اسلام آباد (ٹی این ایس) وزیراعظم پاکستان سیلاب زدگان کی مکمل بحالی کیلئے پرعزم

 
0
24

اسلام آباد (ٹی این ایس) وزیراعظم پاکستان شہباز شریف سیلاب زدگان کی مکمل بحالی کیلئے پرعزم ہیں پاکستان دنیا کے ان ممالک میں شامل ہے جو موسمیاتی تبدیلی کے باعث سب سے زیادہ متاثر ہو رہے ہیں,گلیشیئرز کے پگھلنے، غیر متوقع بارشوں اور دریاؤں میں طغیانی نے حالیہ برسوں میں سیلابی خطرات کو بڑھا دیا ہے۔وزیراعظم کا کہنا ہے کہ سیلاب زدگان کی مکمل بحالی تک وفاقی حکومت صوبائی حکومتوں کے ساتھ ملکر کام جاری رکھے گی این ڈی ایم اے، پی ڈی ایم ایز، پاک فوج اور ریسکیو و ریلیف کے اداروں کی کاروائیاں قابل تحسین ہیں اسلام آباد میں منعقدہ اجلاس سے خطاب کرتے ہوئےانکا کہنا تھا کہ صوبوں کو ہر قسم کی معاونت فراہم کرنے کیلئے ہمہ وقت تیار ہیں۔وزارت موسمیاتی تبدیلی آئندہ برس کے مون سون کیلئے ابھی سے تیاری کرے، پاکستان کو موسمیاتی تبدیلی کے مضر اثرات بشمول موسلادھار بارشیں و سیلاب سے بچانے اور ان کے نقصانات کو کم سے کم کرنے کیلئے دو ہفتے میں ایک جامع لائحہ عمل پیش کرے۔ ذرائع کے مطابق وزیراعظم شہباز شریف کا کہنا ہے کہ موسمیاتی تبدیلی کی مؤثر تیاری سے ہی قدرتی آفات کے نقصانات کو کم کیا جا سکتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہ ایک قومی مسئلہ ہے جس پر وفاق، صوبوں، آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان کو مل کر کام کرنا ہوگا۔ وزیراعظم نےاس عزم کا اظہارکیا کہ قومی سطح پر مربوط حکمت عملی تیار کی جائے تاکہ قدرتی آفات کے نقصانات کو کم سے کم کیا جاسکےاجلاس میں ملک میں حالیہ اور متوقع بارشوں، دریاؤں میں پانی کی سطح، ڈیموں کی صورتحال اور حفاظتی اقدامات پر تفصیلی بریفنگ دی گئی نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی ، صوبائی ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹیز محکمہ موسمیات نے رپورٹس پیش کیں وزیراعظم نے اس بات پر زور دیا کہ تمام ادارے اور صوبے مل کر ایسے اقدامات تجویز کریں جن کے ذریعے نہ صرف فوری طور پر عوام کو ریلیف فراہم کیا جا سکے بلکہ آئندہ برسوں کے لیے بھی مؤثر منصوبہ بندی کی جا سکے۔ ان کے مطابق سیلاب اور بارشوں سے نمٹنے کے لیے وقتی اقدامات کافی نہیں، بلکہ پائیدار حکمت عملی اپنانا ہوگی وزیراعظم نے واضح کیا کہ نئے آبی ذخائر تمام صوبوں کی مشاورت اور مکمل ہم آہنگی سے تعمیر کیے جائیں پانی کے مؤثر انتظام کے بغیر نہ زرعی پیداوار میں اضافہ ممکن ہے اور نہ ہی سیلابی خطرات پر قابو پایا جا سکتا ہے۔ اس لیے حکومت ایک جامع حکمت عملی بنا رہی ہے تاکہ پانی کے ذخائر محفوظ رہیں اور فصلیں سیلاب کے نقصانات سے بچ سکیں وفاقی حکومت اکیلے اس بڑے مسئلے سے نہیں نمٹ سکتی۔ اس کے لیے صوبائی حکومتوں، آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان کو بھی عملی کردار ادا کرنا ہوگا۔ ہر صوبہ اپنی سطح پر احتیاطی اقدامات کرے، ندی نالوں کی صفائی کرے، کچے علاقوں میں رہائش پذیر عوام کو بروقت آگاہ کرے اور ریلیف کی پیشگی تیاری کرے وزیراعظم نے وزارت اطلاعات اور صوبائی محکموں کو ہدایت کی کہ عوام کو سیلاب اور بارشوں سے متعلق بروقت آگاہی دی جائے۔ ریڈیو، ٹی وی، سوشل میڈیا اور دیگر ذرائع ابلاغ کو استعمال کرتے ہوئے لوگوں تک درست اور فوری معلومات پہنچانا ضروری ہے تاکہ جانی نقصان کو کم سے کم کیا جا سکےاین ڈی ایم اے کو ہدایت دی گئی ہے کہ ریلیف اور ریسکیو کا جامع پلان پیش کرےسیلاب سے متاثرہ خاندانوں کو فوری طور پر خوراک، ادویات اور رہائش فراہم کرنا حکومت کی اولین ترجیح ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ متاثرہ کسانوں کے لیے بھی خصوصی پیکج تجویز کیا جا رہا ہے تاکہ ان کی فصلوں کے نقصان کا ازالہ کیا جا سکےوزیراعظم کا کہنا تھا کہ قدرتی آفات کسی صوبے یا علاقے کی نہیں بلکہ پوری قوم کی آزمائش ہوتی ہیں۔ اگر ہم سب مل کر ایک دوسرے کی مدد کریں تو ان نقصانات پر قابو پایا جا سکتا ہے۔ انہوں نے اس عزم کا اظہار کیا کہ حکومت ہر ممکن قدم اٹھائے گی تاکہ عوام کو محفوظ بنایا جا سکے اور آئندہ برسوں میں اس نوعیت کے نقصانات سے بچا جا سکے۔وزیراعظم کو آگاہ کیا گیا کہ مون سون کا آخری اسپیل ختم ہونے کے بعد متاثرین کی بحالی کا کام شروع کیا جائے گا جبکہ موجودہ طور پر تمام تر وسائل و افرادی قوت ریسکیو، ریلیف و انخلاء میں مصروف عمل ہے۔ملک بھر کے مختلف مقامات پر بارشوں اور سیلابی صورتحال کے نتیجے میں 26 جون سے آج تک مجموعی طور پر 907 افراد جاں بحق 1044 افراد جاں بحق ہوچکے ہیں۔این ڈی ایم اے کے مطابق جاں بحق ہونے والوں میں 48 فیصد سیلاب جبکہ 27 فیصد سے زائد افراد کی موت گھروں کے گرنے کی وجہ سے ہوئی، جبکہ 7 فیصد سے زائد افراد مختلف واقعات میں ڈوب کر جاں بحق ہوئے۔6 فیصد سے زائد لوگ دریا میں آئے سیلاب کے باعث جاں بحق ہوئے جبکہ 3 فیصد کے قریب لوگ کرنٹ لگنے کے مختلف واقعات میں مارے گئے۔ مجموعی طور پر پنجاب میں 233، خیبرپختونخوا میں 502، سندھ میں 58، گلگت بلتستان میں 41، آزاد کشمیر میں 38 اور اسلام آباد میں 9 افراد جاں بحق ہوئے, پنجاب میں اب تک 654، خیبرپختونخوا میں 218، سندھ میں 78، بلوچستان میں 5، گلگت بلتستان میں 52، آزاد کشمیر میں 34 اور اسلام آباد میں 3 افراد زخمی ہوئے۔ مون سون بارشوں اور سیلاب سے اب تک 7 ہزار 848 گھر تباہ ہوئے، جس میں سے 5 ہزار 903 گھروں کو جزوی نقصان پہنچا جبکہ 1945 گھر مکمل تباہ ہوئے دوران مون سون اب تک 6180 مویشی بھی مارے جا چکے ہیں۔بھارت نے پاکستان کو سفارتی سطح پر سیلاب کے حوالے سے مکمل تفصیلات فراہم نہیں کیں،بھارت سے آنے والے دریائے ستلج میں پھر سے بڑے سیلابی ریلے کا خطرہ ہے، بھارت کی جانب سے دریائے ستلج میں ہریک اور فیروزپور پر سیلاب کے حوالے سے الرٹ جاری کیا گیا ہے۔ پنجاب سے سندھ میں داخل ہونے والے سیلاب کے پیش نظر سندھ حکومت کی جانب سے 16 لاکھ سے زائد لوگوں کے متاثر ہونے کا تخمینہ لگایا گیا ہے، اگر سندھ میں اونچے درجے کا سیلاب آیا تو صورت حال مزید بد تر ہوجائے گی،یاد رہے کہ شدید بارشوں اور بھارت کے ڈیموں سے پانی کے اخراج کے بعد پاکستان کا صوبہ پنجاب سیلاب سے بری طرح متاثر ہوا ہے، جہاں لاکھوں افراد سیلاب سے متاثر ہیں، لوگوں کے گھر پانی میں ڈوب چکے ہیں، فصلیں تباہ ہوگئی ہیں، بڑی تعداد میں لوگ گھر بار چھوڑ کر کیمپوں میں رہنے پر مجبور ہیں۔ اس نازک وقت میں پاکستان کو شدید مالیاتی دباؤ کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے حکومت کی جانب سے سیلاب متاثرین کی ہر ممکن مدد کی جارہی ہے، .پنجاب کے سیلاب سے متاثرہ علاقوں میں پاک فوج کی ریسکیو اور ریلیف آپر یشن جاری ہیں، پاک فوج کی جانب سے ہیلی کاپٹر کے ذریعے جھنگ کے دور دراز متاثرہ علاقوں میں ہیلی کاپٹر کے ذریعے 2.8 ٹن راشن تقسیم کیا گیا۔ آئی ایس پی آر کے مطابق پاک فوج نے گورنمنٹ ہائی اسکول جھنگ سٹی اور تحصیل اٹھارہ ہزاری میں میڈیکل کیمپ قائم کیا، جہاں عملہ مریضوں کو بھرپور طبی امداد فراہم کررہا ہے۔ پاک فوج کے جوانوں نے ولی محمد میں کشتیوں کے ذریعے 45 افراد کو محفوظ مقامات پر منتقل کیا، پاک فوج کے جوانوں نے ڈب کلاں میں کشتیوں کے ذریعے 75 افراد اور 16 مویشی محفوظ مقامات پر منتقل کیے، بدہوانہ کے علاقے میں بھی چودہ افراد کو محفوظ مقام پر منتقل کیا گیا۔مشکل کی اس گھڑی میں پاکستان کو اپنے وسائل سے ہٹ کر عالمی امداد کی بھی ضرورت ہے، اقوام متحدہ، برطانیہ کے بعد اب امریکا نے بھی سیلاب متاثرین کے لیے امدادی سامان پاکستان بھیجا ہے۔اس دوران امریکی فوجی طیارے سیلاب متاثرین کیلئے امدادی سامان لے کر پاکستان پہنچ گئے ہیں راولپنڈی کے نور خان ایئر بیس پر امدادی سامان پہنچنے کے موقع پر پاک فوج کے افسران اور امریکی ناظم الامور نیٹلی بیکر بھی موجود تھیں۔ پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ آئی ایس پی آر کے مطابق امریکا کی آرمی سینٹرل کمانڈ کے ذریعے سیلاب متاثرین کے لیے امدادی سامان لے کر پہلی پرواز پاکستان پہنچی۔ امریکی ناظم الامور اور کمانڈر آرمی سینٹرل کمانڈ نے تقریب میں شرکت کی، امریکی حکام نے امدادی سامان پاک فوج کے حوالے کیا، امدادی سامان تقسیم کرنے کے لیے آرمی فلڈ ریلیف کیمپس منتقل کیا جائے گا۔ آئی ایس پی آر کے بیان میں کہا گیا کہ حکومت اور عوام آزمائش کی گھڑی میں ساتھ کھڑنے ہونے پر امریکی حکومت اور فوج کے شکرگزار ہیں، امدادی سامان لے کر 6 پروازیں پاکستان پہنچی ، امدادی سامان میں خیمے، پانی صاف کرنے والے پمپ، جنریٹرز اور دیگر سامان شامل ہیں۔ ترجمان امریکی سفارتخانے کی جانب سے بتایا گیا کہ امریکی ناظم الامور نے سیلاب سے نقصانات پر دکھ کا اظہار کرتے ہوئے متاثرین سے ہمددی کا اظہار کیا۔ بھارت نے پاکستان کو دریائے ستلج میں ہریکے اور فیروز پور کے نشیبی علاقوں میں “اونچے درجے کے” سیلاب ریکارڈ کرنے کے بارے میں آگاہ کیا ہےاس سلسلے میں پنجاب کے صوبائی ڈیزاسٹر مینجمنٹ ڈیپارٹمنٹ نے ایک بیان میں ستلج میں پانی کے بہاؤ میں متوقع اضافے کے حوالے سے الرٹ جاری کیاپنجاب پی ڈی ایم اے نے خبردار کیا کہ صبح 8 بجے دریائے ستلج، ہریکے اور فیروز پور میں اونچے درجے کے سیلاب کی اطلاع متعلقہ اضلاع کے بہاو کو متاثر کرے گ الرٹ میں ضلعی انتظامیہ سے قبل از وقت وارننگ سسٹم کو فعال کرنے، حفاظت اور انخلاء کی معلومات کی بروقت ترسیل کو یقینی بنانے کے ساتھ ساتھ پشتوں کو مضبوط کرنے کی درخواست کی۔پی ڈی ایم اے نے ان پر زور دیا کہ وہ چوک پوائنٹس پر زمین سے چلنے والی بھاری مشینری کی پہلے سے تعیناتی کو یقینی بنائیں، ریسکیو 1122 کو الرٹ رکھیں اور اشیائے ضروریہ کی دستیابی کو یقینی بنائیں۔ڈی سی ملتان نے کہا ہے کہ ضلعی انتظامیہ نے ہیڈ تریموں سے آنے والے سیلاب سے نمٹنے کے لیے ایکشن پلان تیار کیا ہے دریائے چناب پر ہیڈ محمد والا اور شیرشاہ فلڈ بند میں پانی کی سطح کم ہو رہی ہے، جس سے حفاظتی بندوں پر دباؤ کم ہو رہا ہے ہیڈ تریموں سے 543,000 کیوسک کا بہاؤ 36 گھنٹوں میں ملتان پہنچنے کی توقع ہے سیلاب کی وجہ سے ہیڈ محمد والا اور بندوں بوسین اور شیرشاہ میں سطح دوبارہ بڑھ سکتی ہے پاکستان کے محکمہ موسمیات (پی ایم ڈی) کی تازہ پیشن گوئی کے مطابق کراچی میں شام سے “چند درمیانی سے الگ تھلگ بھاری موسلا دھار بارش/ بہت بھاری بارش” کے ساتھ بارش اور آندھی/ گرج چمک کے ساتھ بارش کا امکان ہے بارش کا یہ سلسلہ ممکنہ طور پر جمعرات (11 ستمبر تک کبھی کبھار وقفے کے ساتھ جاری رہے گا۔ محکمہ موسمیات نے سندھ کے تھرپارکر، عمرکوٹ، میرپورخاص، سانگھڑ، خیرپور، شہید بینظیر آباد، دادو، مٹیاری، ٹنڈو محمد خان، ٹنڈو الہ یار، حیدرآباد، ٹھٹھہ، بدین اور سوجاوال میں تیزی سے تیز ہواؤں/گرج چمک کے ساتھ بارش کی پیش گوئی کی جمعرات تک سندھ کے لاڑکانہ، شکارپور، کشمور، سکھر، جیکب آباد اور گھوٹکی اضلاع میں کبھی کبھار وقفے وقفے سے وقفے وقفے سے “معتدل سے الگ تھلگ موسلادھار بارشوں کے ساتھ وسیع بارش/گرج چمک کے ساتھ بارش” کی بھی پیش گوئی کی ہے دریں اثناء اطلاع ہے کہ عمرکوٹ، تھرپارکر اور ٹنڈو محمد خان میں بارشوں کا نیا سلسلہ شروع ہو گیا ہے۔پنجاب ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی (پی ڈی ایم اے) نے خبردار کیا ہے کہ دریائے ستلج میں ہریکے اور فیروز پور کے مقامات پر صبح 8 بجے رپورٹ ہونے والی اونچی طغیانی ذیلی اضلاع کو متاثر کرے گی۔پنجاب کے دریاؤں میں انتہائی اونچے درجے کے سیلاب کی کیفیت برقرار ہے، دریائے چناب پر چنیوٹ ہیڈ ورکس اور دریائے راوی پر بلوکی اور سدھنائی ہیڈ ورکس پر ’انتہائی اونچے‘ سیلابی درجے کی صورتحال برقرار ہے جبکہ دریائے ستلج میں گنڈا سنگھ والا پر ’انتہائی اونچے درجے’ کا سیلاب برقرار ہے جہاں پانی کا بہاؤ 3لاکھ 11 ہزار کیوسک سے زائد ریکارڈ کیا گیا، ادھر سندھ میں ایک لاکھ سے زائد افراد کو محفوظ مقامات پر منتقل کردیا گیا ہے فلڈ فورکاسٹنگ ڈویژن کے تازہ ترین اعداد و شمار کے مطابق دریائے چناب پر چنیوٹ ہیڈ ورکس اور دریائے راوی پر بلوکی اور سدھنائی ہیڈ ورکس پر ’ اونچے‘ درجے کے سیلاب کا سامنا ہے بلوکی پر پانی کا اخراج بڑھ رہا ہے جبکہ سدھنائی پر پانی کی سطح میں کمی ریکارڈ کی گئی ہے۔ پنجند ہیڈ ورکس، جہاں دریائے ستلج کا پانی دریائے چناب میں شامل ہوتا ہے، پر اب بھی ’اونچے‘ درجے کا سیلاب جاری ہے اور پانی کا اخراج 3 لاکھ کیوسک سے زیادہ ہے۔ گنڈا سنگھ والا پر دریائے ستلج میں بھی ’انتہائی غیر معمولی‘ اونچے درجے کا سیلاب برقرار ہے جہاں پانی کا بہاؤ 3 لاکھ 11 ہزار کیوسک سے زائد ریکارڈ کیا گیا۔ دریائے راوی پر سدھنائی ہیڈ ورکس پر پانی کی سطح میں کمی آئی ہے لیکن دریائے ستلج پر گنڈا سنگھ والا میں غیر معمولی اونچا سیلاب بدستور موجود ہے، گنڈا سنگھ والا پر بہاؤ 3 لاکھ11 پزار 673 کیوسک جبکہ سدھنائی پر ایک لاکھ20 ہزار 80 کیوسک ریکارڈ کیا گیا جو انتہائی اونچے درجے کے سیلاب کے زمرے میں آتا ہے دیگر ہیڈ ورکس جن پر انتہائی اونچے درجے کا سیلاب ہے، ان میں بلوکی پر ایک لاکھ 44 ہزار 850 کیوسک اور چنیوٹ میں 5 لاکھ 39 ہزار 796 کیوسک کا ریلا گزر رہا ہے۔ انڈس ریور سسٹم اتھارٹی کے مطابق مختلف رِم اسٹیشنز سے کل 3 لاکھ 96 ہزار 900 کیوسک پانی چھوڑا گیا جبکہ 4لاکھ 33 ہزار 500 کیوسک پانی کا بہاؤ ریکارڈ کیا گیا اعداد و شمار کے مطابق دریائے سندھ میں تربیلا ڈیم پر پانی کی سطح تقریباً 1550 فٹ تھی جو ڈیڈ لیول 1402 فٹ سے 148 فٹ زیادہ ہے، ڈیم میں پانی کی آمد اور اخراج بالترتیب ایک لاکھ 87 ہزار 600 اور ایک لاکھ 86 ہزار 300 کیوسک ریکارڈ کیا گیا اسی طرح دریائے جہلم پر منگلا ڈیم کی سطح 1229.50 فٹ ریکارڈ کی گئی جو اس کے ڈیڈ لیول 1050 فٹ سے 180 فٹ زیادہ ہے، ڈیم میں پانی کی آمد 43 ہزار 300 کیوسک اور اخراج 8 ہزار کیوسک رہا۔ کالا باغ سے 2 لاکھ 5 ہزار700، تونسہ سے 2لاکھ 36 ہزار 500، گڈو سے 3لاکھ 27 ہزار 500 اور سکھر سے 2 لاکھ 77 ہزار 400 کیوسک پانی چھوڑا گیا، دریائے کابل سے نوشہرہ کے مقام پر 29 ہزار 800 کیوسک اور دریائے چناب سے مرالہ کے مقام پر ایک لاکھ 71 ہزار کیوسک پانی چھوڑا گیا سندھ کے کچے کے علاقوں سے ایک لاکھ 9 ہزار 320 افراد کو محفوظ مقامات پر منتقل کیا جا چکا ہے۔ 24 گھنٹوں میں 14 ہزار 430 افراد کو محفوظ مقامات پر منتقل کیا گیا، جبکہ 27 ہزار 801 افراد کو طبی سہولتیں فراہم کی گئیں جن میں سے تقریباً 6 ہزار 900 کا علاج صرف گزشتہ 24 گھنٹوں میں کیا گیا اب تک 3 لاکھ 46 ہزار سے زائد مویشی بھی منتقل کیے گئے جبکہ 7 لاکھ 54 ہزار 500 سے زیادہ کو ویکسین لگائی گئی ہے دریائے راوی ستلج اور چناب میں شدید سیلابی صورتحال کے باعث 4 ہزار 100 سے زائد موضع جات متاثر ہوئے، دریاؤں میں سیلاب کے باعث مجموعی طور پر 42 لاکھ 25 ہزار لوگ متاثر ہوئے۔سیلاب میں پھنس جانے والے 20 لاکھ 14 ہزار افراد کو محفوظ مقامات پر منتقل کیا گیا جب کہ شدید سیلاب سے متاثرہ اضلاع میں 423 ریلیف کیمپس قائم کیے گئے ہیں