پختون کاز کو جتنا نقصان اسفندیار اور اُس کی پارٹی نے پہنچایاکسی اور نے نہیں پہنچایا،پاکستان کا مستقبل ایماندار قیادت سے مشروط ہے، پرویزخٹک

 
0
334

پشاور، دسمبر 22 (ٹی این ایس):وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا پرویز خٹک نے کہا ہے کہ پاکستان کا مستقبل ایماندار قیادت سے مشروط ہے ۔پاکستان میں روایتی سیاستدانوں نے ہر بار قوم کو دھوکہ دیا، لوٹ مار کی حد کردی ، قرضے لیکر ملک چلاتے رہے اور قوم کا سرمایہ لوٹ کر اپنی جائیدادیں بناتے رہے ۔ عمران خان واحد لیڈر ہے جسے ذاتی لالچ نہیں بلکہ عوام کی خوشحالی اور مستقبل کیلئے کھڑا ہے ۔خیبرپختونخوا میں سابقہ حکومتوں خصوصاً اے این پی نے تمام اداروں کو تباہ کیا موجودہ صوبائی حکومت کو تباہ حال اداروں اور انفراسٹرکچر کو ٹھیک کرنے کیلئے کس قدر محنت کرنا پڑی اور کرپٹ مافیا سے کتنی جنگ کی، کوئی سوچ بھی نہیں سکتا ۔ اسفندیارولی نے اپنی حکمرانی کے دوران کرپشن کے تمام ریکارڈ توڑ دیئے تھے ، کارکنوں کو کرپشن پر لگا دیاتھااور حکومت میں آکر اپنی کرپشن کے سیاہ کارناموں سے اپنے آباؤ اجداد کی ناک کٹواد ی تھی اور پختون قوم کی جڑوں کو کرپشن، بد عنوانی کا کیڑا لگا دیا تھا۔اپنے دور اقتدار میں اسفندیار نے پوری پختون قوم کے سروں کے سودے کئے جس کی وجہ سے وہ بدنامی اور رسوائی کا نشان بن کر رہ گئے ۔پختون کاز کو جتنا نقصان اسفندیار اور اُس کی پارٹی نے پہنچایاکسی اور نے نہیں پہنچایا اور یہ تاریخ کا سیاہ باب بن چکا ہے ۔دوسروں پر انگلی اُٹھانے والے اپنی حکومت کی کرپشن کی داستانیں بھول گئے ہیں ۔ اسفندیارکی زبان سے کرپشن کی باتیں سننا بھی قیامت کی نشانی ہے۔پی ٹی آئی کوصاف و شفاف حکمرانی کیلئے کرپٹ لوگوں سے کسی سرٹیفکیٹ کی ضرورت نہیں ہے ۔اب ان چوروں کے لئے چوری کے دروازے بند ہو چکے ہیں اسلئے اب ان کرپٹ عناصر کی چیخیں نکل رہی ہیں۔اے این پی میں جو لوگ باضمیر تھے وہ کب کا پارٹی سے علیحدہ ہو گئے ہیں ۔ان خیالات کا اظہار اُنہوں نے یونین کونسل ڈاگئی میں جلسے سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ ایم این اے ڈاکٹرعمران خٹک، ضلع ناظم لیاقت خٹک اور دیگر مقامی نمائندوں اور سیاسی رہنماؤں نے بھی جلسے میں شرکت کی ۔وزیراعلیٰ نے کہا کہ تحریک انصاف نے لوٹ مار پر مبنی سیاست کے خلاف آواز بلند کی اور نظام کی تبدیلی کیلئے طویل جدوجہد کی ۔صوبائی حکومت نے عمران خان کی سوچ کے مطابق خیبرپختونخوا میں عوامی حکمرانی کا اسلوب متعارف کرایا ہے اور مفاد پرست سیاستدانوں کیلئے سیاسی ماحول کو ایک چیلنج بنادیا ہے۔ پہلی حکومتوں اور موجودہ صوبائی حکومت میں فرق نمایاں ہے۔بدعنوان سیاستدان اور حکمران عوام کو بے وقوف سمجھتے رہے ۔ دھوکہ دہی ، دروغ گوئی اور لوٹ مار اُن کی سیاست کا وطیرہ تھا اُن کی سوچ تھی کہ کتنی بھی لوٹ مار کرلیں ووٹ مل ہی جائے گا اسلئے مفاد سیاستدانوں نے کبھی بھی عوام کی خدمت نہیں کی۔ وزیراعلیٰ نے خبردار کیا کہ کرپٹ عناصر اپنی سوچ بدل لیں ۔ روایتی نعروں کے ساتھ اب عوام کو دھوکہ دینا اُن کی بھول ہے۔اب تبدیلی کی ہوا چل چکی ہے عوام بدل چکے ہیں ۔وہ اپنے نفع، نقصان اور حقوق سے با خبر ہیں ۔پاکستان کا مسئلہ یہ ہے کہ یہاں ایماندار اور شفاف قیادت کا فقدان رہا جس کی وجہ سے باشعور عوام اور خصوصاً نوجوان نہ چاہتے ہوئے بھی ان کرپٹ عناصر کے ذاتی مفادات کا نشانہ بنتے رہے ۔اب حالات بدل چکے ہیں ۔ عمران خان نے قوم کو روشن مستقبل کی نوید دی ہے ۔ اپنی والہانہ قیادت اور کرپشن کے خلاف طویل جدوجہد سے ثابت کیا ہے کہ وہی اس ملک اور قوم کو مسائل کی دلدل سے نکال کر ترقیافتہ ممالک کی صف میں کھڑا کرسکتے ہیں۔ وزیراعلیٰ نے کہاکہ خیبرپختونخوا اور ملک میں روایتی سیاستدانوں کا اب کوئی مستقبل نہیں ۔ وزیراعلیٰ نے کہاکہ تحریک انصاف نے خیبرپختونخوا میں نظام کی تبدیلی کی جو بنیادی رکھ دی ہیں انہی خطوط پر نئے پاکستان کی عمارت استوار کریں گے ۔ اُنہوں نے کہاکہ ترقیاتی کام اپنی جگہ جاری ہیں اور یہ حکومت کی ذمہ داری ہے مگر ہماری ترجیحات کا مرکز عام آدمی کو درپیش مسائل تھے جن کا تعلق نظام اور صوبائی اداروں سے تھا۔ وزیراعلیٰ نے کہاکہ جب وہ حکومت میں آئے تو ہر ادارہ تباہ حال تھا اور دو نمبری عروج پر تھی ۔سابقہ حکومت نے جس بے شرمی سے سیاسی مداخلت سے اداروں کو تباہ کیا اور لوٹ مار کی وہ انتہائی افسوسناک ہے ۔انہوں نے کہاکہ تعلیمی ادارے کسی بھی قوم کی ترقی میں کلیدی کردار ادا کرتے ہیں مگر ان سیاستدانوں نے سکولوں میں بھی سیاست کرکے غریب کے ساتھ بہت بڑا ظلم کیا۔ لاکھوں خاندانوں کا مستقبل تباہ کیا گیا ۔ وزیراعلیٰ نے کہاکہ عوام کیلئے لمحہ فکریہ ہے وہ سوچیں اور ہمارے چار سالہ اقدامات کا ماضی کی حکومتوں سے موازانہ کریں۔ موجودہ صوبائی حکومت نے صرف چار سالوں کے دوران 45 ہزار اساتذہ بھرتی کئے اور مزید بھرتیوں کا عمل جاری ہے ۔اس اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ گزشتہ 70 سالوں میں سرکاری سکولوں کو کس حد تک نظر انداز کیا گیا ۔ اگر ہر حکومت اپنی ذمہ داری ایمانداری سے ادا کرتی تو ہمیں ہنگامی بنیادوں پر اتنا سرمایہ لگانے کی ضرورت نہ ہوتی ۔آج تعلیمی ادارے اپنے پاؤں پر کھڑے ہوتے ، غریب کو سہولیات میسر ہوتیں مگر تاریخ میں پہلی بار موجودہ صوبائی حکومت نے یہ فکر کی کہ غریب کے بچوں کو بھی تعلیمی میدان میں مقابلے کیلئے تیار کیا جائے ۔ پرائمری کی سطح پر انگلش میڈیم کا اجراء کیا اور ماضی کی تمام ناپید سہولیات فراہم کرنے کیلئے اربوں روپے خرچ کئے یہ کسی بھی حکومت کی اولین ذمہ داری ہوتی ہے اور عوام کا آئینی حق ہے کہ اُنہیں معیاری تعلیم کی سہولیات دی جائیں۔ وزیراعلیٰ نے اسلامی تعلیمات اور اقدار کے فروغ کیلئے حکومتی اقدامات کا ذکرکرتے ہوئے کہاکہ اس صوبے میں ایم ایم اے نے بھی اسلام کے نام پر حکومت بنائی مگر عملی طور پر اسلام کیلئے کوئی کام نہیں کیا۔موجودہ صوبائی حکومت نے سکولوں میں پہلی سے پانچویں جماعت تک ناظرہ قرآن جبکہ چھٹی سے بارہویں تک ناظرہ قرآن لازمی قرار دیا ہے ۔جہیز اور سود کے خلاف قانون سازی کی گئی ہے ۔ مساجدکی سولرائزیشن کا عمل جاری ہے ۔ جامع مساجد کے آئمہ کیلئے ماہانہ اعزازیہ مقرر کرنے کا پروگرام بنایا جا رہا ہے ۔وزیراعلیٰ نے کہاکہ مولانا فضل الرحمن حکومت کے اس اقدام کو بھی ساز ش قر اردیتے ہیں جو افسوسناک ہے ۔ ہم مولانا سے پوچھتے ہیں کہ آئمہ کرام اور علمائے کرام اس ملک کے وسائل پر کوئی حق نہیں کیا وہ حکومت کی ذمہ داری میں نہیں آتے اگر ہم سوچیں تو وہ ہمارے لئے قابل احترام اور ہمارے تعاون کے بدرجہ اولیٰ مستحق ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ صوبائی حکومت آئمہ کی معاونت کا پروگرام شروع کرنے جارہی ہے ۔صحت کے شعبہ میں اصلاحات کا حوالہ دیتے ہوئے وزیراعلیٰ نے کہاکہ جب وہ حکومت میں آئے تو کل ساڑھے تین ہزار ڈاکٹرز تھے جن کی حاضری کی شرح بھی تشویشناک حد تک کم تھی ۔ذاتی کاروبار کا ایک سلسلہ شروع تھا ۔ موجودہ حکومت نے ڈاکٹروں کی تعداد سات ہزار تک کر دی ۔تنخواہوں میں تین گنااضافہ کیا ۔آج صوبہ بھر میں چاہے کرک ہو ، کوہستان ہو یا تور غر ہر ضلع میں ڈاکٹرز موجود ہیں 3 ارب روپے کی خطیر لاگت سے مشینری کی ترسیل کا عمل شروع ہے جو مشینیں خراب ہیں اُنہیں ٹھیک کر رہے ہیں اور جہاں مشین دستیاب نہیں وہاں نئی مشینری دے رہے ہیں۔ آئندہ تین ماہ میں صوبے بھر کے تمام ہسپتالوں میں مکمل مشینری دستیاب ہو گی محکمہ پولیس کے حوالے سے وزیراعلیٰ نے کہاکہ دیگر شعبوں کی طرح پولیس بھی سیاسی مداخلت کا شکار تھی ۔ حکمرانوں اور سیاستدانوں نے بدمعاشی کیلئے اپنے اپنے افسران لگا رکھے تھے ۔ہم نے آتے ہی پولیس کو سیاسی مداخلت سے آزاد کیا اور اس شرط پر اختیارات دیئے کہ ہم تھانوں میں غریب کے ساتھ ناانصافی برداشت نہیں کریں گے ۔ غلط ایف آئی آر کا اندراج نہیں ہو گا ۔ آج ہماری اصلاحات کی وجہ سے پولیس ڈیلیور کرنے لگی ہے ۔ عوام کا پولیس پر اعتماد بحال ہو چکا ہے ۔ خیبرپختونخوا پولیس حقیقی معنوں میں ایک فورس بن چکی ہے۔