برلن مئی 4(ٹی این ایس) جرمنی نے سرد جنگ کے دور میں 1960ء کی دہائی میں بہت سے کیمیائی ہتھیاروں کے حصول اور تنصیب کی کوشش کی تھی جو ناکام رہی تھی۔ یہ انکشاف امریکی حکومت اور جرمن فوج کی خفیہ دستاویزات کے تجزیے سے ہوا ہے۔ یہ انکشاف سیاسی طور پر اس دور سے متعلق ہے جب 60ء کے عشرے میں سرد جنگ کا زمانہ اپنے عروج پر تھا اور 1963ء میں منقسم جرمنی کے مغربی حصے پر مشتمل وفاقی جمہوریہ نے امریکا سے ایک درخواست کی تھی۔ امریکا اور جرمنی کی مسلح افواج کی طرف سے حال ہی میں نصف صدی سے بھی زیادہ عرصہ پرانی جو خفیہ عسکری دستاویزات جاری کر دی گئی تھیں، ان کا تحقیقی تجزیہ چند جرمن میڈیا ہاؤسز نے مشترکہ طور پر کیا۔ اخبار ’زُوڈ ڈوئچے سائٹنگ‘ اور 2 نشریاتی اداروں این ڈی آر اور ڈبلیو ڈی آر کے ماہر صحافیوں نے اس بارے میں جو چھان بین کی۔ یہ انکشاف اسی کے نتیجے میں ممکن ہو سکا۔ اہم بات یہ ہے کہ ماضی میں مغربی جرمنی اور پھر متحدہ جرمنی کی وفاقی حکومت اور وفاقی فوج نے ہمیشہ اس بات سے انکار کیا تھا کہ جرمنی نے کبھی کیمیائی ہتھیاروں کے حصول، ان کی تنصیب یا ممکنہ استعمال کا کوئی منصوبہ بنایا تھا۔ تاہم بعد میں عام کی گئی ان جرمن امریکی فوجی دستاویزات سے پتا چلتا ہے کہ سابقہ مغربی جرمنی کی وزارت دفاع نے 1963ء میں امریکی حکومت سے درخواست کی تھی کہ اسے کیمیائی ہتھیار مہیا کیے جائیں۔ تب پینٹاگون شروع میں اگرچہ کافی حد تک آمادہ بھی ہو گیا تھا تاہم بعد میں امریکا نے یہ درخواست مسترد کر دی تھی۔ اس دور میں کئی بین الاقوامی معاہدوں کی وجہ سے وفاقی جمہوریہ جرمنی کو کیمیائی ہتھیار تیار کرنے، ان کے حصول، تنصیب یا انہیں استعمال کرنے کی اجازت نہیں تھی۔ اس کا پس منظر یہ تھا کہ دوسری عالمی جنگ کے بعد جب منقسم جرمنی کے سوویت دستوں کے زیر قبضہ مشرقی حصے میں کمیونسٹ مشرقی جرمن ریاست قائم ہو گئی تھی، تو امریکا اور اتحادی طاقتوں کے زیر قبضہ مغربی جرمنی کو ایک وفاقی جمہوریہ بنایا ہی اس مقصد کے تحت گیا تھا کہ دوبارہ کبھی نوبت جنگ، آؤشوِٹس جیسے اذیتی کیمپوں اور کیمیائی ہتھیاروں تک نہیں پہنچنا چاہیے۔ لیکن پھر وفاقی جمہوریہ جرمنی کے قیام کے 20 سال سے بھی کم عرصے بعد جب اس دور کی مغربی جرمن حکومت نے نیٹو رہنماؤں کے ساتھ انتہائی خفیہ ملاقاتوں میں دوبارہ کیمیائی ہتھیاروں کے ممکنہ حصول سے متعلق بحث چھیڑی تو واشنگٹن حکومت نے یہ درخواست رد کر دی تھی۔