اسلام آباد(ٹی این ایس) پی ٹی آئی قومی دھارے سے آوٹ

 
0
168

سابق وزیر اعظم عمران خان 2018 کے عام انتخابات میں کامیابی کے بعد تبدیلی کے نعرے کو حقیقت کا روپ اور پاکستان کو ترقی وخوشحالی کی نئی منزلوں کی جانب گامزن کرکے عوام کے دل اور اعتماد کو جیت سکتے تھے لیکن ہمیں افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ تحریک انصاف کا پونے چار سال کا دور سیاسی انتشار، اقتصادی بدحالی اور انتظامی افراتفری کا دور رہا اس دوران حکومت نام کی کوئی چیز کہیں نظر نہیں آتی تھی ما سوائے اپوزیشن، صحافیوں، کسانوں، وکیلوں، عدلیہ، الیکشن کمیشن اور اپنے حقوق کا مطالبہ کرنے والوں کے خلاف انتقامی کارروائیوں کے بانی پی ٹی آئی جب اپنے غیر سیاسی رویوں کی وجہ سے چاروں طرف سے محصور ہوگئے اور اتحادی بھی ان کا ساتھ چھوڑ گئے تو انہوں نے انتہائی چالاکی کے ساتھ آئندہ انتخابات میں کامیابی کے لئے امریکہ مخالف بیانیہ تشکیل دے کر اس جارحانہ بیانیہ کی بنیاد پر قوم کو تقسیم در تقسیم کرنے’ اداروں کو تضحیک بالخصوص الیکشن کمیشن کو نشانہ بنانے’ پاکستان کو عالمی برادری میں تنہاء کرنے ‘ بھائی کو بھائی سے لڑانے’ ملک کو انتشار’ افراتفری اور عدم استحکام سے دوچار کرنے کے خطرناک راستے کو خودداری کا نام دے کر اپنی پارٹی کے معصوم ذہنوں کو پراگندہ کرنے’ملک وقوم کو نئے امتحان اور بحرانوں سے دوچار کرنیکا خطرناک راستہ اختیار کیا سابق وزیر اعظم عمران خان اور ان کے ساتھی زمینی حقائق کا اداراک کرنے کے بجائے عوامی مقبولیت کے گھوڑے پر بیٹھ کر سر پٹ دوڑنے کے چکر میں اس حقیقت کو فراموش کر بیٹھے تھے کہ یہ حکمت عملی ملک وقوم کے ساتھ خود ان کی سیاست کے لئے بھی نیک شگون نہیں بانی پی ٹی آئی کی ضد’ ہٹ دھرمی اور میں نہ مانوں کی روش کے نتیجے میں آج ان کی جماعت تحریک انصاف قومی دھارے سے جس طرح آئوٹ ہوگئی ہے اس کی ذمہ داری کسی اور پر نہیں بلکہ خود پی ٹی آئی کے بانی اور دیگر قیادت پر عائد ہوتی ہے
پاکستان تحریک انصاف سے بلے کا انتخابی نشان واپس لے لیا گیا ہے ، سپریم کورٹ نے پشاور ہائی کورٹ کا فیصلہ کالعدم قرار دیتے ہوئے الیکشن کمیشن آف پاکستان کا فیصلہ درست قرار دے دیا چیف جسٹس سپریم کورٹ جسٹس قاضی فائز عیسی کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے متفقہ فیصلہ دیا فیصلے میں کہا گیا ہے کہ الیکشن کمیشن کئی ماہ سے تحریک انصاف کو الیکشن کروانے کے لئے نوٹس جاری کر رہا تھا آخر پی ٹی آئی نے الیکشن کروائے لیکن ان میں سقم پائے گئے، الیکشن کی جگہ مشتہر نہیں کی گئی، دیگر امیدواروں کو پارٹی الیکشن میں کھڑا ہونے کا موقع نہیں ملا پی ٹی آئی نے الیکشن کمیشن پر امتیازی سلوک کا الزام لگایا عدالتی استفسار پر بتایا گیا کہ الیکشن کمیشن نے 13 جماعتوں کے انتخابی نشان لیے۔فیصلے میں کہا گیا کہ الیکشن کمیشن نے کہا کہ پی ٹی آئی نے انتخابات نہیں کروائے، پی ٹی آئی کے 14 اراکین کی درخواست یہ کہہ کر ہائیکورٹ نے مسترد کی کہ وہ ممبران ہی نہیں۔ پاکستان جمہوریت سے وجود میں آیا، پاکستان میں آمریت نہیں چل سکتی۔ فیصلے میں مزید کہا گیا ہے کہ پاکستان میں سیاسی جماعتوں کو انٹراپارٹی انتخابات کروانا ہوتے ہیں، پی ٹی آئی نے الیکشن کمیشن کو نہیں بتایا کہ انٹراپارٹی انتخابات کہاں کروا رہے ہیں؟ پشاور ہائیکورٹ کا الیکشن ایکٹ کے سیکشن 215 کو برا کہنا ان کے سامنے درخواست سے تجاوز تھا
بلے کے انتخابی نشان سے متعلق سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے پاکستان تحریک انصاف کے رہنماء بیرسٹر گوہر علی خان کا کہنا تھا کہ پی ٹی آئی کے امیدوار آزاد حیثیت میں الیکشن لڑیں گے، ہم اپنے امیدواروں کی نئی لسٹ بنائیں گے اور مہم چلائیں گے ان کا مزید کہنا تھا کہ ہم فیصلے کے خلاف نظرثانی کی اپیل کریں گے، عدلیہ کا کام ہے کہ سب لوگوں کے حقوق کا تحفظ کرے، آج عدالت نے فیصلہ کرلیا ہمیں قبول ہے۔پاکستان تحریک انصاف کے بانی رکن اکبر ایس بابر نے کہا ہے کہ 2 دنوں میں جھوٹ کے بڑے بڑے بت ٹوٹ گئے۔ سپریم کورٹ نے آج تاریخی فیصلہ سنایا ہے، اس فیصلے پاکستان کی جمہوریت کی نئی سمت کا تعین ہوگا
مسلم لیگ ن نے تحریک انصاف کے بلے کے نشان پر سپریم کورٹ کے فیصلے کا خیر مقدم کرتے ہوئے کہا ہے کہ سب کو عدالت عظمی کے فیصلے کو تسلیم کرنا چاہیے’ آج ثابت ہوگیا کہ تحریک انصاف کے انٹرا پارٹی انتخابات ایک ڈرامہ تھے’ پی ٹی آئی نے دو نمبر کی کوشش کی وہ ایک کیس دو عدالتوں می لے کر گئی اور قانون کی پیروی نہیں کی پیپلز پارٹی کے رہنما قمر زمان کائرہ نے عدالتی فیصلے پر ردعمل میں کہا ہے کہ پی ٹی آئی اپنے ہی کھودے گڑھے میں گرگئی پی ٹی آئی کے انٹرا پارٹی الیکشن مشکوک تھے انہوں نے کہا کہ پی ٹی آئی کو سمجھ جانا چاہیے کہ چیزیں اب ان کے مطابق نہیں رہیں ایم کیو ایم فیصل سبزواری نے کہا کہ یہ خوش آئند نہیں کہ ایک سیاسی جماعت کو اس کا انتخابی نشان نہ ملے۔ تحریک انصاف کے موقف میں تضاد تھا، ہر جمہوری جماعت کو انٹرا پارٹی الیکشن کرانے چاہئیں سپریم کورٹ کا فیصلہ جمہوریت کے استحکام اور سیاسی جماعتوں میں انٹرا پارٹی الیکشن کی اہمیت کو دو چند کرنے کے لئے کس حد تک فائدہ مند ثابت ہوگا یہ آئندہ وقت بتائے گا چیف جسٹس قاضی فائز عیسی کا یہ کہنا کہ جس طرح ہر شہری کا یہ بنیادی حق ہے کہ وہ جس جماعت کوچاہے ووٹ دے اسی طرح ایک سیاسی جماعت کے ہر رکن بھی یہ حق حاصل ہے اس حق کو چھین لینے کا مطلب آمریت ہے جمہوریت ایک بنیادی حق ہے جو ملک میں بھی اور ہرسیاسی جماعت کے اندر بھی دیا جانا چاہیے انتہائی اہمیت کا حامل ہے پارلیمانی جمہو ریت میں سیاسی جماعتوں کا کردار انتہائی اہمیت کا حامل ہے ارکان اسمبلی کا اہم مواقعوں پر پارٹی پالیسی سے انحراف بلا شبہ سیاسی جماعتوں کو غیر مستحکم اور پارلیمانی نظام کو ڈی ریل کرنے کا باعث بنتا ہے مگر اس حقیقت کو بھی نظرانداز نہیں کیا جاسکتا کہ خود سیاسی جماعتوں کے اندر موجود مطلق العنانی ملک میں آمریت سے بھی زیادہ خطرناک ہے جمہوریت اور وفاقی پارلیمانی جمہوری نظام کے استحکام میں ملک اور عوام دونوں کا فائدہ ہے لیکن اس کے لئے جن اقدامات کی ضرورت ہے اس کی معمولی سی جھلک بھی زمین پر دکھائی نہیں دیتی نظام کسی ایک فرد یا شخصیات سے نہیں بلکہ اداروں’جمہوری سوچ اور جمہوری رویے سے مستحکم ہوتا ہے اپنی ذات اور نظام کو لازم و ملزوم قرار دینا فوجی آمروں کا وطیرہ رہا ہے جن کے اقتدار کی کوئی آئینی اور عوامی بنیاد ہی نہیں ہوتی اگر جمہوری نظام کو بھی جرنیلی آمریت کی ڈگر پر چلانے کی کوشش کی جائے گی تو پھر نظام کے استحکام کا تصور کیسے کیا جاسکتا ہے؟ وطن عزیز میں تمام چھوٹی اور بڑی سیاسی جماعتوں میں انتخابی عمل بالعموم ایک نمائشی کھیل ہوتا ہے عملا سارے مناصب پر نامزدگیاں ہی عمل میں لائی جاتی ہیں یہی وجہ ہے کہ سیاسی جماعتوں کی قیادت پر بالعموم خاندانی اجارہ داری قائم ہوجاتی ہے ایسی مثالیں بھی ہیں کہ پارٹی مناصب ہی نہیں اقتدار حاصل ہونے کی صورت میں کلیدی حکومتی عہدوں پر بھی خاندان ہی کا تسلط قائم کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ اس کی وجہ سے سیاسی جماعتوں میں جمہوری کلچر پروان نہیں چڑھ پاتا ، عوام میں نچلی سطح تک ان کی تنظیم مستحکم نہیں ہوتی، قیادت اور عوام میں حقیقی قربت پیدا نہیں ہوتی، ہاں میں ہاں ملانے والے مراتب کے حقدار قرار پاتے جبکہ غلطیوں کی نشان دہی کرنے والے نا پسندیدہ ٹھہرتے اور پچھلی صفوں میں دھکیل دیے جاتے ہیں اگر ہم ملک میں حقیقی معنوں میں جمہوریت کا فروغ چاہتے ہیں اور ہماری خواہش ہے کہ پارلیمانی جمہوری نظام مضبوط ہو تو پھر سیاسی جماعتوں کو بھی اس بات کا پابند بنایا جائے کہ وہ اپنے اندر مکمل جمہوریت قائم کریں سیاسی جماعتوں میں فرد واحد اور خاندانوں کی حکومت کو ختم کرنے کے لئے اقدامات کئے جائیں-سیاسی جماعتوں میں نامز دگیوں کا سلسلہ ختم کرکے حقیقی معنوں میں الیکشن کروایا جائے الیکشن کمیشن ہر اس سیاسی جماعت کو انتخابات میں حصہ لینے سے روک دے جس کے اندر آمریت ہو’ جہاں فیصلے جمہوری انداز میں نہ کئے جائیں…