اسلام آباد(ٹی این ایس)نئی مردم شماری کی متفقہ منظوری سے آئندہ انتخابات ملتوی ہونے کا خدشہ؟

 
0
127

نئی مردم شماری کی متفقہ منظوری سے آئندہ انتخابات ملتوی ہونے کا خدشہ بڑھ گیا ہے,
خیال رہے کہ الیکشن کمیشن کو انتخابی فہرستوں کو اپ ڈیٹ کرنے اور دیگر متعلقہ اقدامات بھی اٹھانا ہوں گے، جس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ پوری مشق آئندہ برس مارچ یا اپریل تک ملتوی ہوسکتی ہے,
دلچسپ حقیقت یہ ہے کہ مسلم لیگ (ن) کی زیر قیادت وفاقی حکومت اور الیکشن کمیشن آف پاکستان دونوں نے نئی حلقہ بندیوں کے بارے میں اپنے اعلان کردہ مؤقف کو تبدیل کر دیا ہے،
جس کے سبب اگلے عام انتخابات 2023 سے آگے بڑھ کر ممکنہ طور پر 2024 کے موسم بہار تک ملتوی ہونے کا امکان پیدا ہوگیا ہے۔
خیال رہے کہ مشترکہ مفادات کونسل کی جانب سے مردم شماری کے حتمی نتائج کی منظوری کے بعد الیکشن کمیشن کے مؤقف کے بارے میں سوال کے جواب میں الیکشن کمیشن کے ایک سینیئر عہدیدار نے بتایا کہ الیکشن کمیشن اب قانونی طور پر نئی حلقہ بندی کرنے کا پابند ہے جس میں کم از کم 4 ماہ لگیں گے ۔
یاد رہےکہ 26 جولائی کو پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں نگران حکومت کو زیادہ اختیارات دینے کا بل منظور کیا گیا تو وزیر اقتصادی امور سردار ایاز صادق جو انتخابی اصلاحات کے پینل کے سربراہ بھی ہیں انہوں نے اس تاثر کو یکسر مسترد کر دیا کہ یہ اقدام ایک طویل وقت کے لیے نگران حکومت قائم کرنے کے لیے اٹھایا گیا ہے۔ اس طرح 20 جولائی کو الیکشن کمیشن کے اہم عہدیداروں نے بھی عام انتخابات میں کسی تاخیر کو مسترد کرتے ہوئے کہا تھا کہ اگر 12 اگست کو مدت ختم ہونے سے پہلے قومی اور 2 صوبائی اسمبلیاں تحلیل نہ کی گئیں تو انتخابات 11 اکتوبر سے پہلے کرائے جائیں گے ۔
الیکشن کمیشن کے سیکریٹری عمر حامد خان اور اسپیشل سیکریٹری ظفر اقبال حسین نے پریس کانفرنس میں دعویٰ کیا تھا کہ الیکشن کمیشن 60 روز یا 90 روز کے اندر انتخابات کرانے کے لیے پوری طرح تیار ہے۔
انہوں نے انتخابی مشق سے قبل حلقوں کی نئی حلقہ بندی کے امکان کو بھی مسترد کر دیا تھا اور کہا تھا کہ انتخابات پچھلی مردم شماری اور حلقہ بندی کے تحت کرائے جائیں گے۔
عام انتخابات کے لیے الیکشن کمیشن کے تیار کردہ ایکشن پلان کے مطابق قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے لیے 2023 کے عام انتخابات انتخابات کمیشن کی جانب سے گزشتہ سال 5 اگست کو شائع کردہ حلقہ بندیوں کے مطابق کرائے جائیں گے، تاہم اب مشترکہ مفادات کونسل کے اجلاس میں مردم شماری کے حتمی نتائج کی منظوری کے بعد یہ تمام منظرنامہ بدل گیا ہے۔
آئین کے آرٹیکل 51(3) کے تحت باضابطہ طور پر شائع ہونے والی نئی مردم شماری کے مطابق ہر صوبے اور وفاق کو اس کی آبادی کی بنیاد پر قومی اسمبلی میں نشستیں مختص کی جاتی ہیں، جس کا مطلب یہ ہے کہ مقننہ کی ساخت میں کسی تبدیلی جو کہ نئی حلقہ بندی کے بعد ضروری ہے اسکے لیے آئینی ترمیم کی ضرورت ہوگی، جوکہ اسمبلی کی غیر موجودگی میں ممکن نہیں ہوگی۔
آئین کے آرٹیکل 51(5) میں کہا گیا ہے کہ قومی اسمبلی کی نشستیں ہر صوبے، وفاق اور دارالحکومت کے لیے آبادی کی بنیاد پر سرکاری طور پر شائع ہونے والی آخری مردم شماری کے مطابق مختص کی جائیں گی۔
حتیٰ کہ اگر موجودہ اسمبلی کا سیشن جاری بھی ہے تو بھی اس کی موجودہ طاقت آئین میں ترمیم منظور کرنے کے لیے ناکافی ہے کیونکہ پی ٹی آئی کے اراکین اسمبلی ایوان میں موجود نہیں ہیں،
اس کا مطلب ہے کہ 342 کے ایوان میں آئینی ترمیم منظور کرنے کے لیے کم از کم 228 ارکان کی منظوری ضروری ہے، موجودہ اسمبلی میں اراکین کی تعداد اس سے واضح طور پر کم ہے۔
اس لیے پنجاب اور خیبرپختونخوا کی طرح وفاق، سندھ اور بلوچستان میں بھی ایک توسیعی مدت کے لیے نگران سیٹ اپ قائم کیا جائے گا۔


یاد رہےکہ الیکشنز ایکٹ کے سیکشن 17(1) کے تحت الیکشن کمیشن کو قومی اسمبلی، ہر صوبائی اسمبلی اور مقامی حکومتوں کے انتخابات کے لیے علاقائی حلقوں کی حلقہ بندی کرنی ہے اور ہر مردم شماری کے نتائج شائع ہونے کے بعد نئے سرے سے حلقوں کی حلقہ بندی کرنی ہوتی ہے۔ الیکشن کمیشن کو انتخابی فہرستوں کو اپ ڈیٹ کرنے اور دیگر متعلقہ اقدامات بھی اٹھانا ہوں گے، جس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ پوری مشق آئندہ برس مارچ یا اپریل تک ملتوی ہوسکتی ہے۔
واضح رہےکہ مشترکہ مفادات کونسل (سی سی آئی) نے ساتویں مردم شماری کی متفقہ طور پر منظوری دے دی ہے جس کے بعد رواں برس شیڈول انتخابات کے 6 ماہ تک التوا کا خدشہ پیدا ہو گیا ہے۔ وزیراعظم شہباز شریف کی زیرِ صدرات مشترکہ مفادات کونسل کا 50واں اجلاس منعقد ہوا جس میں مردم شماری 2023 کے نتائج کی منظوری دی گئی۔چاروں وزرائے اعلیٰ اور تمام سیاسی جماعتوں کے نمائندوں نے مردم شماری کے نتائج پر مکمل اتفاق کیا، اجلاس میں بلوچستان عوامی پارٹی کے ڈاکٹر خالد مگسی، متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) پاکستان اور پاکستان پیپلزپارٹی (پی پی پی) کے قمر زمان کائرہ نے بھی دیگر ارکان کے علاوہ خصوصی دعوت پر اجلاس میں شرکت کی تھی وزیراعظم محمد شہباز شریف کی زیر صدرات مشترکہ مفادات کونسل (سی سی آئی) کا 50 واں اجلاس منعقد ہوا جس میں ساتویں مردم شماری کے نتائج کی متفقہ طور پر منظوری دے دی گئی جو کہ ملک کی پہلی ڈیجیٹل مردم شماری بھی ہے۔ چاروں وزرائے اعلیٰ، تمام سیاسی جماعتوں کے نمائندوں نے مردم شماری کے نتائج سے مکمل اتفاق کیا۔ باپ پارٹی کے رہنما ڈاکٹر خالد مگسی، ایم کیوایم اور پاکستان پیپلز پارٹی کے رہنما قمر زمان کائرہ، سی سی آئی کے دیگر ارکان نے خصوصی دعوت پر اجلاس میں شرکت کی۔اجلاس کے دوران وزارت منصوبہ بندی اور پاکستان ادارہ شماریات کے حکام نے مردم شماری کے نتائج پر بریفنگ دی۔ ساتویں مردم شماری کے نتائج کے مطابق پاکستان کی موجودہ مجموعی آبادی 241.49 ملین ہے، ملکی آبادی کی سالانہ شرح نمو 2.55 فیصد رہی، بلوچستان کی آبادی کی شرح نمو باقی صوبوں سے زیادہ یعنی 3.2 فیصد رہی۔ اجلاس کو بتایا گیا کہ 2022ء میں مردم شماری کے لیے سینسس ایڈوائزری کمیٹی تشکیل دی گئی جو کہ معروف و مایہ ناز شماریات کے ماہرین پر مشتمل ہے اور ڈپٹی چیئرمین پلاننگ کمیشن اس کے صدر ہیں، انہوں نے سینسس مانیٹرنگ کمیٹی کے قیام اور سینسس ایڈوائزری کمیٹی کی سفارشات کی منظوری دی، ملکی تاریخ میں پہلی بار سینسس مانیٹرنگ کمیٹی میں تمام اسٹیک ہولڈرز بشمول صوبائی نمائندگان کی شرکت کو یقینی بنایا گیا۔جلاس کو بتایا گیا کہ ڈیجیٹل مردم شماری کے لیے نادرا نے نہ صرف سافٹ ویئر بلکہ 1 لاکھ 26 ہزار ٹیبلٹس، نیشنل ٹیلی کام کارپوریشن (NTC) نے ڈیٹا انفراسٹرکچر، اسٹوریج اینڈ کمپیوٹنگ کی سہولیات فراہم کیں بلکہ سپارکو نے بلاکس کی تازہ ترین سیٹلائیٹ کی ڈیجیٹل تصاویر مہیا کیں، اس کے علاوہ صوبائی حکومتوں نے 1 لاکھ 21 ہزار اہلکار، مسلح افواج اور قانو ن نافذ کرنے والے اداروں نے اعدادو شمار اکھٹا کرنے والے اہلکاروں کو سکیورٹی فراہم کی۔

بریفنگ میں بتایا گیا کہ ڈیجیٹل مردم شماری 2023ء یکم مارچ 2023ء سے 22 مئی 2023ء تک جاری رہی جبکہ ڈیٹا اکٹھا کرنے کے بعد کا سروے 8 سے 19 جولائی 2023 تک جاری رہا۔

اجلاس کو بتایا گیا 2023ء میں مجموعی طور پر پاکستان کی آبادی 241.49 ملین نفوس ریکارڈ کی گئی، اسی طرح خیبر پختونخوا کی آبادی 40.85 ملین، پنجاب کی آبادی 127.68 ملین، سندھ کی آبادی 55.69 ملین، بلوچستان کی آبادی 14.89 ملین اور اسلام آباد کی آبادی 2.36 ملین ریکارڈ کی گئی۔

اس لحاظ سے پاکستان کی آبادی میں اضافے کی موجودہ سالانہ شرح نمو 2.55 فیصد ہے جبکہ خیبر پختونخواہ میں 2.38 فیصد، پنجاب2.53 فیصد، سندھ 2.57 فیصد اور بلوچستان 3.20 فیصد رہی۔

وزیراعظم نے اجلاس سے خطاب میں کہا کہ مشترکہ مفادات کونسل وفاق کی مضبوطی کے لیے ایک اہم آئینی ادارہ ہے، پاکستان میں پہلی ڈیجیٹل مردم شماری بہترین طور سے مکمل ہوئی جو کہ خوش آئند ہے، صوبائی حکومتوں اور پاکستان ادارہ شماریات نے اس قومی فریضے میں انتہائی اہم کردار ادا کیا۔۔
وزیراعظم کا کہنا تھا کہ وفاقی وزیر منصوبہ بندی احسن اقبال، وزارت کے افسران اور بالخصوص ادارہ شماریات اور گھر گھر جا کر اندراج کرنے والے اہلکار اس ڈیجیٹل مردم شماری کی کامیابی سے تکمیل پر تحسین کے مستحق ہیں۔ پاکستان کی آبادی کے اضافے کا تناسب پاکستان کی معاشی ترقی سے کہیں زیادہ ہے، آبادی میں اضافہ متعدد قسم کی مشکلات پیدا کرتا ہے اور یہ پاکستان میں آئندہ منتخب شدہ حکومت اور مستقبل کے لیے ایک بڑا چیلنج ہے۔ ہمیں نہ صرف آبادی میں اضافہ روکنا ہوگا بلکہ پاکستان کی معاشی ترقی کی رفتار کو بڑھا کر ان چیلنجز پر قابو پانا ہوگا۔وزیراعظم نے اجلاس کے شرکا کا شکریہ ادا کرتے ہوئے اس بات پر زور دیا کہ آبادی میں اضافے کی موجودہ رفتار انتہائی پریشان کن ہے اور ہمارے تمام قومی اداروں اور صوبائی حکومتوں کو آبادی میں اضافہ روکنے کے لیے ہنگامی بنیادوں پر اقدامات کرنے ہوں گے۔
وزیراعظم نے کہا کہ ملک کے محدود وسائل بڑھتی ہوئی آبادی کے لیے ناکافی ہیں، اگر آبادی کی شرح نمو موجودہ رفتار سے جاری رہی تو ہماری تمام تر کاوشوں کے باجود پاکستان میں غربت اور بیروزگاری میں اضافہ ہوگا لہٰذا اپنے محفوظ مستقبل کے لیے ہمیں آبادی میں اضافے پر قابو پانے اور موجودہ آبادی کی ترقی و خوش حالی کے لیے اقدامات کرنے ہوں گے۔وزیراعظم شہباز شریف کا کہنا ہے کہ ہمیں نئی مردم شماری کے تحت ہی الیکشن میں جانا ہے، جب نئی مردم شماری ہوئی ہے تو انتخابات اسی کے تحت ہونے چاہئیں اور الیکشن میں تاخیر کا کوئی جواز نہیں ہے۔فیصلہ آپ کا‘پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے شہباز شریف نے کہا کہ ہمیں نئی مردم شماری کے تحت ہی الیکشن میں جانا ہے، الیکشن میں تاخیر کا کوئی جواز نہیں ہے لیکن انتخابات کا انعقاد الیکشن کمیشن کی صوابدید ہے، لیکن جب نئی مردم شماری ہوئی ہے تو انتخابات اسی کے تحت ہونے چاہئیں۔
نواز شریف کی وطن واپسی کے حوالے سے سوال پر ان کا کہنا تھا کہ نواز شریف جلد تشریف لائیں گے، وہ پاکستان کے باوقار شہری اور تین مرتبہ کے وزیراعظم ہیں، ان کو سازش کے ذریعے نااہل کیا گیا اور ثاقب نثار اس کے سرغنہ ہیں، اگر مسلم لیگ (ن) اور اس کے اتحاد کو مینڈیٹ دیا تو میرے، پارٹی اور عوام کے امیدوار نواز شریف ہوں گے۔


ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ کسی کو گرفتار کرنا میرا کام نہیں ، کسی کا احتساب کرنا میرا کام نہیں ، احتساب کرنا احتساب کے ادارے کا کام ہے، گرفتار کرنا قانونی اور آئینی اداروں کا کام ہے البتہ میری حکومت کی یہ ذمہ داری ہے کہ جو معلومات ان اداروں کو مطلوب ہے وہ انہیں مہیا کرنا میرا فرض ہے، یہ بات طے ہے کہ عمران نیازی نے پاکستان کے اندر چور اور ڈاکو کے بیانیے کی بنیاد رکھی اور پوری سیاسی قیادت اور افسر شاہی کے خلاف اسی بیانیے کو فروغ دیا کہ یہ سب چور ڈاکو ہیں اور میں فرشتہ ہوں، میں ریاست مدینہ کا پیروکار ہوں اور یہ سب ملک کی دولت لوٹ کر باہر لےگئے۔9 مئی کو ملک کے خلاف بغاوت کی گئی اور عمران خان نے ایک جتھے کو بغاوت پر اکسایا، جس کی منصوبہ بندی کر کے اس پر عمل کیا گیا، اس میں چند سو ان کے لوگ تھے، کچھ ریٹائرڈ فوجی تھے، کچھ حاضر سروس فوجی تھے، وہ پاکستان کے خلاف ننگی جارحیت تھی، اب ان کو کیوں گرفتار نہیں کیا گیا تو یہ میرا کام نہیں ہے، قوانین کے تحت جو ادارے ہیں انہوں نے یہ مقدمات چلانے ہیں جو انصاف پر مبنی ہونے چاہئیں۔وزیراعظم نے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ ہم 12 اگست کو حکومت کی مدت مکمل ہونے سے پہلے ہی چلے جائیں گے۔ان کا کہنا تھا کہ ہم نے نگران وزیراعظم کے لیے ایک کمیٹی بنا دی ہے جو تمام حلیف جماعتوں سے رابطے میں ہے، جب تمام حلیف جماعتوں اور میاں نواز شریف سے مشاورت مکمل ہو جائے گی تو میں قائد حزب اختلاف راجا ریاض سے قانون کے مطابق مشاورت کروں گا اور امید ہے کہ ہم دونوں کسی ایک ایسے نیک نام پر متفق ہو جائیں گے جو عبوری حکومت کے تقاضوں کو پورا کر سکے اور پاکستان کی ترقی کی جانب گامزن موجودہ معاشی صورت حال آگے کی جانب لے کر جائے۔وزیراعظم نے کہا کہ گزشتہ 6 سال میں آبادی میں 3.5 کروڑ کا اضافہ ہوا جو باعث فکر ہے، پاکستان کی آبادی کے اضافے کا تناسب پاکستان کی معاشی ترقی سے کہیں زیادہ ہے، آبادی میں اضافہ متعدد قسم کی مشکلات پیدا کرتا ہے، یہ پاکستان میں آئندہ منتخب شدہ حکومت اور مستقبل کے لیے ایک بڑا چیلنج ہے، ہمیں نہ صرف آبادی میں اضافے کو روکنا ہوگا بلکہ پاکستان کی معاشی ترقی کی رفتار کو بڑھا کر ان چیلنجز پر قابو پانا ہوگا۔