خانیوال (ٹی این ایس) کھچی فیملی راجپوت قبائل کی ایک قدیم اور بااثر شاخ ہے جس نے ماضی میں جاگیرداری، سیاست اور سماجی خدمت کے ذریعے اپنی شناخت بنائی اور آج بھی ان کے نامور افسران وفاق اور پنجاب کی اہم ذمہ داریاں نبھا رہے ہیں۔ محمد عاصم کھچی، محمد خان کھچی، شوکت خان کھچی، امتیاز خان کھچی، شہریار خان کھچی، سرفراز خان کھچی، عدیل خان کھچی اور عادل خان کھچی جیسے افسران نے اپنی محنت، دیانت اور عزم کے ساتھ نہ صرف اپنے خاندان بلکہ اپنے اداروں کی ساکھ کو مضبوط بنایا۔ انہی میں سے ایک نمایاں نام طاہر عباس خان کھچی کا ہے جو خانیوال میں تحصیلدار کے طور پر شفاف خدمات سرانجام دے چکے ہیں اور آج پیرافورس یعنی انسدادِ ناجائز تجاوزات فورس کے سربراہ کی حیثیت سے اپنی ذمہ داری نبھا رہے ہیں۔
یہ فورس اس وقت خانیوال میں ایک فیصلہ کن کردار ادا کر رہی ہے جہاں تجاوزات کا خاتمہ عوام کا سب سے بڑا مطالبہ ہے۔ طاہر عباس کھچی کا تقرر عوام کے لیے خوش آئند ہے کیونکہ وہ دیانت، جرات، شفافیت اور دباؤ برداشت کرنے کی صلاحیت کے حوالے سے ایک مثالی افسر مانے جاتے ہیں۔ ریونیو افسر کی ذمہ داریاں ہمیشہ سخت اور نازک سمجھی جاتی ہیں۔ زمین کے ریکارڈ کی درستگی، قبضہ گروپوں کے خلاف کارروائی، عوامی شکایات کا ازالہ اور حکومتی پالیسیوں پر عمل درآمد اسی کے بنیادی فرائض ہیں۔ ایک اچھے ریونیو افسر میں شفافیت، دیانت داری، جرات، قانون پسندی اور دباؤ برداشت کرنے کی خصوصیات ہونا لازمی ہیں اور یہ تمام صفات بدرجہ اتم طاہر عباس کھچی کی شخصیت میں پائی جاتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ جہاں بھی تعینات رہے عوامی اعتماد اور پذیرائی ان کا مقدر بنی۔
خانیوال اور جنوبی پنجاب کے دیگر اضلاع میں ناجائز تجاوزات ایک مستقل مسئلہ ہیں۔ شاہراہوں، بازاروں اور سرکاری زمینوں پر قبضے عوام کی زندگی اجیرن بنا دیتے ہیں۔ انہی مسائل کے حل کے لیے حکومت نے ایک خصوصی فورس تشکیل دی جسے پیرافورس کا نام دیا گیا تاکہ تجاوزات کے خاتمے کے ساتھ ساتھ عوامی سہولیات کو محفوظ بنایا جا سکے۔ عوام کی توقعات اس فورس سے بہت زیادہ ہیں۔ لوگ چاہتے ہیں کہ بڑے بڑے قبضہ گروپوں کے خلاف بلاامتیاز کارروائی ہو، چھوٹے دکانداروں اور ریڑھی بانوں کے مسائل کو انسانی ہمدردی کے ساتھ حل کیا جائے، عمل درآمد مستقل ہو اور عوامی حقوق بحال کیے جائیں۔ یہ سب کچھ صرف اس وقت ممکن ہے جب فورس کی قیادت ایماندار اور جرات مند افسران کے ہاتھ میں ہو۔ طاہر عباس کھچی کی سربراہی میں یہ توقعات حقیقت بن سکتی ہیں۔
عوام کو یقین ہے کہ ان کی ایمانداری اور دباؤ برداشت کرنے کی صلاحیت کے باعث بڑے بڑے بااثر گروہ بھی قانون کے شکنجے سے بچ نہیں سکیں گے۔ طاہر عباس کھچی کی قیادت نہ صرف پیرافورس کے لیے کامیاب مستقبل کی نوید ہے بلکہ یہ پیغام بھی دیتی ہے کہ اگر نیت صاف ہو تو بڑے سے بڑا مسئلہ بھی حل کیا جا سکتا ہے۔ کھچی فیملی کا تاریخی ورثہ، ان کے افسران کی شاندار کارکردگی اور طاہر عباس کھچی جیسے نامور افسروں کی شفافیت اس بات کا ثبوت ہے کہ یہ خاندان ریاستی اداروں کو مضبوط بنانے اور عوامی خدمت کے جذبے کو زندہ رکھنے میں کلیدی کردار ادا کر رہا ہے۔ پاکستان کو آج شفافیت، قانون کی عمل داری اور عوامی خدمت جیسے اصولوں کی اشد ضرورت ہے اور ایسے وقت میں طاہر عباس کھچی جیسے دیانت دار اور جرات مند افسر امید کی کرن ہیں۔ پیرافورس کی کامیابی نہ صرف خانیوال بلکہ پورے پنجاب کے لیے ایک مثال بن سکتی ہے۔ عوام کی نظریں اس وقت اسی فورس اور اس کے سربراہ پر ہیں اور یقین کے ساتھ کہا جا سکتا ہے کہ طاہر عباس کھچی اس امتحان میں سرخرو ہوں گے۔کہا جاتا ہے کہ ایک اچھا افسر وہی ہے جو دباؤ کو سہہ لے، انصاف کا پلڑا جھکا نہ دے، اور خدمت کے جذبے کو قربان نہ کرے۔ طاھر عباس کھچی کی شخصیت میں یہ سب اوصاف جمع ہیں۔ کبھی تحصیلدار کے طور پر، کبھی عوامی خدمت کے سپاہی کی صورت میں، انہوں نے اپنے کردار سے یہ ثابت کیا کہ ایمانداری کسی تخت یا عہدے کی محتاج نہیں۔ وہ قانون کی لکیر پر ایسے چلتے ہیں جیسے کوئی سپاہی سرحد پر پہرہ دیتا ہے۔
اب پیرافورس کی باری ہے—وہ فورس جس کے کندھوں پر تجاوزات کے اندھیروں کو مٹانے کا بوجھ رکھا گیا ہے۔ لوگ امید باندھ بیٹھے ہیں کہ یہ محض ایک اور محکماتی کارروائی نہیں ہوگی بلکہ ایک انقلاب کی لہر ہوگی۔ خانیوال کے باسی جانتے ہیں کہ اگر قیادت صاف نیت کی ہو تو بڑے بڑے قبضہ گروہ بھی ڈولنے لگتے ہیں۔ اور یہاں قیادت ایک ایسے شخص کے ہاتھ میں ہے جو خوف کو خاطر میں نہیں لاتا۔
بازاروں میں چہ میگوئیاں ہیں، درختوں کی چھاؤں میں بیٹھے بزرگ دعائیں دے رہے ہیں، اور نوجوان آنکھوں میں امید کے چراغ روشن کیے دیکھ رہے ہیں۔ وہ سب جانتے ہیں کہ کھچی خاندان کا یہ فرزند دیانت کی تلوار اور جرات کی ڈھال سے لیس ہے۔ پیرافورس کے قدم بڑھیں گے، راستے کھلیں گے، زمینیں آزاد ہوں گی، اور عوام کا سکون لوٹ آئے گا۔
یہ داستان ابھی ادھوری ہے۔ کاتبِ وقت اگلے صفحات پر کیا لکھے گا، یہ آنے والے دنوں میں طاہر عباس کھچی کے فیصلے طے کریں گے۔ لیکن آج، جب عوام نگاہیں باندھے بیٹھے ہیں، ایک بات یقین سے کہی جا سکتی ہے: کہانی کا ہیرو جب نیت کا سچا ہو، تو انجام بھی روشن ہی لکھا جاتا ہے۔













