جینوا میں اقوام متحدہ تمام رکن ممالک سے انسانی حقوق کی رپورٹوں پر پیر کو سوال و جواب کریگی ٗفرحت اللہ بابر

 
0
333

اسلام آباد نومبر 11(ٹی این ایس)پاکستان پیپلزپارٹی کے سینیٹر فرحت اللہ بابر نے کہا ہے کہ جینوا میں اقوام متحدہ تمام رکن ممالک سے انسانی حقوق کی رپورٹوں پر پیر کو سوال و جواب کریگی۔پاکستان پیپلزپارٹی کے سینیٹر فرحت اللہ بابر نے ایک بیان میں کہا کہ پیر کے روز اقوام متحدہ انسانی حقوق کی رپورٹوں پر پاکستان میں صورتحال پر نظرثانی کرے گی اور اس وقت یہ صورتحال نہایت تشویشناک ہے کہ ریاست اور ریاست کے ایکٹرز کی جانب سے شہریوں کے انسانی حقوق کو انتہائی خطرات لاحق ہیں۔جنیوا میں اقوام متحدہ تمام رکن ممالک سے انسانی حقوق کی رپورٹوں پر سوال و جواب کرے گی اور ان سے یہ بھی پوچھے گی کہ انہوں نے جو وعدے مختلف اقدامات اٹھانے کے لئے کئے تھے ان پر کیا پیش رفت ہوئی؟

اس اجلاس میں پاکستان کی نمائندگی وزارت انسانی حقوق کا ایک وفد کرے گا جس کی سربراہی وزیر خارجہ خواجہ آصف کریں گے۔ انہوں نے کہا کہ بین الاقوامی برادری اس بات پر ہمدردانہ غور کرگے گی کیونکہ ہم جن حالات کا شکار ہیں اس میں صورتحال کافی خراب ہے لیکن وہ کبھی بھی کوئی جھوٹ قبول نہیں کرے گی۔ اسی سال انسانی حقوق کے قومی کمیشن اور دیگر انسانی حقوق کے ادارے بھی اس کانفرنس میں اپنی رپورٹیں پیش کریں گے اور اس بار جھوٹی رپورٹ دینا ماضی کی نسبت نہایت مشکل ہوگا۔ یہ بات بھی ذہن میں رکھنی چاہیے کہ ہماری بین الاقوامی تجارت خاص طور پر یوروپین یونین سے تجارت کا انحصار ہماری انسانی حقوق کی صورتحال پر ہے۔ انہوں نے کہا کہ گزشتہ نظرثانی میں پاکستان اس بات پر راضی ہوگیا تھا کہ زبردستی غائب ہونے والے کیسوں کو مجرمانہ فعل قرار دیا جائے گا لیکن اس مرتبہ کی رپورٹ میں اس معاملے پر مکمل خاموشی ہے۔ یہ سب سے بہتر ہوگا کہ نظرثانی کی اس کانفرنس سے قبل یہ واضع اعلان کر دیا جائے کہ موجودہ سال کے اختتام سے قبل اس فعل کو جرم قرار دے دیا جائے۔

اسی طرح یہ دعویٰ کہ توہین رسالت کے قوانین غیرانتقامی ہیں اور اس کے تحت کسی کو سزا نہیں دی گئی صریحاً جھوٹ ہے۔ ایمانداری تو یہ ہے کہ کیونکہ ہم جن حالات کا شکار ہیں اس میں صورتحال کافی خراب ہے لیکن وہ کبھی بھی کوئی جھوٹ قبول نہیں کرے گی۔ اسی سال انسانی حقوق کے قومی کمیشن اور دیگر انسانی حقوق کے ادارے بھی اس کانفرنس میں اپنی رپورٹیں پیش کریں گے اور اس بار جھوٹی رپورٹ دینا ماضی کی نسبت نہایت مشکل ہوگا۔ یہ بات بھی ذہن میں رکھنی چاہیے کہ ہماری بین الاقوامی تجارت خاص طور پر یوروپین یونین سے تجارت کا انحصار ہماری انسانی حقوق کی صورتحال پر ہے۔

انہوں نے کہا کہ گزشتہ نظرثانی میں پاکستان اس بات پر راضی ہوگیا تھا کہ زبردستی غائب ہونے والے کیسوں کو مجرمانہ فعل قرار دیا جائے گا لیکن اس مرتبہ کی رپورٹ میں اس معاملے پر مکمل خاموشی ہے۔ یہ سب سے بہتر ہوگا کہ نظرثانی کی اس کانفرنس سے قبل یہ واضع اعلان کر دیا جائے کہ موجودہ سال کے اختتام سے قبل اس فعل کو جرم قرار دے دیا جائے۔ اسی طرح یہ دعویٰ کہ توہین رسالت کے قوانین غیرانتقامی ہیں اور اس کے تحت کسی کو سزا نہیں دی گئی صریحاً جھوٹ ہے۔ ایمانداری تو یہ ہے کہ اس بات کا اعتراف کر لیا جائے کہ توہین رسالت کے قوانین پر جائز اور منصفانہ عملدرآمد کرنے میں چیلنجز درپیش ہیں۔ یہ کہنا کہ آزادی اظہار پر ہمارا مکمل یقین ہے قطعی جھوٹ ہوگا کیونکہ سائبر کرائمز ایکٹ 2016ء قومی سلامتی کے نام پر مخالفت کو دبانے کے لئے غلط طور پر استعمال کیا جا رہا ہے۔ جیسا کہ حال ہی میں بلوچستان کے ایک کیس میں کیا گیا جس سے وفاق کی سلامتی خطرے میں پڑ گئی ہے۔

انہوں نے کہا کہ حکومتی رپورٹ میں سزائے موت کا کوئی ذکر نہیں لیکن دہشتگردوں کے ساتھ ساتھ دیگر جرائم کے لوگوں کو بھی پھانی دی جا رہی ہے اور گوانتاناموبے کی طرز پر ہمارے ہاں بھی زیادہ مقدمات فوجی عدالتوں کی طرف بھیجنے کا مطالبہ کیا جا رہا ہے جس کی وجہ سے ہمیں اس کی وضاحت کرنا مشکل ہوگا۔ سینیٹر فرحت اللہ بابر نے تین مراحل پر مشتمل ایک فارمولا پیش کیا جس میں کہا گیا ہے کہ سزائے موت پر ایک وسیع بحث و مباحثہ شروع کیا جائے، زبردستی غائب کرنے کے عمل کو مجرمانہ قرار دیا جائے اور انٹرنمنٹ سنٹر میں جو لوگ حراست میں رکھے گئے ہیں ان کی مکمل تفصیل سال کے اختتام سے قبل عوام کے سامنے رکھی جائے۔ ان اقدامات سے نہ صرف پاکستان میں انسانی حقوق کا ریکارڈ بہتر ہوگا بلکہ پاکستان کی ساکھ بھی بہتر ہوگی۔