(اصغر علی مبارک)
اسلام آباد (ٹی این ایس) وزیر اعظم شہباز شریف نے کہا ہے کہ بریتھ پاکستان کا مقصد موسمیاتی تبدیلی جیسے سنگین چیلنج پر غورکرنا ہے۔ اسلام آباد میں ڈان میڈیا کی عالمی موسمیاتی کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے شہباز شریف کا کہنا تھا کہ کانفرنس کے کامیاب انعقاد پر تمام شراکت داروں کا مشکور ہوں۔ شہباز شریف نے کہا کہ کانفرنس کا مقصد موسمیاتی تبدیلی جیسے سنگین چیلنج پر غورکرنا ہے، پاکستان کی کاربن کے اخراج کی شرح ایک فیصد سے کم ہے۔ان کا کہنا تھا کہ شدید سیلاب، گلیشیئرز کے تیز پگھلاؤ، شدید گرمی کی لہر کا سامنا کرنا پڑتا ہے، 2 سال پہلے شدید سیلاب کی وجہ سے تباہی کا سامنا کرنا پڑا، پاکستان موسمیاتی تبدیلی سے سب سے زیادہ متاثر ممالک میں شامل ہے۔اس کے بعد چیئرمین سینیٹ اور قائم مقام صدر یوسف رضا گیلانی نے بریتھ پاکستان کانفرنس سے اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان کو تباہ کن سیلابوں کا سامنا رہا ہے، موسمیاتی تبدیلی آج کی زندہ حقیقت ہے ۔ ان کا کہنا تھا کہ پالیسی کے نقطہ نظر سے ہم موسمیاتی تبدیلیوں پرکئی اقدامات کیے، پاکستان کی کاربن اخراج کی شرح ایک فیصد سے بھی کم ہے۔ یوسف رضا گیلانی نے کہا کہ موسمیاتی تبدیلی آج کی زندہ حقیقت ہے، ہم نے پالیسی کے تحت موسمیاتی تبدیلیوں پر کئی اقدامات کیے، پاکستان کی کاربن اخراج کی شرح ایک فیصد سے بھی کم ہے۔ چیئرمین سینیٹ اور قائم مقام صدر کا کہنا تھا کہ پاکستان یہ جنگ اکیلے نہیں لڑ سکتا، پاکستان موسمیاتی تبدیلی کے خلاف جنگ اکیلے نہیں لڑ سکتا، ہوا،پانی اور شمسی توانائی منصوبوں کو ترجیح دی جارہی ہے۔ قبل ازیں، سپریم کورٹ کے سینئر پیونی جج جسٹس منصور علی شاہ نے عالمی ماحولیاتی عدالت کے قیام کی تجویز پیش کرتے ہوئے کہا ہے کہ موسمیاتی تبدیلی اب دور کی بات نہیں ہے، اس بات کو سمجھنے کی ضرورت ہے کہ یہ موجودہ اور بڑھتا ہوا بحران ہے جو کہ بالخصوص عالمی جنوب کے ممالک کے لیے خطرہ ہے، عالمی جنوب بشمول پاکستان نے عالمی اخراج میں سب سے کم حصہ ڈالا لیکن ہمیں اس کا سب سے زیادہ خمیازہ بھگتنا پڑا۔ کنونشن سینٹر اسلام آباد میں ڈان میڈیا گروپ کے زیراہتمام عالمی موسمیاتی کانفرنس ’بریتھ پاکستان‘ سے خطاب کرتے ہوئے جسٹس منصور علی شاہ نے مزید کہا کہ پاکستان موسمیاتی تباہی کے تناظر میں فرنٹ لائن اسٹیٹ ہے اور اس کا شمار خطرے سے سب سے زیادہ دوچار 5 ممالک میں ہوتا ہے، جسے شدید موسمی حالات، گلیشیئرز کے پگھلاؤ، پانی کی قلت اور تباہ کن سیلابوں کا سامنا ہے۔وفاقی وزیر برائے منصوبہ بندی و ترقیات احسن اقبال نے کہا کہ موسمیاتی تبدیلی ایک سنگین عالمی مسئلہ ہے جس کے خلاف جنگ اکیلے نہیں لڑی جاسکتی۔ احسن اقبال نے کہا کہ ’موسمیاتی تبدیلی کے اس عالمی مسئلے پر آواز اٹھانے، اپنے اخبار میں خصوصی سپلیمنٹ شائع کرنے اور آج کی اس کانفرنس کے انعقاد پر ڈان میڈیا گروپ اور ان کے شراکت داروں کو مبارک باد پیش کرتا ہوں۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’ اس کانفرنس میں دنیا بھر کے ماہرین ایک اہم عالمی مسئلے موسمیاتی تبدیلی کے لیے اکٹھا ہوئے ہیں، یہ وقت موسمیاتی تبدیلی کے حوالے سے اہم اقدامات کرنے کا ہے۔‘انہوں نے کہا کہ موسمیاتی تبدیلی پاکستان کا اہم مسئلہ ہے، کاربن کے اخراج میں ایک فیصد سے بھی کم حصہ ہونے کے باوجود پاکستان کو اس تبدیلی کے سنگین نتائج بھگتنا پڑ رہے ہیں۔ وفاقی وزیر کا کہنا تھا کہ پاکستان کا شمار موسمیاتی تبدیلی سے متاثرہ ترین ممالک میں ہوتا ہے۔ان کا کہنا تھا کہ پاکستان کے لیے موسمیاتی تبدیلی بڑ اخطرہ ہے، جب کہ ہمارے ملک کا ایک اور بڑا مسئلہ اسموگ کا ہے، خراب ایئر کوالٹی کے سبب لوگوں کی سحت اثر انداز ہو رہی ہے۔اقوام متحدہ کے ریذیڈنٹ اینڈ ہیومینٹیرین کوآرڈینیٹر محمد یحییٰ کا کہنا تھا کہ اس خطے سے تعلق رکھنے والے افراد کو یہ بتانے کی ضرورت نہیں ہے کہ موسمیاتی تبدیلی سے خطے کو کیا نقصانات بھگتنا پڑ رہے ہیں، غیر معمولی گرمی، شدید بارشیں، سیلاب، خشک سالی اور موسمی شدت میں اضافہ ہوتا جارہا ہے۔محمد یحییٰ نے کہا کہ ہمیں اس بات کا ادراک ہے کہ یہ موسمیاتی تبدیلی کا ذمہ دار پاکستان نہیں ہے، دنیا کے 20 امیر ترین ممالک کا کاربن کے اخراج میں 80 فیصد حصہ ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ اس خطے کے دیگر ممالک خاص طور پر پاکستان کا کاربن کے اخراج میں ایک فیصد سے بھی کم حصہ ہونے کے باوجود وہ متاثرہ ترین ممالک میں شامل ہے۔عالمی بینک میں موسمیاتی تبدیلی کی عالمی ڈائریکٹر ویلری ہکی نے کانفرنس میں اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ بہت سے لوگ مرجائیں گے، اگر ہم اس بات کا انتظار کریں گے کہ گلوبل نارتھ کی جانب سےوہ تمام رقم رکھی جائے، جو انہیں اخلاقی طور پر دینی چاہیے۔وزیر خزانہ محمد اورنگزیب نے اپنے خطاب میں کہا کہ ’جہاں تک پاکستان کی پائیداری اور ہماری مجموعی معاشی صورتحال کا تعلق ہے، تو اس کا انحصار 2 مسائل اور اس بات پر ہوگا کہ ہم ان سے کیسے نمٹتے ہیں۔ماحولیاتی تبدیلی کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ ’ہم ’کیا اور کیوں‘ جانتے ہیں، اس حوالے سے پالیسیز کی کمی نہیں ہے، تاہم سوال یہ ہے کہ اس پر عمل در آمد کیسے اور کون کرےگا۔اسٹیٹ بینک آف پاکستان کی سابق گورنر شمشاد اختر نے کلائمیٹ فنانس کے موضوع پر بات کرتے ہوئے کہا کہ یہ ان کا ’جنون‘ رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان کے موسمیاتی چیلنجز کے لیے 2050 تک سالانہ 40 سے 50 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کی ضرورت ہے۔اسٹیٹ بینک کے سابق گورنر سلیم رضا نے اپنے خطاب میں بتایا کہ کس طرح اخراج کی حد کی وجہ سے بہت سی کمپنیاں اس میں کمی کے طریقے تلاش کر رہی ہیں۔عالمی بینک میں موسمیاتی تبدیلی کی ڈائریکٹر ویلری ہکی نے ’پاکستان کو کلائمیٹ فنانس کی اہم ضرورت‘ کے سیشن سے خطاب کیا۔ ویلری ہکی نے ماحولیات کی فنڈنگ کے مسئلے پر بات کرنے سے پہلے مقررین کی بصیرت کو شاندار قرار دیتے ہوئے ان کے موقف کی ستائش کی۔لمز کے وائس چانسلر علی چیمہ نے ’2047 میں پاکستان کی 100 ویں سالگرہ منانے: ماحولیات کی لچک اور ماحولیاتی انصاف کے لیے ایک وژن‘ کے عنوان سے سیشن کی صدارت کی۔ اسکرین پر دکھائے گئے گراف اور اعداد و شمار کے ساتھ، علی چیمہ نے ماحولیات کے بحران کے تاریخی ارتقا کے بارے میں بات کی،سینیٹر شیری رحمٰن نے کانفرنس کے چوتھے سیشن میں اپنے میں خطاب میں 2047 کے لیے پاکستان کے وژن کے بارے میں بات کی۔ کانفرنس کی اہمیت کو اجاگر کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ’اگر وراثتی میڈیا آب و ہوا اور ماحولیاتی مسائل کو گفتگو کا مرکزی حصہ بنانے کی کوشش کرتا ہے، تو ہم آدھے راستے پر ہیں۔‘پنجاب کی سینئر وزیر مریم اورنگزیب نے ویڈیو لنک کے ذریعے کانفرنس سے خطاب کیا جس میں انہوں نے حال ہی میں اپنے صوبے کو درپیش اسموگ کے بحران پر بات کی۔ ان کا کہنا تھا کہ 4،5 سالوں سے لاہور میں اسموگ کا مسئلہ تھا، اسموگ سے صرف لاہور نہیں بلکہ ملک اور خطے کے دیگر حصے بھی متاثر ہوئے تاہم اب اس کے لیے مختلف اقدامات کیے جارہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ پنجاب میں ماس ٹرانزٹ کو روایتی ایندھن سے الیکٹرک پر منتقل کیا جارہا ہے، صوبے بھر میں پلاسٹک کے تھیلوں کے استعمال پر پابندی عائد ہے اور تمام ادارے پلاسٹک کے تھیلوں سے متلعق متحرک ہیں۔پاکستان میں ڈبلیو ایچ او کی نائب نمائندہ ایلن نے صحت پر فضائی آلودگی کے اثرات کے بارے میں بات کی۔ عالمی ادارہ صحت کا اندازہ ہے کہ 2030 سے 2050 کے درمیان موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے دنیا بھر میں غذائی قلت، ملیریا، ڈائریا اور گرمی کے دباؤ کی وجہ سے سالانہ ڈھائی لاکھ اضافی افراد متاثر ہوں گے۔ تنظیم سینٹر فار سائنس اینڈ انوائرنمنٹ انڈیا کی ڈائریکٹر جنرل سنیتا نارائن نے فضائی آلودگی سے نمٹنے کے لیے مقامی حل کی ضرورت کی تجویز پیش کی۔احسن اقبال نے تجویز دی کہ اقوام متحدہ آلودگی پھیلانے والوں پر کسی نہ کسی طرح کا عالمی ماحولیاتی ٹیکس عائد کرے اور اس ٹیکس کی رقم سے ایک ایسا فنڈ ہونا چاہیے جو جنوب کے ترقی پذیر ممالک کو موسمیاتی تبدیلی کے مسائل سے نمٹنے میں مدد دے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان سمیت دنیا بھرکو موسمیاتی تبدیلی سے شدید خطرات لاحق ہیں، حکومت موسمیاتی تبدیلی سے پیدا ہونے والے مسائل پر خصوصی توجہ دے رہی ہے، وفاقی وزارت منصوبہ بندی صوبوں کےساتھ ملکرپالیسی تشکیل دیتی ہے۔پنجاب کی سینئر وزیر مریم اورنگزیب نے اپنے کلیدی خطاب میں گزشتہ 12 ماہ کے دوران پنجاب کے آب و ہوا کے تجربات پر بات کی، انہوں نے جنوبی پنجاب میں شدید سیلاب، ہیٹ ویو، ہوا کے مضر صحت معیار اور پانی کی قلت پر بات کرتے ہوئے کہاکہ ہمیں پنجاب بھر میں آب و ہوا کی لچک کے لیے ایک جامع، مربوط اور کثیر الجہتی نقطہ نظر اپنانا ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ پنجاب نے اپنی پہلی موسمیاتی پالیسی موافقت اور تخفیف کو مدنظر رکھ کر مرتب کی ہے ، ماحولیاتی انصاف اس پالیسی کا مرکزی نکتہ ہے، اسموگ کے خاتمے کے لیے 10 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں جبکہ پنجاب بھر میں موسمیاتی تبدیلیوں سے نمٹنے کے منصوبوں کے لیے 100 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں۔ مریم اورنگزیب نے مزید کہا کہ پاکستان نے بھارت کے ساتھ بات چیت شروع کر دی ہے اور وزارت خارجہ کو خط لکھا ہے کہ وہ خطے کے ان ممالک کے ساتھ بات چیت شروع کرے جن کا فضائی معیار پر براہ راست اثر پڑتا ہے۔وزیراعظم کی کوآرڈینیٹر برائے موسمیاتی تبدیلی رومینہ خورشید عالم نے اپنے خطاب میں کہا کہ پاکستان اپنے موسمیاتی سفر میں ایک اہم موڑ پر کھڑا ہے، ماحولیاتی تبدیلی کے خطرے سے متاثرہ ملک کے طور پر ہمیں بڑھتے ہوئے مسائل، شدید موسمی تغیرات، پانی کی کمی اور ماحولیاتی انحطاط کا سامنا ہے، تاہم پاکستان کا تعارف صرف یہ مسائل نہیں ہیں بلکہ مشکلات کا سامنا کرنے اور ان پر قابو پانے کی صلاحیت ہماری پہچان ہے۔ ماحولیاتی ناانصافیوں کا ذکر کرتے ہوئے ان کہنا تھا کہ ’پاکستان دوسروں کی پیدا کردہ مصیبت کا خمیازہ بھگت رہا ہے۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ ’حالیہ سیلابوں میں قیمتی جانوں کا ضیاع اور انفرااسٹرکچر کی تباہی تقاضا کرتی ہے کہ پاکستان کو موسمیاتی تبدیلی کے نقصان سے بچانے اور تعمیر نو کی کوششوں میں کوئی کمی نہیں رکھنی چاہیے‘۔یو این ای پی ایشیا پیسیفک کے ریجنل ڈائریکٹر کی سینئر ریجنل ایڈوائزر برائے کلائمیٹ اینڈ اینوائرنمنٹ ابان مارکر کبراجی کا کہنا تھا کہ اس منصوبے کا آغاز اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل کی جانب سے موسمیاتی تبدیلی، حیاتیاتی تنوع کے نقصان اور آلودگی کے بحران پر قابو پانے کی کال سے ہوا۔ انہوں نے پاکستان میں موسمیاتی تبدیلی کے نقصانات پر قابو پانے کی کوششوں پر زور دیا۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ’چونکہ ہم ایک انتہائی غیر متوقع صورتحال سے گزر رہے ہیں، لہٰذا ہمیں اسی تناظر میں منصوبہ بندی بھی کرنی چاہیے۔پاکستان میں یونیسیف کے نمائندے عبداللہ فاضل کا کہنا ہے کہ موسمیاتی تبدیلی کا مقابلہ کرنے کے لیے نوجوانوں کی شمولیت بہت اہم ہے۔ انہوں نے سوال اٹھایا کہ ’موسمیاتی تبدیلی کے خلاف جنگ میں نوجوانوں کو متحرک کرنے کے لیے سوشل میڈیا کو کس طرح بہترین طریقے سے استعمال کیا جاسکتا ہے۔ انہوں نے پاکستان میں خاص طور پر کمیونٹی اور نچلی سطح پر ٹھوس اقدامات کیے جانے کی ضرورت پر زور دیا۔ ان کا کہنا تھا کہ ’نوجوانوں کو تعلیم دینا اور اسکولوں کے نصاب میں ماحولیاتی تحفظ کے حوالے سے آگہی فراہم کرنا بہت اہم ہے‘۔ انہوں نے پاکستان کے ’لیونگ انڈس پروگرام‘ (دریائے سندھ کی حفاظت و بحالی کا پروگرام) کو مستقبل کے لیے پاکستان کا بہتر منصوبہ قرار دیا۔ موسمیاتی تبدیلی کے وسیع تر حل کے بارے میں بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ یہ اہم ہے کہ ہم اس کانفرنس کیا لے کر اٹھتے ہیں اور لاکھوں نوجوانوں، بالخصوص انہیں جو تعلیم و تربیت کا حصہ نہیں ہیں، کو کیسے متحرک کرسکتے ہیں؟ لیکن جو لوگ تعلیم و تربیت سے وابستہ ہیں، ان کے لیے بھی ہم ان تمام توانائیوں اور وسائل کو یکجا کر کے پاکستان میں اپنا اثر کیسے ڈال سکتے ہیں؟ میرے خیال میں یہ وقت کی ضرورت ہے۔پالیسی ماہر ڈاکٹر داؤد منیر کا کہنا تھا کہ موسمیاتی تبدیلی ایک مشکل موضوع ہے، جس کے اثرات مستقبل میں ابھرتے ہیں۔یہ ایک ایسا مسئلہ ہے جو ہمیں اپنے حال کے حوالے سے نہیں، آنے والی نسلوں کے حوالے سے سوچنے کی ترغیب دیتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس حوالے سے سرکاری شعبے اور نجی شعبے کے درمیان تعاون مرکزی حیثیت رکھتا ہے کیوں کہ یہ کوئی بیرونی مسئلہ نہیں ہے۔ انہوں نے حکومتی اقدامات کا اعتراف کرتے ہوئے کہا کہ پبلک- پرائیویٹ پارٹنرشپ اتھارٹی(پی 3 اے) کے ذریعے اب پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ مکالمے کو فروغ دینے کے لیے ایک فعال رسمی راستہ موجود ہےپاکستان بینکس ایسوسی ایشن کے سی ای او منیر کمال نے کوپ 23 کی ایک رپورٹ کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ’جہاں تک موسمیاتی تبدیلی کا تعلق ہے تو پاکستان موسمیاتی تبدیلی سے متاثرہ ترین ممالک میں 8ویں نمبر پر آتا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ’یہ کانفرنس ہمارے لیے ایک ویک اپ کال ہے کہ اس مسئلے سے نمٹنے کے لیے ابھی بہت کچھ کرنا باقی ہے‘۔انہوں نے مزید کہا کہ ہم نے 2022 میں موسمیاتی تبدیلی کے اثرات بھگتے ہیں، اب یہ عالمی سطح پر بھی تسلیم کیا جاتا ہے کہ پاکستان میں 2022 کے سیلاب سے بڑے پیمانے جو تباہی ہوئی، وہ موسمیاتی تبدیلی ہی کا نتیجہ تھی۔ ان کا کہنا تھا کہ صرف ایک سال اور چند ماہ میں پاکستان جیسے غریب ملک کو تقریباً 12 ارب 50 کروڑ ڈالر کا نقصان پہنچا، جو ایک ایسے ملک کے لیے مشکل ترین ہے جو 2000 ڈالر فی کس آمدنی تک پہنچنے کے لیے جدوجہد کر رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ 2023سے 2030 کے درمیان پاکستان کو 348 ارب ڈالر کی ضرورت ہے، اگر ہم نے اس پہلو پر توجہ نہ دی تو 2050 تک پاکستان کی جی ڈی پی کو 18 سے 20 فیصد تک نقصان پہنچے گا۔لاہور یونیورسٹی آف مینجمنٹ سائنسز(لمز) کے بانی سید بابر علی پانی کی اہمیت پر زور دیتے ہوئے کہا کہ پاکستان کو احساس ہونا چاہیے کہ ہمارے پانی کو بچانا کتنا ضروری ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ صنعتوں کے تازہ پانی کے استعمال سے پانی کی مقدار کم ہوسکتی ہے، تازہ پانی استعمال کرنے والی صنعتوں کو پانی ری سائیکل کرنا چاہیے تاکہ پانی کے قطرے قطرے کی حفاظت یقینی بنائی جاسکے۔ انہوں نے بتایا کہ چمڑے کی صنعت میں پائے جانے والے کروم کو ری سائیکل کرنا مالی طور پر بھی فائدہ مند ہوسکتا ہے۔ انہوں نے ڈرپ اریگیشن کے استعمال کے لیے کاشت کاروں کو زیادہ سے زیادہ تعلیم دینے کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ حکومت کو اس حوالے سے خود کو تعلیم یافتہ بنانا چاہیے تاکہ بعدازاں یہ معلومات صنعتوں اور کاشت کاروں کے ساتھ بانٹی جاسکیں۔انہوں نے کہا کہ ہمارے پاس اب بھی دنیا کے بیشتر ممالک کے مقابلے میں زیادہ پانی ہے، جس پر ہمیں شکر گزار ہونا چاہیے اور اس کی حفاظت یقینی بنانی چاہیے۔ بابر علی نے بارش کے پانی کو محفوظ بنانے کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے کہا کہ ہم اب بھی اپنے بارش کے پانی کو اس طرح جمع نہیں کر رہے، جس طرح یہ شہروں میں اور دوسری جگہوں پر کیا جا سکتا ہے۔پارلیمانی سیکریٹری منصوبہ بندی و ترقیات اور خصوصی اقدامات وجیہہ قمر نے کہا کہ حکومت پاکستان نے ماحول دوست نقل و حمل کو فروغ دینے کے لیے الیکٹرک وہیکل کے حوالے سے اپنی پالیسی پر نظر ثانی کی ہے تاکہ پبلک-پرائیویٹ پارٹرنر شپ فریم ورک کے تحت نجی شعبے کی اس ضمن میں سرمایہ کاری بڑھ سکے۔ ان کا کہنا تھا کہ ہم کم دھواں چھوڑنے والی گاڑیوں کے استعمال کی ترغیب دے رہے ہیں، جب کہ گاڑیوں کے اخراج کے معیارات کے حوالے سے بھی اقدامات کیے جا رہے ہیں۔جاز کے چیف کارپوریٹ اینڈ ریگولیٹری آفیسر فخر احمد نے ڈیجیٹلائزیشن کے حوالے سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ٹیکنالوجی کمپنیز نے اس حوالے سے بہت سے اقدامات کیے ہیں، زیادہ تر کمپنیاں ’نیٹ زیرو‘عزائم کی طرف بڑھ رہی ہیں، جن کا مقصد کاربن کے اخراج کو کم کرنا ہے۔ انہوں نے سوال کیا کہ ٹیک اکانومی بجلی سے چلتی ہے اور بجلی فوسل فیول اور لیتھیم کی بیٹریز سے بنتی ہے، تو ان حالات میں ہم کیا کر سکتے ہیں؟ انہوں نے ٹیک کمپنیوں کے کردار پر بات کرتے ہوئے کہا کا قبل از وقت انتباہ کے نظام، آفات کو کم کرنے اور بعد از آفات امدادی کاموں کے حوالے سے ٹیک کمپنیوں کا کردار بہت اہم ہے۔انہوں نے اس بات پر روشنی ڈالی کہ ٹیکنالوجی کمپنیز قابل تجدید توانائی کے زیادہ سے زیادہ استعمال اور موسمیاتی تبدیلی کے حوالے سے شعور و آگہی فراہم کرکے اپنا کردار ادا کرسکتی ہیں۔ایگزیکٹو ڈائریکٹر انگلش بسکٹس مینوفیکچررز (ای بی ایم) شاہ زین منیر کا کہنا تھا کہ ہمارے سامنے موسمیاتی تبدیلی ایک چیلنج کے طور پر موجود ہے، اور غذائیت کی کمی بھی اتنی ہی تباہ کن اور عوام کے لیے خوراک کو سستا رکھنا بھی ایک چیلنج ہے۔ انہوں نے بتایا کہ موسمیاتی تبدیلی ہر کسی کا مسئلہ نہیں ہے، یہ بنیادی طور پر غریبوں کے لیے ایک مسئلہ ہے اور ہمیں اس حقیقت کو تسلیم کرنا ہوگا۔انہوں نے کہا کہ نجی شعبہ قیادت کرے گا، تاہم آگاہی پھیلانے اور منصوبے بنانے کا وقت گزر چکا، تاہم ضرورت اس بات کی ہے کہ حکومت عوام کو سستی خوراک کی فراہمی میں ہماری مدد کرے۔ڈی اے آئی برطانیہ کی ڈائریکٹر کلائمیٹ اینڈ انوائرونمنٹ کیٹ ولسن ہرگریویز کا کہنا تھا کہ میرے خیال میں نجی شعبے کے پاس تین بڑی چیزیں ہیں، جن کے ذریعے وہ ماحولیاتی فنانس کے مسائل کو دور کر سکتے ہیں۔ ویلری ہکی کا حوالہ دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ہمیں پلمبنگ کو ٹھیک کرنے کی ضرورت ہے، لہٰذا کلائمیٹ فناسنگ کے لیے ماحول کی خامیوں کو دور کرنے کی ضرورت ہے۔انہوں نے نجی شعبے کے کردار پر زور دیتے ہوئے کہا کہ کہ موسمیاتی فنانس کے لیے سازگار ماحول قائم کرنا ہوگا، جب کہ بینکاری منصوبوں کی حکمت عملی اور پسماندہ گروہوں کے لیے رکاوٹوں کو دور کرنے میں نجی شعبے کے کردار پر بھی روشنی ڈالی۔الیکٹرک گاڑیاں بنانے والی کمپنی بی وائی ڈی/ میگا موٹرز کے نائب صدر برائے سیلز اینڈ اسٹریٹجی دانش خلیق نے کہا کہ جب ہم اخراج پر اثرات کے بارے میں بات کرتے ہیں، جب ہم خاص طور پر الیکٹرک گاڑیوں کو دیکھتے ہیں، تو روایتی گاڑیوں کے مقابلے کاربن کے اخراج میں 70 سے 80 فیصد کی کمی ہوتی ہے اور پلگ ان ہائبرڈ گاڑیوں میں کمی کا یہ تناسب 60 فیصد ہے۔ ماحولیات کے حوالے سے بی وائی ڈی کے عزم کے بارے میں بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ’بی وائی ڈی کی جانب سے تیار کردہ الیکٹرک گاڑیوں پر منتقلی سے تقریباً 80 ملین ٹن کاربن کی کمی ہوئی ہے۔ یہ ماحول سے کاربن جذب کرنے والے 1.3 ارب درختوں کے برابر ہے‘۔زونگ چائنا موبائل پاکستان لمیٹڈ کی ہیڈ آف اسٹریٹجی، کمیونی کیشن اینڈ سسٹینیبلٹی نبیلا یزدانی نے کہا کہ ہماری توجہ اس بات پر ہے کہ ہم اپنے بنیادی ڈھانچے میں کس طرح سرمایہ کاری کریں جو توانائی کے لیے کافی اور طویل مدت کے لیے پائیدار ہو۔انہوں نے زونگ کی جانب سے کاربن کے اخراج کو کم کرنے کے لیے سولرائزیشن جیسے اقدامات پر بھی بات کی اور ڈیجیٹلائزیشن کی اہمیت پر روشنی ڈالی۔بینک الفلاح کے گروپ ہیڈ اسٹریٹیجی، ٹرانسفارمیشن اینڈ کسٹمر ایکسپیرئنس عاصم واجد جواد نے ماحولیاتی مسائل اور موسمیاتی تبدیلی سے نمٹنے میں بینکاری کے شعبے کے کردار کے حوالے سے کہا کہ ہم اس کا ایک اہم حصہ ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ ہم اپنی سماجی ذمہ داری سے آگاہ اور ہر ایک کے ڈپازٹس کی حفاظت کر رہے ہیں لہٰذا ہمیں اس بات کو یقینی بنانا ہوگا کہ مالیاتی نظام مستحکم رہے، اسی طرح، ہمیں اپنے لوگوں اور ان کمیونٹیز کا بھی خیال رکھنا ہوگا، جہاں ہم رہتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ بینک الفلاح سیلاب متاثرین کی بحالی کے لیے سب سے بڑے عطیہ دہندگان میں سے ایک ہے، جس نے ایک کروڑ ڈالر کا عطیہ دیا، جب کہ ہم نے لوگوں کی پائیدار رہائش ممکن بنانے کے لیے بھی سرمایہ کاری کی ہے۔انٹرنیشنل فنانس کارپوریشن (آئی ایف سی) کے کنٹری منیجر ذیشان شیخ نے کہا کہ عالمی بینک گروپ کا حصہ ہونے کی حیثیت سے ماحولیاتی ایجنڈا ہماری ترجیح ہے، جب کہ موسمیاتی تبدیلی کے خطرات سے سب سے زیادہ دوچار پاکستان جیسے ملک میں اس مباحثے کی اہمیت مزید بڑھ جاتی ہے، یقینی طور پر یہ سرگرمی کے سب سے اہم شعبوں میں سے ایک ہے۔برطانوی ہائی کمیشن کی ڈیولپمنٹ ڈائریکٹر جو موئیر نے کہا کہ ’آپ کو موسمیاتی تبدیلی کو قبول نہ کرنے کے خطرات کی تخمینہ کاری کی ضرورت ہے‘۔ انہوں نے کہا کہ ’ہمیں یہ پوچھنے کے قابل ہونا چاہیے کہ اگر ہم خشک سالی میں نمو پانے والے بہتر بیج کی اقسام پر سرمایہ کاری نہیں کرتے اور اگر ہم اپنے مویشیوں کے لیے صحیح شیڈ فراہم نہیں کرتے، تو اس کی کیا قیمت چکانا ہوگی، کیونکہ جب آپ لاگت کو جانتے ہیں، تو آپ ترجیح دینا شروع کرسکتے ہیں کہ پہلے کیا کرنا ہے‘۔جرمن سوسائٹی فار انٹرنیشنل کوآپریشن کی ثوبیا بیکر نے تعمیل پر مبنی موافقت پر زور دیتے ہوئےکہا کہ یہ بہت اہم ہے کہ ہم اس خیال سے دور رہیں کہ پائیداری ایک ایسی چیز ہے جو ہم پر مسلط کی جا رہی ہے اور اس کے بجائے اس حقیقت پر توجہ مرکوز کریں کہ ماحول دوست صنعتیں نئی مارکیٹوں اور جدت طرازی کو فروغ دیتی ہیں اور مارکیٹوں اور ماحولیاتی تبدیلیوں دونوں کے لیے تنوع پیدا کرتی ہیں۔آب و ہوا کے حوالے سے پاکستان کی انتہائی خطرناک صورتحال کا حوالہ دیتے ہوئے انہوں نے مزید کہا کہ ہم اس ملک میں مادی خطرے سے اس وقت تک مؤثر طریقے سے نہیں نمٹ نہیں سکتے جب تک کہ ہمارے پاس مربوط اور موثر منتقلی کا طریقہ کار نہ ہو۔ انہوں نے کہا کہ آپ کے پاس دنیا میں تمام پالیسیاں ہوسکتی ہیں، لیکن اگر ان پالیسیوں کو ریگولیٹ یا مانیٹر نہیں کیا جاتا، تو ہم زیادہ آگے نہیں جاسکتے۔سندھ پیپلز ہاوسنگ برائے سیلاب متاثرین کے چیف ایگزیکٹو افسر ( سی ای او) خالد محمود شیخ نے سندھ حکومت کے متاثرین سیلاب کی بحالی کے پروگرام پر بات کرتے ہوئے کہ ہمارا (پبلک سیکٹر) مینڈیٹ 21 لاکھ گھروں کی تعمیر نو ہے، اب تک ہم 9 لاکھ گھر تعمیر کرچکے ہیں جبکہ ہر ماہ 50 ہزار گھر تعمیر کیے جا رہے ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ مکانات کی تعمیر نجی شعبہ کررہا ہے جبکہ بینک حکومت کی مدد کر رہے ہیں، انہوں نے کہا کہ ہمارا کام ایک وژن تیار کرنا اور ایسی پالیسیاں لانا ہے جو نجی شعبے کے لیے سازگار ہوں۔یونی لیور پاکستان کے چیئرمین اور چیف ایگزیکٹو افسر (سی ای او) عامر پراچہ نے کہا کہ موسمیاتی تبدیلی بحث کا موضوع بن چکی ہے کیونکہ اس سے ہر کوئی متاثر ہوا ہے۔ انہوں نے امریکا میں لگنے والی آگ کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ’کیلیفورنیا میں کیا ہوا ہے، یہ ہم میں سے کسی کو بھی نہیں چھوڑے گا‘۔ انہون نے کہاکہ’وہاں تباہ کن خوف ہے، پھر بھی انخلا کا احساس اور مزید کام کرنے کی رفتار کی کمی ایک خطرے کی طرح محسوس ہوتی ہے، ہم مستقبل سے صدیوں دور ہیں، جو حقیقت نہیں ہے’۔ انہوں نے مزید کہا کہ اس دوران، ماحولیاتی تبدیلی کے خلاف لڑنا ہے یا جامد ردعمل کا مظاہرہ کرنا ہے، ہم صرف لڑ سکتے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ اب بات ماحولیاتی تبدیلی کے حوالے سے صرف علامتی نمائندگی سے کہیں آگے بڑھ چکی ہے، ہر کارپوریٹ ادارے کو اس کے لیے متحد ہونا چاہیے۔ انہوں نے مزید کہا کہ حقیقی اثر اس وقت ہوتا ہے جب ماحولیاتی اور سماجی اہداف کاروباری اور تجارتی اہداف کے ساتھ مطابقت رکھتے ہیں، اس کا مطلب یہ ہے کہ جب استحکام قیمت چکاتا ہے، تو کاروبار اس کے ساتھ رہتا ہے، ورنہ یہ آگے بڑھ جاتا ہے۔داؤد منیر نے مباحثے کو سمیٹٹےہو ئے کہا کہ کارپوریٹ سربراہان میں جو شعور موجود ہے اور جو کام ہو رہا ہے وہ دیکھ کر بہت خوشی ہوتی ہے۔ انہوں نے اجتماعی اقدامات، صلاحیت (مالی، قانونی اور انتظامی) اور اعلیٰ معیار کی سرمایہ کاری پائپ لائن کے موضوعات پر اظہار خیال کرتے ہوئے سیشن کا اختتام کیا۔ بعدازاں ڈان کے ایڈیٹر ظفر عباس نے میڈیا اور ماحولیاتی تبدیلی کے بارے میں ہیڈلائنز سیشن کی میزبانی کی