راولپنڈی(ٹی این ایس) بغیرامتیاز پاکستان سب کا ، انتہاپسندی کی کوئی جگہ نہیں ;آرمی چیف کا دوٹوک پیغام

 
0
167

…. .آرمی چیف جنرل عاصم منیر نے انتہا پسندوں، دہشت گردوں کے گمراہ کن پروپیگنڈے کے خاتمے کیلئے علماء کے فتویٰ ”پیغام پاکستان“ کو سراہتے ہوئے علماء و مشائخ سے گمراہ کن پروپیگنڈے کی تشہیر کے تدارک پر زور دیا۔ آرمی چیف نے گمراہ کن پروپیگنڈے کے تدارک اور اندرونی اختلافات کو دور کرنے پر زور دیتے ہوئے قرآن و سنت کی تفہیم اور کردار سازی کیلئے نوجوانوں کو راغب کرنے میں علماء کے کردار کی نشاندہی بھی کی۔
آرمی چیف کا کہنا ہے کہ کسی امتیاز کے بغیر پاکستان سب کا ہے،ریاست کے سوا کسی بھی ادارے یا گروہ کا طاقت کا استعمال اور مسلح کارروائی ناقابل قبول ہے، ریاست کے علاوہ کسی بھی گروہ کی مسلح کارروائی قبول نہیں کریں گے۔
آئی ایس پی آر کے مطابق علمائے کرام و مشائخ سے ملاقات کے دوران آرمی چیف نے کہا کہ بغیر کسی مذہبی، صوبائی یا کسی اور امتیاز کے پاکستان تمام پاکستانیوں کا ہے۔ کسی کے خلاف کسی کے عدم برداشت اور انتہا پسند رویے کے لیے کوئی جگہ نہیں، بالخصوص اقلیتوں اور کمزور طبقوں کے خلاف عدم برداشت اور انتہا پسند رویے کی کوئی جگہ نہیں۔
آئی ایس پی آر کا کہنا ہے کہ علمائے کرام و مشائخ نے متفقہ طور پر انتہا پسندی، دہشت گردی اور فرقہ واریت کی مذمت کی، علمائے کرام و مشائخ نے ملک میں رواداری، امن کی ریاستی کوششوں کیلئے بھرپور حمایت جاری رکھنے کا عزم کیا۔
علمائے کرام و مشائخ نے کہا کہ اسلام امن اور ہم آہنگی کا مذہب ہے، بعض عناصر کی مذہب کی مسخ شدہ تشریحات صرف ان کے ذاتی مفادات کیلئے ہیں، بعض عناصر کی مسخ شدہ تشریحات کا اسلامی تعلیمات سے کوئی تعلق نہیں۔ علمائے کرام و مشائخ نے سیکیورٹی فورسز کی انتھک کوششوں کیلئے اپنی بھرپور حمایت جاری رکھنے کا بھی عزم کیا۔
فورم نے متفقہ طور پر غیر قانونی مقیم غیر ملکیوں کی وطن واپسی کی حمایت کی، فورم نے حکومت پاکستان کے ایک دستاویزی نظام (پاسپورٹ) کے نفاذ کی حمایت کی، فورم نے انسداد اسمگلنگ، ذخیرہ اندوزی اور بجلی چوری کے خلاف اقدامات کی حمایت کی۔فورم نے افغان سر زمین سے پیدا دہشت گردی پر پاکستان کے موقف اور تحفظات کی مکمل حمایت کی، پاکستان کے تحفظات کو دور کرنے کیلئے افغانستان پر سنجیدہ اقدامات کرنے پر زور دیا، فورم نے غزہ میں جاری جنگ نہتے فلسطینیوں پر ہونے والے مظالم پر بھی غم و غصے کا اظہار کیا، فورم نے نہتے فلسطنیوں پر مظالم کو انسانیت کے خلاف جرائم قرار دیا۔واضح رہے کہ دو بنیادی سوالات ایسے ہیں،جنہوں نے ریاست ومذہب کے باہمی تعلق کے باب میں ابہام پیدا کیا۔اس ابہام نے مسلمان سماج اور فکر میں انتشارکو جنم دیا،پاکستان میں قومی سلامتی کے اداروں سے لے کر عام شہریوں تک،سب کو اس کی ایک قیمت ادا کرنا پڑی۔ سرحدوں پر خارجی دشمنوں سے لڑتے ہوئے،ہمارے اتنے جوان شہید نہیں ہوئے جتنے اس سماجی انتشار کو روکنے کے لیے قربان ہوگئے۔ اس لیے یہ ناگزیر تھا کہ ان سوالات کو قومی سطح پر زیرِبحث لایا جا ئے اور ان کے حوالے سے ایسا اتفاق رائے پیدا کیا جائے جو قوم کو اس ذہنی انتشار سے نکالے اور فکری یک سوئی پیدا کرے۔
‘پیغامِ پاکستان’ اس ضمن میں کی گئی کوششوں کا حاصل ہے۔اس دستاویز کی افادیت کو سمجھنے کے لیے،بطورپس منظر ان دوبنیادی سوالات کوسامنے رکھنا ضروری ہے:
ایک سوال یہ تھا کہ جہاد(قتال) سے کیامراد ہے؟
کون اس کے اعلان کا حق رکھتا ہے اور مسلما ن معاشرے کے اندرکیا نفاذِ اسلام کے نام پر مسلح جدو جہد جائز ہے؟
دوسرا سوال یہ تھا کہ کسی فرد یا گروہ کی تکفیر کا حق کسے حاصل ہے؟
مسلم معاشروں میں جو انتشار گزشتہ تین عشروں پر محیط ہے،وہ دراصل ان دو سوالوں کے ان جوابات کا نتیجہ ہے جومسلح گروہوں کی طرف سے سامنے آئے ۔
جہاد کے نام پر قائم ہونے والی تنظیموں کا یہ کہنا تھا کہ جہا د خدا کا حکم ہے اور مسلمانوں کی کوئی تنظیم اس کا فیصلہ اور اعلان کر سکتی ہے۔
اسی طرح اگر کوئی گروہ یہ سمجھتا ہے کہ مسلمانوں کی حکومت اپنی ذمہ داریاں، دینی احکامات کے مطابق نہیں ادا کر رہی تو وہ اس کے خلاف بھی تلوار اٹھا سکتا اور اس کے خاتمے کے لیے مسلح جدو جہد کر سکتا ہے۔یوں جہاد کے عنوان سے کئی تنظیمیں قائم ہوئیں اور انہوں نے اپنے طور پر پاکستان کے سیاسی نظم اورریاستی اداروں کے خلاف مسلح جد وجہد شروع کر دی۔یہ بھی ہوا کہ ایک تنظیم میں اختلاف کے نتیجے میں کئی تنظیمیں وجود میں آئیں اور انہوں نے ایک دوسرے کو غدار قرار دے کر باہمی ‘جہاد’ شروع کر دیا۔اس کا نتیجہ ظاہر ہے کہ خلفشار کے سوا کچھ اور نہیں ہو سکتا تھا۔مسلمانوں کو جان ومال کی صورت میں اس کی بھاری قیمت ادا کرنا پڑی۔
ان تنظیموں نے مسلح جدو جہد کو صرف حکومت اور ریاستی اداروں تک محدود نہیں رکھا بلکہ عام شہریوں سمیت ان سب کو اپنا ہدف بنایا،جو ان کے ساتھ نہیں تھے یا ان کی رائے کو غلط کہتے تھے۔ان کی تکفیر کر تے ہوئے،مسلمانوں کے قتلِ عام کو جائز قرار دیا گیا۔چناچہ جہاں کئی علما اور سکالرز کو قتل کیا گیا،وہاں عام شہری بھی خود کش دھماکوں میں مار ڈالے گئے۔ایسے بے گناہ مرنے والوں کی تعداد ہزاروں میں ہے۔


اس انتشار کو ختم کر نے کے لیے لازم تھا کہ جہاد کے نام پر پھیلتے فساد کو روکا جائے اوردین کی صحیح تعبیرسامنے لائی جا ئے تاکہ کوئی دین اور جہاد کے مقدس تصورات کو بد امنی کے لیے استعمال نہ کرے۔عوام پر واضح ہو کہ جہاد،فساد کے خاتمے کے لیے ہوتاہے اور یہ اسی وقت ممکن ہے جب ایک نظم کے تحت ہو۔اگر لوگوں کو انفرادی طور پر یہ حق دے دیا جائے تو اس کا وہی نتیجہ نکل سکتا ہے جوبعد میں نکلا۔اسی طرح لوگوں کویہ بھی معلوم ہونا چاہیے کہ جہاد کا ہدف مسلمانوں کی حکومت نہیں ہو سکتی۔چنانچہ حکومت و ریاست نے اس بات کی کوشش کی کہ مختلف مسالک کے علما ء سے رابطہ کیاجائے تاکہ وہ عوام کی راہنمائی کریں اور دین کی صحیح تعبیر لوگوں کے سامنے رکھیں۔وہ اُس ابہام کو دور کریں جو دین کے ایک اہم حکم کے بارے میں پیدا کر دیاگیا ہے۔یہ کوشش نتیجہ خیزثابت ہوئی اورہزاروں علمااور سکالرز نے متفقہ طور پر یہ رائے دی کہ مسلح جد وجہد کا فیصلہ صرف ریاست کر سکتی ہے۔کسی گروہ یا فرد کو یہ حق حاصل نہیں کہ وہ دین کے نام پر بندوق اٹھالے اور بغیر سوچے سمجھے انسانی جانوں کو خطرے میں ڈالے۔اسی طرح یہ بھی واضح کیا گیا کہ مسلمان حکومت کے خلاف مسلح اقدام کسی طور جائز نہیں ہے۔
‘پیغامِ پاکستان’ بائیس نکات پر مشتمل ایک دستاویزہے،جس کی ہزاروں علما اور سکالرز کی طرف سے توثیق کی گئی۔اس کا ایک تاریخی پس منظر ہے۔ مئی 2017ء میں تمام مکاتبِ فکر کے علماء نے اِن عسکری رجحانات کے خلاف فتویٰ دیا۔اس فتوے کے جوہر کو نکات کی صورت میں مرتب کر کے، عمومی توثیق کے لیے دیگر علما اور سکالرز کے سامنے رکھا گیااور اسے ‘پیغام ِپاکستان’ کا نام دیا گیا۔ایوانِ صدر میں اس کا اعلان ہوا اور اس اجتماع میں حکومت ،ریاستی اداروں اور تمام مسالک کے علما موجود تھے۔گویا اس اعلامیے کو پوری قوم کی تائید حاصل ہو گئی۔
‘پیغام ِ پاکستان’ان تما م امور پر محیط ہے جن کے بارے میں کوئی ابہام پایا جا تا تھا اور جنہیں فسادی گروہ اپنے مطلب کے لیے استعمال کر سکتے تھے۔اس میں بطور خاص
وہ دو اساسی سوالات شامل ہیں جن کی بنیاد پر پرائیویٹ جہاد کا تصور پیدا ہوا۔اس ضمن میں اس دستاویز کی پانچویں شق اہم ہے جو جامعیت کے ساتھ ان سوالات کے جواب دیتی ہے۔اس میں کہا گیا:”دستور کے کسی حصے پر عمل کرنے میں کسی کوتاہی کی بنا پر،ملک کی اسلامی حیثیت اور اسلامی اساس کا انکار کسی صورت درست نہیں۔ لہٰذا اس کی بنا پر ملک یا اس کی حکومت،فوج یا دوسری سکیورٹی ایجنسیوں کے اہل کاروں کوغیرمسلم قرار دیناا ور ان کے خلاف مسلح کارروائی کا کوئی شرعی جواز نہیں ہے اور ایسا عمل اسلامی تعلیمات کی رو سے بغاوت کا سنگین جرم قرار پاتا ہے۔نفاذِ شریعت کے نام پر طاقت کا استعمال،ریاست کے خلاف مسلح محاذ آرائی،تخریب و فساد اور دہشتگردی کی تمام صورتیں،جن کا ہمارے ملک کو سامنا ہے،قطعی حرام ہیں، شریعت کی رو سے ممنوع ہیں اور بغاوت کے زمرے میں آتی ہیں۔یہ ریاست، ملک و قوم اور وطن کو کمزور کرنے کا سبب بن رہی ہیں۔ اور ان کا تمام تر فائدہ اسلام دشمن اورملک دشمن قوتوں کو پہنچ رہا ہے”۔’پیغامِ پاکستان” میں خود کش حملوں کو بھی حرام قرار دیا گیا ہے اور ہر ایسے مسلح اقدام کی مذمت کی گئی ہے جس سے مسلمان معاشروں میں خوف اور فساد پیدا ہوتا ہو۔ مثالی صورتِ حال کہیں نہیں ہوتی،اسی لیے اگر کسی کوتاہی کو بنیاد بنا کرریاست اور قانون کے خلاف بغاوت کارویہ اپنا لیا جائے تو کسی ریاستی ڈھانچے کو بر قرار رکھنا ممکن نہیں رہتا۔یہ اعلامیہ اس کا دروازہ بھی بند کرتاہے۔

 

ریاست کے ساتھ،ان انتہا پسندانہ تصورات نے فرقہ واریت کو بھی ہوا دی اوردوسرے مسلک کے پیروکاروں کی تکفیرکی گئی۔یہی نہیں،انہیں واجب القتل بھی قرار دیا۔اگر اس کا راستہ نہ روکا جاتا تو پاکستان فساد کا گھر بن جاتا کیونکہ پاکستان متنوع مسالک کے ماننے والوں کاملک ہے۔ان سب نے مل کرتحریکِ پاکستان میں حصہ لیا اورپاکستان ان کی مشترکہ جدو جہد کا ثمر ہے۔اس لیے یہاں اس بات کو گوارا نہیں کیا جا سکتا تھا کہ مسلکی اختلاف کو اتنا بڑھادیا جائے کہ جس کا جی چاہے دوسرے کی تکفیر کر نے لگے۔
”پیغامِ پاکستان” میں ایک شق صرف اسی مسئلے سے متعلق ہے۔اس میں کہا گیا ہے:”عالمِ دین،مفتی کا منصبی فریضہ ہے کہ صحیح اورغلط نظریات کے بارے میں دینی آگہی مہیاکرے اور درست شرعی مسائل بتائے۔البتہ کسی کے بارے میں یہ فیصلہ صادرکرنا کہ آیا اس نے کفر کا ارتکاب کیا ہے یا کلمہ کفر کہا ہے،یہ ریاست و حکومت اور عدالت کا دائرہ اختیار ہے” ۔
یہ ایک بہت اہم شق ہے،جسے اگر اپنا لیا جائے تو مذہبی معاملات میں قانون کو ہاتھ میں لینے کا رجحان ختم ہو جا تا ہے۔ہمارے ہاں بدقسمتی سے ایسے واقعات ہوتے رہے ہیں جب ایک فرد خود ہی مدعی،خود ہی منصف اورخودہی حکومت بن جاتا ہے۔علما کی طرف سے یہ اعلان بہت اہم ہے کیونکہ اگر وہ ایسے رویوں کی حوصلہ شکنی کریں گے توپھرکوئی مذہب کے سوئے استعمال کی جرأت نہیں کر سکے گا۔
انتہا پسندانہ رویوں کا اصل محرک اختلاف رائے کے آداب سے عدم واقفیت ہے۔مسلمان فقہاء اور علماء نے ایک دوسرے سے اختلاف کیا مگر باہمی تعلق اور احترام کو مجروح نہیں ہو نے دیا۔بدقسمتی سے ان کا اختلاف تو سب کو یاد رہا مگر ایک دوسرے سے حسنِ سلوک یاد نہیں رہا۔اس بات کی اشد ضرورت رہی ہے کہ دینی مدارس میں صرف اختلاف نہیں بلکہ آداب اختلاف کی بھی تعلیم دی جا ئے۔”پیغام ِ پاکستان” یہ تجویز کرتا ہے کہ اختلاف کے اسلامی آداب کو دینی مدارس کے نصاب میں شامل کیا جائے۔
”پیغام ِ پاکستان” پاکستان کی تاریخ کی ایک اہم دستاویز ہے۔قیامِ پاکستان کے بعد جب دستوری معاملات میں مذہبی نزاع پیدا ہوا تو اس وقت بھی تمام مسالک کے علماء نے متفقہ بائیس نکات پیش کر کے،مذہب کی بنیاد پر فکری انتشار کا راستہ روکا۔”پیغامِ پاکستان” بھی اسی طرح مذہب کے سوئے استعمال کا راستہ روکتا ہے اور اتفاق سے اس کے بھی بائیس نکات ہیں۔ان کاوشوں سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ مذہب فی نفسہ انتشار کا باعث نہیں ہے بلکہ یہ افراد کا رویہ ا ور تفہیم ہیں جو مسائل پیدا کرتے ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ”پیغامِ پاکستان ” کی تشہیرِ عام ہو اور عام لوگوں تک دین کی درست تعبیر پہنچے۔اس ضمن میں تین کام لازم ہیں:
1۔ میڈیا میں اس کے تمام نکات پر بحث ہو اور عوام اس سے پوری طرح آگاہ ہوں۔
2۔اسے دینی مدارس کے نصاب کا حصہ بنایا جائے تاکہ جب یہاں سے فارغ التحصیل افراد معاشرے سے متعلق ہوں تو وہ اپنی سماجی ذمہ داریوں سے پوری طرح باخبر ہوں اور انہیں انداز ہو کہ کیسے مذہب کی غلط تعبیر، سماج کے امن کی بربادی کا سبب بن سکتی ہے۔
3۔ ہمارے خطباء اسے محراب و ممبر کا موضوع بنائیں اور خطباتِ جمعہ میں اس کی شقوں کی شرح اور وضاحت ہو۔
اس باب میںریاست اور علما کی ہم آہنگی بہت خوش آئند ہے۔اسے اہلِ سیاست اور سول سوسائٹی کی تائید بھی حاصل ہے۔اب اسے ایک لائحہ عمل میں ڈھالنے کی ضرورت ہے۔اگر ان خیالات اورتعبیرات کی سماجی سطح پر پذیرائی ختم ہو جائے تو انتہا پسند تنظیموں کو افرادی قوت نہیں مل سکے گی۔یوں ان کا فطری انداز میں خاتمہ ہو جائے گا۔مذہبی انتہا پسندی اور فرقہ واریت سماجی مسائل ہیں۔ان کے خاتمے کے لیے سماجی اداروں کو متحرک ہو نا ہو گا۔حکومتی مداخلت کی ضرورت اس وقت پڑتی ہے جب امنِ عامہ کا مسئلہ پیدا ہو جائے۔ اگر مسجد ومدرسہ اور میڈیا اپنی ذمہ داریوں کے بارے میں حساس ہو ںتوحکومتی مداخلت کم ہو جا تی ہے۔’پیغامِ پاکستان” اس سماجی قوت کی بازیافت کی بنیاد بن سکتا ہے۔یادرہے کہ پاکستان میں حکومتی اتحاد نےسینیٹ میں انتہا پسندی کی روک تھام کے حوالے سے ’وائلنٹ ایکسٹریمزم بل 2023‘ پیش کیا تھا، جسے چیئرمین سینٹ صادق سنجرانی نے اراکین کی مخالفت کے بعد ’ڈراپ‘ کر دیا تھا۔ اس سے پہلے سینیٹ اجلاس میں اس بل پر بحث ہوئی اور مختلف سیاسی جماعتوں جن میں خود اتحادی حکومت میں شامل جماعتوں کے اراکین نے بھی اس بل کی مخالفت کی تھی.حکومت کی جانب سے پیش کردہ انتہا پسندی کی روک تھام کا یہ بل ماضی میں دہشت گردی اور انتہاپسندی میں ملوث اداروں اور افراد اور ان کی معاونت کرنے والوں کے خلاف بنائے گئے قوانین سے مختلف تھا. بل پرتشدد انتہا پسندی سے متعلق پاکستان کی پالیسی کو سامنے رکھتے ہوئے بنایا گیا مگر اس پر کسی بھی ایوان یا کمیٹی میں بحث نہیں ہوئی۔ اس بل کے متن کا جائزہ لیا جائے تو بیشتر شقیں وہی ہیں جو اس سے قبل ملک میں بنے کئی قوانین، ایکٹس اور بلز کا حصہ رہی ہیں۔ اس سے قبل پاکستان میں نیکٹا ایکٹ، انسداد دہشت گردی ایکٹ، فارن ایکسچینج ریگولیشن ایکٹ، بینکنگ کمپنیز ایکٹ، اینٹی منی لانڈرنگ ایکٹ وغیرہ جیسے متعدد قوانین پہلے سے لاگو ہیں جو ان ہی تمام معاملات کو دیکھتے ہیں جن کا ذکر اس نئے بل میں کیا گیا تھا۔
پرتشدد انتہا پسندی کی روک تھام سے متعلق اس مجوزہ بل کے مطابق ’پرتشدد انتہا پسندی میں ملوث تنظیم کو 50 لاکھ روپے جرمانہ تھا جبکہ تنظیم تحلیل کر دی جائے گی۔ قانون کی خلاف ورزی کرنے والی تنظیم کو 20 لاکھ روپے تک جرمانہ تھا۔‘ مجوزہ بل کے مطابق ’جرم ثابت ہونے پر فرد یا تنظیم کی جائیداد اور اثاثے ضبط کر لیے جائیں گے، مجوزہ بل کے مطابق تشدد کی معاونت یا سازش یا اکسانے والے شخص کو بھی 10 سال تک قید اور 20 لاکھ روپے جرمانہ تھا۔‘ بل کے تحت ’جرم کرنے والے شخص کو پناہ دینے والے کو بھی قید اور جرمانہ ہو گا۔‘ واضح رہے کہ مجوزہ بل کے متن میں کہا گیا تھا کہ ’پرتشدد تنظیم کے لیڈر، عہدیدارن اور ممبران کا اسلحہ لائسنس منسوخ کر دیا جائے گا جبکہ حکومت کو معلومات یا معاونت دینے والے شخص کو تحفظ فراہم کیا جائے گا۔‘ اس کی زد میں آنے والے افراد اور تنظیمیں یا ادارے انتخابات میں بھی حصہ نہیں لے سکیں گے۔ مجوزہ بل میں کہا گیاتھا کہ ’لسٹ میں شامل شخص یا تنظیم کے لیڈر اور ممبران کو گرفتار کر کے 90 روز تک حراست میں رکھا جاسکے گا تاہم متاثرہ شخص کو ہائیکورٹ میں اپیل کا حق ہو گا۔‘ مجوزہ بل کے مطابق ’پرتشدد تنظیم کے اثاثے، پراپرٹی اور بینک اکاونٹ منجمد کر دیے جائیں گے۔‘ بل کے مطابق کوئی مالیاتی ادارہ پرتشدد تنظیم کے لیڈر، ممبر یا عہدیدار کو مالی معاونت نہیں دے گا۔پرتشدد انتہاپسندی بل 2023 کے مندرجات سامنے آنے کے بعد سیاسی و سماجی حلقوں میں یہ تاثر پیدا ہوا کہ اسے پاکستان کی پارلیمنٹ سے منظور کروانے کا مقصد ایک سیاسی جماعت تحریک انصاف کو نشانہ بنانا ہے۔ اس تاثر کی وجہ اس بل کے متن میں شامل وہ الفاظ ہیں جو دیگر قوانین میں موجود نہیں۔ مثلاً پرتشدد انتہاپسندی کی تعریف کرتے ہوئے لفظ ’پولیٹیکل‘ استعمال کیا گیا۔ مجوزہ بل کے متن میں کہا گیا کہ ’پرتشدد انتہا پسندی کا مطلب ہے کہ کوئی بھی فرد یا تنظیم کسی نظریاتی عقیدے کے حل کے لیے، یا کوئی بھی سیاسی، فرقہ وارانہ، سماجی، نسلی اور مذہبی مسئلے کے لیے طاقت کا استعمال کرتا ہے، تشدد کو ہوا دیتا ہے یا ایسے کسی بھی فعل کا ارتکاب کرتا ہے یا کسی ایسے شخص یا تنظیم کی حمایت، حوصلہ افزائی کرتا ہے،