قائمہ کمیٹی برائے تعلیم نے فیڈرل یونیورسٹی (ترمیمی) بل2022منظور کر لیا

 
0
67

سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے فیڈرل ایجوکیشن اینڈ پروفیشنل ٹریننگ نے فیڈرل یونیورسٹی (ترمیمی) بل2022منظور کر لیا۔کمیٹی کا اجلاس آج یہاں پارلیمنٹ ہاس میں سینیٹر عرفان صدیقی کی زیر صدارت منعقد ہوا۔

سینیٹ کی باڈی نے “فیڈرل یونیورسٹی (ترمیمی) بل 2022” کے عنوان سے بل متفقہ طور پر منظور کر لیا۔ بل کی تحریک پیش کرنے والی سینیٹر سیمی ایزدی نے کمیٹی کو آگاہ کیا کہ بنیادی مقصد وفاقی علاقے میں واقع تمام سرکاری اور نجی یونیورسٹیوں کے لیے انٹرن شپ کو لازمی نصاب کا حصہ بنانا ہے۔

مزید برآں، کمیٹی نے سینیٹر بہرامند خان تنگی کی طرف سے بہاالدین زکریا یونیورسٹی میں قانون کے طلبا کو درپیش امتحانات کے حوالے سے اٹھائے گئے معاملے پر غور کیا۔ BZU کے VC منصور اکبر کنڈی نے کمیٹی کو بتایا کہ معاملہ زیر سماعت ہے اور یونیورسٹی اس وقت تک کوئی تاریخ دینے سے قاصر ہے جب تک اس معاملے کا فیصلہ نہیں ہو جاتا۔ وزارت قانون کے حکام نے بتایا کہ دوسرے اور تیسرے سال کے طلبا کے امتحانات پر کوئی پابندی نہیں ہے اور بار صرف سال اول کے سپلیمنٹری طلبا تک محدود ہے۔ سینیٹر عرفان صدیقی نے تمام اراکین کی رضامندی سے قانون کے طلبا کا امتحان 15 دسمبر 2022 تک کرانے کا حکم دیا، جس پر سپریم کورٹ کی کوئی پابندی نہیں ہے۔

اس کے علاوہ علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی کے وائس چانسلر کی جانب سے سینیٹ کمیٹی کو یونیورسٹی کی ذمہ داریوں، انتظامی کنٹرول، فیکلٹی اور فیس اسٹرکچر کے حوالے سے بھی بریفنگ دی گئی۔ ڈاکٹر ضیا القیوم نے کمیٹی کو بتایا کہ ایچ ای سی کی جانب سے دو سالہ بی اے پروگرام کی بندش کے باوجود یونیورسٹی خود کفیل ہے جس میں یونیورسٹی سالانہ 1.5 لاکھ طلبا کو داخلہ دیتی ہے۔ چیئرمین کمیٹی سینیٹر عرفان صدیقی کا کہنا تھا کہ پالیسی کو لمحہ بہ لمحہ نافذ نہیں کیا جانا چاہیے بلکہ اسے بتدریج نافذ کیا جانا چاہیے۔

انہوں نے مزید کہا کہ جو پالیسی 1.5 لاکھ طلبا کو سپیکٹرم سے باہر کرتی ہے وہ پالیسی بھی نہیں ہے اور انہوں نے وزارت کو مشورہ دیا کہ وہ اس سلسلے میں ایچ ای سی اور اے آئی یو کے ساتھ کوآرڈینیشن کرے اور 15 دن کے اندر رپورٹ پیش کرے۔ چیئر نے ایچ ای سی کے حکام کو یہ بھی ہدایت کی کہ وہ رپورٹ پیش کریں کہ اے آئی یو کو فنڈز کیوں فراہم نہیں کیے جا رہے ہیں۔ انہوں نے وائس چانسلر سے آئندہ اجلاس میں بی اے پروگرام کی فیس میں 9000 روپے سے 19000 روپے تک اچانک اضافے کے بارے میں کمیٹی کو مطمئن کرنے کو بھی کہا۔