سابق وزیر داخلہ رحمان ملک کےبے نظیر بھٹو کی سیاسی زندگی میں آنے والے مسائل اور انکے خلاف مسلسل ہونے والی سازشوں سے متعلق سنسنی خیز انکشافات۔

 
0
470

اسلام آباد ستمبر 7(ٹی این ایس)پاکستان پیپلز پارٹی کے مرکزی رہنماء  وسابق وزیرداخلہ رحمان ملک نے  سابق چیئرمین پیپلز پارٹی بے نظیر بھٹو شہید کی سیاسی جدوجہد اور اس راہ میں آنے والی مسلسل مشکلات اور سازشوں سے پردہ اٹھاتے ہوئے کہا ہے کہ  محترمہ بے نظیر بھٹو اپنی سیاسی زندگی کی شروعات سے ہی  لبرل پیپلز پارٹی اور اس کی قیادت کے خلاف ملک کے اندر اور باہر دائیں بازو کی قوتوں کی گہری دشمنی کا شکار ہوئیں۔ جنرل ضیا حکومت گرانے کے بعد اقتدارپر براجمان ہوگئے اور اپنی آمرانہ حکومت کے ذریعے ان کا صرف ایک ہی ایجنڈا تھا کہ پارٹی اور اس کی قیادت کو تباہ کیا جائے۔

انہوں نے کہا کہ جنر ل ضیاء الحق نے اسلام  کا نام نہاد لبادہ اوڑ ھ کر مذہبی گروپوں کی مدد سے  پارٹی کی قیادت اس پروپگنڈےسے بدنام کیا کہ پیپلزپارٹی کی قیادت اسلام مخالف ہے اور اس کے نعرے ’’روٹی کپڑااور مکان‘‘ کو غیراسلامی اور مغرب پرست قرار دیا اور اس کی وجہ یہ بتائی کہ پیپلزپارٹی پاکستان کے ہر شہری خاص طورپر خواتین کو بااختیاربنانےکے نظریات رکھتی ہے۔ بے نظیر بھٹوکے خلاف مذہبی جنونیوں کو ہر سطح پرپروپگنڈےکے ذریعے مشتعل کیا گیا۔اور اسی وجہ سے کراچی میں ان پر قاتلانہ حملہ کرنے کی سازش کرنے والے نے ایک بیا ن دیا وہ خاتون ہیں اور انہیں اسلامی ملک پر حکمرانی کا کوئی حق نہیں ہے،وہ شیعہ ہیں اور مغرب پرست ہیں۔

رحمان ملک نے  کہا  ضیاء الحق کے ایک نظریاتی شاگرد نواز شریف، بے نظیر بھٹو کے سیاسی نہیں بلکہ ذاتی طور پر کٹر دشمن رہے  ہیں ۔ کسی منطق اور دلیل کے بغیر ایک گھنٹہ 40 منٹ بعد ہی جائے وقوعہ کو دھو ڈالنے سے اہم ثبوت اور شہادتیں اکٹھا کرنے کا موقع ضائع ہوگیا ، اس کے علاوہ سیکورٹی دستہ واپس لینےسے ظاہر ہوتا ہے کہ دہشت گردوں کو اندرونی اور بیرونی حمایت حاصل تھی۔ جنرل ( ر) پرویز مشرف کا مقدمہ کا سامنے کرنےسے گریز بھی بڑا سوالیہ نشان ہے۔ پراسیکیوٹر چوہدری ذوالفقار کا قتل بھی مقدمے کو ناکام بنانے کی ایک اور کوشش تھی۔ یہ بات بڑی وثوق سے کہی جا سکتی ہے کہ اسے القاعدہ سے تعلق رکھنے والے خاندان نے قتل کیا جہاں القاعدہ میں نمبر۔ دو خالد شیخ کو آئی بی نے بازیاب کیا اب وہ اپنے بھتیجے یوسف رمزی کے ساتھ امریکا میں قید بھگت رہا ہے ۔یو سف رمزی ہی نے کیپٹن عبدالحکیم کی مدد سے بے نظیر بھٹو کو پہلی بار قتل کرنے کی کوشش کی تھی۔ 1989 میں بے نظیر بھٹو حکومت کے خلاف اسٹیبلشمنٹ کی ایماء پر تحریک عدم اعتماد لائی گئی اور وزیراعظم بننے کی خواہش میں نواز شریف نے اس کا ساتھ دیا۔ اطلاعات کے مطابق نواز شریف اس سے قبل ہی اسامہ بن لادن سے رابطے بنانے میں کامیاب ہوگئے تھے۔ جنہوں نے بے نظیر حکومت کے خلاف تحریک عدم اعتماد کی خالد خواجہ مرحوم کے ذریعہ اس وعدے پر کہ ملک میں اسلامی نظام نافذ کیا جائے گا مالی معاونت کی۔

رحمان ملک نے  آئی ایس آئی کے سابق سربراہ لیفٹننٹ جنرل ( ر) حمید گل  کی بے نظیر کے خلاف سازشوں پر تذکرہ کرتے ہوئے کہا  کہ   جنرل ( ر) حمید گل دائیں بازو کا قدامت پرست اتحاد قائم کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔  انہوں نے ابتدا میں مولانا سمیع الحق کو آئی جے آئی کا سربراہ بنایا لیکن بعد ازاں قیادت نواز شریف کو منتقل کر دی ۔اسٹیبلشمنٹ نے پس منظر میں نواز شریف کو مکمل معاونت فراہم کی۔ اس طرح 1990 کے انتخابات میں نواز شریف کو بے نظیر کے خلاف مدد فراہم کی گئی۔ سوویت جنگ کے پس منظر میں لشکر جھنگوی اور سپاہ صحابہ بے نظیر کے مخالف رہے ۔ بے نظیر بھٹو کا قتل القاعدہ سے تعلق رکھنے والے دہشت گردوں کی ان سے دشمنی کی انتہا تھی۔

انہوں نے کہا کہ محترمہ پر حملے کی منصوبہ بندی بیت اللہ محسود اور القاعدہ کے المصری نے میران شاہ میں تیار کی ۔ یہ تفصیلات ہیں کہ القاعدہ کے 5 ارکان نے اسے کس طرح سے عملی جامہ پہنایا، اس کی تصدیق تب ہوگئی جب مری میں حکومت اور طالبان کے درمیان مذاکرات میں ملا منصور نے ان کی رہائی کا مطالبہ کیا ۔ ناقابل تردید شہادتوں کے ساتھ تاریخ ان 5 دہشت گردوں کو کبھی معاف نہیں کرے گی۔ تحقیقات اور شہادتوں کا ضیاع پارٹی اور نہ ہی پاکستان کے عوام کبھی قبول کریں گے ۔ حکومت پنجاب نے اس کیس کو تقریباً بند کر دیا تھا۔ یہ پیپلز پارٹی کی حکومت تھی جس نے کیس کو حکومت پنجاب سے لے کر مزید تحقیقات کیلئے ایف آئی اے کو منتقل کیا تھا۔ یہ تحقیقات ایف آئی اے کے اس وقت کے ڈائریکٹر جنرل طارق کھوسہ نے کی تھیں، بعد میں ایڈیشنل ڈائریکٹر جنرل خالد قریشی نے انہیں جاری رکھا۔ تفتیش میں شامل افسران جو نیک شہرت کے حامل تھے، انہوں نے تعزیرات پاکستان کی دفعہ۔161 کے تحت میرا بیان ریکارڈ کیا ، اس کے علاوہ ناہید خان ، صفدر عباسی، فرحت اللہ بابر، جنرل توقیر، گاڑی کے ڈرائیورکے بیانات بھی ریکارڈ ہوئے۔

انہوں نے کہا کہ یہ واضح ہے کہ القاعدہ کی اولاد نے مقامی معاونت کے ساتھ بے نظیر بھٹو کو قتل کیا ، ہم پیپلز پارٹی کے کارکنان محترمہ بے نظیر بھٹو کے قاتلوں کو پھانسی تک چین سے نہیں بیٹھیں گے اور اس وقت تک جدوجہد جاری رہے گی ، بے شک یہ عناصر اب بھی طاقت ور ہیں، ان کے اقتدار کے ایوانوں میں تعلقات بھی ہیں لیکن وہ کب تک بچیں گے ؟ ریکارڈ پر شہادتیں نہ صرف ان کا پیچھا کریں گی بلکہ قدرت کا قانون اپنا انصاف کرے گا۔