راولپنڈی: گلریز چوکی انچارج حمد شیرازی قبضہ مافیا کا سرغنہ بن بیٹھا عدالتی احکامات ہوا میں اڑا دیئے

 
0
2396

راولپنڈی اپریل 19(ٹی این ایس)وقاص علی نے اپنے ساتھ ہونیوالی نا انصافی کا تذکرہ کرتے ہوئے بتایا کہ میں نے 10 مرلہ مکان واقع سکیم 3  محمد نعمان راو عرف نومی سے بذریعہ اٹارنی 3 ماہ پہلے خریدا اس کے بعد پولیس کی طرف سے آئے دن مجھے تنگ کیا جانے لگا اور کہا جاتا کہ مکان کا قبضہ چھوڑ دو جس پر میں نے عدالت سے 22 اے کے آرڈر لے لیئے جس میں پولیس کو تنگ کرنے سے منع کیا گیا  بعد ازاں خاتون نسیم اختر نے چوکی گلریز میں درخواست دی جس پر چوکی انچارج نے مجھے چوکی پر بلایا اور مکان کے کاغذات ساتھ لانے کو کہا میں چوکی پر ہمرہ کاغزات گیا اور تمام ثبوت بابت مکان پیش کئے اور عدالت کا22 اےکا سٹے آرڈر بھی پیش کیا اس کے 4 دن بعد اچانک پولیس میرے گھر آئی اور موقع پر موجود میرے چوکیدارکو ڈرایا دھمکایا کہ مکان خالی کر دو ورنہ چوری کا پرچہ دے کر جیل بھیج دو نگا اس سلسلے میں جب میں نے چوکی انچارج سے رابطہ کیا تو اس نے مجھے بھی دھمکی دی اور ڈرایا دھمکایا کہ مکان خالی کر دو ورنہ پچھتاو گے 4 روز بعددوبارہ چوکی انچارج اور 4 پولیس کے اہلکار میرے گھر آئے اور میرےچوکیدار  کو ذبردستی گاڑی میں بٹھا کر چوکی لے آئے

اسی اثنا میں پولیس نے میرا گھر پولیس کے ہمراہ آئے قبضہ گروپ کوحوالے کر دیا اور میرے اور 7/8 نامعلوم اشخاص کے خلاف چوری کی ایف آئی آر کاٹ دی گئی, چوکی انچارج اور 4 پولیس اہلکاروں نے منظم منصوبہ بندی کے ساتھ قبضہ گروپ سے پیسے لے کر میرے گھر پر قبضہ کیا گیا جب کہ عدالت میں اس سے پہلے ایک کیس چل رہا جس میں عدالت نے مکان کی بابت سٹے بھی دے رکھا ہےچوکی انچارج نے 2 عدالتی سٹے ہونے کے باوجود سوچے سمجھے منصوبے کے تحت جھوٹی ایف آئی آر کاٹی اور میرے چوکیدار کو حوالات میں بند کر کے مکان پر قبضہ مافیا کے حوالے کیا نسیم اختر نامی خاتون پیسے کے زور پر پولیس سے مل کر میرے ملکیتی مکان جو کہ میں نے 1 کروڑ 55 لاکھ میں خریدا تھا پر قبضہ کر لیا ہےاورمجھے اس مکان سے بے دخل کیا گیا ہے

جبکہ اس بابت جب چوکی انچارج سے موقف لیا گیا تو ان کا کہنا تھا کہ درخواست سی پی او سے مارک ہو کر آئی تھی اس لیئے ایف آئی آر کاٹی گئی اور سٹے آرڈر میں چوکی انچارج کا کہنا تھا کہ سٹے آرڈر ہماری معلومات میں نہیں تھا اور نسیم اختر ہی اصل مالک ہے اور مقدمہ کی کاروائی میرٹ پر کی جائے گئی۔

لیکن سوال یہ ہے کہ کیا پولیس عدالتی معاملات میں دخل اندازی کر سکتی , کیا عدالتی احکامات کامزاق اڑایا جا سکتا ہے, کیا پولیس سول معاملات میں دخل اندازی کر سکتی ہے