اسلام آباد(ٹی این ایس) اقوام متحدہ کے اجلاس میں تنازع کشمیر پر پاکستان کا ٹھوس موقف

 
0
147

………….. پاکستان کے نگران وزیراعظم انوار الحق کاکڑ نےاقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے 78ویں اجلاس میں جموں و کشمیر کے تنازع، علاقائی اور عالمی امور پر پاکستان کا ٹھوس موقف پیش کیا، نگران وزیراعظم انوارالحق کاکڑ نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے 78 ویں اجلاس سے خطاب میں مطالبہ کیا ہے کہ ہندوتوا انتہاپسندی سے متاثر سمیت ہر قسم کی دہشت گردی کا انسداد کیا جائے اور کشمیر کو پاک-بھارت امن کی بنیاد قرار دیا۔

نگران وزیراعظم انوارالحق کاکڑ نے جنرل اسمبلی میں خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ہم جدید تاریخ کے نازک موڑ پر مل رہے ہیں، یوکرین میں تنازع جاری ہے اور دنیا کے دیگر 50 مقامات پر بھی تنازعات ہیں، عالمی طاقتوں کے درمیان کشیدگی بڑھی ہے۔

انہوں نے کہا کہ ایک ایسے وقت میں نئے اور پرانے عسکری بلاکس اور جیو پالیٹکس ہو رہی جب معیشت کو اولیت ملنی چاہیے۔

ان کا کہنا تھا کہ دنیا سرد جنگ کی متحمل نہیں ہوسکتی، اس سے کہیں زیادہ خطرناک چینلجز کا سامنا ہے، جس کے لیے عالمی تعاون اور مشترکہ کارروائیوں کی ضرورت ہے۔انہوں نے کہا کہ عالمی معیشت تنزلی کا شکار ہے، بدترین انٹرسٹ ریٹ کساد بازاری کا باعث ہوسکتی ہے، کوڈ، تنازعات اور موسمیاتی تبدیلی سے کئی ممالک کی معیشت کو تباہ کردیا ہے اور متعدد ممالک دیوالیہ ہونے کے قریب پہنچ گئے ہیں۔

انوارالحق کاکڑ نے کہا کہ غربت اور بھوک میں اضافہ ہوگیا ہے، 3 دہائیوں کی ترقی کے فائدے تنزلی کا شکار ہوگئے ہیں، ڈیولپمنٹ کے لیے ہمیں پائیدار ترقی کے اہداف کا حصول یقینی بنانا ہوگا۔ نگران وزیراعظم نے کہا کہ کشمیر پاکستان اور بھارت کے درمیان امن کی بنیاد ہے، جموں و کشمیر کا تنازع سلامتی کونسل کے پرانے تنازعات میں سے ایک ہے، بھارت نے سلامتی کونسل کی قراردادوں پر عمل درآمد سے گریز کیا ہے، جو کہتی ہیں کہ مقبوضہ کشمیر کا حتمی فیصلہ وہاں کے لوگ اقوام متحدہ کی نگرانی میں رائے شماری کے ذریعے کریں گے۔

انہوں نے کہا کہ 5 اگست 2019 سے بھارت نے غیرقانونی طور پر قبضہ کیے ہوئے جموں و کشمیر میں اپنی فیصلہ مسلط کرنے کے لیے 9 لاکھ فوج تعینات کر رکھی ہے، اس حوالے سے بھارت نے لاک ڈاؤن، کرفیوز نافذ کردیا اور کشمیر کی سیاسی رہنماؤں کو گرفتار کیا، پرامن احتجاج کو طاقت سے دبایا، جعلی انکاؤنٹرز میں معصوم کشمیریوں کو ماورائے قانون قتل کیا گیا۔

ان کا کہنا تھا کہ اقوام متحدہ مقبوضہ کشمیر کے حوالے سے اپنی قراردوں پر عمل درآمد یقینی بنائے، بھارت اور پاکستان میں فوجی مبصرین کو دوبارہ تعینات کردینا چاہیے، عالمی طاقتوں کو چاہیے کہ وہ نئی دہلی کو قائل کریں کہ پاکستان کی اسٹریٹجک اور روایتی ہتھیاروں کے استعمال سے گریز کی پیش کش قبول کرے۔ انوارالحق کاکڑ نے کہا کہ ہمیں بڑھتی ہوئی انتہائی دائیں بازو کے انتہاپسند اور فاشسٹ گروپس سمیت ہر قسم کی دہشت گردی کا بلاامتیاز انسداد کرنا چاہیے، ہندو توا سے متاثر انتہاپسند بھارت کے مسلمانوں اور عیسائیوں کی نسل کشی کی دھمکی دے رہے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ ہمیں ریاستی دہشت گردی کی بھی مخالفت کرنے کی ضرورت ہے، دہشت گردی کی اصل وجہ پکڑ لی جائے، جیسا کہ غربت، ناانصافی اور بیرونی قبضہ شامل ہے اور حقیقی آزادی کی تحریکوں اور دہشت گردی میں فرق کرنے کی ضرورت ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ پاکستان عالمی انسداد دہشت گردی حکمت عملی کے چاروں ستونوں پر متوازن عمل درآمد کے لیے جنرل اسمبلی کی کمیٹی کے قیام کا خیرمقدم کرتا ہے، ہماری تاریخ تعاون سے بھری ہوئی ہے۔ انہوں نے کہا کہ تہذیبوں کا تصادم بڑھانے کے بیانیے سے انسانی ترقی کو بڑی حد تک نقصان ہوا ہے، اس طرح کے خیالات سے انتہاپسندی، نفرت اور اسلاموفوبیا سمیت مذہبی عدم برداشت بڑھی ہے۔

نگران وزیراعظم نے کہا کہ ہمیں وسعت اور زندگی کے انداز پر خوش ہونا چاہیے، باہمی احترام، مذہبی شعائر کی حرمت یقینی بنانا چاہیے۔

ان کا کہنا تھا کہ نائن الیون حملوں کے بعد یہ مسلمانوں کی منفی تصویر کشی، مسلمانوں اور مسلمانوں کی علامتوں پر حملے کرکے تفریق کو فرض کرلیا گیا ہے، جس کی تازہ مثال قرآن پاک کو نذر آتش کرنے کے واقعات ہیں۔

انہوں نے کہا کہ گزشتہ برس اس اسمبلی نے او آئی سی کے توسط سے پاکستان کی تجویز کردہ قرارداد منظور کی تھی اور 15 مارچ کو انسداد اسلاموفوبیا کے طور پر منانے کا اعلان کیا تھا، اسی طرح رواں برس کے اوائل میں ہیومن رائٹس کونسل نے او آئی سی کی قرارداد منظور کی، جس سے پاکستان نے پیش کیا تھا، جس میں ریاستوں پر زور دیا گیا تھا کہ وہ قرآن کو نذر آتش کرنے اور اس طرح کے اقدام کے لیے اکسانے کو غیرقانونی قرار دیا جائے۔

ان کا کہنا تھا کہ ہم ڈنمارک اور سویڈن کی جانب سے کی گئی قانون سازی کا آغاز کرنے کا خیرمقدم کرتے ہیں، پاکستان اور او آئی سی اسلاموفوبیا روکنے کے لیے مزید اقدامات تجویز کرتے ہیں، جس میں نمائندہ خصوصی کی تعیناتی سمیت اسلاموفوبیا ڈیٹا سینٹر کا قیام، متاثرین کو قانونی تعاون اور اسلاموفوبیا جرائم پر سزا کے لیے احتساب کا نظام وضع کیا جائے۔ نگران وزیراعظم انوار الحق کاکڑ نے کینیڈا میں سکھ رہنما کے قتل میں بھارت کے ملوث ہونے پر مذمت کرتے ہوئے کہا کہ بھارت کے ہندوتوا ایجنڈے کے پیچھے چھپی گھناؤنی حقیقت دنیا کو جنگ کے شعلوں کی لپیٹ میں لے سکتی ہے۔ نگران وزیراعظم انوار الحق کاکڑ نے کہا کہ عالمی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کی مینجنگ ڈائریکٹر کو غیر ملکی کرنسی (ڈالر) کی غیر قانونی اسمگلنگ روکنے پر خوش گوار حیرت ہوئی کہ پہلی مرتبہ کسی حکومت نے اس پر جامع کریک ڈاؤن کیا ہے جس سے مارکیٹ میں مصنوعی عدم استحکام ختم ہوا۔

انوارالحق کاکڑ نے کہا کہ آئی ایم ایف سربراہ سے دوران گفتگو یہی پتا لگا کہ ایسے انتظامی معاملات جن میں قانونی طور پر پاکستان کا یہ اختیار ہے کہ وہ اپنی ریگولیٹری انفورسمنٹ کی طرف جائے اور اس میں کبھی بھی انہوں نے دخل اندازی کرنے کی کوشش نہیں کی اور وہ محض اتنا چاہتے ہیں کہ ہماری معیشت ٹھیک اور بحال ہو۔

انہوں نے کہا کہ آئی ایم ایف نے جو پیسہ اس مد میں دیا ہے وہ یقیناً اس کا تحفظ چاہتا ہے اور ہم بذات خود بھی اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ پاکستان کے اصلاحاتی ایجنڈے کو آگے بڑھانا ہے۔

نگران وزیراعظم نے کہا کہ چند مالیاتی اداروں کو پاکستانی معیشت کے حوالے سے کچھ اعتماد حاصل ہوا ہے اور وہ پاکستان کی معیشت کے حوالے سے بڑے مثبت انداز میں کچھ پیش گوئیاں بھی کی ہیں اور کافی اطمینان کا اظہار کیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ موسمیاتی تبدیلی کی وجہ سے آنے والے تباہ کن سیلاب کے بعد دنیا نے پاکستان کے لیے 10 ارب ڈالر کے فنڈ دینے کا عزم کیا تھا اور اس وقت ہماری جو بھی بات ہو رہی ہے اس میں ہم اس نکتے کو اٹھا رہے ہیں تاکہ وہ رقم منتقل ہونے کے بعد سیلاب متاثرین پر خرچ کی جائے۔

بھارت اور کینیڈا کے درمیان کشیدگی پر بات کرتے ہوئے نگران وزیراعظم نے کہا کہ بھارتی ایجنٹوں نے سکھ رہنما ہردیپ سنگھ کو قتل کیا، وہ ایک معصوم تھے اس لیے میں انہیں ’شہید‘ کہتا ہوں، بھارت نے ایک انسان کو قتل کرکے پوری انسانیت کو قتل کیا ہے جس کی جتنی مذمت کی جائے کم ہے۔

انہوں نے کہا کہ ہم اس معاملے کو مختلف فورمز پر اٹھائیں گے اور اس لیے نہیں اٹھائیں گے کہ بھارت کے خلاف کوئی پروپیگنڈا کرنا چاہتے ہیں، ہم اس لیے یہ معاملہ اٹھا رہے ہیں کہ ہندوتوا کے سیاسی ایجنڈے کے پیچھے جو گھناؤنی حقیقت چھپی ہوئی ہے وہ اس خطے کے ساتھ ساتھ باقی دنیا کو بھی جنگ کے شعلوں کی لپیٹ میں لے سکتا ہے۔

انوارالحق کاکڑ نے کہا کہ کل کا فورم ایک موقع ہے وہاں ضرور بات کریں گے لیکن اس کے علاوہ بھی جہاں جہاں مواقع ملیں گے تو اس پر ضرور بات کریں گے۔

انہوں نے کہا کہ اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل کے ساتھ اس معاملے پر ہم نے کھل کر ہندوتوا کی سیاست اور پروپیگنڈا اور کینیڈا میں سکھ رہنما کی ٹارگٹ کلنگ پر اظہار خیال کیا ہے۔

نگران وزیراعظم نے کہا کہ ہندوتوا کے پروپیگنڈے کے خطے پر اثرات اور خصوصی طور پر اس کے جو اثرات بلوچستان میں آئے ہیں، وہاں جس قسم کی قتل و غارت گری ہم نے دیکھی ہے، جہاں براہ راست بھارتی ریاست ملوث پائی گئی ہے جس کے ہمیں ثبوت بھی ملے ہیں، ہم تو بھارت کا یہ چہرہ بھگت رہے ہیں لیکن اب یہ مغربی ممالک کو نشانہ بنا رہا ہے، لہٰذا ہمارے کہنے سے زیادہ ان کا کہنا اثر رکھتا ہے۔

دہشت گردی سے نمٹنے کے سوال پر ان کا کہنا تھا کہ دہشت گردی سے نمٹنے کے حوالے سے پاکستان کی اپنی صلاحیت اچھی خاصی ہے، پاکستان خود اس چیلنج سے نمٹ سکتا ہے اور نمٹ رہا ہے، پاکستان ایک کامیاب اسٹوری کیس ہے جس نے دہشت گردی کے تمام آپریشنز میں نہ صرف اپنے ریاستی اسٹرکچر کو چیلنج ہونے نہیں دیا اور کوئی ایک یونین کونسل بھی ایسی نہیں رہی جو طویل عرصے تک دہشت گردوں کے کنٹرول میں رہی ہو۔

انہوں نے کہا کہ ایسا کبھی نہیں ہوا کہ دہشت گردوں نے کسی علاقے پر قبضہ جمائے رکھا ہو جو کہ ان کی خواہش رہی ہے، ہمارے فوجی اداروں کی صلاحیت میں اضافہ ہوا ہے جس پر ہمیں فخر و ناز ہے لیکن اس کے علاوہ پاکستان علاقائی ممالک سے بھی قریبی روابط میں ہے کیونکہ یہ ایک ایسا معاملہ ہے جس پر سب کو تشویش ہے کہ یہ کسی بھی وقت ان کی طرف پلٹ کر آسکتا ہے۔اس مرتبہ پانچ میں سے چار مستقل ویٹو پاور ممالک کے اہم رہنما شرکت نہیں کر رہے ہیں۔.نگران وزیراعظم انوار الحق کاکڑاقوام متحدہ کے جنرل اسمبلی اجلاس سے خطاب کرنےوالے پہلے نگراں وزیراعظم ہیں,پاکستان کے مطابق مسئلہ کشمیر اقوام متحدہ کے ایجنڈے پر دیرینہ حل طلب تنازعات میں شامل ہے۔نگران وزیراعظم انوارالحق کاکڑ نے کہا کہ اقوام متحدہ نے پہلے ہی کشمیر کے متنازعہ علاقے کی قسمت کافیصلہ رائے شماری سے کرانے کاوعدہ کیا ہوا ہے۔یاد رکھنا ضروری ہے کہ مسئلہ کشمیری، پاکستان، بھارت اور کشمیری حریت پسندوں کے درمیان مقبوضہ کشمیر کی ملکیت کا تنازع ہے۔ یہ مسئلہ تقسیم ہندوستان سے چلا آ رہا ہے۔ یکم جنوری 1948ء کو بھارت کے وزیراعظم نہرو ، مسئلہ کشمیر کو اقوام متحدہ میں لے گئے تھے۔ انھیں توقع تھی کہ اقوام عالم ، بھارت اور کشمیر کے الحاق کی قانونی حیثیت کو تسلیم کرے گا اور پاکستان کو جارح قرار دے گا۔ 21 اپریل 1948ء کو کشمیر پر ایک قرارداد منظور ہوئی تھی جس میں یہ کہا گیا تھا کہ پاکستان اور بھارت اپنی اپنی فوجوں یا مسلح گروپوں کو کشمیر سے نکالیں تو وہاں استصواب رائے ہوسکتا ہے۔ یہ شرط دونوں فریقین ماننے کو کبھی تیار نہیں ہوئے۔ یہ کامیابی البتہ ضرور ہوئی تھی کہ یکم جنوری 1949ء کو کشمیر میں جنگ بندی ہو گئی تھی۔
کشمیر کے معاملے پر پاکستان اور ہندوستان کے مابین تین جنگیں بھی ہو چکی ہیں۔ پہلی جنگ 1947ء، دوسری 1965ء اور تیسری 1971ء اور آخری چوتھی 1999ء میں لڑی گئی۔ اس کے علاوہ آئے دن مقبوضہ کشمیر اور پاکستان کی سرحد جسے لائن آف کنٹرول کہا جاتا ہے پر بھی گولہ باری کا تبادلہ ہوتا رہا ہے۔ جس میں اکثر پاکستانی شہری آبادی نشانہ بنتی رہی ہے۔
پاکستان اور بھارت دونوں کشمیر کا دعوٰی کرتے ہیں۔ تقسیم ہند کے دوران میں جموں و کشمیر برطانوی راج کے زیر تسلط ایک ریاست ہوتا تھا۔ جس کی آبادی 95 فیصد آبادی مسلم تھی۔ جب بھارت کو تقسیم کیا جا رہا تھا تو جن علاقوں میں مسلم اکثریت تھی وہ علاقے پاکستان اور جہاں ہندو اکثریت تھی وہ علاقے بھارت کو دیے گئے۔ پر کشمیر میں اکثریتی آبادی تو مسلمان تھے لیکن یہاں کا حکمران ایک سکھ تھا اور سکھ حکمران چاہتا تھا کہ بھارت کے ساتھ ہو جائے۔ لیکن تحریک پاکستان کے رہنماؤں نے اس بات کو مسترد کیا۔ آج بھی پاکستان کا ماننا ہے کہ کشمیر میں مسلمان زیادہ ہیں اس لیے یہ پاکستان کا حصہ ہے
24 اکتوبر 1947ء کو آزاد کشمیر حکومت کا قیام عمل میں آیا تھا جس کے صرف دو دن بعد 26 اکتوبر 1947ء کو مہاراجہ کشمیر نے ریاست کشمیر کا الحاق بھارت کے ساتھ کر دیا تھا۔بھارت کشمیریوں کو ان کے بنیادی حقِ خودارادیت، دینے سے انکاری ہے۔ حالیہ بدترین ریاستی تشدد پر او آئی سی سمیت اقوام عالم کے سب سے بڑے ادارے کے سیکرٹری جنرل نے بھی آواز بلند کی ہے کہ مسئلہ کشمیر کا حل تلاش کیا جائے۔ غیور کشمیری عوام نے لاکھوں جانوں اور عصمتوں کی بے مثال قربانیاں دے کر دنیا کو بتا یا ہے کہ وہ اپنے بنیادی انسانی حق سے پیچھے نہیں ہٹیں گے۔ چاہے انہیں اس کی کتنی ہی قیمت چکانی پڑے۔ پاکستان کشمیریوں کی تحریک کو بنیادی انسانی حقوق کی تحریک سمجھتا ہے اور مظلوم بے بس کشمیریوں کی ہر اخلاقی مدد کو اپنا فرض عین گردان کر دنیا بھر میں ان کے حق کی پر زور وکالت بھی کرتا ہے۔ اس لیے نگران وزیر اعظم انوار الحق کاکڑ اقوام متحدہ میں مسئلہ کشمیر اجاگر کرنے کے لیے تیارہیں, مسئلہ کشمیری، پاکستان، بھارت اور کشمیری حریت پسندوں کے درمیان مقبوضہ کشمیر کی ملکیت کا تنازع ہے۔ یہ مسئلہ تقسیم ہندوستان سے چلا آ رہا ہے۔ یکم جنوری 1948ء کو بھارت کے وزیراعظم نہرو ، مسئلہ کشمیر کو اقوام متحدہ میں لے گئے تھے۔ انھیں توقع تھی کہ اقوام عالم ، بھارت اور کشمیر کے الحاق کی قانونی حیثیت کو تسلیم کرے گا اور پاکستان کو جارح قرار دے گا۔ 21 اپریل 1948ء کو کشمیر پر ایک قرارداد منظور ہوئی تھی جس میں یہ کہا گیا تھا کہ پاکستان اور بھارت اپنی اپنی فوجوں یا مسلح گروپوں کو کشمیر سے نکالیں تو وہاں استصواب رائے ہوسکتا ہے۔ یہ شرط دونوں فریقین ماننے کو کبھی تیار نہیں ہوئے۔ یہ کامیابی البتہ ضرور ہوئی تھی کہ یکم جنوری 1949ء کو کشمیر میں جنگ بندی ہو گئی تھی۔
کشمیر کے معاملے پر پاکستان اور ہندوستان کے مابین تین جنگیں بھی ہو چکی ہیں۔ پہلی جنگ 1947ء، دوسری 1965ء اور تیسری 1971ء اور آخری چوتھی 1999ء میں لڑی گئی۔ اس کے علاوہ آئے دن مقبوضہ کشمیر اور پاکستان کی سرحد جسے لائن آف کنٹرول کہا جاتا ہے پر بھی گولہ باری کا تبادلہ ہوتا رہا ہے۔ جس میں اکثر پاکستانی شہری آبادی نشانہ بنتی رہی ہے۔
پاکستان اور بھارت دونوں کشمیر کا دعوٰی کرتے ہیں۔ تقسیم ہند کے دوران میں جموں و کشمیر برطانوی راج کے زیر تسلط ایک ریاست ہوتا تھا۔ جس کی آبادی 95 فیصد آبادی مسلم تھی۔ جب بھارت کو تقسیم کیا جا رہا تھا تو جن علاقوں میں مسلم اکثریت تھی وہ علاقے پاکستان اور جہاں ہندو اکثریت تھی وہ علاقے بھارت کو دیے گئے۔ پر کشمیر میں اکثریتی آبادی تو مسلمان تھے لیکن یہاں کا حکمران ایک سکھ تھا اور سکھ حکمران چاہتا تھا کہ بھارت کے ساتھ ہو جائے۔ لیکن تحریک پاکستان کے رہنماؤں نے اس بات کو مسترد کیا۔ آج بھی پاکستان کا ماننا ہے کہ کشمیر میں مسلمان زیادہ ہیں اس لیے یہ پاکستان کا حصہ ہے
24 اکتوبر 1947ء کو آزاد کشمیر حکومت کا قیام عمل میں آیا تھا جس کے صرف دو دن بعد 26 اکتوبر 1947ء کو مہاراجہ کشمیر نے ریاست کشمیر کا الحاق بھارت کے ساتھ کر دیا تھا۔

3 جون 1947ء کو تقسیم ہند کے منصوبے کے مطابق مسلم اکثریت کے علاقے پاکستان اور ہندو اکثریت کے علاقے بھارت میں شامل ہونا تھے لیکن ریاستوں کے بارے میں ایسا کوئی منصوبہ نہیں تھا کہ وہ مذہب کی بنیاد پر تقسیم ہوں گی۔ اس کی بڑی وجہ یہ تھی کہ بھارت کے گیارہ صوبے تو براہ راست برطانوی اختیار میں تھے لیکن 562 ریاستیں اندرونی طور پر خودمختار تھیں جنھیں یہ اختیار حاصل تھا کہ وہ چاہیں تو آزاد رہیں یا پاکستان اور بھارت میں سے کسی ایک میں ضم ہو جائیں,
قیام پاکستان کے بعد درجن بھر ریاستیں ، پاکستان میں شامل ہوئی تھیں لیکن 70فیصد مسلم اکثریتی آبادی کی ریاست کشمیر کے ہندو مہاراجہ ہری سنگھ نے حیل و حجت سے کام لیا جس سے پاکستان کا پیمانہ صبر لبریز ہو گیا۔ اپنی جغرافیائی اہمیت کی وجہ سے پاکستان اور بھارت کی خواہش تھی کہ کشمیر ان کے پاس ہو جبکہ 95فیصد کشمیری مسلمانوں کو بھی پاکستان میں شامل ہونے کی امید تھی۔

28 جولائی 1947ء کو ڈوگرا ریاست کے خلاف آزادی کی مسلح تحریک شروع ہوگئی جس میں زیادہ تر قبائلی علاقوں کے جنگجو تھے جنھیں پاک فوج کا بھرپور غیرسرکاری تعاون حاصل تھا۔ روایت ہے کہ سردارعبدالقیوم خان نے اس دن تین ڈوگرا سپاہی مار کر جنگ آزادی کا آغاز کیا تھا۔ جموں کے مغربی اضلاع میں باغی افواج کو مسلم کانفرنس کے رہنما سردار ابراہیم کی قیادت میں منظم کیا گیا جنھوں نے 22 اکتوبر 1947ء تک ریاست کے بیشتر مغربی حصوں پر قبضہ کرلیا تھا۔ 24 اکتوبر کو آزاد کشمیر کی عارضی حکومت قائم کردی گئی تھی,مجاہدین کی پے درپے کامیابیوں سے ڈوگرہ افواج سری نگر تک محدود ہوکر رہ گئی تھیں ۔ خود کو بچانے کے لیے مہاراجہ ہری سنگھ نے بھارت کے ساتھ الحاق کی درخواست کی تھی۔
26 اکتوبر 1947ء کو یہ معاہدہ ہوا اور اگلے ہی دن بھارت نے اپنی فوج ، وادی میں اتار دی تھی۔
قائد اعظمؒ نے کشمیر کے بھارت کے ساتھ الحاق اور بھارتی فوجی مداخلت کو مسترد کرتے ہوئے قائم مقام آرمی چیف جنرل گریسی کو فوری فوجی کاروائی کا حکم دے دیا تھا لیکن اس نے یہ حکم ماننے کے بجائے پاک بھارت افواج کے مشترکہ سپریم کمانڈر فیلڈ مارشل جنرل کو شکایت کردی تھی۔ وہ دوسرے ہی دن لاہور آئے تھے اور قائداعظمؒ کو اپنا یہ فیصلہ واپس لینے پر مجبور کردیا تھا۔ جنرل آوکن لیک کا موقف تھا کہ ان کی کمانڈ میں دونوں افواج کیسے لڑیں گی اور اگر ایسا ہوا بھی تو پاک فوج وسائل کی کمیابی کی وجہ سے کامیاب نہ ہوسکے گی۔ اس کے باوجود پاک فوج کشمیر کے مجاہدین کی مدد کرتی رہی۔15 ستمبر 1947ء کو ریاست جوناگڑھ نے پاکستان سے الحاق کا اعلان کیا جو قائداعظمؒ نے قبول کرلیا تھا۔ انھیں یہ بھی توقع تھی کہ بھارت کے جنوب میں واقع ریاست حیدرآباد کے علاوہ شمال کی ریاست کشمیر بھی پاکستان میں شامل ہوجائیں گی لیکن ایسا نہیں ہوا۔ مبینہ طور پر جولائی 1947ء میں قائداعظمؒ نے مہاراجہ کشمیر کو پاکستان میں شامل ہونے کی پرکشش دعوت دی تھی لیکن انھوں نے انکار کردیا تھا۔

یکم نومبر 1947ء کو سابق وائسرائے ہند لارڈ ماؤنٹ بیٹن (جو اس وقت بھارت کے گورنر جنرل تھے) کی لاہور میں گورنرجنرل پاکستان قائداعظمؒ کے ساتھ ایک ملاقات ہوئی تھی جس میں بتایا جاتا ہے کہ انھوں نے تجویز پیش کی تھی کہ متنازعہ ریاستوں یعنی حیدرآباد دکن ، جوناگڑھ اور کشمیر میں غیرجانبدارانہ استصواب رائے کروایا جائے کہ وہ کن دو ممالک کے ساتھ الحاق چاہتے ہیں لیکن قائداعظمؒ نے اس تجویز کو مسترد کردیا تھا۔یکم جنوری 1948ء کو بھارت کے وزیراعظم نہرو ، مسئلہ کشمیر کو اقوام متحدہ میں لے گئے تھے۔ انھیں توقع تھی کہ اقوام عالم ، بھارت اور کشمیر کے الحاق کی قانونی حیثیت کو تسلیم کرے گا 26 جنوری 1950ء کو منظور ہونے والے بھارتی آئین میں کشمیر کی خصوصی حیثیت تھی جس کے آرٹیکل 370 میں یہ کہا گیا تھا کہ

یہ آرٹیکل واضح کرتا ہے کہ ریاست کو ہندوستانی پارلیمنٹ کے قوانین کے اطلاق میں متفق ہونا چاہیے، سوائے ان کے جو مواصلات، دفاع اور خارجہ امور سے متعلق ہوں۔ مرکزی حکومت ریاست کے نظم و نسق کے کسی دوسرے شعبے میں مداخلت کرنے کے اپنے اختیار کا استعمال نہیں کر سکتی۔
جنوری 1951ء میں دولت مشترکہ کے سالانہ اجلاس میں بھی کشمیر کے مسئلہ پر برطانیہ نے یہ تجویز پیش کی تھی کہ کشمیر میں پاک بھارت مشترکہ فوج کی نگرانی میں استصوائے رائے کروایا جائے۔ پاکستان نے اس تجویز کو مان لیا تھا لیکن بھارت نے رد کردیا تھا۔24 جولائی 1952 کو بھارتی وزیر اعظم نہرو اور کشمیر کے وزیراعلیٰ شیخ محمدعبداللہ کے درمیان ایک ملاقات میں اس آئینی شق کا اطلاق ہوا تھا لیکن 1953ء میں شیخ صاحب کا ضمیر جاگا اور انھوں نے بھارتی حکومت سے بغاوت کردی جس پر انھیں وزارت اعلیٰ کے عہدے سے برطرف کر کے جیل میں ڈال دیا گیا۔ اسی سال جولائی میں بھارتی وزیراعظم جواہر لال نہرو نے پینترا بدلا اور کشمیر میں ریفرنڈم کروانے پر رضامندی ظاہر کردی۔ پاکستان کی یہ خوشی مختصر رہی کیونکہ 1954ء میں جب امریکہ نے ایک طویل المدتی معاہدے کے تحت پاکستان کو بھاری فوجی اور اقتصادی امداد دینا شروع کی تو نہرو نے یوٹرن لے لیا اور کشمیر میں ریفرنڈم کروانے سے صاف مکر گیا تھا۔1962/63 میں پاکستان اور بھارت کے مابین کشمیر پر مذاکرات کے چھ راؤنڈ ہوئے تھے جن کی قیادت بھارت سے وزیرخارجہ سورن سنگھ اور پاکستان سے وزیرخارجہ ذوالفقار علی بھٹوؒ کررہے تھے۔ 1965ء میں پاکستان نے بزور کشمیر آزاد کروانے کی ناکام کوشش کی۔ 1971ء کی جنگ میں پاکستان کی شکست سے مایوس ہو کر کشمیری لیڈر شیخ عبداللہ نے 1975ء میں بھارت سے الحاق کرلیا تھا۔ 1980ء کی دھائی سے مقبوضہ کشمیر میں بڑے پیمانے پر جنگجو کاروائیاں ہوئیں,1984ء میں بھارت نے سیاچین گلیشئر پر بھی قبضہ کرلیا تھا۔ 1999ء میں کارگل کی جنگ بھی کشمیر کا حل نہ بن سکی۔ 2020ء میں بھارت نے آرٹیکل 370 ختم کرکے کشمیر کی خصوصی حیثیت کو ختم کر دیا اور ریاست کو بھارتی یونین میں ضم کرلیا تھا ،افغان حکمران نادر شاہ درانی نے 1752ء میں کشمیر کو فتح کیا۔ 1819ء میں پنجاب کے مہاراجہ رنجیت سنگھ نے کشمیر پر قبضہ کیا۔ جموں کے ڈوگرا خاندان کے راجہ گلاب سنگھ نے 1840ء میں کشمیر پر قبضہ کیا۔ 1946ء میں انگریزوں نے کشمیر کو فتح کیا لیکن گلاب سنگھ کے ہاتھوں بیچ دیا تھا جس کا ڈوگرا خاندان 1947ء تک کشمیر کا حاکم رہا۔

ریاست کشمیر ، ایک مسلم اکثریتی علاقہ ہے جہاں 1941 کی مردم شماری کے مطابق ریاست کشمیر کی آبادی میں 77 فیصد مسلمان، 20 فیصد ہندو اور 3 فیصد دیگر تھی۔ مسلمان صرف وادی کشمیر میں 95 فیصد ہیں جبکہ جموں اور لداخ میں بالترتیب ہندوؤں اور بدھ مت کے پیروکاروں کی اکثریت ہے۔ پاکستان کے کشمیر میں البتہ مسلمان سو فیصدی ہیں۔ اسوقت ریاست کشمیر کا بھارت کے پاس 55 فیصد ، پاکستان کے پاس 30 فیصد  ہے