امریکا چاہتا ہے ہم بھارت کی چوہدراہٹ قبول کرلیں جوکہ پاکستان کے لیے ممکن نہیں،اعزازاحمد چوہدری

 
0
374

واشنگٹن جنوری 6(ٹی این ایس)امریکا میں پاکستانی سفیر اعزاز چودھری نے کہا ہے کہ ڈیڈ لائن اور ریڈ لائنز مشترکہ خطرے سے نمٹنے کے راستے کی رکاﺅٹ ہیں جبکہ دہشت گردی کے خلاف جنگ سے سلامتی کی صورتحال بہتر ہوئی۔ایک اعلامیہ میں اعزاز چودھری نے کہا کہ افغانستان میں بھی دہشت گردوں کے خلاف اس طرح کی کارروائی کی ضرورت ہے تاہم افغانستان میں داعش جیسے گروپوں کے خلاف عالمی تعاون ناگزیر ہے۔
اعزاز چودھری نے کہا کہ پاکستان نے دہشت گردی کے خلاف جنگ اپنے وسائل سے لڑی،پاکستان نے 15 سال میں دہشت گردی کیخلاف 120 ارب ڈالرخرچ کیے۔انہوں نے کہا کہ دہشت گردی کے خلاف پاکستان امریکا تعاون امریکا کے مفاد میں ہے، پاکستان نے القاعدہ کے خلاف جنگ میں مدد دی جبکہ دہشت گردی کے خلاف جنگ سے سلامتی کی صورتحال بہتر ہوئی اور دیرپا امن کے لیے صبر و تحمل کا مظاہرہ کرنا ہوگا۔اعزاز چوہدری نے کہا کہ صرف حقانی نیٹ ورک امریکا کا مسئلہ نہیں،پاکستان نے باور کرایا ہے کہ پاکستان کو خطے میں بھارت کی چوہدراہٹ قبول نہیں۔ امریکا نے کوئی تحریری مطالبات نہیں دیئے تاہم پاکستان نے اپنے مطالبات امریکا سامنے رکھ دیے ہیں۔اعزازچوہدری نے مزید کہا کہ افغانستان میں بھارت کے کردار پر سوال اٹھایا ہے اور افغانستان میں دہشت گردوں کی پناہ گاہوں کی نشاندہی کی،لہذا افغان مہاجرین کو دہشت گردی کیلئے استعمال کیا جاتا ہے۔
دریں اثناءایک انٹریو میں پاکستانی سفیر اعزاز چوہدری نے کہا کہ امریکا کی جانب سے پاکستان کی امداد روکنے کے منفی اثرات مرتب ہوں گے اور اس سے دونوں ممالک کے درمیان فاصلے بڑھیں گے۔دہشت گردی کے خلاف جنگ میں ہم نے جو قربانیاں دیں اور جو کامیابیاں حاصل کیں ان کی اگر قیمت لگانا شروع کردیا جائے تو یہ اچھی بات نہیں ہے۔انہوں نے کہا کہ امریکا کے حالیہ بیانات اور اقدامات پر ہمیں حیرت اس لیے ہوئی کہ حال میں امریکی سیکرٹری خارجہ ریکس ٹلرسن اور وزیر دفاع جیمز میٹس نے پاکستان کے دورے کیے جن میں مشترکہ گراﺅنڈ ڈھونڈنے کی بات ہوئی ہم یہ سمجھتے ہیں کہ اس سلسلے میں آگے بڑھنے کی ضرورت ہے نہ کہ منفی بیانات دے کر باہمی اعتماد کو ٹھیس پہنچائی جائے۔انہوں نے کہا کہ امریکی حکام کی جانب سے تسلسل کے ساتھ پاکستان کے خلاف منفی بیانات آرہے تھے، لیکن ساتھ ہی سرکاری سطح پر ہماری ان سے بات چیت بھی چل رہی ہے تاہم یہ امریکا کے فیصلے ہیں، پاکستان اور امریکا نے 70 سالوں میں کئی بار ایک ساتھ کام کیا ہے اس لیے اس کی کوئی وجہ نہیں ہے کہ اب ہم اکٹھے کام نہ کریں۔
اعزاز چوہدری نے کہا کہ ہر ملک کی طرح پاکستان کو بھی اپنا مفاد عزیز ہے لیکن اس کے لیے ضروری نہیں ہے کہ ہمیشہ تصادم کی صوتحال ہی پیدا ہو۔بھارت کے حوالے سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ خطے میں بڑا کردار حاصل کرنے کے لیے بھارت کو یہ ثابت کرنا ہوگا کہ وہ اس کا حقدار ہے، ہمیں افغانستان میں بھارت کے تعمیری کردار پر کوئی اعتراض نہیں لیکن وہ افغان سرزمین پاکستان کے خلاف استعمال کر رہا ہے۔انہوں نے کہا کہ افغانستان میں امریکا کی ناکامیوں کا پاکستان کو ذمہ دار نہیں ٹھہرایا جاسکتا، افغانستان کی موجودہ صورتحال کے لیے پاکستان کو قربانی کا بکرا نہیں بنایا جاسکتا، امریکا کو 680 ارب ڈالر خرچ کرنے کے باوجود وہاں کامیابی نہیں ملی کیونکہ افغانستان کا حل عسکری نہیں سیاسی ہوسکتا ہے جس کے لیے پاکستان مدد کرنے کو تیار ہے۔امریکی امداد سے متعلق پاکستانی سفیر نے کہا کہ امریکا کے 33 ارب ڈالر میں سے آدھی سے زائد رقم وہ تھی جو دہشت گردی کے خلاف جنگ میں ہم پہلے ہی خرچ کرچکے تھے، اس میں وہ رقم شامل نہیں ہے جو پاکستان نے امریکا کو زمینی اور فضائی راستہ دینے کے لیے خرچ کی جبکہ امداد روکنے سے دونوں ممالک ایک دوسرے سے دور ہوں گے۔
پاکستان کے مستقبل کے لائحہ عمل کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ پاکستان کو امریکا کے ساتھ معاملے پر اپنے اصولی موقف پر قائم رہنا چاہیے، ہمارا موقف ہے کہ دہشت گردی کا خاتمہ ہمارا مشترکہ مقصد ہے جس کے لیے ہمیں مل کر کام کرنا ہوگا اور پاکستان کے ساتھ باقی ممالک کو بھی اس کے لیے کردار ادا کرنا ہوگا۔دوسری جانب ایک سینئر امریکی عہدیدار نے دعویٰ کیا ہے کہ امریکا پاکستان کی لگ بھگ 2 ارب ڈالر کی امداد روک سکتا ہے۔ امریکی عہدیدار کا کہنا ہے کہ فوجی ساز و سامان اور کولیشن سپورٹ فنڈ کی امداد روکی جا سکتی ہے۔امریکی عہدیدار کے مطابق ان2 ارب ڈالر میں سے ایک ارب ڈالر مالیت کا جدید فوجی ساز و سامان شامل ہے، جو پاکستان کو ملنا ہے اور اس میں وہ رقم بھی شامل ہے جو امریکی اور نیٹو کی فوجی رسد کو افغانستان تک پہنچانے کے لیے پاکستان کو ادا کی جاتی ہے۔تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ امریکی انتظامیہ کی جانب سے مکمل طور پر امداد روکنے کا امکان نہیں ہے اور پیسے ایک ارب 90 کروڑ ڈالر بنتے ہیں تاہم یہ ابتدا ءمیں بتائی جانے والی رقم سے خا صی زیادہ ہے۔
عہدیدار نے مزید بتایا کہ امریکی انتظامیہ کی پابندیوں کے باوجود پاکستان کے کچھ پروگرامز کو استثنا حاصل ہوگا، جن کا تعلق خود امریکا کی اپنی قومی سلامتی سے ہے جبکہ اس میں پاکستان کو دی جانے والی نقد امداد بھی شامل ہے جو پاکستان کے ایٹمی ہتھیاروں کو محفوظ رکھنے کے لیے دی جاتی ہے۔سینئر عہدیدار کے مطابق ٹرمپ انتظامیہ کے پاس تمام تجاویز زیر غور ہیں اور اگر اسے مزید اقدامات اٹھانا پڑیں، تو اس صورت میں پاکستان کی غیر نیٹو اتحادی کی حیثیت ختم کی جا سکتی ہے یا آئی ایم ایف سے قرضوں کے حصول کو روکا جا سکتا ہے۔