اسلام آباد (ٹی این ایس) ہم پاکستانی ہیں، پاکستان ہمارا ہے

 
0
31

اسلام آباد (ٹی این ایس)”  بابائے حریت سید علی گیلانی ہمیشہ ہمارے دلوں میں زندہ رہیں گے بابائے حریت نے بھارتی پولیس کی حراست کے دوران یکم ستمبر 2021کو سرینگر, حیدر پورہ میں اپنی رہائش گاہ پر جام شہادت نوش کیاتھا۔ آل پارٹیز حریت کانفرنس نے برسی کے موقع پر مقبوضہ کشمیر میں یکم ستمبر کو حیدر پورہ سے سری نگر کی طرف مارچ کی اپیل کی تھی کشمیر کی آر پار قیادت اور بیرون ممالک میں مقیم کشمیریوں نے برسی کے موقع پرعہد کیاکہ وہ تحریک آزادی کشمیر کی کامیابی تک جبر اور ظلم کے خلاف سینہ سپر رہیں گے سید علی شاہ گیلانی 29ستمبر 1929کو شمالی کشمیر کے ضلع بانڈی پورہ کے ایک گاؤں میں پیداہوئےتھے۔ ابتدائی تعلیم سوپور سے حاصل کی۔ سید علی گیلانی نے اپنی سیاسی زندگی کا آغاز 1950میں کیا۔ انہوں نے تحریک آزادی کو زور و شور سے آگے بڑھانے کیلئے 2003میں اپنی تنظیم ’’تحریک حریت جموں وکشمیر ’’کی بنیاد رکھی تھی ۔ انہیں کئی مرتبہ جموں وکشمیر کی قانون ساز اسمبلی کارکن بھی منتخب کیا گیا تھالیکن جب کشمیری نوجوانوں نے بھارتی غلامی سے آزادی کیلئے مسلح جدوجہد شروع کی تو انہوں نے 1990میں اسمبلی کی رکنیت سے استعفیٰ دے دیاتھا۔ سید علی گیلانی عارضہ قلب میں مبتلا تھے جبکہ 2007میں انہیں گردوں کے کینسر کی بھی تشخیص ہوئی تھی۔ زندگی کے آخری مرحلے میں انہیں سانس کی دشواریوں کا سامنا تھا،وہ سات دہائیوں تک کشمیرکی تحریک حریت میں سرگرم رہے تھے۔اس کی پاداش میں انھیں کم سے کم 20برس تک بھارت اورکشمیر کی جیلوں میں قید یا نظربند رکھا گیاتھا۔سید علی گیلانی کی وفات سے کشمیریوں نے ایک ایسا رہنما کھو دیا تھا جن کے ساتھ سارے محبت رکھتے تھے۔ م بابائے حریت سید علی گیلانی نے ورثا میں کشمیری قوم کے علاوہ دو بیٹے، بیٹیاں اور پوتے پوتیاں چھوڑے۔ سید علی گیلانی ایک اعلیٰ پائے کے مصنف اور مثالی خطیب تھے۔ سید علی گیلانی دل کی گہرائیوں سے پاکستان کے ساتھ محبت رکھتے تھے۔ وہ ریاست جموں وکشمیر کی بھارت سے آزادی اوراس کا پاکستان سے الحاق چاہتے تھے۔سید علی شاہ گیلانی نے کشمیری عوام کوحق خودارادیت دلانے کے لیے پوری زندگی دلیرانہ جدوجہد کی۔انھیں قابض بھارتی حکام نے جبروتشدد کا نشانہ بنایا لیکن وہ پوری زندگی آہنی عزم کے ساتھ کشمیر کی آزادی کے لیے جدوجہد کرتے رہے تھے۔پاکستان میں سیّد علی گیلانی کی وفات پر قومی پرچم سرنگوں رہا تھا اورسرکاری طورپر سوگ منایاگیا تھا۔جبکہ آزاد کشمیر حکومت نے سید علی گیلانی کی وفات پر ایک روزہ چھٹی اور تین روزہ سوگ کا اعلان کیا تھا۔ آزاد کشمیر کے تمام ضلعی ہیڈ کوارٹرز میں سید علی شاہ گیلانی کی غائبانہ نماز جنازہ بھی ادا کی گئی تھی۔

سیدعلی گیلانی کو کشمیری عوام کے حقِ خودارادیت کے حصول کے لیے عشروں پرمحیط طویل جدوجہد کے اعتراف میں حکومت پاکستان نے ملک کے سب سے اعلیٰ سول ایوارڈ نشان امتیاز سے نوازا تھا۔ سیدعلی گیلانی کا‘‘ہم پاکستانی ہیں، پاکستان ہمارا ہے’’کا نعرہ آج پوری دنیا میں گونج رہا ہے۔سید علی گیلانی کشمیریوں کے حق خودارادیت کے تحفظ اور آواز بلند کرنے میں شامل رہے، ان کی خدمات آج بھی ناقابل فراموش ہیں، بھارتی ناجائز قبضے کے خلاف احتجاجی مظاہروں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینے کی وجہ سے انہیں بھارت کے ہاتھوں عمر بھر ظلم و ستم کا سامنا کرنا پڑا۔ بھارت کی طرف سے حریت اور آزادی پسند رہنماؤں کو دہشت گرد کے طور پر پیش کرنے کی کوشش بین الاقوامی اور انسانی حقوق کے قانون کے خلاف ہے، بین الاقوامی قانون ہر شہری کو اس کے حق خود ارادیت اور آزادی کی اجازت دیتا ہے، لیکن بھارت طاقت کا استعمال کرتے ہوئے کشمیریوں کے حق خودارادیت کو سلب کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ بین الاقوامی قانون، اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قراردادوں اور اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے مطابق کشمیر ایک متنازعہ علاقہ ہے اور کشمیر کے مستقبل کا فیصلہ کشمیری عوام کریں گے۔ قائد تحریک سید علی شاہ گیلانی ایک فرد نہیں تحریک اور مشن کا نام ہے جس کا نعرہ”ہم پاکستانی ہیں، پاکستان ہمارا ہے” “ہم پاکستانی ہیں، پاکستان ہمارا ہے” کشمیری راہنما سید علی گیلانی کا نعرہ آج بھی پہاڑوں میں گونج رہا ہے شہید برہان وانی کی قربانی ایک تاریخ ہے، جو ہر دل میں زندہ ہے۔ بھارت کے مظالم کشمیریوں کے حوصلے نہ توڑ سکے، نہ کبھی توڑ سکیں گے۔ تقسیم سے قبل برصغیر کے مسلمانوں کے نزدیک مقبول عام نعرے ’’مسلم ہے تو مسلم لیگ میں آ ‘‘ پاکستان کا مطلب کی”الَآ اِلٰہَ اِلَّا اللہُ‘‘ تھےقیام پاکستان کے بعد قائداعظم محمد علی جناحؒ کا کشمیر سے متعلق نعرہ’’کشمیر پاکستان کی شہہ رگ ہے‘‘ دراصل کشمیر سے متعلق وہ پالیسی ہے جس پر قوم اب تک قائم ہے انشاء اللہ کشمیر حاصل کرکے تکمیل پاکستان کا خواب پورا کیا جائے گا۔ سردارعبدالقیوم کا نعرہ’’ کشمیر بنے گا پاکستان ‘‘نے اہل وطن کو حوصلہ بخشا۔ قائدین پاکستان کے نقش پر چلتے ہوئے علی گیلانی نے’’ ہم پاکستانی ہیں اور پاکستان ہمارا ہے‘‘ کا نعرہ دے کر تحریک آزادی کا رخ موڑ دیا۔’’ ہم پاکستانی ہیں، پاکستان ہمارا ہے‘‘ ہمار ا نعرہ ہے، جس پر ہم سب کا دل و جان سے ایمان ہے ۔ “ہم پاکستانی ہیں ، پاکستان ہمارا ہے” سید علی گیلانی کا یہ نعرہ مقبوضہ کشمیر کے غاصبانہ قبضے سے آزادی تک گونجتا رہے گا، سید علی گیلانی انقلاب اور فتح کا نام تھے، انہوں نے اپنی ساری زندگی قابض بھارتی افواج کی قید، نظر بندی اور کرفیو میں گزاری بھارتی ہندوتوا سرکار کی نام نہاد جمہوریت کو سید علی گیلانی کو پوری دنیا کے سامنے بے نقاب کیا اور قابض بھارتی افواج نے سید علی گیلانی کی گھر کی خواتین پر تشدد اور زبردستی رات کے اندھیر ے میں کرفیو لگا کر مقبوضہ کشمیر کے عظیم لیڈر کی تدفین کرائی، سید علی گیلانی ایک شخص کا نہیں بلکہ ایک سوچ اور انقلاب کا نام ہے ، انہوں نے ساری زندگی آزادی کے لئے وقف کر دی، ان کا نام تاریخ میں سنہری حروف میں لکھا جائے گا، سید علی گیلانی بھارت کے ناجائز قبضے کے خلاف اور مقبوضہ کشمیر کے پاکستان سے الحاق کے سخت حامی تھے، عمر بھر غاصب بھارتی فوج کے مظالم، انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں اور تحریک آزادی پر آواز بلند کرتے رہے، انہوں نے رودادِ قفس، نوائے حریت، بھارت کے استعماری حربے سمیت 21 تصانیف تحریر کیں جبکہ صدائے درد، ملت مظلوم، مقدمہ حق اور پیام آخرین کے مصنف بھی تھے، تحریک آزادی میں گراں قدر خدمات کے اعتراف میں حکومت پاکستان نے سید علی گیلانی کو اعلیٰ ترین سول اعزاز نشانِ پاکستان سے نوازا تھا

ریاست جموں و کشمیر پر قابض بھارتی سرکار سید علی گیلانی کی زندگی میں ان سے خوفزدہ رہی، انھیں قابو کرنے کا ہر حربہ استعمال کیا ، برسوں تک گرفتار اور نظر بند رکھا۔ اس دوران بھارتی سرکار نے متعدد بار پینترے بدل کر سید گیلانی کو ترغیب و تحریص کا نشانہ بنانے کی بھی کوشش کی لیکن سید علی گیلانی اپنے عزم اور نظریے پر ثابت قدم رہے۔ بھارتی حکومت عمر بھر سید علی گیلانی کی قائدانہ صلاحیتوں سے خوفزدہ رہی۔ 1981ء میں ان کا پاسپورٹ ضبط کرلیاگیا، کہاگیا کہ وہ بھارت مخالف سرگرمیوں میں ملوث پائے گئے ہیں۔ تب سے تادم آخر انھیں پاسپورٹ جاری نہ ہوا، سوائے2006ء کے ، جب انھیں حج کے لئے پاسپورٹ جاری کیاگیا اور واپسی پر پھر ضبط کرلیا گیا۔ سید علی گیلانی گردے کے کینسر میں مبتلا تھے۔ 2006ء ہی میں ڈاکٹروں نے ان کے لئے بیرون ملک علاج تجویز کیا۔ اس وقت تک کینسر ابتدائی مرحلے پر تھا۔ تاہم ڈاکٹروں نے اسے خطرناک قرار دیتے ہوئے سرجری کی تجویز دی ۔ اس وقت کے وزیراعظم من موہن سنگھ کے براہ راست حکم پر پاسپورٹ گیلانی صاحب کے فرزند کے حوالے کیا گیا۔ ڈاکٹروں کی ہدایت کے مطابق سرجری امریکا یا پھر برطانیہ میں ہونا تھی، تاہم امریکی حکومت نے انھیں ویزا دینے سے انکار کردیا۔ سبب یہ بتایا گیا کہ سید علی گیلانی مسئلہ کشمیر کے ضمن میں پُرتشدد سوچ کے حامل ہیں۔ گیلانی صاحب کے اہل خانہ اور احباب نے اس فیصلے پر شدید احتجاج کیا ، کیونکہ انسانی حقوق کا ڈھنڈورا پیٹتے رہنے والی امریکی حکومت کا یہ اقدام انسانی حقوق کی کھلم کھلا خلاف ورزی تھا لیکن امریکی حکمران پوری ڈھٹائی سے اپنے فیصلے پر ڈٹے رہے۔ نتیجتاً انھیں ممبئی ( بھارت) سے آپریشن کروانا پڑا۔ سید علی گیلانی کی جیل میں قید اور گھر میں نظربندی کی مدت کو جمع کیا جائے تو وہ دنیا میں سب سے زیادہ قید رہنے والے حریت پسند رہنما تھے سید علی گیلانی کا انتقال ہوا تو بھارتی قیادت اس خوف کا شکار ہوئی کہ نمازجنازہ کا اجتماع بڑے احتجاج کی صورت اختیار کرسکتا ہے۔ جب اہل خانہ نماز جنازہ کی تیاری کر رہے تھے تو بھارتی قابض فوج کی بھاری نفری نے سرینگر میں ان کی رہائش گاہ پر چھاپہ مارا، اہل خانہ کو ہراساں کیا اور ان کی میت قبضے میں لے کر ، ان کی آخری وصیت کے برخلاف زبردستی فوجی محاصرے میں حیدر پورہ قبرستان میں رات کی تاریکی میں تدفین کر دی۔
مودی حکومت نے امن و امان کی صورتحال کا بہانہ بنا کر سید علی گیلانی کی جبری تدفین کے بہیمانہ اقدام کو جواز دینے کی کوشش کی تاہم کشمیری عوام نے اسے انسانی حقوق کی کھلی خلاف ورزی قرار دیا۔ کشمیری قیادت نے اس اقدام کو کشمیر کی مسلم آبادی کو سزا دینے کی ایک کوشش قرار دیا ۔92 سالہ قائد حریت کی نماز جنازہ کی ادائیگی اور تدفین کے سلسلے میں بھارتی حکومت کی طرف سے انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں کی او آئی سی نے مذمت کی تھی پاکستان نے بھی سید علی گیلانی کی میت چھیننے کے بھارت کے وحشیانہ عمل کی مذمت کی تھی۔ بھارت کا یہ طرز عمل واضح طور پر ظاہر کر رہا تھا کہ وہ تمام تر جبر اور قوت استعمال کرنے کے باوجود کشمیریوں کو خوف زدہ نہ کرسکا ، ان کے دلوں سے سید علی گیلانی کی محبت کم نہ کرسکا ۔ بابائے حریت کشمیر کی تدفین کے بعد بھی بھارت خوف و دہشت میں مبتلا رہا ۔ نتیجتاً سری نگر اوراردگرد کے پورے علاقے کامحاصرہ کر کے لوگوں کی نقل و حرکت پر سخت پابندیاں عائد کر دیں ریاست جموں و کشمیر پر قابض بھارتی سرکار سید علی گیلانی کی زندگی میں ان سے خوفزدہ رہی، انھیں قابو کرنے کا ہر حربہ استعمال کیا ، برسوں تک گرفتار اور نظر بند رکھا۔ اس دوران بھارتی سرکار نے متعدد بار پینترے بدل کر سید گیلانی کو ترغیب و تحریص کا نشانہ بنانے کی بھی کوشش کی لیکن سید علی گیلانی اپنے عزم اور نظریے پر ثابت قدم رہے۔ بھارتی حکومت عمر بھر سید علی گیلانی کی قائدانہ صلاحیتوں سے خوفزدہ رہی۔ 1981ء میں ان کا پاسپورٹ ضبط کرلیاگیا، کہاگیا کہ وہ بھارت مخالف سرگرمیوں میں ملوث پائے گئے ہیں۔ تب سے تادم آخر انھیں پاسپورٹ جاری نہ ہوا، سید علی گیلانی اپنے واضح اور مضبوط موقف کی بنیاد پر ریاست جموں و کشمیر کی سیاست میں نمایاں ہوئے۔ ان کا کہنا تھا : ” میں سر زمین کشمیر پر بھارتی فوج کے قبضے سے کبھی ذہنی مطابقت پیدا کر سکا نہ سمجھوتا کرسکا۔ یہ موقف اور اس پر استقامت میں میری کوئی ذاتی خوبی نہیں بلکہ یہ سب اسلام کی دین ہے۔ میرا پختہ ایمان اور اعتقاد ہے کہ اسلام کامل ضابطہ حیات ہے۔اور دوم، یہاں بھارت کا قبضہ جبری اور بلا جواز ہے۔جتنا خدا وند کریم کے وجود پر یقین ہے اتنا ہی ان دو باتوں کی صداقت پر یقین ہے۔” سید علی گیلانی نے مقبوضہ کشمیر کے عوام کو ‘ ہم پاکستانی ہیں، پاکستان ہمارا ہے ‘ جیسا عظیم نعرہ دیا جس نے جد وجہد آزادی کے بارے ہر طرح کے ابہام کا خاتمہ کر دیا سید علی گیلانی 1972ء سے 1982ء تک ، پھر 1987ء سے 1990ء تک جموں و کشمیر قانون ساز اسمبلی کے رکن رہے تاہم انھوں نے دیکھا کہ ریاستی اسمبلی کا حصہ بن کر کشمیری قوم کے مفادات کو تحفظ نہیں دیا جاسکتا، نتیجتاً وہ انتخابی سیاست سے باہر آگئے۔ انھوں نے ایک نئے انداز سے تحریک حریت کشمیر شروع کردی
قائد اعظم کی مدبرانہ قیادت ,علامہ اقبال کی فکر اور قائدینِ تحریک پاکستان کی جدوجہد کے نتیجے میں ہمیں مملکت پاکستان نصیب ہوئی۔ کشمیری قیاد ت کی جانب سے 19جولائی 1947ء کو الحاق پاکستان کی قرارداد کشمیریوں کی پاکستان سے لازوال محبت کا منہ بولتا ثبوت ہے مقبوضہ جموں و کشمیر کو بھارت نے جیل خانہ میں تبدیل کردیا ہے۔ بھارت نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی شناخت ختم کرکے آبادی کی ہیت تبدیل کرنے کی کوشش کی ہے