پاکستان اور بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کے درمیان ہونے والے پالیسی مذاکرات میں مشکل فیصلوں کا امکان ہے۔
ذرائع نے بتایا ہے کہ آئی ایم ایف سے پالیسی مذاکرات میں پاکستان کو سخت سوالوں کے جواب دینے ہیں۔
پاکستان کو 30 جون تک غیر ملکی زرِ مبادلہ کے ذخائر 16 ارب 20 کروڑ ڈالرز تک لانے ہوں گے، پاکستان کو بتانا ہو گا کہ یہ رقم کہاں سے آئے گی۔
بجٹ خسارہ، بیرونی فنانسنگ، بجٹ فریم ورک اور اہم امور پر پالیسی مذاکرات ہوں گے، پاکستان کو درآمدات پر پابندیاں فوری طور پر ختم کرنا ہوں گی۔
ایل سیز کھولنے کے لیے 4 ارب ڈالرز فوری فراہم کرنا ہوں گے، بجٹ خسارہ کم کرنے کے لیے 600 ارب روپے سے زائد اخراجات کم کرنے کے اقدامات پر بات ہو گی۔
ترقیاتی بجٹ پر 50 فیصد سے زائد کی کٹوتی جبکہ ترقیاتی بجٹ 727 کی بجائے 400 ارب روپے سے زائد خرچ کرنے کی تیاری کی جا رہی ہے۔
غیر ترقیاتی اخراجات میں بھی خاطر خواہ کمی لائی جائے گی، غیر ضروری منصوبوں کی فنڈنگ روکنے پر بھی بات چیت ہو گی۔
آئی ایم ایف سے مذاکرات کے دوران رواں مالی سال بجٹ سے سبسڈی جاری کرنے میں قابلِ ذکر کمی پر گفتگو ہو گی، سبسڈی کم کرنے پر بجلی اور گیس کے ریٹ تقریباً 50 فیصد بڑھانا ہوں گے۔
تمام ترقیاتی منصوبوں کی مرحلہ وار مانیٹرنگ ویب سائٹ پر پبلک کی جائے گی، نج کاری پروگرام فعال بنا کر ریاستی ملکیتی اداروں کو فعال یا فروخت کرنے کا لائحہ عمل طے ہو گا۔
مذاکرات کے دوان احتساب کا عمل مؤثر اور شفاف بنانے کے لیے قانون سازی زیرِ بحث آئے گی، غیر ممالک سے قرضہ لینے اور واپس کرنے کی نئی پالیسی طے ہو گی۔
پاکستان کے آئی ایم ایف سے گردشی قرضے کی ادائیگی کے لیے بنیادی ڈھانچے کی تشکیل پر مذاکرات ہوں گے، جن میں بجلی کی رسد اور کھپت کی بنیاد پر بلنگ یقینی بنانے کی پالیسی طے ہوگی۔
وزارتِ خزانہ کے ذرائع نے یہ بھی بتایا ہے کہ بینکوں سے روپے میں قرضہ لینے اور واپس کرنے کا نیا طریقہ کار طے کیا جائے گا۔