( اصغر علی مبارک)
اسلام آباد (ٹی این ایس) اُڑان پاکستان معاشی بحالی کاگیم چینجر منصوبہ ہے وزیر اعظم شہباز شریف اگلے پانچ برسوں کے لیے نیشنل اکنامک ٹرانسفارمیشن پلان ‘اڑان پاکستان‘ کا باضابطہ اعلان کیاہے ’اڑان پاکستان‘ پروگرام کے بارے میں وزیر منصوبہ بندی کا کہنا ہے اُڑان پاکستان ایک جامع قومی اقتصادی تبدیلی کا منصوبہ ہے جو پاکستان کو ’ترقی کی نئی بلندیوں تک‘ پہنچانے کے لیے تیار کیا گیا۔ اس پروگرام کا مقصد ملک کو مستحکم، پائیدار اور عالمی معیشت میں مسابقتی بنانا ہے جو پانچ ایز کے فریم ورک پر مبنی ہے۔ پہلا مقصد ایکسپورٹ یعنی برآمدات پر مبنی معیشت کو تشکیل دینا، دوسرا ملک میں ڈیجیٹل انقلاب لانا، تیسرا ماحولیاتی تبدیلی اور اس کے اثرات سے نمٹنا ہے۔ چوتھا سیکٹر جہاں توجہ دی جائے گی وہ انرجی اور انفراسٹرکچر کا ہے جبکہ پانچواں ایکویٹی پر مبنی معاشرے کی تعمیر ہے۔احسن اقبال کا کہنا ہے کہ پاکستان کی ترقی اور پیش رفت کو یقینی بنانے کے لیے اہم عوامل کو فوری طور پر حل کرنا ہو گا۔ ان کے مطابق یہ منصوبہ کئی نکات پر مبنی ہے جنہیں ملکی ترقی و خوشحالی کے لیے بروئے کار لانا ضروری ہے۔ انہوں نے ملکی وسائل کو برآمدات پر مبنی معیشت کو فروغ دینے کی جانب موڑنے کی اہمیت پر زور دیا۔ انہوں نے جدید شعبوں جیسے آٹومیشن، نینو ٹیکنالوجی، اور مصنوعی ذہانت کو اپنانے کی ضرورت پر بھی زور دیا، جو ان کے مطابق ‘مستقبل کی معیشت کو تبدیل کر دیں گے۔ وزیر منصوبہ بندی نے کہا کہ پاکستان کو ابھرتی ہوئی ٹیکنالوجیز کے ساتھ اپنی انسانی وسائل کو ہم آہنگ کرنا ہو گا۔ حکومت اس پروگرام میں سرمایہ کاری کے مواقع فراہم کرے گی جس میں قومی اور بین الاقوامی سرمایہ کاری کو فروغ دینے کے لیے آسان قوانین اور مراعات شامل ہیں۔ اس کے ساتھ ڈیجیٹل سہولت کاری کے سلسلے میں آئی ٹی سٹارٹ اپس اور فری لانسنگ انڈسٹری کے لیے معاونت فراہم کی جائے گی جبکہ تکنیکی تحقیق، اختراع اور صنعتی ترقی کے لیے فنڈز اور گرانٹس کی صورت میں حکومتی مدد فراہم کی جائے۔ عوامی شراکت داری کے لیے پبلک، پرائیویٹ پارٹنرشپ کے ذریعے بڑے پیمانے پر ترقیاتی منصوبے بھی اس پروگرام کا حصہ ہیں۔ حکومت کی جانب سے اڑان پاکستان کو ’گیم چینجر‘ قرار دیا گیا ہے۔ اس پروگرام کے تحت معاشی استحکام کا ہدف ہے کیونکہ برآمدات پر مبنی معیشت کا قیام پاکستانی روپے کو مستحکم کرے گا اور معاشی ترقی کو فروغ دے گا۔ اسی طرح ای پاکستان کے تحت جدید ٹیکنالوجی کا فروغ پاکستان کو عالمی مارکیٹ میں نمایاں کرے گا اور ماحولیاتی تحفظ کے شعبے میں پائیدار ترقی کے لیے قدرتی وسائل کا بہتر استعمال ہو گا جبکہ سماجی مساوات کے شعبے میں خواتین اور نوجوانوں کو معاشی ترقی میں شامل کیا جائے گا۔وزیر منصوبہ بندی نے کہاکہ ہم نے گذشتہ 16 ماہ میں پاکستان کو درپیش اہم مسائل کا جائزہ لیا اور ان ترجیحات کی نشاندہی کی جن کی بنیاد پر ایک مستحکم بنیاد قائم کی جا سکتی ہے۔ اس سے پانچ ایز فریم ورک بنا، جو ہمارے بنیادی چیلنجز کو حل کرے گا۔انہوں نے وضاحت کی کہ اس فریم ورک میں برآمدات کو بڑھانا اور متنوع بنانا شامل ہے تاکہ برآمدات پر مبنی ترقی معیشت کا مرکزی جزو بن سکے، ڈیجیٹل تبدیلی کی طاقت کو استعمال کرتے ہوئے پاکستان کو ایک تکنیکی معیشت میں تبدیل کیا جا سکے، ماحولیاتی، خوراک اور پانی کے تحفظ کو یقینی بنا کر پائیداری حاصل کی جا سکے، توانائی کے وسائل کا مؤثر استعمال اور کم لاگت پر توجہ دی جا سکے، اور ملٹی ماڈل ٹرانسپورٹ کاریڈورز تعمیر کیے جا سکیں۔ وفاقی وزیر نے کہا کہ فریم ورک مساوات، اخلاقیات اور بااختیاری کو بھی فروغ دیتا ہے، جس میں نوجوانوں اور خواتین کو مستقبل کی ترقی کے عمل میں اہم کردار ادا کرنے کے لیے اہمیت دی گئی ہے۔ انہوں نے سول سرونٹس پر زور دیا کہ وہ عوامی مسائل کے بہتر انتظام کے لیے اپنی تمام صلاحیتوں کو بروئے کار لائیں۔ حکومت کی جانب سے اس پروگرام کے تحت جو اہداف مقرر کیے گئے ہیں ان میں سب سے پہلے برآمدات کو اگلے پانچ سال میں 60 ارب ڈالر سالانہ تک پہنچانا ہے۔ واضح رہے پاکستان کی برآمدات کا موجودہ حجم 30 ارب ڈالر سالانہ کے لگ بھگ ہے۔ اِسی طرح جی ڈی پی کی شرح نمو کو آئندہ پانچ برس میں چھ فیصد تک لے جانا ہے۔ رواں مالی سال کی پہلی سہ ماہی میں شرح نمو ایک فیصد سے بھی کم رہی ہے۔ ای پاکستان کے شعبے میں آئندہ پانچ برس میں انفارمیشن ٹیکنالوجی کی فری لانسنگ انڈسٹری کو پانچ ارب ڈالر تک لے جانے کا ہدف مقرر کیا گیا ہے جس کے لیے سالانہ دو لاکھ آئی ٹی گریجویٹس تیار کیے جائیں گے۔ماحولیاتی تبدیلی کے شعبے میں آئندہ پانچ برس میں گرین ہاؤس گیسز میں 50 فیصد تک کمی کا ہدف مقرر کیا گیا ہے اور اس کے ساتھ قابل کاشت زمین میں 20 فیصد سے زائد اضافہ اور پانی کو ذخیرہ کرنے کی گنجائش میں دس ملین ایکٹر فٹ تک کا اضافہ کرنا ہے۔ توانائی کے شعبے میں قابل تجدید توانائی کا حصہ دس فیصد تک بڑھانا ہے سماجی مساوات کے شعبے میں ’اڑان پاکستان‘ کی دستاویز کے مطابق غربت کی شرح میں 13 فیصد تک کمی لانا ہے۔ واضح رہے کہ وفاقی حکومت کی جانب سے لانچ کردہ اقتصادی بحالی اور معاشی ترقی کے پانچ سالہ منصوبے اڑان پاکستان میں 5ایز سے مراد ایکسپورٹ، ای پاکستان، انوائرنمنٹ اینڈ کلائمیٹ چینج، انرجی اینڈ انفراسٹرکچر، اور ایکویٹی اینڈ ایمپلائمنٹ ہے۔اس منصوبے کا مقصد اہم اقتصادی مسائل حل کرنے کے لیے ایک ہدف شدہ فریم ورک فراہم کرنا ہے۔معاشی ماہرین کا کہنا ہے کہ ملک میں خوشحالی لانے اور غربت کے خاتمے کیلیے تھنک ٹینکس قائم کیے جائیں اور اڑان پاکستان منصوبے کے تمام 5 ایز کو سی پیک کے دوسرے فیز میں شامل کیا جائے۔ ماہرین اقتصادی امورکا کہنا ہے کہ حکومت نے معاشی خوشحالی کیلیے ایک نیا اور جامع منصوبہ لانچ کیا ہے منصوبے کو کامیاب بنانے کیلیے انڈسٹری، پیداواری ذرائع، ٹیکس، انرجی، قانون کی عملداری، اور سیاسی استحکام کیلیے نمایاں اصلاحات ضروری ہیں، حکومت کو بیوروکریسی کی مکمل اوورہالنگ، اعلیٰ تعلیم، ڈیجیٹلائزیشن، مصنوعی ذہانت، سائنس اور اسپیس، ہائبرڈ ایگریکلچر، اسپیشل اکنامک زونز کی تعمیر، الیکٹرک وہیکلز کیلیے جوائنٹ وینچرز، سولر اور ونڈ پینلز، لیتھیم بیٹریز اور انڈسٹریلائزیشن کو فروغ دینے کیلیے اقدامات کرنے ہونگے۔ اڑان پاکستان پروگرام کو کامیاب بنانے کے بارے میں ماہر اقتصادیات ڈاکٹر شاہد حسن صدیقی نے کہا جی ڈی پی کے تناسب میں اضافہ، گھریلو بچت میں اضافہ، معیاری سرمایہ کاری اور ٹیکسیشن پالیسی کو منصفانہ بنانا قومی معیشت کو فروغ دینے میں اہم کردار ادا کر سکتا ہے۔ ایگزیکیوٹیو ڈائریکٹر سینٹر فار سائوتھ ایشیا اور انٹرنیشنل اسٹڈیز اسلام آباد ڈاکٹر محمود الحسن کا کہنا ہے کہ سی پیک کے آغاز کے بعد سے چین پاکستان کا سب سے بڑا سرمایہ کاری، کاروباری اور تجارتی پارٹنر بن چکا ہے۔ اڑان پاکستان کی کامیابی کیلیے چین کی مسلسل حمایت اور تعاون درکار ہے، چین کو ان شعبوں میں جو اڑان پاکستان کا حصہ ہیں، کافی مہارت حاصل ہے، اس وجہ سے اڑان پاکستان کو سی پیک میں شامل کرنا ایک بہترین فیصلہ ہوگا۔ وزیر اعظم شہباز شریف نے اپریل 2024 کے اوائل میں پاکستان کی برآمدات کو دو گنا کرنے کے لیے ایک جامع پانچ سالہ حکمت عملی بنانے اور باہمی تعاون پر مبنی نقطہ نظر کی اہمیت پر زور دیا تھا۔انہوں نے وزارت تجارت سے کہا تھا کہ وہ کامیاب تاجروں اور اسٹیک ہولڈرز کی مشاورت سے برآمدات کی حکمت عملی وضع کریں۔’اُڑان پاکستان‘ کے تحت آئندہ پانچ اور طویل مدت میں سنہ 2035 تک کے معاشی اہداف مقرر کیے گئے ہیں۔ مثلاً ملکی شرح نمو میں اگلے پانچ سال میں چھ فیصد اضافے کا ہدف مقرر کیا ہے اور آئندہ 10 برس یعنی 2035 تک مجموعی قومی پیداوار (جی ڈی پی) کا سائز ایک ٹریلین ڈالر تک لے جانے کا ہدف مقرر کیا ہے۔ یاد رہے کہ اس وقت پاکستان کا جی ڈی پی 374 ارب ڈالر کے لگ بھگ ہےوزیر منصوبہ بندی احسن اقبال نے کہا ہےکہ حکومت نے قومی اقتصادی تبدیلی کا منصوبہ شروع کیاہے یہ پانچ سالہ منصوبہ ‘پانچ ایز‘ (برآمدات، ای-پاکستان، مساوات اور بااختیاری، ماحولیاتی، خوراک اور پانی کا تحفظ، اور توانائی اور بنیادی ڈھانچہ) کے تحت اہم اقتصادی مسائل حل کرنے کے لیے ایک ہدف شدہ فریم ورک فراہم کرتا ہے۔ وزیر خزانہ محمد اورنگزیب نے ایک بیان میں کہا ہے کہ یہ منصوبہ پاکستان کو اگلے تین سالوں میں دنیا کے بڑے ممالک کی صف میں لاکھڑا کرے گا۔ پاکستان کی معیشت مستحکم ہو چکی ہے اور اب نجی شعبے کو معاملات چلانے ہوں گے۔اڑان پاکستان پروگرام کے دو، تین سال کے بعد پاکستان کو آئی ایم ایف کے پاس جانے کی ضرورت نہیں پڑے گی۔ وزیر اعظم پاکستان شہباز شریف نے 30 دسمبر کو اس پروگرام کا باقاعدہ افتتاح ایک ایسے موقع پر کیا جب حکومت کی جانب سے ملکی معیشت میں استحکام اور مہنگائی کی رفتار میں کمی سے متعلق دعوے کیے گئے ہیں۔ جبکہ آئی ایم ایف سے سات ارب ڈالر کے بیل آؤٹ پیکج کے سلسلے میں پاکستان ٹیکس، نجکاری اور توانائی سمیت دیگر شعبوں میں اصلاحات کی کوششیں کر رہا ہے۔واضح رہے کہ وزیراعظم شہباز شریف کا کہنا ہے کہ ملک کو مستحکم، مضبوط اور خوشحال بنانے کیلیے اڑان پاکستان منصوبہ قومی ترقی میں اہم سنگ میل ثابت ہوگا، اقتصادی ٹیم کی انتھک کاوشوں کی بدولت آئندہ چھ ماہ میں اقتصادی اہداف حاصل کر لیں گے.رواں مالی سال کے دوران ترسیلات زر35 ارب ڈالر تک پہنچنے کی توقع ہے جوملکی تاریخ کا بڑا اعزاز ہوگا، گزشتہ 9ماہ کے مثبت معاشی اشاریوں ، بہتر اقتصادی کارکردگی اور شفافیت کی گواہی عام آدمی بھی دے رہا ہے، پرعزم ہیں کہ نیا سال پاکستان کی ترقی اور خوشحالی کی نوید لے کر آئے گا۔ وزیر اعظم کا کہنا تھا کہ معاشی ترقی برآمدات کے فروغ سے حاصل کی جا سکتی ہے، اس کے علاوہ کوئی چارہ نہیں، شرح نمو میں استحکام آ چکا ہے، اب ہمیں آگے بڑھنا ہے۔ معاشی ٹیم کی کاوشوں سے قومی خزانے میں72ارب روپے کے محصولات وصول ہوئے۔ دسمبر کے محصولات کا ہدف تقریباً حاصل کر لیا ہے جو97فیصد ہے۔ کراچی بندرگاہ پر فیس لیس آپریشن کے آغاز کیا گیا ہے، ایف بی آر کی ڈیجیٹائزیشن کا عمل مکمل کیا جا رہا ہے۔ کنٹینرز کی انسپیکشن کے وقت میں39فیصد کمی آئی ہے اور کاروباری حضرات کو 89 فیصد ریلیف ملا ہے۔ چینی کی افغانستان کو اسمگلنگ زیرو فیصد ہے جس سے ہم چینی برآمد کرنے کے قابل ہوئے۔ تیل کی سمگلنگ میں بھی نمایاں کمی ہوئی ہے۔ مختلف وزارتوں کی رائٹ سائزنگ، ای گورننس اور دیگر اقدامات پر عمل پیرا ہیں قومی معیشت میں میکرو استحکام لانے میں کامیاب ہوئے ہیں اب قومی معیشت کی ترقی کی جانب بڑھنا ہوگا جس کیلئے اپنے اہداف کے حصول کو یقینی بنانا ہوگا، پالیسیز پر عملدرآمد کرنا ہوگا اور آگے بڑھیں تاکہ رواں مالی سال کے اختتام تک اہداف حاصل کئے جا سکیں۔ اقتصادی شرح نمو کیلئے ہم برآمدات پر توجہ دیں گے علاوہ ازیں شہباز شریف نے مہنگائی کی شرح81 ماہ کی کم ترین سطح پر آنے پر اظہار اطمینان کرتے ہوئے کہا کہ دسمبر 2024ء میں مہنگائی کی شرح 4.1 فیصد پر آنا خوش آئند ہے۔ میکرو اکنامک استحکام حاصل کرلیا ہے لیکن یہ صرف آغاز ہے ،ہم نے اڑان پاکستان جیسے منصوبے کا آغاز کیا۔