اسرائیل پاکستان سفارتی تعلقات کیوں ممکن نہیں؟

 
0
155

اندر کی بات ؛کالم نگار؛اصغرعلی مبارک

اسلام آباد 31 مئی 2022 (ٹی این ایس): پاکستانی وفد کے دورۂ اسرائیل کے چرچےجاری و ساری ہیں جس میں پاکستان سے ایسی ایسی باتیں منسوب کی جارہی ہیں جنکا کوئی مقصد نہیں تاہم پاکستانی قوم کو کچھ حقائق بتانے کی کوشش کررہا ہوں تاکہ تاریخ کو مسخ نہ کیا جا سکے اس دوران مجھے ماضی کے کچھ واقعات بھی یاد آگئے ہیں جنکا تذکرہ شائد اس وقت اور ضروری ہو گیا کیونکہ پاکستان کے نومنتخب وزیر اعظم جناب شہباز شریف ترک صدر کی دعوت پر ترکی میں موجود ہیں۔یہ وہی ترک صدر ہیں جنہوں نے ماضی میں پاکستان اور اسرائیل کے مابین ملاقات طے کروائی تھی جو پاکستان کے سابق وزیر خارجہ خورشید محمود قصوری اور اسرائیلی وزیر خارجہ کے مابین ہوئی جس کے بارے میں تفصیلات جرمن میڈیا پر تاحال موجود ہیں سوال یہ ھے آج کا نوجوان یہ پوچھتاہے کہ اسرائیل سے ہماراکوئی سرحدی تنازعہ نہیں۔۔اسرائیل ھماری ورکنگ باونڈری کی خلاف ورزی نہیں کرتا۔اسرائیل ھمارے دریاوں کا پانی بند نہیں کرتا۔اسرائیل کشمیریوں کی نسل کشی نہیں کرتا پھر بھی وہ ھمارا بد ترین دشمن ھے جس کے بارے میں ھمارے گرین پاسپورٹ پر لکھا ہے کہ کوئی پاکستانی اسرائیل کاسفر نہیں کرسکتا۔۔۔۔جبکہ دوسری طرف بھارت جس نے مسلمانوں بالخصوص کشمیریوں پر ظلم وبربریت کی انتہاء کر دی ھےدریاوں کاپانی بند کرکے آبی دھشت گردی کا مرتکب ھوچکاہے سرحدی علاقوں پر گولہ باری کرکے ھمارے نہتے شہریوں کو شہید کررہا۔۔مگر پاکستان پھر بھی اسرائیل کے بجائے بھارت سے مذاکرات کی پیش کش کرتارہتاہے جب بھارت پاکستان دھشت گردی کرنے کے ساتھ ساتھ پاکستان کے ٹکڑے کرنے کے درپے ہے یہ تفصیلات شائد ان امریکی نزاد پاکستانیو کی اسرائیل صدرسے زیادہ سنگین لگتی ہے شہباز شریف ترکی کے تین روزہ دورے پر ہیں جہاں ترک صدر سے ملاقات بھی کریں گے یہ وہی ترک راہنما ہیں جنہوں نےپاکستان کے سابق وزیر خارجہ خورشید محمود قصوری سے2005ء میں پہلی مرتبہ اسرائیلی وزیر خارجہ سیلون شالوم سے ملاقات کرائی تھی دلچسپ حقیقت یہ ہےکہ آج یکم جون کو سابق وزیر خارجہ خورشید محمود قصوری کو لونگ ( Legend Awarad Living) لیجنڈایوارڈ 2022 کیلئے منتخب کیا گیا ہے، جو ایس ڈی پی آئی کی جانب سے ایوارڈ تقریب میں اسلام آباد میں دیا جائے یہ ایوارڈ ان سیاسی ۔سفارتی ادبی اور تعلیمی خدمات کا ثبوت ہے چند سال قبل سابق وزیر خارجہ خورشید قصوری کےتعلیمی ادارےکی جانب سے راولپنڈی کے ایک فائیو اسٹار ھوٹل میں نئی نسل کے معماروں کو اسرائیل کے کلچر سے روشناس کرنے کیلئے میلے کا اہتمام کیا گیا مگر کسی نے کوئی بات تک نہ کی جس کے بارے میں راقم الحروف نے تفصیلی رپورٹ تحریر کی تھی۔پاکستان کے اسرائیل کے ساتھ کسی قسم کے تعلقات نہیں ہیں مگر یاد دھانی کے لیے عرض ہے کہ پاکستان کے موجودہ نمبرون ٹینس اسٹار اعصام الحق اپنے اسرائیلی پارٹنر کے ساتھ ڈبلز مقابلوں میں عالمی سطح پر کھیلتے رہے اور اسرائیلی پلئیر کے شان میں تعریفیں کرتے نظر آئے مگر ان سے کوئی پوچھ گچھ نہ کی گئی . یکم اکتوبر 2017 کو اعصام الحق نے فائنل میں اپنے اسرائیلی پارٹنر جوناتھن ایلرچ کے ساتھ مل کر برازیل کے ڈیمولائنر اور نیوزی لینڈ کے مارسیلو ڈینیئل کی جوڑی کو اسٹریٹ سیٹس میں 3-6 اور 6-7 سے شکست دے کر ٹائٹل اپنے نام کیا۔ یاد رہے کہ اعصام الحق برطانیہ میں کھیلے جانے والے ومبلڈن میں اسرائیلی کھلاڑی عامر حداد کے پارٹنر بھی رہ چکے ہیںخیال رہےکہ سابق صدر جنرل پرویز مشرف بھی اسرائیل کے سابق وزیر اعظم شمعون پریز سے سوئٹزرلینڈ کے ڈیوس میں ملاقات کی تھی۔سوئئٹزر لینڈ کے شہر ڈیوس میں عالمی اقتصادی فورم کے اجلاس کے موقع پر جنرل مشرف نے اسرائیلی وزیراعظم سے مصافحہ کیا تھا۔اس وقت کے ترجمان دفتر خارجہ اور موجودہ امریکہ میں پاکستانی سفیر مسعود خان نے اس ملاقات پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا: ’یہ محض ایک اتفاقی ملاقات تھی جو صرف چند ثانیے جاری رہی۔‘ ترجمان نے کہا ہے کہ ڈیوس میں صدر جنرل پرویز مشرف کی اسرائیل کے سابق وزیر اعظم شمعون پریز سے ’اتفاقی ملاقات‘ سے یہ نہیں سمجھ لینا چاہئے کہ اسرائیل کے بارے میں پاکستان کی پالیسی تبدیل ہوگئی ہے۔خیال رہےکہ اس سے قبل اسرائیل کے وزیر زراعت نے کہا تھا کہ انہیں پاکستان جانے کی دعوت دی گئی ہے۔تاہم حکومت پاکستان نے اس کی تردید کر دی تھا اور کہا تھا کہ مذکورہ وزیر کو دعوت نہیں دی گئی بلکہ وہ اقوام متحدہ کے ایک وفد میں شامل تھے۔ اس وفد کا دورہ بھی اب مؤخر ہوگیا اس موقع پر پاکستانی صدر کا کہناتھاکہ پاکستان اور اسرائیل کے تعلقات ایک حساس مسئلہ ہے۔جنرل مشرف کا کہناتھا کہ اگرچہ دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات کشیدہ رہے ہیں تاہم اب دنیا بدل گئی ہے لہذا انہیں بھی پیشرفت کرنے کی ضرورت ہےاسرائیلی ٹی وی کے مطابق ان کا کہنا تھا کہ اسرائیل سے پاکستان کے سرکاری سطح پر تعلقات مسئلہ فلسطین سے جڑے ہوئے ہیں اور پاکستان کا موقف ہے کہ خطے میں دو خود مختار ریاستیں قائم ہوں۔ ان کا کہنا تھا کہ اسے کے بعد ہی پاکستان اپنی پالیسی پر نظرثانی کر سکے گا۔ البتہ موجودہ حالات میں اس بات کا کوئی امکان نہیں۔ کوئی جمہوری ملک اپنے عوام کی رائے کو نظر انداز کر کے خارجہ امور میں بڑا قدم نہیں اٹھا سکتا۔ پاکستانیو کےبقول مسئلہ فلسطین ایک اہم مسئلہ ہے اور پاکستان کے عوام کی امنگوں کے برخلاف کوئی سیاسی جماعت اسرائیل کے ساتھ تعلقات استوار کرنے کا رسک نہیں لے سکتی۔ پاکستانیو کے خیال میں اگر سعودی عرب کے مرحوم شاہ عبداللہ کے بنائے ہوئے منصوبے کے مطابق اسرائیل مقبوضہ فلسطینی علاقے خالی کر دے تو اس سے عالم اسلام میں اسرائیل کے ساتھ بامقصد بات چیت شروع کرنے کے طرف مثبت پیش رفت ہو سکتی ہے۔ اسرائیلی نائب وزیر اعظم سے ملاقات کی روداد بتاتے ہوئے خورشید قصوری کہتے ہیں کہ ترک میزبانوں نے وزیراعظم طیب ایردوان کی ہدایت پر 2005ء کو تاریخی توپ کاپی میوزیم کے قریب ایک ہوٹل کی چھت پر ملاقات کا اہتمام کیا تھا۔ پاکستانی اور اسرائیلی وزرائے خارجہ سطح کی یہ پہلی باضابطہ ملاقات دو گھنٹے جاری رہی، جس میں دونوں جانب سے تین تین نمائندوں نے شرکت کی۔خورشید قصوری کے بقول اسرائیل نے اس سے پہلے جنرل ضیاء الحق کے دور میں افغان جنگ کے لیے اسلحہ دیا تھا۔ جنرل ضیاء الحق نے اسرائیل سے اسلحہ خوشی خوشی لے لیا تھا اور انہیں ہدایت کی تھی کہ اسلحے کے ڈبوں پر اسرائیلی پرچم کا نشان واضح نہ کیا جائے۔خورشید قصوری کے بقول اس وقت اسرائیلی وزیراعظم شیرون غزہ سے انخلا کر رہے تھے اور ساری اسلامی دنیا میں اس اقدام کا خیر مقدم کیا جا رہا تھا۔ پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ اور حکومت ایک ایسے موقع کی تلاش میں تھی، جس کے ذریعے یہ پیغام پہنچایا جا سکے اور یہی ایک مناسب وقت جانا گیا۔خورشید قصوری وجوہات بیان کرتے ہوئے بتاتے ہیں کہ یہ دورہ بنیادی طور پر پاکستان کی قومی سلامتی کی ضروریات کو مدنظر رکھتے ہوئے پلان کیا گیا تھا۔ ان دنوں امریکہ بھارت کے ساتھ سول نیوکلیئر معاہدہ کرنے جا رہا تھا۔ پاکستان بھی ایسا معاہدہ چاہتا تھا لیکن امریکہ کی یہودی لابی کی طرف سے پاکستان کو مخالفت کا سامنا تھا۔ اس معاملے کو نیوٹرالائز کرنے کے لیے پاکستان کی حکومت نے اعلی ترین سطح پر اس رابطے کا فیصلہ کیا تاکہ پاکستان کے مفادات کا تحفظ ممکن ہو سکے۔ یہ وہ دور تھا، جب پاکستان دشمنی کی وجہ سے بھارت اور اسرائیل کی قربتیں بڑھ رہی تھیں اور دونوں ممالک کے مابین دفاعی تعاون بڑھنے سے پاکستان کو خطرات لاحق تھے۔ اس دورے سے پہلے فلسطین کے صدر کو اعتماد میں لیا گیا تھا جبکہ سعودی عرب کو بھی اس سے باخبر رکھا گیا تھا۔خیال رہےکہجدید دنیاکی سفارتکاری میں روزبروز تبدیلیاں رونماہورہی ہیں مگر پاکستان حالات و واقعات کی نزاکت کو مد نظر رکھ کر اپنی خارجہ پالیسی ترتیب دیتا ہے جس کی وجہ سے پاکستان کے اندر اور باہر تنقید کا طوفان کھڑا ہوجاتاہے حال ہی میں کچھ پاکستانیو کے دورہ اسرائیل کا انکشاف ہوا تو موجودہ حکومت ارسطو نما وزراء نے اپنی اپنی دکانداری چمکاتے ہوئے ایسی کسی خبر کو ماننے سے انکار کر دیا وہ تو بھلا ہو اسرائیلی صدر جس نے سچ بولا کہ پاکستانیو کےوفد سے ملاقات پر وہ خود ابھی تک حیران وپریشان ہیں۔اسرائیل نے عرب ممالک کے ساتھ 1967 میں ہونے والی جنگ کے بعد مشرقی یروشلم کو اپنا حصہ بنایا تھا، بین الاقوامی سطح پر اس الحاق کو تسلیم نہیں کیا جاتا۔اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات رکھنے والے ممالک کے سفارتخانے تل ابیب میں ہیں۔براعظم جنوبی امریکا میں واقع ملک سورینام جلد ہی امریکا، گوئٹےمالا، ہنڈوراس اور کوسوو کی طرح یروشلم میں اپنا سفارتخانہ قائم کرے گا۔سورینام کے وزیر خارجہ البرٹ کامدین نے اعلان کیا ہے کہ جلد یروشلم میں سفارتخانہ کھولا جائے گا، یہ اعلان انہوں نے اپنے اسرائیلی ہم منصب یائیر لاپد سے ملاقات کے دوران کیا۔سعودی عرب اور اسرائیل کے درمیان باضابطہ طور پر پہلا معاہدہ طے ہونے کے امکانات ہیں۔ اسرائیلی میڈیا کی رپورٹ کے مطابق اسرائیل بحیرہ احمر میں دو جزائر کی بین الاقوامی حیثیت کو تبدیل کرنے کی سعودی اپیل پر غور کر رہا ہے۔دونوں ممالک کے درمیان تعلقات میں یہ پیشرفت اس وقت سامنے آئی ہے جب پہلے سے ہی ریاض اور یروشیلم کی جانب سے تعلقات کو بہتر بنانے کے لیے چھوٹے چھوٹے اقدامات اُٹھائےجانے کی خبریں بین الاقوامی میڈیا پر گردش کررہی ہیں۔ رپورٹ کے مطابق، امریکا سعودی عرب اور اسرائیل کے درمیان اس معاہدے کو طے کروانے کی کوشش کر رہا ہے، امریکا کی توجہ بحیرہ احمر(Red Sea) میں واقع تیران اور صنافیر جزائر کی خود مختاری مصر سے سعودی عرب کو منتقل کرنے پر مرکوز ہے۔اسرائیلی وزیر خارجہ یائر لاپیڈ کا کہنا ہے کہ اگر کسی معاہدے پر دستخط کردیئے جاتے ہیں تو یہ حیرت انگیز اعلان نہیں ہوگا، جیسا کہ متحدہ عرب امارات اور بحرین کے ساتھ ہونے والے سابقہ معاہدوں کے وقت ہوا تھا۔یائر لاپیڈ نے 2020ء میں امریکا میں دستخط شدہ ابراہیم معاہدے کے حوالے سے کہا کہ ’’یہ اس طرح نہیں ہوگا جیسا کہ پچھلی بار ہوا تھا کہ ہم ایک صبح اچانک نہیں اٹھیں گے اور یہ حیرت انگیز امر ہوجائے گا۔‘‘انہوں نے کہا کہ اسرائیل امریکا اور خلیجی ممالک سے مل کر سعودی عرب کے ساتھ تعلقات کو معمول پر لانے کے مقصد سے کام کر رہا ہے ادھردفتر خارجہ نے حال ہی میں ایک وفد کے اسرائیل کے دورے پر وضاحت جاری کرتے ہوئے دو ٹوک الفاظ میں سرکاری وفد یا حکومتی اجازت کے تاثر کو مسترد کردیا۔دفتر خارجہ کے ترجمان زاہد حفیظ نے اپنے بیان میں دوٹوک الفاظ میں کسی وفد کے دورہ اسرائیل کے حوالے سے تاثر کو مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ ایک غیر ملکی فلاحی تنظیم جو پاکستان میں موجود نہیں ہے کی جانب سے اس دورے کا اہتمام کیا گیا۔دفتر خارجہ نے واضح کیا کہ فلسطین کے مسئلے پر پاکستان کی پوزیشن واضح اور صاف ہے جس میں کوئی تبدیلی نہیں کی گئی، جبکہ اس پالیسی پر مکمل قومی اتفاق رائے ہے اسرائیل کے صدر اسحاق ہرتصوغ نے تصدیق کی تھی کہ دو ہفتے قبل جنوبی ایشیا سے ایک وفد نے ہماری سرزمین پر مجھ سے ملاقات کی تھی، وفد میں 2 پاکستان نژاد امریکی شہری بھی شامل تھے۔عالمی اقتصادی فورم میں گفتگو کے دوران اسرائیلی صدر اسحاق ہرتصوغ نے ایک پاکستانی وفد سے ملاقات کی تصدیق کی تاہم انھوں نے وفد میں شامل افراد کی شناخت ظاہر نہیں کی تھی۔اسرائیلی صدر نے مزید بتایا کہ پاکستانی وفد سے ملاقات 2 ہفتے قبل ہوئی تھی۔ وفد میں دو ایسے پاکستانی شہری بھی شامل تھے جو مستقل طور پر امریکا میں مقیم ہیں لیکن انھیں پاکستانی ہونے پر فخر ہے۔ اسرائیلی صدر اسحاق ہرتصوغ کا کہنا تھا کہ پاکستانی وفد سے ملاقات بے حد خوش آئند رہی۔ مجھے خوشگوار حیرت بھی ہوئی کیوں کہ اس سے قبل کبھی پاکستانی وفد سے اسرائیل میں ملاقات نہیں ہوئی تھی۔ قبل ازیں پاکستان نژاد امریکی شہری انیلا احمد نے 12 مئی کو اسرائیلی صدر کے ساتھ ملاقات کی تصویر ٹوئٹر پر شیئر کی تھی۔ جس میں وہ اپنے والد قطب الدین احمد کی تحریک پاکستان اور قائد اعظم پر لکھی گئی کتاب اسرائیلی صدر کو پیش کر رہی ہیں۔سینیٹ اجلاس میں اسرائیل جانے والے صحافی کی شہریت ختم کرنے کا مطالبہ کیا گیا ہے۔ سینیٹ کے اجلاس میں جماعت اسلامی کے سینیٹر مشتاق احمد نے نقطہ اعتراض میں کہا کہ جو پاکستانی اسرائیل کے دورے پر گئے اس پر ایوان میں اعتماد میں لیا جائے، احمد قریشی جو پاک فوج کے ادارے کے پروجیکٹ پر کام کرتے ہیں وہ بھی اسرائیل گئے ہیں، جو بھی اسرائیل گئے ہیں ان کی شہریت ختم کی جائے۔وزیرقانون اعظم نذیر تارڑ کا کہنا تھا کہ ہم اخباری خبر پر کوئی بات نہیں کرسکتے، میں وزارت خارجہ سے کنفرم کرکے ایوان کو آگاہ کروں گا۔سینیٹ میں قائد خزب اختلاف ڈاکٹر شہزاد وسیم کا کہنا تھا کہ پاکستان کے پاسپورٹ پر واضح لکھا ہے کہ آپ اس پاسپورٹ پر اسرائیل کا دورہ نہیں کرسکتے، امپورٹڈ حکومت امریکا اور اسرائیل کی خوشنودی پر لگے ہوئے ہیں، اور پی ٹی وی کا ایک ملازم احمد قریشی بھی اسرائیل گیا ہے۔ ٹوئٹر پر سابق وفاقی وزیر شیریں مزاری نے پی ٹی وی کے اینکر وقار قریشی کی وفد میں شمولیت پر تنقید کرتے ہوئے لکھا تھا کہ سرکاری ٹی وی کے اینکر کو ایسا کرنا زیب نہیں دیتا۔جس پر اینکر وقار قریشی نے ردعمل دیتے ہوئے لکھا تھا کہ شیریں مزاری کے اُس وقت کے باس اور سابق وزیر خارجہ رضا قصوری نے بھی ترکی میں اسرائیلی وفد سے ملاقات کی تھی۔سوشل میڈیا پر دستیاب معلومات کے مطابق اس وفد کو اسرائیلی حمایت یافتہ ادارے ’’شراکہ‘‘ نے اسپانسر کیا تھا۔ شراکہ نے بھی اپنے آفیشل اکاؤنٹ سے ملاقات کی تصدیق کی تھی۔ اس وفد میں جنوبی ایشیا سے تعلق رکھنے والے مسلمان اور سکھ شامل تھے۔واضح رہے کہ گزشتہ برس جون میں اُس وقت کے وزیر اعظم عمران خان کے معاون خصوصی ذلفی بخاری کی اسرائیل کے دورے کی خبریں بھی زیر گردش رہی تھیں تاہم وزارت خارجہ نے ان خبروں کی تردید کی تھی۔ دسمبر 2019 تک اسرائیل کے 193 اقوام متحدہ کے رکن ممالک میں سے 162 کے ساتھ سفارتی تعلقات تھے بالترتیب 1979 اور 1994 میں امن معاہدوں پر دستخط کرنے کے بعد اسرائیل اپنے دو عرب ہمسایہ ممالک مصر اور اردن کے ساتھ مکمل سفارتی تعلقات برقرار رکھے ہوئے ہے۔ متحدہ عرب امارات اور اسرائیل کے مابین ایک امن معاہدے کا اعلان 13 اگست 2020 کو کیا گیا تھا ، جس میں متحدہ عرب امارات سے عشروں کی عدم منظوری کے کئی دہائیوں کا خاتمہ ہوا تھا۔ اقوام متحدہ کے اکتیس ممبر ممالک نے اسرائیل کو تسلیم نہیں کیا۔ ان میں عرب لیگ کے 22 ارکان میں سے 19: الجیریا ، بحرین ، کوموروس ، جبوتی ، عراق ، کویت ، لبنان ، لیبیا ، موریطانیہ ، مراکش ، عمان ، قطر ، سعودی عرب ، صومالیہ ، سوڈان ، شام ، تیونس اور یمن شامل ہیں۔ مزید 9 تنظیم اسلامی تعاون تنظیم کے ارکان ہیں: افغانستان ، بنگلہ دیش ، برونائی ، انڈونیشیا ، ایران ، ملائیشیا ، مالی ، نائجر اور پاکستان ۔ دوسرے ممالک جو اسرائیل کو تسلیم نہیں کرتے ہیں ان میں بھوٹان ، کیوبا اور شمالی کوریا شامل ہیں۔ اسرائیل متعدد اقوام متحدہ اور دیگر بین الاقوامی تنظیموں کا رکن ہے۔امریکہ کے ساتھ قریبی دوستی بھی کئی دہائیوں سے اسرائیلی خارجہ پالیسی کا ایک رکن تھا۔ 1948 میں اسرائیل ریاست کے قیام سے لے کر 1979 میں ایرانی انقلاب اور پہلوی خاندان کے خاتمے تک اسرائیل اور ایران کے درمیان قریبی تعلقات برقرار رہے۔ ایران دوسرا مسلم اکثریتی ملک تھا جس نے ترکی کے بعد اسرائیل کو ایک خود مختار قوم کے طور پر تسلیم کیا۔ 20 ویں صدی کے وسط میں ، اسرائیل نے افریقہ میں وسیع پیمانے پر غیر ملکی امداد اور تعلیمی پروگرام چلائے ، جس سے زراعت ، پانی کے انتظام اور صحت کی دیکھ بھال کے ماہرین بھیجے گئے۔ چین دنیا کے ان چند ممالک میں سے ایک ہے جس نے بڑے پیمانے پر اسرائیل اور مسلم دنیا دونوں کے ساتھ باہمی تعلقات قائم رکھے ہیں ، اور اس کے عالمی اثر و رسوخ کی وجہ سے اسرائیل کی خارجہ پالیسی میں اہم ہے جو اسرائیل کے عملی معاشی انتظام ، سیاسی استحکام کے ساتھ ضم ہوتا ہے۔ ، نیز مشرق وسطی میں اس کی علاقائی اسٹریٹجک اہمیت، سیاسی استحکام کے ساتھ ضم ہوتا ہے۔اسرائیل اقوام متحدہ کی متعدد ایجنسیوں کا رکن ہے ، جن میں اقوام متحدہ کے ہائی کمشنر برائے مہاجرین (یو این ایچ سی آر) اور فوڈ اینڈ ایگریکلچرل آرگنائزیشن (ایف اے او) شامل ہیں۔ اسرائیل دوسری بین الاقوامی تنظیموں جیسے بین الاقوامی جوہری توانائی ایجنسی (IAEA) اور عالمی ادارہ صحت (WHO) میں بھی حصہ لیتا ہے۔ اسرائیل نے اقوام متحدہ کی تعلیمی ، سائنسی اور ثقافتی تنظیم (UNESCO) کو 2019 میں امریکا کے ساتھ مربوط اقدام میں چھوڑ دیا۔1948 میں اسرائیل ریاست کے قیام کے بعد ، اسرائیل کو عرب لیگ کے بائیکاٹ کا نشانہ بنایا گیا اور سفارتی طور پر ریاست کو الگ تھلگ کرنے کی کوشش کی گئی۔ 2020 تک ، اسرائیل کے اقوام متحدہ کے دیگر 192 ممبر ممالک میں سے 162 کے ساتھ غیر رکن ہولی سی (ویٹیکن سٹی) اور یوروپی یونین کے ساتھ سفارتی تعلقات ہیں۔ کچھ ریاستیں اسرائیل کو بطور ریاست تسلیم کرتی ہیں ، لیکن سفارتی تعلقات نہیں رکھتے ہیں۔ متعدد ممالک نے ایک بار اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات استوار کیے تھے ،ترکی پہلی مسلم اکثریتی قوم تھی جس نے یہودی ریاست کے اعلان (28 مارچ 1949) کے صرف ایک سال بعد [46] ریاست اسرائیل کو باضابطہ طور پر تسلیم کیا۔ اسرائیل ترکی کو ہتھیاروں کا بڑا سپلائیر تھا۔ ترکی اور اسرائیل کے مابین فوجی ، اسٹریٹجک اور سفارتی تعاون کو دونوں ممالک کی حکومتوں نے اعلی ترجیح دی ، جس نے مشرق وسطی میں علاقائی عدم استحکام کے حوالے سے خدشات کو مشترک کیا۔پاکستان اور اسرائیل کے تعلقات ایک حساس مسئلہ ہے۔اکستان کے عوام کی امنگوں کے برخلاف کوئی سیاسی جماعت اسرائیل کے ساتھ تعلقات استوار کرنے کا رسک نہیں لے سکتی۔ اسرائیلی صدر کے اس حالیہ بیان کے بعد سوشل میڈیا پر جہاں صحافی احمد قریشی کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا ہے وہیں اس بارے میں بھی سوال کیے جا رہے ہیں کہ پاکستان کے پاسپورٹ پر یہ ہدایات واضح طور پر درج ہیں کہ اس پاسپورٹ پر اسرائیل کا دورہ نہیں کیا جا سکتا تو پھر پاکستانی شہری اسرائیل کیسے پہنچے۔ دوسری جانب پاکستان تحریک انصاف اور مسلم لیگ نون سے تعلق رکھنے والے بہت سے صارفین اس دورے کو ایک دوسرے کی جماعت پر الزام تراشی کے طور پر استعمال کرتے نظر آ رہے ہیں۔اس دورے پر تنقید کی حالیہ لہر کے بعد وفد میں شامل انیلا علی نے خاصے غصے کا اظہار اور عمران خان کو مخاطب کرتے ہوئے لکھا: ’ہمارا گروپ پاکستانی امریکی بین المذاہب خواتین رہنماؤں پر مشتمل تھا۔ برائے مہربانی پاکستانیوں میں غلط معلومات پھیلانے کے لیے ہمیں ایک ہتھیار کے طور پر استعمال کرنا بند کریں۔ اپنی سیاسی لڑائیاں خود لڑیں۔ جیسا کہ ملک ریاض ٹیپ، ڈاکٹر مزاری کا معاملہ اور پی ٹی آئی مارچ کی ناکامی۔‘

انھوں نے مزید لکھا: ’امریکی مسلم اور امریکی شہری ہونے کی حیثیت سے پاکستان، بنگلہ دیش اور ملائیشیا سے تعلق رکھنے والے افراد اسرائیل اس لیے گئے تاکہ مسلمانوں اور یہودیوں میں امن پیدا کیا جا سکے۔ غلط معلومات مت پھیلائیں۔ اللہ سچائی کے ساتھ کھڑا ہوتا ہے۔‘ پاکستان میں اسرائیل کے خلاف پائی جانی والی رائے کے ہوتے ہوئے ہر حکومت کو اسرائیل کو تسلیم نہ کرنے جیسے دباؤ کا سامنا رہتا ہے اور اگر حکمران اس حوالے سے کوئی نرمی برتیں تو انھیں سخت تنقید کا سامنا بھی کرنا پڑتا ہے۔ماضی میں پاکستانی حکام پر خفیہ طور پر اسرائیل سے روابط کا الزام بھی لگتا رہا ہے۔پاکستان میں اسرائیل سے متعلق تعلقات میں بہتری پیدا کرنے کی تجاویز سابق فوجی صدر پرویز مشرف کے دور میں سامنے آئیں تو عوام نے سابق صدر پر بھی اسرائیل سے دوستی کرنے جیسے الزامات عائد کیے۔سابق سفیر آصف درانی نے 16 مئی کو بی بی سی کو بتایا تھا کہ اسرائیل کے ساتھ پاکستان کا براہ راست کوئی تنازعہ نہیں اور نہ اسرائیل کبھی پاکستان کے خلاف براہ راست بیانات دیتا ہے۔ ان کے مطابق اچھے تعلقات کا فائدہ ہی ہوتا ہے۔آصف درانی کے مطابق انڈیا نے سنہ 1992 میں اسرائیل کے ساتھ تعلقات کو مزید مربوط بنایا اور اگر اس وقت پاکستان بھی تعلقات بہتر کر لیتا تو اس کا اچھا اثر پڑنا تھا۔سابق سفیر کے مطابق 57 اسلامی ممالک میں سے 36 کے اسرائیل کے ساتھ اچھے سفارتی تعلقات قائم ہیں۔