لاہور (ٹی این ایس) لمز میں گرین پروڈکٹیوٹی 2.0 پر اے پی او بین الاقوامی کانفرنس کا اختتام ، وفاقی وزرا سمیت خطے بھر سے مندوبین کی بھر پور شرکت

 
0
28

لاہور، 29 نومبر ، 2025 (ٹی این ایس) ایشین پروڈکٹیویٹی آرگنا ئزیشن کی جانب سے گرین پروڈکٹیوٹی 2.0 پر بین الاقوامی کانفرنس لمز انرجی انسٹیٹیوٹ (ایل ای آئی) نیشنل پروڈکٹیویٹی آرگنا ئزیشن پاکستان (این پی او) اور وفاقی وزارت صنعت و پیداوار کے اشتراک سے لاہور یونیورسٹی آف مینجمنٹ سائنسز (لمز) میں کامیابی کے ساتھ اختتام پذیر ہوگئی۔ اس دو روزہ کانفرنس میں وفاقی وزرا سمیت سینئر سرکار حکام، صنعتی رہنماؤں ، بین الاقوامی ماہرین محقیقین اور ایشین پروڈکٹویٹی آرگنا ئزیشن (اے پی او) کے 21 ممالک کے ترقیاتی نمائندوں کے ساتھ ساتھ 80 سے زائد غیر ملکی مندوبین کی شرکت نے پائیدار صنعتی تبدیلی کے شعبے میں اسے پاکستان کے نمایاں ترین بین الاقوامی فورمز میں شامل کیا۔

کانفرنس میں اعلیٰ سطح کے سیشنز ، ماہرین کی اہم تقاریر ، اور مختلف شعبوں پر مبنی مباحثے شامل تھے جن میں 2.0GP کے جدید فریم ورک کے مطابق پائیدار آرکیٹیکچر و صنعتی ترقی ، توانائی میں مہارت، سرکلر اکانومی میں جدت توانائی کی منتقلی کا عمل ، ڈیجیٹل پروڈکٹیویٹی ٹولز ،گرین ہائیڈ روجن کا اطلاق،توانائی کے شعبے میں گرین اقدامات، سولر پلیٹس کی مقامی سطح پر پیداوار، سرکلر پلاسٹکس اور حکومت، اکڈمیا انڈسٹری لنکج جیسے موضوعات پر گفتگو کی گئی ۔ اس موقع پر اٹلی، جاپان ، تھائی لینڈ ، چین، ملائیشیا، سری انکا ترکیہ، ویتام اور دیگر اے پی او ممالک کے ماہرین نے خطے میں گرین پروڈکٹیویٹی کے مستقبل کی سمت متعین کرنے والے تحقیقی نتائج اور حل پیش کئے۔
وفاقی وزیر منصوبہ بندی، ترقی و خصوصی اقدامات ، احسن اقبال چوہدری نے کہا کہ گرین پروڈکٹیویٹی محض ایک ماحولیاتی فیصلہ نہیں بلکہ پاکستان جیسے ممالک کے لیے معاشی طور پر ضروری ہے ۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان کا ہدف ہے کہ 2035 تک ملک کی معاشی ترقی کو پیداواری صلاحیت کی بنیاد پر 6 فیصد سے اوپر لے جایا جائے، بر آمدات کو 100 ارب ڈالر تک بڑھایا جائے ، کاربن کے اخراج کی شدت میں 30 فیصد کمی لائی جائے ، ملک بھر میں ماحول دوست اور پائیدار انفراسٹرکچر قائم کیا جائے ، توانائی کے شعبے میں 60 فیصد صاف ذرائع شامل کیے جائیں، 20 لاکھ گرین اور ہائی ٹیک نوکریاں پیدا کی جائیں، اور پاکستان کو ایشیائی گرین سپلائی چینز کا فعال حصہ بنایا جائے۔

وزیر برائے موسمیاتی تبدیلی و ماحولیاتی کو آرڈینیشن ، ڈاکٹر مصدق ملک نے پالیسی سازی اور پروڈکٹیویٹی کے درمیان معاشی ترقی کے باہمی ربط کو اجاگر کرتے ہوئے کہا، “پاکستان کی توانائی کا مستقبل صاف ، موثر اور جدید نظاموں پر منحصر ہے ۔ گرین پروڈکٹیویٹی ہی وہ راستہ ہے جو قو می سطح پر توانائی کے تحفظ اور پائیداری کو مضبوط کرتا ہے ۔ ” انہوں نے کہا کہ پاکستان کا 17 فیصد رضا کارانہ این ڈی سی ہدف اس بات کی عکاسی کرتا ہے کہ ہم اپنے بچوں کے مستقبل کے تحفظ کی ذمہ داری محسوس کرتے ہیں۔ انہوں نے مزید کہا، “دنیا میں کثیر الجہتی تعاون کے بجائے دوطرفہ معاہدوں کی جانب جھکاؤ بڑھنے سے بین الاقوامی موسمیاتی مالی معاونت میں مسلسل کمی آئی ہے۔ یہ کمی پاکستان جیسے ممالک کے لیے ایک بڑا چیلنج ہے جو تیزی سے بڑھتی ہوئی گرین معیشت کی تعمیر کےلیے کوشاں ہے۔ پارلیمانی قیادت کی نمائندگی کرتے ہوئے رکن قومی اسمبلی اور پارلیمانی ٹاسک فورس برائے ایس ڈی جیز کی کنوبیز ، شائستہ پرویز ملک نے کہا، ” گرین پروڈکٹیویٹی یقینی بناتی ہے کہ معاشی ترقی، ماحولیاتی ذمہ داری اور سماجی دیکھ بھال کے ساتھ ساتھ آگے بڑھے ۔ یہی توازن ایک پائیدار پاکستان کی بنیاد
ہے۔”
اے پی اوسیکریٹریٹ کے نمائندہ ، زمینوری جوری نے پاکستان کی جانب سے گرین پروڈکٹیویٹی ایجنڈے پر پیش رفت کو سراہتے ہوئے کہا، ” پاکستان،اے پی او کا مضبوط پارٹنر ہے جس نے گرین پروڈکٹویٹی میں پیش رفت کے لئے مستحکم عزم کا اظہار کیا ہے اور اس کی کاوشیں رکن ممالک کے لیے ایک مثال ہیں ۔”

کانفرنس کے نتائج پر روشنی ڈالتے ہوئے لمز انرجی انسٹیٹیوٹ کے سینئر ایڈوائزر، ڈاکٹر فیاض احمد چوہدری اور این پی او کے سی ای او عالمگیر چوہدری نے کہا کہ پائیدار صنعتی تبدیلی کے لیے اداروں کے درمیان مضبوط تعاون ناگزیر ہے۔ ڈاکٹر فیاض نے کہا، “اس کا نفرنس نے واضح کر دیا ہے کہ حکومت تعلیمی اداروں اور انڈسٹری کا باہمی اشتراک ہی پاکستان کے پائیدار صنعتی مستقبل کی بنیاد رکھ سکتا ہے۔ لمز کے پرووسٹ ڈاکٹر طارق جدون نے بین الاقوامی اور مقامی مند و بین کی فعال شرکت کو سراہتے ہوئے کہا، ” ان دو دنوں میں پیش کردہ معلومات پاکستان کی صنعتی ترقی کو زیادہ صاف، زیادہ مسابقتی اور پروڈکٹیویٹی پر مبنی سمت دینے میں اہم کردارادا کریں گے۔”
بین الاقوامی کانفرنس برائے گرین پروڈکٹیویٹی 2.0 کے اختتام پر خطے کے ممالک نے پائیدار صنعتی ترقی کو فروغ دینے ،مختلف شعبوں کے درمیان تعاون کو مضبوط کرنے ، اور پاکستان کو کم کار بن، جدت اختیار کرنے اور عالمی سطح پر مسابقتی صنعتی معیشت کی جانب منتقلی میں مددفراہم کرنے کے لئے اپنے عزم کو
مزید مضبوط کیا۔