تعلقات کو قدر کی نگاہ سے دیکھتا ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ امریکا ایک مضبوط، خوشحال اور جمہوری پاکستان کو دونوں ممالک کے مفادات کے لیے ضروری سمجھتا ہے۔

بیان پر ردعمل دیتے ہوئے وزیراعظم کے دفتر نے دونوں ممالک کے درمیان تعاون کی اہمیت اور ضرورت کا اعادہ کیا۔

وزیراعظم آفس نے ٹوئٹ میں کہا کہ نئی حکومت خطے میں امن، سلامتی اور ترقی کے مشترکہ اہداف کو فروغ دینے کے لیے امریکا کے ساتھ تعمیری اور مثبت انداز میں رابطہ اور تعلقات رکھنا چاہتی ہے۔

وزیراعظم آفس نے برابری، باہمی مفاد اور فائدے کے اصولوں پر مبنی تعلقات کو مضبوط کرنے کی ضرورت پر بھی روشنی ڈالی۔

انٹونی بلنکن کا یہ بیان ایک ایسے موقع پر سامنے آیا ہے جب ایک دن قبل ہی پینٹاگون کے ترجمان جان کربی نے اپنے بیان میں کہا تھا کہ امریکا کے پاکستانی مسلح افواج کے ساتھ ایک صحت مند ملٹری ٹو ملٹری تعلقات ہیں اور ہمیں توقع ہے کہ یہ تعلقات جاری رہیں گے۔

انہوں نے مزید کہا کہ ہم تسلیم کرتے ہیں کہ پاکستان خطے میں کلیدی کردار ادا کرتا ہے اور ہم یہ بھی تسلیم کرتے ہیں کہ پاکستان اور پاکستانی عوام خود اپنے ہی ملک کے اندر دہشت گرد حملوں کا شکار رہے ہیں۔

حکومت کی تبدیلی میں امریکا کے کردار کے حوالے سے معزول وزیر اعظم کے الزامات کے سوال پر جان کربی نے تبصرہ کرنے سے انکار کر دیا اور کہا کہ امریکا، پاکستان کی اندرونی ملکی سیاست پر بات نہیں کرے گا۔

اسلام آباد اور واشنگٹن کے درمیان تعلقات اس وقت نئی نچلی سطح پر پہنچ گئے تھے جب سابق وزیراعظم عمران خان نے امریکا پر ان کی حکومت کو گرانے کی سازش کا الزام لگایا تھا۔

انہوں نے اس الزام کی صداقت کے لیے ایک سفارتی کیبل کا حوالہ دیا تھا جس میں مبینہ طور پر کہا گیا تھا کہ محکمہ خارجہ کے ایک اہلکار نے متنبہ کیا تھا کہ اگر اس وقت کے وزیر اعظم عمران خان کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک ناکام ہوئی تو دو طرفہ تعلقات پر اثرات مرتب ہوں گے۔

امریکا نے اس الزام کی تردید کی تھی۔

امریکہ کے ساتھ تعلقات خصوصاً فروری سے قبل ہی تناؤ کا شکار تھے کیونکہ اسی دوران سابق وزیر اعظم عمران خان ماسکو کے اپنے طے شدہ دورے پر گئے تھے اور ان کے دورے کے دوران ہی روس نے یوکرین پر حملہ کیا تھا۔

بعد میں پاکستان نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کی قرارداد پر ووٹنگ سے گریز کیا جس میں روس کے اقدامات کی مذمت کی گئی تھی اور یوکرین سے اس کے فوری انخلا کا مطالبہ کیا گیا تھا حالانکہ امریکا اور اس کے یورپی اتحادیوں نے پاکستان سے قرارداد کی حمایت کرنے پر زور دیا تھا۔

نئی پاکستانی حکومت کی خارجہ پالیسی کی اولین ترجیحات میں سے امریکا سے خراب تعلقات کو بہتر بنانا ہو گا۔