تحریر: ریحان خان
اسلام آباد، اتوار، 16 مارچ 2025 (ٹی این ایس): ترکمانستان کی مستقل غیرجانبداری کی پالیسی گزشتہ تین دہائیوں سے سفارتی توازن، علاقائی استحکام، اقتصادی تعاون اور عالمی امن کے فروغ کے لیے ایک مثالی ماڈل ثابت ہوئی ہے۔
یہ خیالات مقررین نے “بین الاقوامی امن کو مستحکم کرنے میں غیرجانبداری کے کردار” کے موضوع پر منعقدہ بین الاقوامی کانفرنس میں ظاہر کیے، جس کا انعقاد ترکمانستان کے سفارت خانے اور انسٹی ٹیوٹ آف پیس اینڈ ڈپلومیٹک اسٹڈیز (IPDS) کے اشتراک سے کیا گیا۔ یہ تقریب ترکمانستان کی اس عالمی کوشش کے تین دہائیوں کے مکمل ہونے کے موقع پر منعقد کی گئی، جس کے نتیجے میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے 2025 کو “بین الاقوامی سال برائے امن و اعتماد” قرار دینے کی قرارداد متفقہ طور پر منظور کی، جسے پاکستان سمیت 86 ممالک کی حمایت حاصل تھی۔
مقررین کا کہنا تھا کہ غیرجانبداری کوئی غیر فعال رویہ نہیں بلکہ ایک فعال سفارتی حکمت عملی ہے جو ایک تیزی سے منقسم ہوتی دنیا میں امن، استحکام اور اقتصادی تعاون کو فروغ دیتی ہے۔ ترکمانستان کی مستقل غیرجانبداری، جسے اقوام متحدہ نے تسلیم کیا ہے، تنازعات کے حل، علاقائی اتحاد اور عالمی ثالثی کے ایک مؤثر ذریعہ کے طور پر کام کرتی ہے۔
انہوں نے کہا کہ مثبت غیرجانبداری ریاستوں کو مختلف بین الاقوامی فریقوں کے ساتھ منسلک ہونے کا موقع فراہم کرتی ہے، جس کے ذریعے اعتماد، عدم مداخلت اور متوازن خارجہ تعلقات کو فروغ دیا جا سکتا ہے۔ عالمی کشیدگی میں اضافے اور اتحادوں کی تبدیلی کے پیش نظر، ترکمانستان کی غیرجانبدار خارجہ پالیسی نے اس کے سفارتی اثر و رسوخ، تجارتی مواقع اور سیکیورٹی شراکت داریوں میں اضافہ کیا ہے جبکہ اسے بڑی طاقتوں کے تنازعات سے دور رکھا ہے۔
تقریب سے خطاب کرتے ہوئے وفاقی وزیر برائے پارلیمانی امور طارق فضل چوہدری نے ترکمانستان کی مستقل غیرجانبداری کی پالیسی کو سراہتے ہوئے پاکستان اور ترکمانستان کے درمیان سفارتی، اقتصادی اور ثقافتی تعلقات کو مزید مستحکم کرنے کے عزم کا اعادہ کیا۔ انہوں نے کہا کہ دونوں ممالک توانائی کی سلامتی، تجارتی توسیع اور علاقائی روابط کے مشترکہ مقاصد رکھتے ہیں، جن میں تاپی گیس پائپ لائن جیسے منصوبے شامل ہیں۔ انہوں نے کثیرالجہتی تعاون اور امن سفارت کاری کو فروغ دینے میں ترکمانستان کی قیادت کو خراج تحسین پیش کیا۔
ترکمانستان کے سفیر اور ڈین آف ڈپلومیٹک کور، اتاجان موولاموف نے اپنے استقبالیہ خطاب میں ترکمانستان کے قیام امن، استحکام اور اقتصادی ترقی کے لیے کیے گئے اقدامات پر روشنی ڈالی۔ انہوں نے توانائی، تجارت اور ثقافتی سفارت کاری کے ذریعے پاکستان کے ساتھ دوطرفہ تعاون کے فروغ پر بھی زور دیا۔
آئی پی ڈی ایس کی صدر ڈاکٹر فرحت آصف نے کانفرنس کا آغاز کرتے ہوئے بین الاقوامی امن کے قیام میں ترکمانستان کی غیرجانبداری کی اہمیت کو اجاگر کیا۔ انہوں نے کہا کہ غیرجانبداری ایک غیر فعال حکمت عملی نہیں بلکہ ایک فعال سفارتی حکمت عملی ہے جو عالمی تعاون کو بڑھاتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ترکمانستان کی غیرجانبداری کی پالیسی نے اسے علاقائی اقتصادی منصوبوں اور امن کی کوششوں میں ایک تعمیری کردار ادا کرنے کے قابل بنایا ہے۔
اقوام متحدہ کے پاکستان میں مقیم ریذیڈنٹ کوآرڈینیٹر اور انسانی امداد کے کوآرڈینیٹر محمد یحییٰ نے عالمی سفارت کاری میں غیرجانبداری کی اہمیت پر زور دیا۔ انہوں نے کہا کہ ترکمانستان کی سفارتی حکمت عملی اقوام متحدہ کی امن کی کوششوں سے ہم آہنگ ہے اور علاقائی استحکام اور تنازعات کی روک تھام میں مدد دیتی ہے۔ انہوں نے اقتصادی شراکت داری اور پائیدار ترقی کے فروغ میں سفارتی غیرجانبداری کی اہمیت کو اجاگر کیا۔
نیشنل ڈیفنس یونیورسٹی کے شعبہ بین الاقوامی تعلقات کے سربراہ ڈاکٹر خرم اقبال نے غیرجانبداری کے حوالے سے ایک علمی نقطہ نظر پیش کیا اور اس کے تنازعات کے حل اور علاقائی استحکام میں کردار پر روشنی ڈالی۔ انہوں نے کہا کہ ترکمانستان کی غیرجانبداری اسے بین الاقوامی تنازعات اور اقتصادی مذاکرات میں ثالث کے طور پر کام کرنے کے قابل بناتی ہے۔ انہوں نے پاکستان اور ترکمانستان کے درمیان سیکیورٹی، تجارت اور علاقائی امن کی کوششوں میں تعاون کی اہمیت کو اجاگر کیا۔
شعبہ سوشل سائنسز، زیبسٹ کے سربراہ ڈاکٹر طارق وحید نے ثقافتی سفارت کاری اور اقتصادی ترقی پر غیرجانبداری کے اثرات پر روشنی ڈالی۔ انہوں نے ترکمانستان کے علاقائی اقتصادی منصوبوں میں فعال کردار اور پرامن بقائے باہمی کے عزم کو اجاگر کیا۔ انہوں نے پاکستان اور ترکمانستان کے درمیان تعلیمی اور تحقیقی تعاون کو فروغ دینے کی ضرورت پر زور دیا تاکہ دوطرفہ سمجھ بوجھ اور تعلقات کو مزید مستحکم کیا جا سکے۔
شرکاء نے تجارت، توانائی اور ثقافتی شراکت داری میں مسلسل تعاون کی ضرورت اور عزم کا اعادہ کیا، جس سے پاکستان اور ترکمانستان کے درمیان تاریخی تعلقات مزید مضبوط ہوں گے۔
تقریب کے اختتام پر یادگاری تحائف کا تبادلہ کیا گیا اور افطار ڈنر کا اہتمام بھی کیا گیا، جس میں بڑی تعداد میں سفارت کاروں اور سول سوسائٹی کے نمائندوں نے شرکت کی