حکومت کا معاہدے کی مدت پوری کرنے والے پاور پلانٹس بند کرنے کا فیصلہ

 
0
339

اسلام آباد نومبر 27 (ٹی این ایس) قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے نجکاری کے اجلاس میں مشیر پیٹرولیم ندیم بابر نے بتایا کہ دسمبر 2020 میں پاور سیکٹر کا گردشی قرض ختم کردیا جائے گا، جن پاور پلانٹس کی مدت پوری ہوچکی ہے انہیں بند کر دیا جائے گا. تفصیلات کے مطابق قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے نجکاری کا اجلاس چیئرمین مخدوم مصطفیٰ محمود کی زیر صدارت ہوا‘ اجلاس میں مشیر پیٹرولیم ندیم بابر نے پاور سیکٹر نجکاری پر بریفنگ دی.
بریفنگ میں مشیر پیٹرولیم نے بتایا کہ دسمبر 2020 میں پاور سیکٹر کا گردشی قرض ختم کردیا جائے گا، جولائی 2018 میں 19 ہزار میگا واٹ بجلی کی ٹرانسمیشن کی گئی. ندیم بابر نے کہا کہ گزشتہ برس سے 4 ہزار میگا واٹ بجلی زیادہ ترسیل کی گئی، حکومت پاور سیکٹر کی سبسڈی کو بجٹ میں شامل کرے گی. جینکوز سب سے مہنگے بجلی پاور پلانٹس ہیں‘انہوں نے بتایا کہ جن پلانٹس کی مدت پوری ہوچکی ہے انہیں بند کر دیا جائے گا، کنٹریکٹ ختم ہونے پر آئی پی پیز کے لائسنس کی تجدید نہیں ہوگی.
اس سے بجلی کی قیمت ایک سے ڈیڑھ روپے تک کم ہوسکتی ہے‘چیئرمین کمیٹی مخدوم مصطفیٰ نے کہا کہ بجلی کی زیادہ سے زیادہ کمپنیاں بنائی جائیں. ندیم بابر نے کہا کہ لاہور الیکٹرک سپلائی کمپنی کی نجکاری کی جائے گی، بجلی کمپنیاں کاروباری بنیادوں پر بجلی فروخت کر سکیں گی اس طرح کا تجربہ خیبر پختونخوا میں کیا جاچکا ہے.دوسری جانب نیشنل الیکٹرک پاور ریگولیٹری اتھارٹی (نیپرا) نے بجلی کی تقسیم کار کمپنیوں کو صارفین پر 14 ارب 78 کروڑ روپے کا بوجھ ڈالنے کی اجازت دے دی ہے.
اس فیصلے کے تحت مالی سال 20-2019 کی پہلی سہ ماہی میں بجلی کی قیمت خرید کی ایڈجسٹمنٹ کی مد میں 14.56 پیسے فی یونٹ اضافہ کیا جائے گا‘بجلی کی تقسیم کار کمپنیوں نے مالی سال 20-2019 کی پہلی سہ ماہی میں بجلی کی قیمت خرید میں تبدیلی کے باعث ایڈجسٹمنٹ کی درخواست دائر کی تھی. دوسری جانب حکومت نے تقسیم کار کمپنیوں کے لیے 17 ارب 20 کروڑ روپے اضافی اکٹھے کرنے کے لیے بجلی کی قیمت 17 پیسے فی یونٹ بڑھانے کی درخواست کی تھی‘جس پر نیپرا نے بجلی کی تقسیم کار کمپنیوں کی جانب سے مالی سال 2019 کی پہلی سہ ماہی میں بجلی کی قیمت خرید کی ایڈجسٹمنٹ کی مد میں 17 ارب 20 کروڑ روپے کا اضافی بوجھ صارفین پر منتقل کرنے کی درخواست پر گزشتہ ہفتے سماعت کر کے فیصلہ محفوظ کیا تھا.
مذکورہ سماعت کی صدارت چیئرمین نیپرا توصیف ایچ فاروقی نے کی تھی، جس میں شرکا سے متعدد ایڈجسٹمنٹس مثلاً ایندھن کی قیمتوں کی ایڈجسٹمنٹ، بنیادی ٹیرف میں سالانہ اضافہ، سہ ماہی ٹیرف ایڈجسٹمنٹ اور سال قبل کی ایڈجسٹمنٹ کو جواز بنا کر بجلی کی قیمتوں میں مسلسل اضافے کے بارے میں سوالات کیے گئے تھے. سماعت کے شرکا نے کہا کہ یہ اضافہ ایڈجسٹمنٹس کی بنیاد پر کیا گیا جو توانائی کمپنیوں کے لیے ناقابلِ برداشت ہوتا جارہا ہے‘کمپنیوں سے یہ سوال بھی کیا گیا تھا کہ ایندھن کی لاگت کی مد میں 3 ارب روپے کا اضافہ کیوں طلب کیا گیا جبکہ ماہانہ ایندھن کی قیمت میں ایڈجسٹمنٹ کے ذریعے یہ رقم صارفین سے خود بخود وصول کرلی جاتی ہے.
اس بارے میں پاور ڈویژن کے جوائنٹ سیکرٹری کا کہنا تھا کہ بجلی کی قیمتیں قوت خرید سے باہر ہوچکی ہیں لیکن کیا گیا اضافہ قانون اور اصولوں کے مطابق ہے‘درخواست کے مطابق تقسیم کار کمپنیوں نے ترسیل و تقسیم کے نظام میں نقصانات کی مد میں 11 ارب 20 کروڑ روپے، مہنگے ایندھن کی لاگت کی مد میں 3 ارب 50 کروڑ روپے اور او اینڈ ایم چارجز کی مد میں 3 ارب 46 کروڑ روپے اضافے کا مطالبہ کیا تھا.
خیال رہے کہ مالی سال 2019 کی پہلی سہ ماہی میں نیپرا نے فیول ایڈجسٹمنٹ کی مد میں تقسیم کار کمپنیوں کو 71 ارب 20 کروڑ روپے اضافے کی اجازت دی تھی‘جس کے تحت جولائی کے لیے نیپرا نے بجلی کی قیمت میں ایک روپے 78 پیسے، اگست کے لیے ایک روپے 66 پیسے اور ماہ ستمبر کے لیے ایک روپے 82 پیسے فی یونٹ اضافے کی منظوری دی تھی.